کتاب : تنقیدی اور تحقیقی مضامین
مصنف:پروفیسر صادق
تجزیہ:خان محمد رضوان
صفحات:224
قیمت:250روپیے
،سنہ اشاعت: 2014
مطبع:ایچ-ایس-آفسیٹ پرنٹرس،دہلی
اردو زبان وادب میں ادبا،شعراء، افسانہ نگار،ناول نگار،ڈراما نگار اسی طرح ترقی پسند تخلیق کار،جدیدیت اور مابعد جدید تخلیق کاروں کی کمی نہیں ہے-
مگران تحریکات اور رجحانات سے وابستہ کم ہی ایسے تخلیق کار نظرآئیں گے جنھوں نے اپنی ذات سے بالاتر ہوکر اپنی تحریروں اور اپنے افکار وخیالات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی وابستگی کسی بھی تحریک سے کیوں ہے، کس بنیاد پر ہے اور کس نوعیت کی ہے؟ –
پروفیسر صادق کا تعلق جدیدیت کی فکر کے تحت اپناذہنی اور اپنی فکری تربیت کرنے والی دوسری نسل کے ان معدودےچند لوگوں سے ہے جنھوں نے قطعیت کے بجائے معروضیت کو اختیار کیا،قدامت پرستی کے بدلے جدت پسندی کو اختیار کیا اور مجہولیت کی جگہ معروفیت کو اپنا شیوہ بنایا-
وہ ایک حقیقت پسند اور حق شناس تخلیق کار ہیں- آپ جب ان کی تحریروں کو پڑھیں گے تو احساس ہوگا کہ وہ ان میں کم نظر آئیں گے بلکہ ان کا علم ان کا مشاہدہ اور تجربہ زیادہ بولتا ہوا نظر آئے گا- آپ یہ محسوس کریں گے کہ ان کی تحریروں میں اناکی گونج یا اس کی بازگشت کم سنائی دےگی، خاکساری اور حقیقت پسندی کا اعلان زیادہ آئے گا،ان کی تحریریں بیجاحوالوں کا پلندہ بننے کے بجائے دلائل وبراہین سے مزین نظرآئین گی –
ہروفیسر صادق اردوادب کے ان چند ادیبوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ادب کا طالب علم ہوتے ہوئے فائین آرٹ میں کمال حاصل کیا- وہ بیک وقت،ایک معتبر مصور،معروف ادیب ونقاد، شاعراور محقق ہیں-ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جس قدراردو ادب پر دسترس رکھتے ہیں اسی قدر انھیں ہندی ادب پر بھی درک حاصل ہے نیز انگریزی ادب پر بھی ان کی غائر نظر ہے، ساتھ ہی فارسی اور سنسکرت بھی ان کے ذوق مطالعہ کا حصہ رہی ہیں –
وہ ہمہ وقت عالمی ادب اور عالم انسانیت کے شعبہ ہائے حیات میں رونماہونے والی تمام تر تبدیلیوں اور روز افزوں سائنس وٹکنالوجی کی بنسبت عقل کو متحیر اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والی ایجادات سے باخیر رہتے ہیں، حتی کہ مذاہب عالم پر بھی ان کا گہرامطالعہ ہے-
بین المعاشرتی اور بین المذاہب ارتباط سے در آنے والے انکشافات سے بھی وہ باخبر رہتے ہیں-
سائنس وٹکنالوجی سے ان کی دلچسپی یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ کس قدر حساس اور آگہی رکھنے والے ادیب ہیں-بحیثیت اردو ادیب کے ان کی علمیت، ان کی دلچسپی اور ان کا بیدارمغذ رہنا نئی نسل کے لیے نہ صرف قابل رشک ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے-
"تنقیدی اور تحقیقی مضامین”پروفیسر صادق کی بیش قیمتی کتاب ہے-اس میں کل تئیس مضامین شامل ہیں-
کتاب کے موضوع کے اعتبارسے اس کے کچھ مضامین تنقیدی اور تحقیقی نوعیت کے ہیں-مصنف کا اختصاص یہ ہےکہ وہ تنقید میں توضیحی اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرکے اپنی تنقید کو اعتبار بخشتے ہیں-وہ اپنی بات دوٹوک اوربے باک انداز میں رکھنے کے قائل ہیں-وہ اپنی رائے دلائل کی بنیا پر رکھ کرمخاطب کو بے زبان اور بے دلیل کردیتے ہیں-
چوں کہ ان کا غائر مطالعہ ہر عہد کے فن پاروں پر محیط ہے، وہ ادب کی تحریکات کے مناہج ومقاصد سے بھی اچھی طرح وقف ہیں، اس لیے اپنی ہر بات کو پورے اعتماداوروثوق کے ساتھ رکھتے ہیں-
وہ تنقید کرتے وقت مہمل اورمبہم جملوں سے گریز کرتےہیں-کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ادبی تنقیدمیں حقیقت پسندانہ رویہ ہی قابل اعتبار ہوتاہے- مغلق اورمہمل جملے ادبی تنقید کو مشکوک اور بے اعتبار بنادیتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین میں حقیقت پسندانہ رویہ کو ہی روا رکھا ہے-
اس طرح انھوں نے تحقیق کے میدان میں سرسید کی طرح صداقت پسندانہ رویہ ہی کو اپنامطمح نظر بنایا ہے-خاص بات یہ کہ وہ تحقیق کرتے وقت کسی کی تحقیق شدہ چیز پر آنکھ بند کرکے اعتبار نہیں کرتے،اور نہ ہی اصول تحقیق سے کبھی چشم پوشی اختیار کرتے ہیں،وہ تحقیق میں اجمال کے ساتھ جزئیات کو بھی ترجیح دیتے ہیں-ان کے تحقیقی مضامین کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ جب کسی شاعر،نقادیامحقق پر مضمون قلم بند کرتے ہیں تو اس کے فن اور اس کی ذات سے متعلق جتنی معلومات بھی ممکن ہوسکے اس کو ضبط تحریر میں لاکر اپنے مضمون کو معلوماتی بنادیتے ہیں اور اپنے فن تحقیق کو قدیم تحقیقی روایتوں سے مہمیز کردیتے ہیں-کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ جس طرح سرسید احمد خاں نے تاریخ نگاری میں مغربی طریقہ کار کو اپناکر تاریخ نویسی کی روایت کو مستحکم کیا تھا- اسی طرح میں سمجھتا
ہوں کی تحقیق نگاری کا تقاضا بھی تاریخ نویسی ہی کی طرح کچھ اور ہے-کیوں کہ محقق تحقیق میں جب تک انصاف نہیں کرے گا اس کا حق ادا نہیں ہوگا، اس لیے تاریخ نویسی ہی کی طرح تحقیق میں بھی انصاف پسندانہ رویہ کو رواج دینا ضروری ہے- اور یہی مقصود ومطلوب بھی ہے، کیوں کہ تحقیق نگاری میں شاعری اور تاریخ نگاری کی طرح لاف و گزاف سے کام نہیں چلتا-
پروفیسر صادق نے اسی رویے کو رواج دے کر تحقیق نگاری کی روایت کو مستحکم کیا ہے-
کتاب "تنقید ی اور تحقیقی مضامین” میں کل تئیس مضامین شامل ہیں،پہلا مضمون”باباشیخ فرید اور ان کی شاعری” کے عنوان سے ہے،اس مضمون کوپڑھ کر مصنف کی بذرگانے دین سے محبت اور قلبی عقیدت کا پتا چلتا ہے اور یہ بھی کہ تصوف کو انھوں نے باضابطہ پڑھا اور سمجھا ہے-
مصنف نے اس مضمون میں سب سے پہلے تصوف اور اسلام کے رشتے کو مدلل طریقے سے واضح کیاہے،ساتھ ہی یہ لکھاہے کہ ہندوستان میں اسلامی تصوف کا آغاز گیارہویں صدی کے آس پاس پنجاب کی سرزمین میں ہوا-اور یہ بھی بتایا ہے کہ ہندوستان میں تصوف اور سلوک کے بنیادی افکار کسی نہ کسی شکل میں اسلامی تصوف کی آمد سے پہلے ہی سے موجود تھے-اسی کے ساتھ انھوں نے بابا فرید کی صوفیا روایت اور فکر کی بھی وضاحت کی ہے-اس بات کو بھی نشان زد کیا ہے کہ بابافرید نے عربی اورفارسی زبانوں کی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بابا فرید کو مقامی زبان میں لکھنے کی روایت غالبا خواجہ معین الدین چشتی سے ورثے میں ملی تھی-
پروفیسر صادق کے تحقیقی نظریے کے تعلق سے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ جب کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہیں تو شرح صدر ہوجانے کی حد تک کرتے ہیں جوکہ تحقیق کی صحت کے لیے صحت مند روایت ہے اور ایک ذمہ دارمحقق کی مثال بھی ہے-
بابافرید کے نام سے منصوب کلام کے تعلق سے ایک متنازعہ مسئلے پر وہ لکھتےہیں-
"ایک متنازعہ مسئلہ یہ بھی رہا ہے کہ بابا فرید کے نام سے منصوب کلام شیخ فریدالدین مسعود(فرید اول) کا ہے یاشیخ ابراہیم فرید(فرید ثانی)کا ہے جوگرونانک کے معاصر تھے-اس ضمن میں حافظ محمود شیرانی تذبذب کے شکار نظر آتے ہیں-جب کہ ان کے ایک ہم عصر موہن سنگھ دیوانہ نے اپنے ایک طویل تحقیقی مضمون "بابافرید گنج شکر اورشیخ ابراہیم فرید ثانی”میں یہ ثابت کیاہے کہ’آدی گرنتھ میں شامل اشلوک شیخ فرید الدین گنج شکر(فرید اول)کے ہیں جوگرونانک نے پاک پٹن میں اپنے قیام کے دوران شیخ ابراہیم(فرید ثانی)سے حاصل کیے تھے-یہ مضمون اورینٹل کالج میگزین (فریدی1938تافروری 1939)میں بالاقساط شائع ہواتھا-” 3
مزید انھوں نے بابافرید کے علمی گھرانے اور ان کے اسفارکا بھی بجتذکرہ کیا ہے،بابافرید کے نام سے منصوب ہندوی زبان میں متفرق اشعار اور چند ملفوظات کاذکر بھی مدلل طور پرکیاہے،بابافرید کی شاعری کے علاوہ ان کے راسخ العقیدگی کو بھی خوبصورتی سے واضح کیاہے،ایک جگہ مصنف نے لکھا ہے کہ:
"شیخ فرید کی اہلیہ محترمہ ایک دن بدحواسی کے عالم میں بین وبکا کرتی ہوئی ان کے پاس آئیں اور بتایا کہ ان کے بچے نے بھوک سے دم توڑدیا ہے-یہ سن کر بابا نے پرسکون انداز میں فرمایاکہ خدا کا بندہ مسعود اس کے حکم کو کیوں کرٹال سکتا ہے-بچہ مرگیا ہے تو اسے دفن کرنے کا انتظام کرناچاہیے”-
یہ سچ ہے کہ بابافرید کی شاعری انسانی دکھ دردکو سمجھنے اور اس کا مداوا تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہے-اس طور پر اس مضمون کو ہم دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضمون تحقیقی طریقہ کار کی خوبصورت مثال ہے-اسی طرح انھوں نےتنقیدی مضامین میں معروضیت اختیار کر کےتنقیدی طریقہ کار کو روشن کیا ہے-
ایک مضمون "مثنوی خواب وخیال” کے عنوان سے ہے، سید میر اثرکے تعلق سے لکھا ہے کہ وہ اردو اور فارسی ددونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے، انھوں نے دیوان غزلیات کے علاوہ ایک مثنوی”مثنوی بیان واقع” جوکہ فارسی میں ہے اور دوسری "مثنوی خواب وخیال” جوکہ اردومیں لکھی ہے،اس مثنوی میں اپنے والد محترم، برادرمعظم اور پیرومرشدخواجہ میر درد کے ساتھ اپنی گہری عقیدت ومحبت کا برملا اظہار ملتاہے،مصنف نے اس مثنوی کی شان نزول پر بھی روشنی ڈالی ہے اور لکھاہے کہ:
” تین ہزار اشعار پر مشتمل اس مثنوی کی بنت میں خواجہ میر درد کی تیرہ فارسی غزلوں اور تقریبااتنی ہی اردوغزلوں کے علاوہ اسی مثنوی کی بحر میں لکھے گئے اردو اور فارسی کے کئی اشعار شامل ہیں-خواجہ میر اثر کی ستتر غزلوں کی بھی پیوند کاری اس مثنوی میں ملتی ہے،جن میں سے تینتالس اردو اورچونتس فارسی غزلیں ہیں- پوری مثنوی میں بحیثیت مجموعی چھ سو سے زیادہ فارسی اشعار شامل ہیں،خواجہ میر درد کے ارزو اور فارسی اشعار کی مجموعی تعداد تین سو بتائی جاتی ہے، میر اثر نے یوں تو میر درد کے بیشتر اشعار ان کا نام بتاکر نقل کیے ہیں، تاہم ایک تہائی اشعارمثنوی میں اس طرح شیر وشکر ہوگئے ہیں کہ ان کی نشاندہی کرنا دشوار ہے-"
مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس مثنوی کی تخلیق کسی ایک ذہن وفکر کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ مختلف دو ذہنوں کی کارفرمائی معلوم ہوتی ہے، لہذا اس مثنوی کو میر اثر اور خواجہ میر درد کی مشترکہ تخلیق کہنا چاہیے، پھر اس مثنوی کے تین کرداروں مرکزی کردارصوفی مرد، میر اثر اور دوسرا کردار اس کا محبوب جوکہ عورت ہے اور تیسرا کردار پیر ومرشد یعنی خواجہ میر درد کاہے، پھر مثنوی کی ہیئت اور آہنگ کی خصوصیات کاذکر کیا گیا ہے، اور یہ بھی لکھاہے کہ اس پر آپ بیتی کا اثر واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے-
مصنف ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
"راقم الحروف کے مطابق اس سراپا کا موازنہ اودھی کے کوی ملک محمد جائسی کے بے مثال شاہ کار’پدماوت’ کے نکھ شکھ ورنن اور سنسکرت کے لازوال کوی بھرتری ہری کے شرنگار شتکم کے چند اشلوکوں سے کیاجاسکتاہے، جوان کے جمالیاتی ذوق کے بہترین مظایر ہیں تاہم’خواب وخیال’ کا سراپااپنی گہری معنویت کے باعث ان پر فوقیت رکھتاہے-"
یہ درست ہے کہ اگر تنقیدی نظر سے مثنوی کو دیکھا جائے تو مصنف کی اس رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ یہ مثنوی بیک وقت عاشقانہ،ناصحانہ اور عارفانہ ہے-
اس طرح اگر ہم اس کتاب میں شامل مضامین کا فردا فردا مطالعہ یاجائزہ پیش کریں تو حیرت ہوتی ہےکہ مصنف نے کس بصیرت اورعلمی آگہی سے تنقیدی اور تحقیقی رویے کو برت کر مضامین لکھے ہیں-مضمون کے ہر لفظ سے علمیت اور دانائی جھلکتی ہے-طوالت کی وجہ میں نے صرف دو مضامین کے حوالوں پراکتفاکیا ہے تاکہ قارئین کو بقیہ مضامین کی اہمیت اور نوعیت کا اندازہ ہوسکے-
یہ کتاب اپنے مخلف النوع مضامین اور ان کی معنویت دونوں اعتبار سے اہم ہے-اس اہم ترین تصنیف کے لیے میں پروفیسر صادق کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتاہوں-
—