کالم : بزمِ درویش – نیکیوں کی بہار :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
نیکیوں کی بہار

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

سرور کائنات محبوب خدا ﷺنے رمضان المبارک کو نیکیوں کا موسم بہار قرار دیا ہے۔ جس کا مطلب ہے جس طرح بہار کی آمد پر چاروں طرف رنگ و نور تازہ پھولوں کی برسات ہوتی ہے بوسیدہ پتوں کی جگہ ترو تازہ پتے اگتے ہیں نئے شگوفے پھوٹتے ہیں

ہر طرف ایک آسودگی خوشنمائی ترو تازگی رنگینی اور خوش گورائیت کا دلربا روح کے اندر تک سر شاری کا خوب احساس ہو تا ہے جسم و روح نئی کیفیت نئے منظر سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔ اِسی طرح جب تمام مہینوں کا سردار مہینہ جس میں اللہ تعالی نے قرآن حکیم نازل فرمایا رمضان المبارک کی ایک با برکت شب آسمان دنیا پر قرآن مجید کا نزول ہوا لہذا اِس رات کو خالق ِارض و سما نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرما ئی اور اِسے شب قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ترجمہ: شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے بارے میں شافع محشر ساقی کوثر مالک دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں شہشاہ ِ دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں جو شخص بحالت ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔رمضان المبارک واقعی نیکیوں کی بہار کا موسم ہے جس کا ہر ایک لمحہ ساعت اِس قدر با برکت اور با سعادت ہے کہ باقی گیارہ مہینے مل کر بھی اِس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔ رمضان البارک کی آمد کے ساتھ ہی ہر طرف برکت و سعادت خیرات سخاوت ایثار اور یگانگی و اخوت کے ایمان افروز مناظر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ صدقہ خیرات کا رحجان فروغ پا تا ہے عبادات کا ذوق بڑھ جاتا ہے گھروں محلوں اور مساجد میں ہر طرف ایمانی رنگ و نور کی برسات نظر آتی ہے نوافل اذکار کی رغبت بڑھ جاتی ہے۔ تلاوت قرآن پاک کا شغف کئی گناہ بڑھ جاتا ہے پوری مسلم سو سائٹی پر روحانی نظم و ضبط کا ایمان افروز رنگ چڑھ جا تا ہے سحر خیزی کے لمحے بڑے دل آویز اور افطاری کے مناظر بڑے روحانی اور وجد انگیز ہو جاتے ہیں گویا جس طرح موسم بہار کی آمد سے ہر طرف تازہ پھولوں اور پتوں کی وجہ سے رنگ و نور کی برسات نظر آتی ہے اسی طرح رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی گویا پورا ماحول بدل جاتا ہے جس طرح موسمِ بہار میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور برگ و گل کی طروات پہلے سے بڑھ جاتی ہے۔ اِسی طرح رمضان المبارک کی مبارک اور پر سعید ساعتوں میں اہل اسلام کے مزاجوں میں بھی نمایاں ایمانی حرارت اور فرق محسوس ہو تا ہے۔ لیکن اگر موسم بہار کی آمد ہو لیکن اس کے باوجود نہ پرانے پتے جھڑیں اور نہ ہی خشک ٹہنیاں اور درخت سر سبز ہوں اور نہ ہی بو سیدہ پھول ازسر نو شگفتہ ہوں اور نہ ہی گلشن کی ادا سی شادابی میں ڈھلے تو کون اِس کو موسم بہار کہے گا اِسی طرح اگر نیکیوں کی بہار کا موسم یعنی رمضان المبارک کی آمد ہو لیکن نہ مسجدوں کی رونق بڑھے نہ ہی انداز ِ اطوار میں مثبت تبدیلی آئے نہ اندا ز کار بدلے نہ دل کی آرزو بدلے اور نہ ہی ایمانی حرارت بیدار ہو نہ جذبہ مہر و محبت پھلے پھولے اور نہ ہی باطن سے چشمہ تسلیم پھوٹے اور نہ ہی ظاہر و باطن کا تضاد دور ہو اور نہ ہی مثبت انقلاب آئے تو تمام مہینوں اور رمضان میں کیا فرق محسوس ہو گا جب کہ رمضان تمام مہینوں کا سردار خدا کا مہمان مہینہ ہے۔ اِس ماہ مبارک کو شہنشاہِ دو عالم نے صبر اور مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے آقا ﷺ کا فرمان ہے صبر یعنی ضبط نفس اور مواسات یعنی ہمدردی و غمخواری رمضان المبارک کو صبر کا مہینہ اِس لیے بھی اِس ماہ میں بہت سے بشری اور نفسی کمزوری جذبات و احساسات پر قابو رکھنا پڑتا ہے اگر غصہ آئے تو کنٹرول کرنا ہے گالی گلوچ سے پرھیز کرنا ہے کیونکہ کنٹرول نہ کرنے کی صورت میں روز ہ مکروہ ہو جاتا ہے اور اگر کوئی دوسرا اس کے صبر کو آزمانا چاہے اسے مشتعل کرے تو فوری طور پر آمادہ جنگ نہیں ہو جانا چاہے کہ یہ آداب رمضان کی منافی ہے۔ روزہ دار کو ہر قدم اٹھاتے ہوئے ہر بات کرتے ہوئے ہر معاملہ کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہیے۔ د کان دار افسر ماتحت مزدور مالک کو کوئی بھی بات کرتے ہوئے بہت محتاط دہنا چاہییے کہ میں روزے سے ہوں کیونکہ روزہ دار کے اند خدا کے حاضرناظر ہونے کا اعتقاد اور یقین بڑھا دیتا ہے کیونکہ صرف اللہ کے لیے رکھا جاتا اور اللہ اِس عمل پر گواہ ہو جاتا ہے اور جب روزہ دار صبر اور ضبط ِ نفس کے مشکل مراحل سے گزرتا ہے آگ بر ساتی گرمی میں سخت پیاس کے سامنے ٹھنڈے شیریں مشروبات پڑے ہوں مگر روزہ دار کبھی بے قابو نہیں ہو تا اور اپنی پیاس پر کنٹرول رکھتا ہے بھوک کی انتہا ہو اور ہوش اڑا دینے والے اور بھوک کو اور تیز کر نے والے کھانے موجود ہوں لیکن روزہ دار ایسے کئی امتحانوں میں سر خرو ہوتا ہے گرم اور خوشبودار کھانوں کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے رمضان المبارک کو مواسات یعنی ہمدردی کا مہینہ بھی کہا جا تا ہے وہ اس طرح کہ روزے کی حالت میں انسان بھوک پیاس کی جس شدت اور کیفیت سے گزرتا ہے اِس سے اِس کے اندر دوسروں کی بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے معاشرے کے ان محروم اور غریب طبقوں کا احساس ہوتا ہے کہ میں تو اللہ کے لیے آج کچھ نہیں کھا رہا لیکن وطن ِ عزیز میں لاکھوں لوگ روزانہ اِس بھوک اورپیاس سے گزرتے ہیں لہذا روزہ دار کے دل میں ان محروم اور غریب لوگوں کی بھوک پیا س کو مٹانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو ساراسال غربت کے باعث بھوک پیاس کی تکلیف سے گزرتے ہیں لہذا روزہ دار ان کی مدد اور بھوک پیاس مٹانے کے لیے اپنے مال و دولت کو لٹانے پر تیار ہو جاتا ہے یقینا ماہ رمضان ایک تربیتی کورس ہے جس کی تربیت لے کر دوسروں کی بھوک پیاس مٹانے کی کوشش کرنی ہے اور نفس کی کمزوریوں پر قابو پاکر ایک صالح انسان بن کر صالح معاشرے کا حصہ بننا ہے۔

Share
Share
Share