ساغرؔ صدیقی –
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
افضل رضویؔ
معاشرے کے ڈسے ہوئے ایک خود رفتہ اور درویش شاعر ساغر صدیقی جو اپنی اور اپنے فن کی ناقدری کی بھینٹ چڑھ گئے، جسے معاشرے کی بے حسی اور ستم ظریفی نے مجبور کر دیا کہ وہ فن(شعر و سخن) جیسی نایاب دولت کو کوڑیوں کے مول بیچ دے۔
اردو ادب کا یہ انمول موتی 1928ء میں بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوا۔بچپن سہارن پور اور انبالہ میں گزرا پھر امرتسر چلے گئے۔اردو کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے آٹھ نوسال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا یوں ان کی مماثلت جوش ملیح آبادی سے ہو جاتی ہے کہ وہ بھی نو برس کے تھے جب انہوں نے شعر کہنا شروع کیا؛لیکن باقاعدہ شاعری کا آغاز 1944ء میں امرتسر کے طرحی مشاعروں سے کیا۔ یہاں عرشی امرتسری، شمس مینائی، فراخ امرتسری، مرز ابیضا خاں اور عیسیٰ امرتسری نے ان کی صلاحیتوں کو خوب سراہا۔لطیف گرداسپوری سے اصلاح لیتے رہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ساغر صدیقی لاہور چلے آئے اوریہاں آکر انہوں نے کسی قسم کی کوئی جائیداد حکومت سے نہیں لی لیکن اپنی شاعری کے تسلسل کو نہ رکنے دیا؛ چنانچہ 1960ء میں ان کا پہلا مجموعہئ کلام ”زہرِ آرزو“ شائع ہوا اور پھر(1964)میں ”غمِ بہار“،(1970)میں ”لوحِ جنوں“،(1972)میں ”تیشہئ دل“، ”شبِ آگہی“،(1974)میں ”مقتلِ گل“،منظرِ عام پر آئے۔ ساغر کی وفات کے بعد ان کادیوان ”دیوانِ ساغر صدیقی“(1990)میں اور بعد ازاں ”بیاضِ ساغر“(1983)میں علاوہ ازیں ”کلیاتِ ساغر“ اور ”سبز گبند“ شائع ہو چکے ہیں۔
کلامِ ساغر کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ وہ دکھوں کا ماراشاعر تھا۔ اگرچہ ایامِ جوانی میں ساغر کی زندگی عام نو عیت کی تھی اور اس کے کلام کا مرکز ومحور عام شاعروں کی طرح عورت ہی تھا۔ لمبے گنگریالے بالوں والا ساغر دو گھوڑے بوسکی کی قمیض اور سفید پاجامہ پہنے جب ادبی محفلوں میں جلوہ گر ہوتا تو اپنے کلام کی کشش سے محفلوں کو لوٹ لیتا۔اسی زمانے کی یاد گار نظم”عورت“ ملاحظہ ہو۔
اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی
ستاروں کے دلکش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی
جبینوں پہ نور مسرت نہ کھلتا
نگاہوں میں شان مروت نہ ہوتی
گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی
فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی
مسافر صدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی
ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا
نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی
خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی
پھررفتہ رفتہ تغیر کی ایسی ہوا چلی جس سے ساغر ؔ کے قدم لڑ کھڑا گئے اور ہوش وہواس جاتے رہے۔ حساس دل شاعر ماحول کی گھٹن اور تھکن کو شدت سے محسوس کرنے لگا، معاشرے کی ناہمواریوں، سماجی مصائب، گرد وپیش کی سنگینیاں دل ودماغ کو ماؤف کرنے لگیں اور وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندہ دلی سے جینے کا ڈھنگ ناتواں ساغرؔ کو نہ آیا۔ وقت کے خوفناک اور دہشت ناک دیو نے اسے اتنا ڈرایا کہ وہ مسکرانا بھول گیا۔ ہوش مین رہناتو دور کی بات، ہوش میں آنا بھی اس کے بس کی بات نہ رہی۔مدہوشی کا آسیب زندگی بھر ساغرؔ کا پیچھا کرتا رہا۔ ایک دن یہی مدہوشی اسے منوں مٹی تلے لے گئی۔کوئی جان نہ سکا کہ ساغرؔ کو آخر غم کیا تھا؟کیا دکھ تھا؟ اس کے بارے میں لوگوں کی سب قیاس آرائیاں ہیں۔ لیکن حالات وواقعات کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات تو کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ جب انسان خواہشات ان گنت لاشوں کا بوجھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتا ہے تو وہ خود زندگی کو ایک بوجھ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک ایسا بوجھ جسے وہ نہ اٹھا سکتا ہے، نہ اتار سکتا ہے اور نتیجے کے طور پر تباہی اور بربادی اس کا انجام ہو تی ہے۔بایں ہمہ مدیر ”ادبی دنیا“ لاہورمحمد عبداللہ قریشی نے ”مقتلِ گل“ کے ”پیش گفتار“ کے عنوان میں ساغر صدیقی کے ایک دوست سید”م“سلیم یزدانی کے حوالے سے ساغر کی مختصر آپ بیتی شامل کر دی ہے جس سے ساغر ؔکے حالاتِ زندگی کا کسی قدر پتا چلتا ہے۔یزدانی صاحب نے ساغرؔ صدیقی سے جو معلومات حاصل کیں وہ اب ادبی دنیا کے لیے سب سے بڑا حوالہ ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میرے سوالوں کے جواب میں ساغرؔ نے اپنی سرگزشت کچھ یوں بیان کی:
میری زندگی زنداں کی ایک کڑی ہے۔ 1928 ء کے کسی ماہ میں پیدا ہُوا ہوں۔گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارنپور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت، کہاں اور کیسے پیدا ہُوا ہوں؟ یہ میرے لئے ”کسی مقدس سرائے کے غلیظ باڑھے میں“ کے سوا کچھ بھی نہیں ’یا‘ علی بابا چالیس چور ’کے پرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟بہرحال شاید میری تسکین قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔ اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحب فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو، کالی کملی میں چھپائے، احساس کے اُلٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سُنا۔ البتہ ایک پرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔1936 ء میں جب ذرا سوچ بوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویران مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لکڑی کے پرانے صندوقوں میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں۔ شاید ان کے پڑھنے والے 1857 ء کی گھٹاؤں میں ڈوب چکے تھے۔ ہاں رات کی تاریکی میں ایک کگر پر روشنی پھیلانے کی جستجو کرتا ہوا ایک دیا میرے مشاہدے کی پہلی چیز تھی، اس گھر میں مُجھ سے پہلے حاجی محمد حنیف اور خواجہ محمد حسین نام کے دو بزرگ آباد تھے۔ یہ کتابیں شاید انہیں کی تھیں۔ یہ بزرگ انبالہ شہر کی سماجی زندگی میں اچھی خاصی شہرت کے حامل تھے۔ اور ان کی پکی اور بیل بوٹوں والی قبر کا کوئی پتھر شاید آج بھی وہاں کے قبرستان کے کسی کونے میں موجود ہو۔
میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گذارشات کو میرے انداز بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا ہے۔ جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا۔
اس وقت کے تمام اردو روزناموں زمیندار، احسان، انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔ میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا، تقریباً دوماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا۔ تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا، جواب تک موجود ہے۔ دس بارہ برس کی عمر میں، مَیں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔ میں چھوٹی عمر میں بھی بیس بائیس سال کا سنجیدہ نوجوان معلوم ہوتا تھا، میری عمر سولہ سال کی تھی جب 1944 ء میں امرتسر کی جامعہ السنہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علوم شرقیہ کی بہترین درس گاہ تھی، ماہانہ طرحی مشاعرے ہوتے تھے، ان میں شرکت کرنا میرے لئے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔
ء1944 ہی میں اردو مجلس کے نام سے ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیر سایہ ایک بزم قائم ہوئی۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی اس کے اغراض و مقاصد تھے۔ اس کے مشاعروں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتا رہا ہوں۔ امرتسر میں عرشی امرتسری، شمس مینائی مرحوم، فرخ امرتسری مرزا مرزا ہمارے لئے ایرانی آسی امرتسری، مرزا بیضا خان مروی ایرانی، عیسی امرتسری اِن لوگوں نے میری صلاحیتوں اور خوبیوں کو بہت سراہا۔
1945 ء میں ولی صابر علیہ الرحمتہ کے مشہور کلیر کے عرس میں شرکت کی۔ کلیر میں عرس مبارک کے موقع پر تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان کے تمام اہل فن اکٹھے ہوتے تھے۔ عرس کے آخری ایام میں کاشانہ احباب سہارنپور ایک بزمِ شعروسخن منعقد کرتے تھے جس میں چیدہ چیدہ شعراکرام شامل ہوتے تھے۔ انور صابری نے اس محفل میں میرا تعارف کروا دیا۔ دلی میں نواب سائل قلعہ معلیٰ اردو کے نقش آخری تھے۔ ان کو کلام سنایا۔ تحسین کے پھول سمیٹے اور مرقد غالب کی زیارت کی۔
امرتسر میں دوسری جنگ عظیم کے باغی آزاد فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لئے جلیانوالہ باغ میں تقریبا تیس چالیس ہزار کے مجمع میں میں نے زندگی میں پہلی بار اسٹیج پر آکر نظمیں پڑھیں۔ اس جلسہ میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر اور مصرع مجھے یاد ہے جو یوں تھا:
ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن
اس کشتی حیات کے لنگر کو توڑ دو
اور
تہذیب نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو
امرتسر میں امین گیلانی پہلے ادبی دوست تھے۔ نفیس خلیلی مرحوم، ظہیر کاشمیری، احند راہی، مرزا جانباز سے نشست و برخاست رہی۔ ساحر لدھیانوی، نریش کمار شاد، لطیف انور گورداس پوری مرحوم جن کا میں عل۔ و ادب جے میدان میں بے حد احترام کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں۔ میری یاداشت کا ابتدائیہ ہیں۔ سید عطائاللہ شاہ بخاری جیسے جید علماء کے دست شفقت سے سرفراز ہوا۔۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ ساغرؔ،غالبؔ کی طرح زندہ دل نہ تھا کہ زندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا، وہ میر ؔ نہ تھا کہ آنسو بہا کر غم کا بوجھ ہلکا کر لیتا؛ وہ ساغر تھا، مجبور، لاچار ساغر جس کے اندر ایک الاؤپکتا رہا اور یہ الاؤ اس کے اندر ایک ایسا آتش فشاں کی طرح ابلتا رہا جس کی حدت اور تپش سے اس کی شاعری کا خمیر تیار ہوتا رہا۔ زندگی اس کے لیے کیا تھی ملاحظہ ہو۔
یہ حیات کی کہانی ہے فنا کا ایک ساغر
تو لبوں سے مسکرا کر اس جام کو لگا لے
زندگی کے جبر ِ مسلسل نے خوشی کا کوئی جھونکا، کوئی لہر ساغرؔ کی زندگی کے قریب تک نہ آنے دی۔
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ایک اور غزل میں ساغر ؔ نے اپنے اسی کرب کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔
قریب دار کٹا دن تو رات کانٹوں پر
گزار دی ہے کسی نے حیات کانٹوں پر
تغیرات سے افزوں ہے ارتقا کا مزاج
ملا ہے گل کو چمن میں ثبات کانٹوں پر
بلا سے دامن ہستی جو تار تار ہوا
میرے جنوں نے لگائی ہے گھات کانٹوں پر
چمک رہے ہیں شگوفے تمھاری یادوں کے
سجی ھے شبنم و گل کی برات کانٹوں پر
یہ اور بات ہے پھولوں کا ذکر تھا ساغر
کہ اتفاق سے پہنچی ہے بات کانٹوں پر
دل کا درد اور اپنی حالتِ کرب کا مضمون ساغرؔ کے یہاں جابجادیکھا جاسکتا ہے لیکن کہیں کہیں یہ درد اور کرب انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور طنز کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کی درج ذیل غزل ہے۔
یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چُھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون گواہی مِری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ساغر ؔجو کہتا دل سے کہتا ہے وہ معاشرتی ناہمواریوں پر کڑھتا ہے اور کڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔وہ سماج کے ٹھیکے داروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
پھر ساغرؔپکارتاہے اور مشورہ دیتا ہے کہ:
دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست!خدا کا نام نہ لے، ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
اور
بے رنگ شفق سی ڈھلتی ہے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصور بھوکا ہے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں
پھر وحشت اور نفرت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اسے اپنی لپیٹ میں لینے لگے تو احساس کا نشتر اسے اندر سے کاٹنے لگا۔ وہ ماحول پر طاری افسردگی اور تیرگی کو ختم کرنے کی صدائیں دینے لگا۔
چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی
پھر وحشت اور نفرت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اسے اپنی لپیٹ میں لینے لگے تو احساس کا نشتر اسے اندر سے کاٹنے لگا۔ وہ ماحول پر طاری افسردگی اور تیرگی کو ختم کرنے کی صدائیں دینے لگا۔
چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ! بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
بنامِ زہرہ جبینانِ خطّہء فردوس
کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے
لیکن پھر وہ خود ہی اجالوں کی نفی کرتا ہے اور ہر سو اندھیرے کا خواہاں نظر آتا ہے اور وہ تیرگی ہی میں گم رہنا چاہتا ہے۔ وہ چراغوں کو گل کرکے دل کے دیے جلانے کا متمنی بن جاتا ہے۔
خیال ہے کہ بجھادوں یہ روشنی کے چراغ
کہ مستیوں نے جلائے ہیں بے خودی کے چراغ
ساغرؔ مزید کہتا ہے کہ:
دیکھ تشنہ لبی لی بات نہ کر
اس اندھیروں کے عہد میں ساغرؔ
آگ لگ جائے گی پیالوں کو
کیا کرے گا کوئی اجالوں کو
ساغر بد قسمتی یہ رہی کہ اس کا سارا کلام اس کے نام سے شائع نہ ہوا بلکہ سستی شہرت کے داعیوں نے اس کے فن کو فنا کرنے کی ناپاک جسارت کی لیکن وہ پھر بھی مٹ نہ سکا اور آج بھی اس کا نام زندہ و جاوید ہے۔ساغر ؔصدیقی نے بہت سے فلمی گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔علاوہ ازیں ساغرؔ نے کئی نعتیں بھی لکھیں ان میں سے درج ذیل بہت مقبول ہوئی۔
بزم کونین سجانے کے لئے آپ آئے
شمعِ توحید جلانے کے لیے آپ آئے
ایک پیغام جو ہر دل میں اجالا کر دے
ساری دنیا کو سنانے کے لئے آپ آئے
ایک مدت سے بھٹکتے ہوئے انسانوں کو
ایک مرکز پہ بلانے کے لئے آپ آئے
ناخدا بن کے ابلتے ہوئے طوفانوں میں
کشتیاں پار لگانے کے لئے آپ آئے
قافلے والے بھٹک جائیں نہ منزل سے کہیں
دور تک راہ دکھانے کے لئے آپ آئے
چشم بیدار کو اسرار خدائی بخشے
سونے والوں کو جگانے کے لئے آپ آئے
ساغرؔ نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھ کر ”ترانہ کمیٹی“ کو بھیجا لیکن منظور نہ ہو سکا تاہم ان کا لکھا ترانہ کئی سالوں تک سینماؤں میں ان کی آواز میں چلایا جاتا رہا۔ ان کے لکھے گئے قومی ترانے کا ایک شعر یہاں درج کیا جاریا ہے۔
سلام اے قائدِ اعظم تری عظمت ہے پائندہ
ترا پرچم ہے تابندہ، ترا پیغام ہے زندہ
ساغرؔ کو اپنے فن پر ناز تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ لوگ اس کے فن سے واقف توہیں لیکن جس طرح وہ خود اپنے فن سے اصرافِ نظر کرتا ہے، اسی طرح وہ بھی اس کی فنی خوبیوں سے بے اعتنائی کرتے ہیں لیکن وہ یہ سمجھتا تھا کہ وہ چاہے اس دنیا سے مٹ جائے لیکن اس کا کلام سدازندہ رہے گا۔۔ساغر ؔ کہتا ہے:
آپ اپنے فن سے ناواقف ہے ساغر کی نظر
لعل، گوہر کی ضیاؤں سے خزانہ بے خبر
نہ کوئی پھول نہ ساغر نہ مہتاب نہ لو
بجھا ہوا سا شبستان ہے زندگی اپنی
ہے قصرِ حقیقت میں تیرے دم سے اجالا
ساغر ترے افکار سدا زندہ رہیں گے
دیوانہ بے خودی میں بڑی بات کہہ گیا
اک حشر کی گھڑی کو ملاقات کہہ گیا
فکرِ ساغر کے خریدار نہ بھولیں گے کبھی
میں نے اشکوں کے گہر تھے جو بنائے پتھر
وہ اپنی حقیقت پر اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔
شامِ وقت کا ماجرا میں ہوں
ایک بجھتا ہوا دیا میں ہوں
جس کو انساں کی موت کہتے ہیں
اس قیامت کی ابتدا میں ہوں
اور اس کا یہ دعوی غیر معمولی بھی نہیں کیونکہ اس کا کلام واقعی آج بھی اسی طرح زندہ ہے جس طرح کل زندہ تھا۔اس فقیر شاعر کو 19جولائی 1974ء کو انتہائی کسمپرسی کے عالم میں سڑک کنارے وفات کے بعد میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا اگرچہ اس کی زندگی میں تو اس کی کسی نے قدر نہ کی لیکن اس کے انتقال کے بعد اس کی شخصیت کو ایک فقیر کی شخصیت بنا دیا گیا اور اب تو باقاعدہ اس کے مرقد پر میلا لگایا جاتا ہے اس کے مرقد کو سجایا جاتاہے لیکن یہ سلسلہ غالباً 2018 ء میں وقت کے بے رحم اہلِ اقتدار کی نذر ہو گیا۔ اہلِ اقتدار نے نہ اس کی زندگی میں کوئی قدر کی اور نہ ہی اس کے مٹی تلے جانے کے بعد کوئی عزت افزائی کی۔ 30جون 2018ء کی وہ خبر جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ساغرصدیقی کا مرقد تجاوزات سمجھ کر مسمار کر دیا گیا، میرے اس بیان کی توثیق کرتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں درویش منش لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔
—-