بیویوں کے ساتھ حسن سلوک
محمدقمرانجم قادری فیضی
ڈائریکٹر خلیلُ اللہ اکیڈمی جمالڈیہہ چافہ
بڑھنی بازارضلع سدھارتھ نگریوپی
اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پاک کو نازل فرماکرپورے عالم انسانیت پر بہت بڑا احسان فرمایاہے قرآن کریم میں انسانوں کیلئے مکمل دستورحیات ہے جس کے مضامین میں عقائد وعبادات نماز روزہ حج زکوٰۃ، قصص کے علاوہ اخلاقیات کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہے
اگر ہم غورکریں توان سب میں باہم ربط وتعلق ہے ان مضامین کو ایک دوسرے سیجدانہیں کیا جاسکتا مثلاً عقائد میں بنیاد ایمان کی ہے ایمان ہی معبود، عبداور عبادت کے درمیان واسطہ وذریعہ ہے اسی طرح قرآن مجید میں بیان کردہ قصص بے مقصدبیان نہیں ہوئے قوموں کے عروج وزوال کا ذکرکرکیان اقوام کیاچھے برے اعمال کو بعد میں آنے والوں کو بتانا تھا کہ وہ کون تھے جو فرمانبردار ہ کرسرخروہوئے اور وہ کون تھے جو نافرمان ہوکراللہ تعالیٰ کے عذاب وعتاب کا شکارہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے مردوعورت کو اس لئے پیدا کیا تاکہ دونوں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں سہارابنیں۔ایک دوسرے کے ساتھ سکون سے زندگی بسرکریں
اگر کسی انسان کو اکیلے زندگی گزارنے پر مجبور کردیاجائے تواسکی زندگی زندگی نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ ایک لاش بن کر رہ جاتی ہے۔
قارئین کرام ہمارے معاشرے میں آج بہت ساری برائیاں پھیلی ہوئی ہیں انہی میں سے ایک یہ بھی ہے۔
یہاں جو حالات زمانہ ِجاہلیت کے بیان کئے جارہے ہیں ان پر غور کریں کہ کیا انہی حالات پر اِس وقت ہمارا معاشرہ نہیں چل رہا۔ بیویوں کو تنگ کرنا، جبری طور پر مہر معاف کروانا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا، ذہنی اَذیتیں دینا، کبھی عورت کو اس کے ماں باپ کے گھر بٹھا دینا اور کبھی اپنے گھر میں رکھ کر بات چیت بند کردینا، دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، لتاڑنا، جھاڑنا وغیرہ۔ عورت بیچاری شوہر کے پیچھے پیچھے پھر رہی ہوتی ہے اور شوہر صاحب فرعون بنے آگے آگے جارہے ہوتے ہیں،عورت کے گھر والوں سے صراحتاً یا بیوی کے ذریعے نت نئے مطالبے کئے جاتے ہیں، کبھی کچھ دلانے اور کبھی کچھ دلانے کا۔ الغرض ظلم و سِتم کی وہ کون سی صورت ہے جو ہمارے گھروں میں نہیں پائی جارہی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کرے کہ قرآن کی یہ آیتیں ان لوگوں کو سمجھ آجائیں اور وہ اپنی اس بری رَوِش سے باز آ جائیں۔نیز ان آیات کی روشنی میں وہ لوگ بھی کچھ غور کریں جو اسلام سے شرمندہ شرمندہ سے رہتے ہیں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں پر بہت سختیاں ہیں۔ وہ دیکھیں کہ اسلام میں عورتوں پر سختیاں کی گئی ہیں یا انہیں سختیوں سے نجات دلائی گئی ہے؟
(فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْ ءً ا: توہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو۔) گھروں کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک بہت عمدہ نفسیاتی طریقہ بیان کیا جارہا ہے۔ بیوی کے حوالے سے فرمایا کہ اگر بدخُلقی یا صورت اچھی نہ ہونے کی وجہ سے عورت تمہیں پسند نہ ہو تو صبر کرو اور بیوی کو طلاق دینے میں جلدی نہ کرو کیونکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی بیوی سے تمہیں ایسی اولاد دے جو نیک اور فرماں بردار ہو، بڑھاپے کی بیکسی میں تمہارا سہارا بنے۔
مثبت ذہنی سوچ کے فوائد:
یہ طریقہ صرف میاں بیوی کے تعلقات میں نہیں بلکہ زندگی کے ہزاروں معاملات میں کام آتا ہے۔اس طریقے کو مثبت ذہنی سوچ کہتے ہیں یعنی اگر کسی کام یا چیز میں خرابی کی کوئی صورت پائی جارہی ہے تو اس کے اچھے پہلوؤں پر بھی غور کرلو۔ ہوسکتا ہے کہ اچھے پہلو زیادہ ہوں یا اچھا پہلو زیادہ فائدے مند ہو مثلاً کسی کی بھی بیوی بدصورت ہے لیکن اسی سے آدمی کو نیک اولاد حاصل ہے، یہاں اگر بدصورتی کو گوارا کرلے تو اس کی زندگی امن سے گزرے گی لیکن اگر طلاق دیدے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیوی تو چھوٹ ہی جائے گی لیکن اس کے ساتھ بچے بھی چھوٹ جائیں گے اور ساری زندگی ایسی تلخیوں، ذہنی اذیتوں، اولاد کے حصول کی جنگ اور حقوق کی لڑائی میں گزرے گی کہ چودہ طبق روشن ہوجائیں گے۔ یونہی کسی آدمی کو ادارے میں رکھا ہوا ہے جو کسی وجہ سے ناپسند ہے لیکن اسی کی وجہ سے نظام بہت عمدہ چل رہا ہے، اب اُس آدمی کو رکھنا اگرچہ پسند نہیں لیکن صرف ناپسندیدگی کی وجہ سے اُسے نکال دینا پورے نظام کو تباہ کردے گا تو ایسی جگہ فوائد پر نظر رکھتے ہوئے اُسے برداشت کرلینا ہی بہتر ہے۔ یہ دو مثالیں عرض کی ہیں، اِن کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے بہت سے معاملات کو حل کیا جاسکتا ہے۔ صرف مثبت ذہنی سوچ پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہماری زندگی کی بہت سی تلخیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی۔ اِسی مثبت ذہنی سوچ کا ایک پہلو یہ ہوتا ہے کہ آدمی پریشانیوں کی بجائے نعمتوں کو سامنے رکھے یعنی آدمی اگر ایک تکلیف میں ہے تو اُسی وقت میں وہ لاکھوں نعمتوں اور سینکڑوں کامیابیوں میں بھی ہوتا ہے تو کیا ضرورت ہے کہ پریشانی اور ناکامی کی یاد تو اپنا وظیفہ بنالے اور خوشی اور کامیابی کو بھولے سے بھی نہ سوچے۔ اِس نسخے پر عمل کرکے دیکھیں اِنْ شَآء َ اللہ عَزَّوَجَلَّ زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں بھر جائیں گی۔
نیک بیوی کے اوصاف اور فضائل:-
(فَالصّٰلِحٰتُ: نیک عورتیں۔) نیک اور پارسا عورتوں کے اوصاف بیان فرمائے جا رہے ہیں کہ جب ان کے شوہر موجود ہوں تو ان کی اطاعت کرتی اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں مصروف رہتی اور شوہر کی نافرمانی سے بچتی ہیں اور جب موجود نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مال اور عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔
(1) حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضورِا قدس صَلّی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تقویٰ کے بعد مومن کے لئے نیک بیوی سے بہتر کوئی چیز نہیں کہ اگر وہ اُسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے اور اگر اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اور کہیں چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے۔ (ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب افضل النساء، /، الحدیث:)
(2) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صَلّی اللہُ تعالی علیہ والہ وَسلم نے ارشاد فرمایا جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔ (1) شکر گزار دل۔ (2) یادِ خدا کرنے والی زبان۔ (3) مصیبت پر صبر کرنے والا بدن (4) ایسی بیوی کہ اپنے نفس اور شوہر کے مال میں گناہ کی مُتلاشی (یعنی اس میں خیانت کرنے والی) نہ ہو۔ *(معجم الکبیر، طلق بن حبیب عن ابن عباس، /، الحدیث:)
نکاح کیسی عورت سے کرنا چاہئے؟:
نکاح کے لئے عورت کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری دیکھ لی جائے اور دین والی ہی کو ترجیح دی جائے۔ جو لوگ عورت کا صرف حسن یامالداری یا عزت و منصب پیش نظر رکھتے ہیں وہ اس حدیث پر غور کر لیں، حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلیہِ والہٖ وسلّمَ نے ارشاد فرمایا: جو کسی عورت سے اس کی عزت کے سبب نکاح کرے، اللہ عزّوجل اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی وجہ سے نکاح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو اس کے حسب (خاندانی مرتبے) کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ عَزّوجلَّ اسکے کمینہ پن میں زیادتی کرے گا۔(معجم الاوسط، من اسمہ ابراہیم، /، الحدیث:)
دنیا کی راحتیں اور جنت کی ابدی نعمتیں کس کے لئے ہیں؟:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضیَ اللہُ تعالی عنہُ نبی کریم صلّی اللہ تعالٰی علیہِ والہٖ وَسلمَ کے درِ رحمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ سلطانِ کونین صَلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ والہٖ وَسلّمَ ایک بوریئے پر آرام فرما رہے ہیں، سرِ اقدس کے نیچے چمڑے کا تکیہ ہے جس میں ناریل کے ریشے بھرے ہوئے ہیں اور جسم مبارک پر بوریئے کے نشانات نقش ہو گئے ہیں۔ یہ حال دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہُ تعالی عنہ رو پڑے۔ سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہِ والِہٖ وسلَّمَ نے رونے کا سبب دریافت کیا تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تعالٰی علیہ وَالِہٖ وسلم قیصر و کسریٰ تو عیش وآرام میں ہوں اور آپ اللہ عزوجل کے رسول ہو کر اس حالت میں۔ نبی رحمت صلّی اللہ تعالٰی علَیہِ وَالہٖ وَسلّمَ نے ارشاد فرمایا: اے عمر! رَضیَ اللہ تعالیٰ عنہُ، کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے آخرت۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب تبتغی مرضاۃ ازواجک۔ الخ، / ، الحدیث 🙂
حضرت جابر بن عبداللہ رضیَ اللہ تعالیٰ عَنہُ فرماتے ہیں ایک دن سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہ تعالٰی عَلَیہِ واٰلہٖ وسلّمَ حضرت فاطمۃُ الزہراء رَضی اللہُ تعالٰی عنْہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ اونٹ کے بالوں سے بنا موٹا لباس پہنے چکی میں آٹا پیس رہی تھیں،جب نَبیوں کے سلطان صلّی اللہُ تَعالٰی عَلیہِ والہٖ وَسلّم کی ان پر نظر پڑی تو آنکھوں سے سَیلِ اشک رواں ہو گیا، رحمت عالَم صَلَّی اللہُ تعالی عَلیہِ والہ وسلمَ نے ارشاد فرمایا:دنیا کی تنگی و سختی کا گھونٹ پی لو تاکہ جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں۔ (احیاء العلوم، کتاب الفقر والزہد، بیان تفضیل الزہد فیما ہو من ضروریات الحیاۃ، /)
حضرت سیدنا ثابت رضی اللہُ تعالی عَنہ فرماتے ہیں:حضرت عمر فاروق رَضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ پانی طلب فرمایا تو آ کو شہد کا پیالہ پیش کیا گیا،آپ نے اس پیالے کو اپنے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا اگر میں اسے پی لوں تو اس کی مٹھاس چلی جائے گی لیکن اس کا حساب (میرے ذمے) باقی رہے گا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی، پھر وہ پیالہ ایک شخص کو دے دیا اور اس نے وہ شہد پی لیا۔(اسد الغابہ، باب العین والمیم، عمر بن الخطاب، /)
حضرت ابن ابی ملیکہ رضی المولی عنہُ فرماتے ہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہُ تعالٰی عنہ نے اپنے سامنے کھانا رکھا ہوا تھا، اس دوران ایک غلام نے آکر عرض کی: حضرت عتبہ بن ابی فرقد رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں۔ آپ نے انہیں اندرآنے کی اجازت دی۔جب حضرت عتبہ اندر آئے تو حضرت عمر فاروق رَضی اللہ تَعالٰی عنْہ نے اس کھانے میں سے کچھ انہیں دیا۔ حضرت عتبہ رضی اللہُ تعالٰی عَنہ نے اسے کھایا تو وہ ایسا بد مزہ تھا کہ آپ اسے نگل نہ سکے۔ آپ نے عرض کی: اے امیر المومنین!کیا آپ کو حواری نامی کھانے میں رغبت ہے (تاکہ آپ کی بارگاہ میں وہ کھاناپیش کیا جائے) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنْہ نے فرمایا کیا وہ کھانا ہر مسلمان کو مُیَسَّر ہے؟ حضرت عتبہ رضی اللہُ تعالی عنْہ نے عرض کی: خدا کی قسم! نہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ تعالٰی عنہُ نے فرمایا اے عتبہ! تم پر افسوس ہے، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں دُنیَوی زندگی میں مزیدار کھانا کھاوں اور آسودگی کے ساتھ زندگی گزاروں (اسد الغابہ عمر بن الخطاب، /)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تعالی علیہِ والہٖ وسلّم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کر رکھی ہیں کہ جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔ *(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، /، الحدیث:)
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہُ تعالی عنہُ سے روایت ہے، حضور پُر نورصَلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جنت کی اتنی جگہ جس میں کَوڑا رکھ سکیں دنیا اور جو کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے۔(بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانّہا مخلوقۃ، /، الحدیث ۰۰)
(لَایَغُرَّنَّکَ- تجھے ہرگز دھوکہ نہ دے۔)
شانِ نزول-مسلمانوں کی ایک جماعت نے کہا کہ کفار ومشرکین اللہ عزّوجل کے دشمن ہیں لیکن یہ تو عیش و آرام میں ہیں اور ہم تنگی او رمشقت میں مبتلا ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی(بیضاوی، اٰل عمران، تحت الآیۃ:، /)
اور انہیں بتایا گیا کفار کا یہ عیش و آرام دنیوی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے جبکہ ان کا انجام بہت برا ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ کسی کو کہا جائے بھائی آپ دس منٹ دھوپ میں کھڑے ہوجائیں، اس کے بعداُسے ہمیشہ کیلئے ائیر کنڈیشنڈ بنگلہ دیدیا جائے اور دوسرے شخص کو دس منٹ سائے دار درخت کے نیچے بٹھا نے کے بعد ہمیشہ کیلئے تپتے ہوئے صحرا میں رکھا جائے تو دونوں میں فائدے میں کون رہا؟ یقینا پہلے والا۔ مسلمان کی حالت پہلے شخص کی طرح بلکہ اس سے بھی بہتر ہے اور کافروں کی حالت دوسرے شخص سے بھی بدتر ہے۔
عورتوں اور کمزور لوگوں کو ان کے حقوق دلانااللہ تعالیٰ کی سنت ہے عورتوں کو وراثت میں حصّہ دو عورت تو ہر گھر میں ہوتی ہیں تمہرے گھر میں بھی حصّہ آیگا برکت بھی ہوگی امیری غریبی کا فرق بھی کم ہوگا:
تفسیر صراط الجنان (وَ یَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآء ِ۔ اور آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔)
شانِ نزول: زمانہِ جاہلِیَّت میں عرب کے لوگ عورت اور چھوٹے بچوں کو میت کے مال کا وارث قرار نہیں دیتے تھے۔ جب آیت ِمیراث نازل ہوئی تو انہوں نے عرض کیا،یا رسولَ اللہ صَلی اللہ تعالٰی علیہِ وَالہ وسلم، کیا عورت اور چھوٹے بچے وارث ہوں گے؟ آپ نے اُن کو اِس آیت سے جواب دیا۔ حضرت عائشہ رضی ا للہ تعالی عنہا نے فرمایا کہ یتیموں کے اولیاء کا دستور یہ تھا کہ اگر یتیم لڑکی صاحب ِمال و جمال ہوتی تو اس سے تھوڑے مہر پر نکاح کرلیتے اور اگر حسن و مال نہ رکھتی تو اسے چھوڑ دیتے اور اگرحسنِ صورت نہ رکھتی اور ہوتی مالدار تو اس سے نکاح نہ کرتے اور اس اندیشہ سے دوسرے کے نکاح میں بھی نہ دیتے کہ وہ مال میں حصہ دار ہوجائے گا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرما کر انہیں ان عادتوں سے منع فرمایا۔(خازن، النساء، تحت الآیۃ:، /)
قرآنِ پاک میں یتیموں،بے سہاروں. مجبورں بیواوں اور معاشرے کے کمزور و محروم افراد کیلئے بہت زیادہ ہدایات دی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں، بیواوں، عورتوں، کمزوروں اور محروم لوگوں کو ان کے حقوق دلانا اللہ عزوجل کی سنت ہے اور اس کیلئے کوشش کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اس ضمن میں چند احادیث ملاحظہ ہوں:
(1) حضرت ابو درداء رضی اللہ تعَالی عنْہُ سے روایت ہے، ایک شخص نے تاجدارِ رسالت صلی اللہُ تعالٰی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تیرا دل نرم ہو جائے؟اس نے عرض کی: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: تیرے پاس کوئی یتیم آئے تو اس کے سر پہ ہاتھ پھیرو اور اپنے کھانے میں سے اسے کھلاو، تیرا دل نرم ہو جائے گا اور تیری حاجتیں بھی پوری ہوں گی۔ (مصنف عبد الرزاق، کتاب الجامع، باب اصحاب الاموال، ۰ /، الحدیث: )
(2) حضرت عبداللہ بن عباس رضیَ اللہُ تعالی عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے تین یتیموں کی پرورش کی وہ رات کو قیام کرنے والے، دن کو روزہ رکھنے والے اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تلوار سونتنے والے کی طرح ہے اورمیں اور وہ جنت میں دو بھائیوں کی طرح ہوں گے جیسا کہ یہ دو بہنیں ہیں۔ اوراپنی انگشت ِشہادت اور درمیانی انگلی کوملایا۔(ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حقّ الیتیم، / ، الحدیث: ۰۰)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ تعالی عَنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلی اللہُ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیواوں اور مسکینوں پر خرچ کرنے والا راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں جہاد کرنے والے اور رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحث علی المکاسب، / ، الحدیث: ۰)
(4) حضرت انس بن مالک رضی اللہُ تعالٰی عنہُ سے روایت ہے،حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو میرے کسی امتی کی حاجت پوری کرے اور اُس کی نیت یہ ہو کہ اِس کے ذریعے اُس امتی کو خوش کرے تو اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (شعب الایمان، الثالث والخمسون من شعب الایمان۔الخ، / ، الحدیث:)
لمبی امید رکھنا-
شیطان مردود کا بڑا مقصد لوگوں کو بہکانا اور عملی اعتبار سے ایساکر دینا ہے کہ نجات و مغفرت کا کوئی راستہ باقی نہ رہے، اس کے لئے وہ مختلف طریقے اپناتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل رکھتا ہے، حتّٰی کہ اسی آس امید پرجیتے جیتے اچانک وہ وقت آجاتا ہے کہ موت اپنے دردناک شکنجے میں کَس لیتی ہے پھر اب پچھتائے کیا ہَوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، ناچار اپنے کئے اعمال کے انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ فی زمانہ لوگوں کی اکثریت موت کو بھول کر دنیا کی لمبی امیدوں میں کھوئی ہوئی ہے۔ امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں لمبی زندگی کی امید دل میں باندھ لینا جہالت اور نادانی کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر دنیا کی محبت کی وجہ سے۔ جہالت اور نادانی تو یہ ہے کہ آدمی اپنی جوانی پر بھروسہ کر بیٹھے اور بڑھاپے سے پہلے مرنے کا خیال ہی دل سے نکال دے، اسی طرح آدمی کی ایک نادانی یہ ہے کہ تندرستی کی حالت میں ناگہانی موت کو ناممکن سمجھے۔لہٰذا ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ ان باتوں میں غور کرے کیا لاکھوں بچے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے سے پہلے ہی راہیِ عدم نہ ہوئے؟ کیا ہزاروں انسان چڑھتی جوانی میں موت سے ہم آغوش نہ ہوئے؟ کیا سینکڑوں نوجوان بھری جوانی میں لقمہ اَجَل نہ بنے؟ کیا دَسْیوں نوجوان بیماریوں کا شکار نہ ہوئے؟ ان باتوں میں غورو فکر کے ساتھ ایک اور بات دل میں بٹھا لے کہ موت اس کے اختیار میں نہیں کہ جب یہ چاہے گا تو اسی وقت آ ئے گی، اس طرح جوانی یا کسی اور چیز پر بھروسہ کرنا خود ہی ایک نادانی نظر آئے گی۔ لمبی زندگی کی امید کی دوسری وجہ دنیا کی محبت ہے، انسان اپنے دل کو تَسلّی دیتا رہتا ہے کہ ابھی تو زمانہ پڑا ہے، ابھی کس نے مرنا ہے میں پہلے یہ مکان بنا لوں، فلاں کاروبار شروع کر لوں، اچھی گاڑی خرید لوں، سہولیات سے اپنی زندگی بھر لوں جب بڑھاپا آئے گا تو اللہ اللہ کرنے لگ جائیں گے اس طرح ہر کام سے دس کام نکالتا چلا جاتا ہے حتّٰی کے ایک دن پیغامِ اجل آپہنچتا ہے اب پچھتانے کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ اس میں مبتلا شخص کو چاہئے کہ دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقیقت کے بارے میں معلومات حاصل کرے کیونکہ جس پر دنیا کی حقیقت آشکار ہو جائے کہ دنیا کی لذت چند روزہ ہے اور موت کے ہاتھوں اسے ایک دن ختم ہونا ہی ہے وہ اسے عزیز نہیں رکھ سکتا۔ *(کیمیائے سعادت، رکن چہارم: منجیات، اصل دہم، اسباب طول امل، / -، ملخصاً)
دِلا غافل نہ ہو یکدم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
باغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے