روزہ کے چند ضروری مسائل
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذومفتی دار العلوم وقف دیوبند
رمضان المبارک کا روزہ :-
رمضان کا سب سے اہم عمل روزہ ہے،یہ اسلام کا ایک رکن ہے اور جس طرح نماز اور زکات فرض ہے اسی طرح رمضان کا روزہ بھی فرض ہے۔ روزہ کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، ایک حدیث میں ہے:”روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے،،(سنن النسائی،حدیث نمبر:۲۲۱۳)
دوسری حدیث میں ہے:جس نے اللہ تعالی کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا تو اللہ تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت کے بقدر دور کردیتا ہے (صحیح مسلم،باب فضل الصیام،حدیث نمبر:۱۱۵۳)صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:پانچوں نمازیں،ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتے ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے (صحیح مسلم باب الصلوات الخمس والجمعۃ،حدیث نمبر:۲۳۳)ایک دوسری حدیث میں ہے جس نے رمضان کے روزے اوراس کے بعد شوال میں چھ نفلی روزے رکھے وہ شخص ایسے ہے جیسے وہ ہمیشہ روزہ رکھنے والا ہے (صحیح مسلم،باب استحباب صوم ستۃایام من شوال حدیث نمبر: ۱۱۶۴)
روزہ کے فوائد :-
روزہ کی بہت سی حکمتیں ہیں جو غور کرنے والوں کو حاصل ہوجاتی ہیں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ نے روزہ کے متعدد فوائد کا تذکرہ کیا ہے جس کو اختصار کے ساتھ یہاں ذکر کیا جاتا ہے
(۱) روزہ سے انسان میں خشیت و تقوی کی صفت پیدا ہوتی ہے
(۲) روزہ رکھنے سے انسان میں عاجزی و مسکنت اور خدا تعالی کے جلال اور اس کی قدرت پر نظر پڑتی ہے
(۳) روزہ سے چشم بصیرت کھلتی ہے
(۴)درندگی و بہیمیت سے دوری ہوتی ہے
(۵) خداتعالی کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے
(۶)انسانی ہمدردی دل میں پیدا ہوتی ہے
(۷)روزہ جسم وروح کی صحت و تندرستی کا سبب ہے
(۸)روزہ انسان کی روحانی غذا ہے
(۹)روزہ محبت الہی کا ایک بڑا نشان ہے (تخفہ رمضان ص:۳۱)
روزہ کے مسائل :-
روزہ،رمضان المبارک کا سب سے اہم عمل ہے اور ہر صحت مند بالغ مرد و عورت پر فرض ہے، اور اس کو تمام آداب کے ساتھ بجا لانا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔حدیث قدسی ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ: روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ ہوں یا میں خود براہ راست اس کا بدلہ دیتا ہوں (صحیح مسلم،باب فضل الصیام،حدیث نمبر۱۱۵۱) اور اس کے ترک پر بہت سی وعید بھی آئی ہے اس لیے رمضان میں بلا کسی معقول عذر کے روزہ ترک کرنا بہت سخت گناہ ہے۔ عبادات کی صحیح ادائیگی کے لیے اس کا سیکھنا اور معلوم کرنا ضرو ر ی ہے، بعض مرتبہ مسائل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے روزہ دار کو سوائے بھوکا رہنے کے کچھ نہیں ملتاہے، آدمی پوری محنت کرتا ہے،لیکن نامہ اعمال میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کی وہ عبادت صحیح نہیں ہوئی اور اس کو معلوم بھی نہیں ہوسکا کہ میری یہ عبادت صحیح نہیں ہوئی؛اس لیے یہاں پر مختصر طور پر روزہ کے متعلق چندزیادہ پیش آنے والے مسائل ذکرکئے جاتے ہیں، اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھنے اوراس پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
روزے کی نیت کے مسائل :-
٭نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، محض دل میں روزہ کا ارادہ کرلینے سے روزہ صحیح ہوجاتا ہے، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا ضروری نہیں ہے، روزے کے لیے سحر ی کھانا بھی نیت ہے، لیکن اگر سحر ی کھاتے وقت روزہ کا ارادہ نہ ہوتو وہ سحری کھانا نیت میں شامل نہ ہوگا۔
٭رمضان المبارک کے ہر روزے کی الگ الگ نیت ضروری ہے۔
٭اگر کوئی حائضہ عورت حیض کے دوران روزے کی نیت کرلے اور وہ طلوع فجر سے پہلے پاک ہوجائے تو اس کا روزہ درست ہوجائے گا۔
٭رمضان کے دنوں میں صرف رمضان کا روزہ ہی رکھا جاسکتا ہے اگر کوئی رمضان کے دنوں میں کسی دوسرے نفل یا نذر کے روزوں کی نیت کرے تب بھی وہ رمضان کا روزہ قرار دیا جائے گا۔
سحری کے مسائل :-
٭روزہ رکھنے کی نیت سے صبح صادق سے پہلے جو کھایا جائے اسے سحری کہتے ہیں، سحری کھانا سنت ہے، خواہش نہ ہونے کے باوجود سحری کی نیت سے کچھ نہ کچھ کھا لینا چاہیے تاکہ سنت کے ثواب سے محرومی نہ ہو۔
٭سحری کھانا واجب اور ضروری نہیں ہے اس لیے بغیر سحری کھائے بھی روزہ رکھ سکتا ہے،البتہ سحری کھانے سے روزہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے اورآدمی نقاہت محسوس نہیں کرتا ہے اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا روزہ رکھنے کے لیے سحری کھا کر قوت حاصل کرو۔
٭سحری تاخیر سے کھانی چاہیے، بعض لوگ احتیاط کے پیش نظر آدھی رات ہی کو سحری سے فارغ ہوجاتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے،سحری تاخیر سے کھانے میں زیادہ ثواب ہے۔٭حالت جنابت میں سحری کھانے اور جنابت کی حالت میں روزوہ شروع کرنے سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے،البتہ روزہ کی حالت میں جنبی رہنا بہتر نہیں ہے۔
افطار کے مسائل :-
سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے کو افطار کہتے ہیں۔افطار میں جلدی کرنا سنت ہے،جب سورج ڈوبنے کا یقین ہوجائے تو فورا افطار کرلینا چاہیے۔٭ہر جائز و حلال چیز سے افطار کرسکتے ہیں، البتہ چھوہارے یا کھجور سے افطارکرنا مستحب ہے، اگر یہ چیزیں میسر نہ ہو تو پانی سے افطار رکرنا مستحب ہے، نمک سے افطار کرنا سلف سے ثابت نہیں ہے اس کو سنت یا مستحب سمجھنا غلط ہے۔٭افطار کے وقت کی دعا ہے اللھُمَّ لَکَ صُمتُ و َ عَلیَ رِزقِکَ اَفطَرتُ اے اللہ میں نے آپ کے لیے روزہ رکھا اور آپ کے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں، افطار کے بعد یہ دعا پڑھنی چاہیے ذَھَبَ الظَماءُ وَ ابتَلت العُروقُ و ثَبَتَ الأجرُإن شاَءَ اللہُ (ابوداؤد، با ب القول عند الافطار،حدیث نمبر:۷۵۳۲)پیاس بجھ گئی،رگیں تر ہو گئیں اور خدا نے چاہا تو اجر ثابت ہو گیا۔
٭اگر کسی کی آمدنی حرام ہو یا اکثر مال حرام ہو اور وہ افطار کرائے تو اس کی افطار ی سے افطار کرنا جائزنہیں۔
٭ اگر غیر مسلم افطار کی دعوت کرے اوراس کا مال حرام نہ ہوتو اس کو قبول کرنے کی گنجائش ہے۔
روزہ کے مکروہات :-
٭روزہ کی حالت میں منجن یا توتھ پیسٹ کرنا مکروہ ہے اور گل منجن میں کراہت زیادہ ہے
٭روزہ کی حالت میں بلا عذرکسی چیز کا چکھنا مکروہ ہے، ہاں اگرکسی خاتون کا شوہر بد اخلاق ہواور کھانا خراب ہونے کی صورت میں مارپیٹ کرتا ہو،توایسی حالت میں عورت کے لیے پکی ہوئی چیزچکھنا درست ہے،لیکن اگر کھانا حلق میں چلا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا
٭روزے کی حالت میں فلم یا ٹی وی دیکھنا، لا یعنی کام کرنا، کیرم بورڈ، لوڈو کھیلنا مکروہ ہے ٭جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، گندی اور بری باتیں کرنا، لڑائی،جھگڑا،گالی گلوج کرنا مکروہ ہے
٭منھ میں تھوک جمع کرکے نگلنا،
٭روزہ کی حالت میں ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے باربار غسل کرنا، یا بار بار کلی کرنا، یا کلی اور ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنایا گیلاکپڑا لپیٹنا مکروہ ہے۔
کن چیزوں سے روزہ فاسد ہوجاتاہے :-
٭اگر خود بخود قئی ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں توٹتا ہے،چاہے منہ بھر کر ہو یا اس سے کم ہو البتہ اگر جان بوجھ کرقئی کرے جیسے منہ میں انگلی ڈال کر اور وہ قئی منہ بھر کر ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
٭روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر سگریٹ پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوتا ہے۔ ٭روزہ کی حالت میں اگرہاتھ کے ذریعہ منی خارج کرے تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
٭دوا یا پانی کے بھاپ کا بھپارہ لینے سے اسی طرح دمہ کے مریض کے لیے انہیلر لینے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے
٭اگر کوئی شخص پان یا گٹکاکھا کر سوجائے اور صبح صادق کے بعد جب آنکھ کھلے تو وہ پان یا گٹکا اس کے منھ میں ہو تو اس کا روزہ فاسد ہو گیا، اس کی قضاء لازم ہوگی۔
٭روزہ کی حالت میں ناک اور کان میں دوا ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور آنکھ میں دوا ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے۔
کن چیزوں سے قضاء کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوتاہے :-
صرف رمضان کا روزہ بلاعذر توڑ دینے سے قضاواجب ہوتی ہے۔ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے روزے کا کفارہ واجب نہیں ہوتا ہے۔
٭روزہ کا کفارہ یہ ہے کہ مسلسل ساٹھ دن تک روزے رکھے اور درمیان میں کوئی روزہ نہ چھوڑا جائے ورنہ از سر نو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے، اگر ساٹھ روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہوتو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ ئ فطر کے برابر غلہ یا اس کی قیمت دی جائے
٭اگر ایک ہی رمضان میں کئی روزے توڑ ڈالے تو سب کے لیے ایک ہی کفارہ ہوگا، ہر روزہ کے لیے الگ الگ کفارہ نہیں ہے ٭اگر جان بوجھ کر کھا لیا تو قضابھی واجب ہے اور کفارہ بھی
٭اگر کسی نے فطری یا غیر فطر ی طریقے سے مباشرت کی تو قضا اور کفارہ دونوں لازم ہوگا
٭روزہ کی حالت میں جان بوجھ کر بیوی سے صحبت کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے اور قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوتا ہے
٭اگر کسی شخص کے ذمہ قضا روزے ہوں تو وہ فضیلت کے دنوں میں جیسے پندرہ شعبان کے روزے میں رمضان کے قضا روزے کی نیت کرسکتا ہے۔
جن چیزوں سے روزہ نہیں توٹتا ہے :-
٭بھولے سے کھاپی لیا تو روزہ نہیں توٹتا ہے
٭اگر دانتوں میں کھانے کی کوئی چیز لگی رہ گئی اوروہ نگل لی اور اس کی مقدار چنے سے کم ہے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا
٭اگر بد نگاہی کی وجہ سے انزال ہوجائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، لیکن جان بوجھ کر روزے کی حالت میں غیر محرم پر نگاہ ڈالنے سے روزہ کے انوار و برکات ختم ہو جاتے ہیں۔
٭خون ٹیسٹ کرانے کے لیے خون دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتاہے۔
٭اگر کسی شخص کو اپنے نفس پر مکمل کنٹرول ہو تو اس کے لیے روزہ کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کرنا جائز ہے اور اگر کنٹر ول نہ ہوتو مکروہ تحریمی ہے۔فقہاء نے جوان اور بوڑھوں کا بھی فرق کیا ہے کہ جوان کے لیے درست نہیں ہے اور بوڑھے کے لیے درست ہے
٭روزہ کی حالت میں انجکشن لینے یا گلوکوز لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، البتہ بلا ضرورت کے گلوکوز لینا روزہ کی حالت میں مکروہ ہے
٭روزہ کی حالت میں نکسیر پھوٹنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے لیکن اگر نکسیر کا خون حلق میں چلا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔
کن اعذار کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی گنجائش ہے :-
٭مسافر کو حالت سفر میں روزہ نہ رکھنا جائزہے،بعد میں قضاء کرلے لیکن اگر سفر میں مشقت نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔
٭ایسا مریض شخص جس کے اندر روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو یا بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے رخصت ہے،بعد میں قضاء کرلے۔
٭حاملہ عورت کے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے روزہ نہ رکھنے کی گنجائش ہے۔
فدیہ کے مسائل :-
جو لوگ تندرست ہو کر روزہ رکھنے پر قادر ہوسکتے ہیں ان کے لیے روزہ کا فدیہ نہیں ہے، بلکہ قضا لازم ہے، البتہ ایسا بوڑھا شخص جس کے تندرست ہونے کی کوئی امید نہ ہو تو وہ فدیہ دے سکتا ہے
٭اگر کوئی شخص شوگر کا مریض ہو اور روزہ رکھنا اس کے لیے دشوار ہو تو وہ روزہ نہ رکھ کر اس کا فدیہ دے سکتا ہے
٭ایک روزہ کا فدیہ صدقۃ الفطر کی مقدار ہے
٭کوئی شخص دوسرے کی قضاء اپنی طرف سے نہیں رکھ سکتاہے بلکہ جس پر روزہ فرض ہے اسی پر قضاء لازم ہے اگر وہ ایسا معذورہوگیا کہ اب اسے مرتے دم تک روزہ کی طاقت نہ ہوگی تو اس پر روزہ کا فدیہ دینا ہوگا
٭جس شخص پر فدیہ ہے وہ روزانہ بھی فدیہ دے سکتا ہے اور پورے رمضان کا فدیہ ایک ساتھ رمضان کے ختم پر یا رمضان کے شروع میں دے سکتا ہے اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔
روزہ توڑنے کا حکم :-
٭اگر کوئی حادثہ پیش آجائے جیسے ایکسیڈنٹ ہوگیا یا شدید دورہ پڑگیا تو روزہ توڑنا جائز ہے
٭حاملہ عورت کو اگر اپنے یا بچے کی ہلاکت کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے روزہ توڑنا جائز ہے
٭اگرکسی روزہ دار عور ت کو حیض آجائے تو وہ روزہ توڑ دے گی
٭اگر بھوک یا پیاس کی شدت سے جان جانے کااندیشہ تو روزہ توڑا جاسکتا ہے، خاص طور پر اگر نابالغ بچہ جو پہلے روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو اگر وہ بھوک کی شدت محسوس کرے تو اس کے روزہ کو توڑا جاسکتاہے۔ امتحان کی وجہ سے فرض روزہ ٹورنا یا چھوڑنا جائز نہیں ہے