یوم مزدور اور اس کا تاریخی پس منظر :- شرف الدین عظیم الاعظمی

Share
شرف الدین عظیم قاسمی

یوم مزدور اور اس کا تاریخی پس منظر

شرف الدین عظیم الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی

روئے زمین پر بے شمار ایسے ایام ہیں جو مختلف واقعات سے منسوب ہوکر کسی نہ کسی قوم و ملت ، خطہ و ملک، اور مذہب وتمدن کے لحاظ سے تاریخی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں، ان لمحات کو اور مخصوص ایام کو مختلف صورتوں میں اور متنوع شکلوں میں یاد کیا جاتا ہے،

برسی منائی جاتی ہے، دکھ درد کا اظہار کیا جاتا ہے، ان واقعات اور سانحات کا ذکر کرکے اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے طرزِ عمل سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے گا جس سے انسانیت مجروح ہوتی ہو، جس کے نتائج انسانی دنیا پر تباہ کن اثرات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہوں،
یا اگر وہ تاریخیں مسرتوں کی یادگاریں ہیں تو خوشیوں کا اظہار کیا جاتا ہے، گھروں کو سجایا جاتا ہے،مارکیٹس کی دلہنوں کی طرح تزئین ہوتی ہے’، گھروں سے لیکر فٹ پاتھوں،اور چھوٹے ہوٹلوں سے لیکر اعلٰی قسم کے گیسٹ ہاؤسوں میں بڑے پیمانے پر پارٹیاں ہوتی ہیں، میخانے آباد ہوتے ہیں، بادہ و ساغر کے دور چلتے ہیں، پارکوں اور پبلک مقامات میں انسانوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے،یکم مئی کا دن بھی ایک ایسی ہی تاریخ ہے’ جو اپنے اندر درد ناک سانحہ کی المناک داستان رکھتی ہے’، وہ اپنے اندر انسانیت کی بے بسی ،بے کسی اور دوسری طرف ایک ہی جیسے انسانوں کے درمیان اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق کی بنیاد پر ظلم وبربریت کے جگر خراش کرداروں کی تصویریں رکھتی ہے’،
یہ تاریخ عالمی پیمانے پر اسی ظلم وسفاکیت اور ایک طبقے کی بے بسی کی یاد میں یوم مزدور کے نام سے منائی جاتی ہے اس دن دنیا کے اکثر یورپین اور امریکی ممالک میں خصوصا یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ،برطانیہ ،جرمنی فرانس، ارجنٹائن،برازیل ، بھارت اور چین میں اہتمام سے منایا جاتا ہے،
اس کا پس منظر تمہید سے واضح ہے’کہ یہ معاشی لحاظ سے پسماندہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے خلاف ایک خاموش آواز یا احتجاج ہے جس میں پسماندہ مزدور طبقات سے رواداری کے اظہار کے لیے، یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی اداروں میں سناٹا چھا جاتا ہے، دفاتر بند ہوجاتے ہیں، فیکٹریاں اور ملیں اور لمٹیڈ کارخانوں کو لاک کردیا جاتا ہے’، پر امن جلوس اور ریلیاں ہوتی ہیں، ‘،
تفصیل اس پس منظرکی یہ ہے’کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک بالخصوص امریکہ رشیا اور برطانیہ میں انسانوں کے درمیان بہت وسیع خلیج حائل تھی ایک طبقہ سرمایہ داروں کا تھا،جو زندگی کے تمام وسائل پر بلا شرکت غیرے قابض تھا، زمینوں کا وہ مالک تھا،کمپینیاں اس کے قبضے میں تھیں،فیکٹریاں اور کارخانے اس کی دسترس میں تھے، لیگزری رہائش گاہ سے لیکر ٹراولینگ کے سارے ذرائع اور عیاشیوں کے سارے ساز وسامان کا وہ مالک تھا،گویا ایک معیاری زندگی جینے کا حق سماج میں صرف تنہا اسے حاصل تھا،
دوسری طرف معماروں،مزدورں، کاشتکاروں اور کسانوں کا ایک طبقہ تھا جسے اس مغربی معاشرے میں زندگی کا کوئی حق حاصل نہیں تھا،وہ بیس بیس گھنٹوں تک ملوں میں کام کرتا،فیکٹریوں میں اپنی جانیں جلاتا،مگر اسے پہننے کے لئے مناسب کپڑے نہیں مل پاتے، وہ کھیتوں میں صبح سے رات گئے تک دھوپ میں بارش میں اور سخت سردیوں میں جد وجہد کرتا مگر اس کےگھر والے دووقت کی روٹی سے اس کے باوجود محروم رہتے، وہ اہل زر واہل منصب و اقتدار کےوسیع وعریض محلات،قصر ہائے عیش کی تعمیر میں اپنی زندگی قربان کردیتا مگر پھر بھی اسے ایک متوسط رہائش کا سائبان نصیب نہ ہوتا، سرمایہ دار طبقہ ان معماروں اور محنت کشوں کو صرف اسی قدر معاوضہ ادا کرتا کہ ان کی فاقہ مستی دور ہوجائے اور بس۔۔
فیکٹریوں میں کارخانوں میں حادثات کے وقت اور آگ زنی کے وقت ہزاروں افراد ہلاک ہوجاتے مگر ان سرمایہ داروں کی پیشانیوں پر ان کی ہلاکت سے جوں نہیں رینگتی جن کا خون چوس کر انھوں نے ہر طرف آسائشوں کا انبار لگایا تھا اور بڑی بے شرمی سے یہ کہ دیا جاتا کہ،،مزدورں کے ساتھ اس طرح کے حادثات کوئی معنیٰ نہیں رکھتے،، یہ اس نظریے اور خیال کا روشن ثبوت تھا جس کے تحت یورپ میں محنت کشوں کو مشین چلانے والا ترقی یافتہ جانور اوربے حیثیت غلام سمجھا جاتا تھا۔
ظلم جب انتہا کو پہنچ جاتا ہے’تو کبھی نہ کبھی رد عمل کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوکر رہتا ہے’، بالآخر صبر وضبط کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور انیسویں صدی کے وسط میں محنت کشوں کی طرف سے روس اور یورپ میں یہ صدا اٹھی کہ ہمارے اوقات عمل میں کمی کرکے انہیں دس گھنٹے تک محدود کیا جائے( واضح رہے کہ اس وقت مزدوروں سے پورے بیس گھنٹے کام لیا جاتا تھا اس سے زیادہ وقت ہوسکتا تھا مگر کم کا امکان نہیں تھا ) نیز یہ کہ ہماری اجرت اور معاوضہ اتنی مقدار میں ہوناچاہیے کہ ہماری بنیادی ضروریات کی تکمیل ہوسکے،یہ آواز ایک جائز اور بنیادی حق نیز انسانی تقاضوں کے عین مطابق تھی، اور اپنے صحیح اور جائز انسانی حقوق کے حصول کے لیے ایک علامت تھی، لیکن مغربی تہذیب وتمدن جو انسانیت کے اس حق سے قطعاً ناآشنا تھا، اس مادہ پرست معاشرے میں ان انسانوں کے حق کے لئے کوئی تصور نہیں تھا جو مادی وسائل سے محروم تھے،جو طاقت وقوت کے اثاثوں سے محروم تھے، نتیجتاً ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا اور جبر واستبداد کے متعدد اور خوفناک حربوں سے ان آوازوں کو خاموش کردیا گیا،فطرت کا یہ عمل ہے’کہ طاقت کے ذریعے استحصال کی شدت جس قدر دراز ہوتی ہے’رد عمل بھی اسی اعتبار سے رونما ہوتا ہے’، اس مرحلے میں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا اور 1886ءمیں سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کے نتیجے میں غربت و افلاس کی جو دھوپ پھیلی ہوئی تھی اس میں سائے کی تلاش کے لیے،اور غیر متعینہ مزدوری کی شکل میں ظلم وتشدد کے خلاف اور اپنے بنیادی حقوق کے مطالبے کے لیے مزدوروں، معماروں اور کاشتکاروں کا طبقہ متحدہ طور شکاگو امریکہ میں اکٹھا ہوا ، اپنے حقوق کی جائز آواز اٹھائی،اور سرمایہ داروں کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا، ایک مئی کے اس مظاہرے میں امریکی قانون کے خلاف اور ظلم وجبر کے خلاف نعرے لگائے گئے،فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوگئے،مطالبہ یہ تھا کہ اوقات کار میں حکومت کمی کرے اور معاوضہ اتنا دے کہ مزدور طبقہ زندہ رہ سکے، یہ تحریک 3/ مئی کو بھی ہڑتال کی صورت میں جاری تھی کہ پولیس نے دولت مندوں اور اونچے طبقے کی ایما پر فائز کھول دیا، اور متعدد غریب ہلاک ہوگئے 4/مئی کو مہلکین کے سوگ میں پھر محنت کشوں کی بھیڑ اکٹھا ہوئی اور انسانی حقوق کے حصول کی صدا بلند کی لیکن اس بار دولت وقوت بھی طیش میں تھی،اور پولیس نے فوجیوں کے ساتھ مل کر بندوقوں کے دہانے کھول دئیے اور ایک بڑی تعداد شکاگو کی سڑکوں پر تڑپ تڑپ کر مرگئی اور زمین ان کے لہو سے سرخ ہوگئی، تہذیب اؤر تمدن کی ترقی اور روشن خیالی کا مضحکہ خیز منظر دیکھئے کہ اس کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوا اور 21/جون 1886/ میں وہاں کی عدالت سے اٹارنی جنرل نے یہ کہا کہ سماج کی حفاظت کے لئے مزدوروں کا صفایا ضروری ہے چنانچہ’اس کے ایما پر عدالت نے ان تمام رہنماؤں کو سزائے موت دے دی جنھوں نے ان پسماندہ طبقات کے اندر بیداری کی لہر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، ان کے علاوہ بھی وہ محنت کش جس میں ذرا بھی زندگی کا شعور پایا گیا اسے موت کے حوالے کردیا گیا، یا قید کرکے گمنام کردیا گیا، 11/نومبر 1887کو اینجل،اسپائز،پار سنز،اور فشر کو تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا، ان میں انگلینڈ کے بھی تھے جرمنی کے بھی،امریکی بھی تھے اور آئر لینڈ کے بھی گورے بھی تھے اور کالے بھی، کہا جاتا ہے کہ ان کے جنازے میں چھ لاکھ لوگوں کی شرکت ہوئی تھی، تین سال کے بعد پیرس میں انقلاب فرانس کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر اس حادثے کی بھی برسی منانے کی تجویز رکھی گئی اور 1891میں شکاگو میں اس دن کو برسی کے لئے خاص کرلیا گیا اور مزدوروں کے حقوق کی طرف توجہ کی گئی،دیوٹیاں آٹھ گھنٹے ہوئیں اور معاوضے میں بھی اضافے کئے گئے۔۔
اس پوری داستان حیرتناک اور حکایت المناک سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ آج سے صرف دو سو سال پہلے تک یورپ اور دیگر۔مغربی ممالک انسانیت سے کس قدر دور اور تہذیب و تمدن کے لحاظ سے کس قدر پستی میں تھے، کہ انسانی مساوات تو دور ایک کمزور طبقے کو اس کا انسانی حق بھی دینے کو تیار نہیں تھے باوجود اس کے دنیا کی طاقت،معاشی قوت اور سیاسی اقتدار کا کس قدر عبرت ناک نتیجہ اور زمین پر مادی قوتوں کے اثرات کس قدر گہرے اور تاریخ ساز ہیں’کہ آج وہی لوگ دنیا میں اعلی تعلیم اور معیاری تہذیب وثقافت کے علمبردار ہیں، انہیں کی متعصبانہ تہذیب کی دنیا آنکھیں بند کرکے تقلید کررہی ہے’، اسی تہذیب کو آج انسانیت کا محافظ حقوق کا پاسبان اور اخلاق و کردار کا مینار سمجھا جارہا ہے،
اس کے برعکس آج سے پندرہ صدیوں قبل اسلام کے عظیم پیغمبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور کردار کے ذریعے معاشرے میں دبے کچلے افراد کو جنہیں لوگ صرف محنت اور صرف محنت کے لئے اپنے یہاں رکھتے تھے اور جب وہ کمزور ہوجاتے تو فروخت کردیتے،ایسے لوگوں کو آپ نے وہ عزت اور احترام دیا کہ انہیں قوم کا سردار بنا دیا، کسے نہیں معلوم کہ حضرت بلال ایک غلام تھے،مگر آپ کی نگاہوں نے انہیں عرب کے رؤسا کے درمیان سردار کے منصب پر رکھ دیا، زید ابن حارثہ کو ان کے بیٹے اسامہ کو لشکر اسلام کی امارت دے کر یہ اعلان کردیا کہ اسلام میں انسانوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے، محنت کشوں اور مزدوروں کے حقوق کا آپ نے اس قدر خیال رکھا اور ان کے کاموں کا اتنا لحاظ رکھا ہے’کہ اب اس کے بعد مزید لحاظ واحسان کا تصور نہیں ہوسکتا ہے، چنانچہ ارشادِ گرامی ہے کہ ،،مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے پہلے ادا کردو (مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا طعام اؤر لباس غلام کا حق ہے اور یہ بھی اس کا حق ہے کہ اسے ایسے سخت کام کی تکلیف نہ دی جائے جس کا وہ متحمل نہ ہوسکے (مسلم بحوالہ معارف الحدیث جلد 6)
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ بیچارے غلام تمہارے بھائی ہیں اللہ نے ان کو تمہارا زیر دست بنایا ہے’تو اللہ جس کے زیرِ دست اس کے کسی بھائی کو کردے تو اس کو چاہیے کہ اس کو وہ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے’اور اس کو ایسے کام کا مکلف نہ کرے جو اس کے لئے بہت بھاری ہو اور اگر ایسے کام کا مکلف کرے تو پھر اس کام میں خود اس کی مدد کرے (بخاری ومسلم بحوالہ مصدر بالا)
ان روایات سے کچھ ہلکی سی جھلک اسلامی مساوات کی محسوس کی جاسکتی ہے’ جو روئے زمین پر چھٹی صدی عیسوی میں پہلی بار نمودار ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نظریے کی آغوش میں برسہا برس سے زخم زخم اور لٹی پٹی ویران انسانیت کی وسیع وعریض کائینات سمٹ آئی، اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بے حیثیت چرواہے فرمانروا بن گئے، کاشتکاری کرنے والے محض حسن عمل کی بنیاد پر قوموں کی تقدیریں بدلنے لگے، معاشی پسماندگی میں رہنے والے دنیا کے اقتصادی سسٹم کے مالک بنائے گئے
ادنی درجے میں شمار کئے جانے والے بے شمار افراد نے قوموں کی امامت کیں، علم وفضل کی بساط ان کے لئے بچھائی گئی،شاہی استقبال ہوئے، حکومت کے اہم عہدے ان کا مقدر بنے، غرض ایک طویل تاریخ ہے جس میں انسانیت مساوات کے بام عروج پر کھڑی نظر آرہی ہے’، انصاف حکومت اور حقوق انسانی کی ہر سو حکمرانی ہے’، اخوت کے جلوے اور مختلف طبقات کے درمیان برابری رواداری کی روشنی زندگی کے ہر مرحلے اور ہر ہنگام پر نمایاں ہے، اس گئے گذرے دور میں بھی انسانوں کے درمیان مساوات کا جو تصور امت مسلمہ میں پایاجاتاہے دنیا کے کسی بھی قوم کسی ملت اور کسی بھی کمیونٹی میں نہیں مل سکتا۔۔۔۔
لیکن کیا قیامت ہے کہ مغرب استحصال انسانیت کی تمام حدود کو پار کرنے کے باوجود اور انسانیت کے سارے حقوق پامال کرنے کے باوجود صرف ایک یادگار لمحہ منا کر انسانیت اور مساوات کا علمبردار ٹھہرا اور اسلام چودہ صدیوں سے اس تفریق کی وسیع خلیج کو پاٹنے کے باوجود اور پورے عالم میں حقوقِ انسانی کے تحفظ کے باوجود نیز مساوات وبرابری کے ناقابل تردید عالمی پیغام کی ترسیل واشاعت کے باوصف دہشت گردی کی صف میں ہے’۔

Share
Share
Share