مضامین ڈاکٹر شیلاراج
مرتب : ڈاکٹرمحمدعبدالعزیز سہیل
مبصر : ڈاکٹر محمد عطااللہ خان،امریکہ
حیدرآباد دکن ہندوستان کے قدیم ترین شہروں میں ایک شہر ہے۔یہاں گزشتہ آٹھ سوسال سے زیادہ عرصہ مسلمان حکمران رہے وہ صاحب سیف وقلم بھی تھے۔ علم وادب کی آبیاری کی سینکڑوں ادیب‘شاعر‘عالم فاضل‘سیاستداں محقق پیدا ہوئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ڈاکٹرعزیز سہیل اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ گزشتہ چالیس سال میں‘میں نے دیکھااس قدر تیزی سے تصانیف شائع کرنا اورکتابو ں پرتبصرہ کرنا یہ اُن ہی کام ہے۔”اللہ کرے زور قلم اور زیادہ“ یہ مصرعہ حضرت امجد ؔنے ڈاکٹرمحی الدین قادری زور ؔ کی حیات میں لکھ کر ڈاکٹر زور صاحب کو عنایت کیاتھا۔ میں عزیز سہیل سے واقف نہیں تھا اوران سے ایک ماہ قبل ملاقات ہوئی‘ ان کے تبصرے اور کتابو ں کی طویل فہرست‘اخبارات کے ذریعہ آن لائن دیکھا ہوں، عزیز سہیل 2014ء سے منظرعام پرآئے اور اخبارات میں لکھنا شروع کیا۔ اسی وقت میں سات سمندر پار سے انہیں پڑ ھ رہاتھا۔گزشتہ چھ سال میں دس تصانیف شائع کرنا یہ نوجوان محقق کا کام بہت خوب ہے۔میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔
پیش نذر تصنیف ڈاکٹرشیلاراج کے تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں بیس مضامین ہیں جنہیں عزیز سہیل نے چار حصوں میں درجہ بندی کی ہے۔مضامین بہت اچھے ہیں۔پہلا مضمون ”غالب کی شخصیت“پر ڈاکٹر شیلا راج لکھتی ہیں کہ ابتدا میں غالبؔ کی شاعری میں فارسی الفاظ کی وجہ سے انہیں ذوق کے چاہنے والوں کو سمجھنے میں کافی وقت لگا بعدمیں ذوق کے انتقال کے بعد جب غالبؔ بہادر شاہ ظفر کے استاد سخن ہوئے ان کی زبان اور عزت میں اضافہ ہوتا گیا۔ رشید احمد صدیقی کاحوالہ دیا ہے کسی نے ان سے پوچھا مغلیہ حکمرانوں نے ہندوستان کو دیا۔ پروفیسر رشید احمدصدیقی کے حوالہ دیا ہے کسی نے ان سے پوچھا مغلیہ حکمرانوں نے ہندوستان کو کیا دیا۔پروفیسر رشید کہتے ہیں ”تا ج محل‘اردو اورغالبؔ“،دوسرامضمون عزیز سہیل نے ”جگرمراد آبادی“کا شامل کیا ہے۔ اس میں ڈاکٹرشیلا راج لکھتی ہیں کہ جگرؔمراد آبادی پہلے داغ ؔدہلوی کے شاگردتھے حقیقت یہ ہے کہ ”معاصرین داغؔ دہلوی“میں لکھا ہے۔ داغؔ دہلوی کی وفات فروری 1905ء میں ہوئی اور جگرؔمردآبادی کی پیدائش بقول شیلاراج کہ 1895ء میں بھلا10سال کا لڑکا جگر ؔکس طرح داغ کا شاگرد ہوسکتا ہے۔ خیرجگرؔمردآبادی کی غزل کا شعر ملاحظہ کیجئے :
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پے رونا آیا
یوں تو ہرشام امیدوں میں گذرجاتی تھی
آج کچھ بات ہے جو شام پے رونا آیا
ڈاکٹرعزیزسہیل کی کتاب کے مکمل عنوانات پرلکھنا بہت مشکل ہے چند اہم عنوانات پر خیالات سے اپنی بات مکمل کرنا چاہتا ہوں۔ نواب اقبال الدولہ کی شخصیت پرڈاکٹرشیلاراج لکھتی ہیں کہ وہ محبوبیہ دور میں وزیر تعلیمات رہے کتب خانہ آصفیہ ان ہی کی عہد وزارت میں تعمیر ہوا۔ وہ تعلیم کے لیے بہت سے مدرسوں کی بنیاد رکھی اور اسکول قائم کئے۔
ڈاکٹرشیلا راج نواب عماد الملک کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ نواب سالار جنگ اول انہیں بیلگرام سے وہ اپنے وزیراعظم اور مختار کل نواب محبوب علی پاشاہ کے عہد میں بلایاتھا۔ان کا نام سید حسین تھا وہ لندن سے تعلیم حاصل کیے تھے۔ تیسرا مضمون ”راجہ شیوراج دھرم ونت بہادر“ پر لکھا ہے وہ کائست خاندان سے تعلق رکھتے تھے نواب محبوب علی پاشاہ سے ان کے بہت اچھے تعلقات رہے محکمہ مال کے کمشنر مقرر ہوئے ان کی دیوڑھی شہرحیدرآباد کے علاقہ یاقوت پورہ میں دھرماونت کالج آج ان ہی کی عمارت میں قائم ہیں۔
ایک اور مضمون ڈاکٹرشیلا راج کا ڈاکٹرعزیز سہیل نے انتخاب کیا ہے وہ ہے ”ڈاکٹر کورین کی ناقابل فراموش خدمات“پرلکھا ہے۔ تہذیب وثقافت پر”سابق حیدرآباد میں ہندومسلم روایات کا امین“ عنوان سے لکھا ہے۔ یہ تین حصوں پرمشتمل ہے ڈاکٹر شیلا راج لکھتی ہیں کہ”حیدرآباد کے حکمرانِ آصف جاہی مختلف مذاہب اور تہواروں اور تقاریب میں بہت اہتمام کیا جاتاتھا جیسے دیوالی‘ دسہرہ‘ ہولی‘بسنت‘پنچھمی‘ نور وز پر دربار شاہی میں منعقد ہوتاتھا۔محبوب علی پاشاہ کے دورمیں ہولی کا تہوار پرانی حویلی کے آفتاب محل میں ہوتاتھا۔ تلسنکرات کے موقع پر نواب آسمان جاہ بہادر کے محل میں پتنگ بازی کے جلسے ہوتے تھے۔ محرم کے ماہ میں راجہ شیوراج اور بنسی راجہ کی دیوڑھی میں تعزیہ بٹھائے جاتے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں اپنی بات مکمل کرتے ہوئے ڈاکٹرعزیزسہیل کو مبارک باد دیتا ہوں۔ کتاب کی قیمت250/- روپئے ہے۔ ڈاکٹرعزیزسہیل سے فون نمبر 9110759869 سے حاصل کرسکتے ہیں۔
—–