منظم سیلف اسٹڈی کی عادت،تشکیل و فروغ
فاروق طاہر
حیدرآباد،انڈیا۔
9700122826
ازخود مطالعہ کی عادت کا خوگر کرتے ہوئے بلاشبہ طلبہ کو خود سے مطالعہ یا پڑھائی کرنے کاعادی بنایاجاسکتا ہے۔ بیشترطلبہ اسکول کے تفویض کردہ گھر پر انجام دینے والے کام اور سرگرمیاں (Home Work) کو ہی خو دکار مطالعہ یا پڑھائی سمجھتے ہیں
یہ سوچ کسی مغالطے سے کم نہیں ہے۔ یہ بھی ایک حقیقیت ہے کہخو د سے انجام دینے والے مطالعے و پڑھائی میں معاون تکنیک و مہارتوں کو اپنائے بغیر چند طلبہ سخت محنت اور بڑی جانفشانی سے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں لیکن مناسب تکنیک اور رہبری کے فقدان کی وجہ سے ان کو مطالعہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کے مطالعے کے جذبے اور دلچسپی میں کمی واقع ہوتی ہے۔حقیقت میں جو طلبہ سخت محنت و مشقت (ہارڈ ورک) کے بجائے عقل مندی (اسمارٹ ورک) سے کام لیتے ہیں ان کی کامیابی کی شرح بہتر ہوتی ہے۔عقل مندی اور دانشوری سے انجام دیئے جانے والے مطالعہ و پڑھائی سے طلبہ اکتساب کی حقیقی لطف و مسرت سے آشنا ہوتے ہیں جس سے ان میں سیکھنے کا ایک حقیقی جوش و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔مطالعے سے حاصل ہونے والی مسرت انھیں مضمون کی گہرائیوں میں غوطہ زنی پر مائل کرتی ہے جس کی وجہ سے مضمون کے غور طلب گوشوں کے سیر وسیاحت میں مصروف ہوجاتیہیں۔ ان کے مطالعے کا یہ استغراق ان میں مضامین کے نئے اچھوتے گوشے تلاش کرنے کی جستجو پیدا کرتا ہے۔طلبہ کو خود کار مطالعے کی تکنیک و گروں سے جب واقف کیا جاتا ہے اور ان کی مناسب رہنمائی انجام دی جاتی ہے تب ان میں مطالعے سے دلچسپی اور اکتساب و حصول علم کا تجسس کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔خود کار مطالعہ کو فروغ دینے والی مہارتیں اور تکنیک حصول علم کے قدرتی تجسس کی برقراری میں بے حد سود مند ثابت ہوئی ہیں۔ اکثر اساتذہ، طلبہ کو علم و فن سے لیس کرنے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ناکامی کی اہم وجہ طلبہ کو خودکار مطالعہ کی جانب مائل کرنے والی عادات سے عدم واقف یا پھر ان پر عدم عمل آوری ہوتی ہے۔اساتذہ بھی اگر اسمارٹ ورک سے کام لیتے ہوئے طلبہ کو خود کارمطالعہ کی عادت سے لیس کرتے ہوئے ان کی رہنمائی و رہبری کے فرائض اتم درجے سے انجام دیں تو طلبہ دائمی اکتساب اور حصول علم کی جانب ضرور مائل و راغب ہوجائیں گے۔اساتذہ کا یہ عمل تمام علوم کی درس وتدریس کی انجام دہی سے بھی زیادہ فیض مند، کارگر اور سود مند ثابت ہوگاکیونکہ طلبہ جہاں تک ممکن ہو خو د سے سیکھنے، پڑھنے اور اپنے طور پر کام کرنے کے خوگر ہوجائیں گے اور اپنے طور پر اکتسابی ترقی اور کامیابی کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔
تعلیمی ترقی کے لئے بچوں کو اپنی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو نہ صرف قبول کرنا ضروری ہے بلکہ احسن طریقے سے انھیں انجام دینا بھی ضروری ہے۔ طلبہ کو اپنی پڑھائی اور مطالعے میں پیش آنے والی دقتوں،،مشکلات اور پریشانیوں پر خود سے قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔تعلیمی دقتوں پر قابو پانے کے لئے طلبہ کو اپنی مطالعاتی سرگرمیاں اور مطالعہ کی تکنیک کو منظم طریقے سے ترتیب دینے میں اساتذہ کی موثر رہبری و رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ابتدامیں طلبہ کو اس امر کی انجام دہی میں مشکل پیش آسکتی ہے لیکن اساتذہ غیر محسوس طریقے سے ان کی مدد کرتے ہوئے انھیں دیگر افراد سے مدد ورہبری کے حصول کی جانب مائل کرسکتے ہیں۔خود سے مطالعہ کرنے کی عادتوں کو طلبہ میں راسخ کرنے کے لئے اگر ضرورت ہوتو اساتذہ کو اولیائے طلبہ سے بھی تعاون حاصل کرنا چاہئے۔طلبہ میں جب یہ خوش گوار عادت تشکیل پاجاتی ہے تو پھر وہ کسی کی مدد رہنمائی و رہبری کے منتظر نہیں رہتے اور اپنے آپ پڑھائی انجام دیتے ہوئے اکتساب کی لذتوں سیبہرور ہوتے ہیں۔اگر کم عمری میں ہی طلبہ کو خود کار مطالعہ کا عادی بنادیا جائے تو پھر وہ اپنی ماباقی زندگی حصول علم و اکتساب میں آزاد و خود مختار رہتے ہیں۔طلبہ کے مستقبل کی تعلیمی کارکردگی کا انحصار ان کے اختیارکردہ پڑھائی ومطالعہ کرنے کے طریقوں،تکنیک اور مہارتوں پر ہوتا ہے۔اساتذہ کی جانب سے سکھائی جانے والے یہ تکنیکیں و مہارتیں طلبہ کو منظم ومربوط مطالعہ(پڑھائی) کرنے کے قابل بنا تی ہیں۔
مطالعے کی عادات کو فروغ دینے میں اساتذہ کا کردار:-
سب سے پہلے اساتذہ بنیادی طور پر غلط مطالعے کی تکنیک کی وجہ سے پڑھنے میں مشکلات کا سامنا کررہے طلبہ کا جائزہ لیں۔طلبہ کو مطالعے کے صحیح طریقوں کی تربیت فراہم کرنے والے تمام موقعوں اور وسائل کا بہتر استعمال کرتے ہوئے ان میں مطالعہ کی عادت کے فروغ میں معاون کسی بھی سرگرمی و دقیقے کو فروگزاشت نہ کریں۔اساتذہ، خود سے پڑھائی اور مطالعہ کرنے کی عادت کی جانب طلبہ کو مائل کرتے ہوئے انھیں حاصل کردہ علم و معلومات کو ذہنوں میں محفوظ رکھنے والے معاون طریقوں وتدابیر سے آراستہ کریں۔ازخود مطالعہ کو مزید منظم کرنے والے وسائل و ذرائع تک طلبہ کی رسائی کو ممکن بنانے میں اساتذہ سرگرمی سے حصہ لیں۔طلبہ کے مطالعے کے طریقہ کار کو منظم و بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ، اساتذہ ان میں مطالعے کی اہمیت و افادیت کا احساس جاگزیں کریں کہ کس طرح مطالعہ زندگیوں کی تبدیلی میں اہمیت کا حامل ہے۔اساتذہ طلبہ میں جب خود سے مطالعہ کرنا کا جذبہ،تحریک اور جویا پیدا کر نے میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو طلبہ از خود مطالعے کو بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے میں معاون مہارتوں اور تکنیک ازخود تلاش کرنے لگتے ہیں۔اساتذہ طلبہ کو مناسب مطالعے کے لئے بہترین طریقوں کو اپنانے میں رہنمائی و مدد فراہم کریں جو طلبہ کی تعلیمی،ذہنی اور علمی سطح کے مطابق ہو۔ جس کی روشنی میں وہ اپنے مطالعاتی امور کو اطمینان بخش طریقے سے انجام دے سکیں۔خود کار مطالعہ (سیلف اسٹڈی)خود پر قابو رکھتے ہوئے علم و معلومات کو مثبت طریقے سے تقویت بخشنے والا ایک ایسا منظم عمل ہے جس کا ادارک و احساس ہر طالب علم میں جاگزیں کرنا اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہے تاکہ طلبہ مطالعہ کے عمل سے لطف وحظ اٹھا سکیں اور ان میں اطمینان بخش اکتساب فروغ پاسکے۔
مرحلہ واری طریقے سے طلبہ کی رہنمائی کرتے ہوئے انھیں اسکول میں ساز گار مواقع فراہم کرنا چاہئے جو انھیں سنجیدگی سے از خود مطالعہ کرنے کے عمل کی جانب راغب کرسکے۔طلبہ کو خود سے مطالعہ کرنے کے پیریڈ یا وقت سیقبل مطالعے کی غرض و غایت سے مکمل آگہی،مطالعے کے ماحصل و اہداف،اہداف تک رسائی اور ان کے حصول میں معاون طریقوں اور وسائل سے کا مکمل علم ضروری ہے۔ طلبہ کووقت کی اہمیت اور اس کے انتظا م و انصرام سے آگہی فراہم کرنا درس و تدریس کا ا یک اہم جزوہے جس سے سیلف اسٹڈی(خود سے مطالعہ یاپڑھائی کرنے) کے مقاصد اور نتائج کے حصول و برقراری میں مدد ملتی ہے۔طلبہ سلیف اسٹڈی کے مختص وقت کے بہتر انتظام وانصرام کے لائق ہوجاتے ہیں تو ان کے اکتساب (سیکھنے) کی کوششوں میں تیزی پیدا ہوجاتی ہیں۔اپنے اکتساب سے ان میں سکون و اطمینان کی کیفیت پروان چڑھنے لگتی ہے۔ ان کے خود سے مطالعہ کرنے اور پڑھنے کے جذبہ میں جوش خروش پید اہوجاتا ہے اور سیلف اسٹڈی کو وہ تعلیمی ترقی کا ضامن سمجھنے لگتے ہیں۔خود سے مطالعہ کرنے کے ابتدائی مراحل میں انعام واکرام سے نوازنے کے وعدے بھی طلبہ میں ایک ظاہری محرکہ(Extrinsic Motivation) کا کام انجام دیتے ہیں اور طلبہ اپنے طور پر مطالعہ یا پڑھائی کرنے کی جانب مائل ہونے لگتے ہیں۔
طلبہ کو اپنے مطالعاتی نظام و طریقے کار کو منظم کرنے اور مناسب مطالعے کی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ئی سے مطالعے سے حاصل شدہ علم و معلومات کو صحیح طریقے سے محفوظ و برقرار ر کھنے میں مدد ملتی ہے۔اہداف کے تعین، مسلسل تعریف و توصیف اور حوصلہ افزائی کا طلبہ پر مثبت اثر پڑتا ہے جس سے طلبہ سخت محنت،جانفشانی اور اپنے آپ کو منظم اور پابند اوقات رکھنے کی جانب مائل و مبذول ہوجاتے ہیں۔مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر طلبہ کو مطلوب حصول علم میں معاون حقیقی ضرورتوں کی تکمیل کی اساتذہ پر ایک خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
سیلف اسٹڈی(خود مطالعہ) کے لئے ساز گارماحول :-
سیلف اسٹڈی کے لئے منتخب کردہ مقام لازمی طور پر خودمطالعہ(سیلف اسٹڈٰی)کی تمام سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے مناسب ہو اور مطالعے کے لئے درکار تمام مواد مطالعہ بین کی آسان دسترس میں واقع ہو۔ اساتذہ کے ذہنوں میں یقینا یہ سوال گردش کر رہاہوگا کہ وہ اس سلسلے میں واقعیکیا کرسکتے ہیں؟اساتذہ سیلف اسٹڈی کے لئے مثالی ماحول کی تشکیل و ترتیب کے ضمن میں طلبہ کو ترغیب ا ور رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔کئی قابل غور اقدامات پر عمل کرتے ہوئے سیلف اسٹڈی کے لئے عملی طور پر اہم و ساز گار ماحول کی تیاری عمل میں لائی جاسکتی ہے ذیل میں چند نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
(1)اگر مطالعہ کی جگہ یا مقام ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں باہر کی اونچی آوازیں آتی ہوں، لوگوں کی نقل وحرکت زیادہ ہو، سڑک کے قریب واقع ہونے سے گاڑیوں اور لوگوں کی آمد و رفت کا شورو غل یقینا مطالعہ میں مخل ہوجائے گا اور مطالعہ کی یکسوئی باقی نہیں رہے گی۔جہاں تک ممکن ہو شور وغل سے پاک اور جہاں لوگوں کی آدمی و رفت جہاں کم ہو مطالعے کے لئے ایسے مقام انتخاب کرنا چاہئے۔
(2) کتابوں کی شیلف کی موجودگی مطالعے کے مقام کی افادیت میں اضافہ ہوجاتاہے۔کیونکہ شیلف میں تمام کتابیں،فائلیں،جماعت کا مواد ترتیب سے رکھا ہوتا ہے۔مطالعے کے درکار تمام لوازمات اگرقرینے سے قریبی ہی رکھے ہوں تب مطالعے کے وقت کا بہترین استعمال کیاجاسکتا ہے۔ مطالعے کے مقام کی موزونیت اور تمام اشیاء کے مناسب فراہمی مطالعہ بین میں مطالعہ کا احساس پیدا کردیتی ہے۔
(3) جس مقام یا میز پر مطالعے کرنا ہو وہ میز اور مقام ا س قدر روشن و منور ہونا چاہئے جو مطالعہ کے لئے آدمی کو راغب کرسکے۔اگر مطالعے کا مقام اچھی طرح سے روشن نہیں ہوگا تو اس سے آنکھوں پر دباؤ پڑے گا،سردرد کی شکایت جیسے مسائل یا پھر آدمی میں نیند کی آغوش میں بھی جاسکتا ہے۔
(4)جہاں تک ممکن ہو مطالعے کی میز کو صرف مطالعاتی سرگرمیوں کے لئے ہی استعمال کرنا چاہئے۔اگر اسے دوسرے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو دماغ مطالعے کے بجائے دیگر کاموں کی طرف بٹ جائے گا جس سے مطالعے میں توجہ و ارتکاز باقی نہیں رہے گا۔
(5)اگر مطالعاتی کا مقام یا جگہ مستقل طور پر استعمال کئے جانے کے قابل نہیں ہے تو کبھی کبھار اس میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔تاہم مشورہ ہے کہ باربار مقام کی تبدیلی کے بجائے مطالعے کے لئے ایک مستقل مقام بنالیں تاکہ مطالعے میں دشواری ودقت نہ ہو اور توجہ و ارتکاز بنا رہے۔
(6)مطالعہ کی جگہ کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ مطالعے کے ہر شیڈول کے اختتام پر کام کے علاقے کو صاف کرنا نہ بھولیں۔
(7)مطالعے کی جگہ پر دیوار پر ایک چھوٹا اسٹڈی نوٹس بورڈ لگانا بہتر خیال کیا جاتاہے۔ کیونکہ نوٹس بورڈ پر کلاس کے ٹائم ٹیبل،مطالعے کے منصوبے،پروجکٹس،گھر پر انجام دینے والے کام(ہوم ورکس) اور مطالعے سے متعلق دیگر سرگرمیوں کا صرف ایک نظر میں مشاہد ہ انجام دیا جاسکتا ہے۔ واقعات(Events) وقت اور تاریخوں کو بھی اس طریقہ کار سے منظم طور پر یاد رکھا جاسکتا ہے۔
سیلف اسٹڈی (خود مطالعہ)کے وقت کا صحیح استعمال:-
تمام مضامین ومطالعاتی سرگرمیوں کو مناسب ترجیح دیتے ہوئے وقت کو بہتر، سود مند اور نتیجہ خیز انداز میں استعمال کرنا مطالعاتی منصوبہ بندی (اسٹڈی پروگرام) کا سب سے اہم اور فیصلہ کن عنصر ہوتا ہے۔ جب مطالعہ کے لئے دستیاب وقت کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی طلبہ میں صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ پرسکون، پراعتماد اور منظم محسوس کرنے لگتے ہیں۔ایک بار طلبہ وقت کے انتظام و انصرام کی تنیک و مہارت سیکھ جاتے ہیں تو وہ پھر اپنے آپ ہی خودوقت کومناسب اور سود مندطریقے سے استعمال کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔وقت کے بہتر استعمال کی صلاحیت کی بنا وہ اپنی دیگر مصروفیات و سرگرمیوں کے لئے بھی وقت نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ مطالعے کے وقت کی مناسب منصوبہ بندی میں طلبہ کو مدد فراہم کرتے ہوئے ان کے سیکھنے کے عمل کو درست سمت اور رفتار عطا کرسکتے ہیں۔طلبہ کو جب درست سمت اور رفتار مل جاتی ہے تو وہ اپنے آپ اکتساب (سیکھنے) کے دیگر شعبوں کی جانب توجہ مرکوز کرتے ہوئے مطالعے کے وقت کو کارآمد انداز سے استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ذیل میں چند ایسے اہم قابل غو ر نکات اساتذہ کی رہنمائی ورہبری کی فہرست میں شامل کیئے گئے ہیں جو طلبہ کی اسٹڈی کے اوقات کی تنظیم و ترتیب اور موثر استعمال میں کارگرواقع ہوئے ہیں۔
(1)جب مطالعہ کا نظام الاوقات(ٹائم ٹیبل) تیار کیا جائے تو طلبہ ہر مضمون اور مطالعہ کی مختلف سرگرمیوں کو اپنی ترجیحات کے مطابق ترتیب دیں۔طلبہ کو اپنی ترجیحات طئے کرنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے۔اگر ترجیحات کے انتخاب و ترتیب میں دشواری ار مشکل پیش آرہی ہوتو اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔مطالعے کے وقت کے بہتر انتظام اور موثر استعمال کے اہم عوامل میں ترجیحات کا انتخاب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔یہ مہارت دیگر مہارتوں کی ماں کہی جاتی ہے جو اکتسابی عمل کے دیگر عوامل پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔طلبہ اپنی ترجیحات طئے کرنے کے بعد جب کام کرتے ہیں تو ان کی سرگرمیاں بہت ہی نتیجہ خیز ہوجاتی ہیں۔
(2)مطالعے کے وقت کو چھوٹے چھوٹے مختصر وقفوں میں تقسیم کرنا چاہئے۔مطالعے کے دوران آرام کے لئے مختصر وقفہ استراحت بھی رکھناچاہئے۔طویل سیشنز (وقفوں) پر مبنی مطالعہ کے اوقات سے توجہ اور یکسوئی کا تسلسل باقی نہیں رہ پاتا ہے۔ذہن عدم یکسوئی کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے طلبہ وقت کو ضائع کرنے والی سرگرمیوں اور کھیلوں میں مصروف ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے بتدریج مطالعہ میں ان کی دلچسپی اور رغبت کم ہونے لگتی ہے اور طلبہ مطالعہ کو ایک بے کیف و خشک عمل تصور کرنے لگتے ہیں۔
(3)جب بھی مطالعہ کے وقت کے ساتھ چند تفریحی و خوشگوار سرگرمیوں کو شامل کیا جائے تو اسے مطالعے کے وقت کے بعد رکھا جائے کیونکہ یہ مطالعہ کرنے والے کے لئے انعام و ترغیب کا کام انجام دیتی ہیں۔
(4)مطا لعے کے وقت اور اس کی منصوبہ بندی کرنے سے قبل طلبہ اپنے مطالعے میں معاون و کارگر خاکے (Pattern)کو منتخب کرلیں اور اسے واضح طور پر ذہن نشین بھی کرلیں۔بنے بنائے بازاری خاکے (Patterns)پر عمل کرنے سے اجتناب کریں کیونکہ ہر طالب علم کی ذہانت اور کارکردگی میں نمایاں فرق ہوتا ہے اور یہ بنے بنائے تیار شدہ خاکے (Patterns) ان کے لئے ہر گز کارآمد ثابت نہیں ہوں گے۔
(5)بعض طلبہ صبح کے وقت بہتر مطالعہ کرسکتے ہیں اس کے برعکس بعض شام کے وقت بہتر طریقے سے مطالعہ کرتے ہیں۔طلبہ اس بات کی جانچ کرلیں کہ ان کے مطالعے کے لئے کون سا وقت بہتر اور مناسب ہے اس طرح صحیح وقت کا انتخاب کرتے ہوئے وہ اپنے مطالعے اور اکتساب کو مزید بہتر طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔
(6)کچھ طلبہ روزانہ باقاعدگی اور منظم طریقے سے اپنا مطالعہ و پڑھائی انجام دینے کے بجائیصرف امتحانات سے چند دن یا چند گھنٹوں پہلے بڑے مایوس کن طریقے سے رٹاّ(Cramming) لگانے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔طلبہ کی ایسی عادتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے اور ان کو خبردار کرنا چاہئے کہ اس طرح کی بے سود مشقوں سے انھیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔مطالعے کو باقاعدگی سے روزانہ ایک معین وقت پر انجام دینے سے نہ صرف طلبہ کے علم و معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ دیگر ذہنی الجھنوں اور نفسیاتی دباؤ سے بھی محفوظ ہوجاتے ہیں۔
(7) طلبہ کو علم ہوتا ہے کہ کونسا مضمون ان کے لئے مشکل اور کونسا آسان ہے۔اسی طرح مضامین کو اس کی سطح کے مطابق وقت مختص کریں۔ طلبہ کو پہلے تعین کرلینا چاہئے کہ کونسا مضمون آسان ہے اور کونسا مشکل۔پھر اسی کے مطابق وہ اپنے مطالعے کے وقت کو مختص کریں۔ مضامین کی آسان اور مشکل درجہ بندی کے ذریعے طلبہ آسان مضامین پر کم اور مشکل پر زیادہ وقت صرف کرنے کے لائق ہوجاتے ہیں۔
(8)مطالعے کے پورے وقت کو صرف ہوم ورک مکمل کرنے یا تحریری کام انجام دینے کے لئے ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہوم ورک کی انجام دہی کے ساتھ مطالعے کے وقت کو پڑھنے، سیکھے ہوئے موضوعات پر نظر ثانی کرنے(Relearning) اور اعادہ(Revision) کے لئے کافی وقت مختص کیا جانا چاہئے۔
(9)کچھ عقل مند طلبہ اپنی تمام مطالعاتی سرگرمیوں،ترجیحی کاموں کو روزانہ کے نظام الاوقات میں شامل کرتے ہوئے پورے تعلیمی سال کا منصوبہ تیار کرلیتے ہیں اور اپنے مطالعے کے وقت کو کامیابی کے ساتھ اپنی روزانہ کی ترجیحات میں شامل کرتے ہیں۔
(10)طلبہ کو دوران مطالعے غیر ضروری خیالات جو ان کی توجہ وانہماک میں خلل پیدا کرتے ہیں کو دماغ سے یکسر جھٹک دینا چاہئے۔انھیں ہردم اپنی تعلیم کی اہمیت، مستقبل کو تابناک و سنہرا بنانے والی ان کی سخت محنت کو یاد رکھنا چاہئے۔ اپنے ذہن میں غیر ضروری، فضول قسم کی سوچ و فکر کو ہر گز داخل نہیں ہونے دینا چاہئے۔
(11)اکثر کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی مضمون میں بہ نسبت دیگر مضامین کے کسی قدر بہتر ضرور ہوتا ہے۔یہ ایک خوش گوار عنصر ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ آسان مضامین سے مشکل مضمون کی طرف قدم رنجہ فرمائی کرسکتے ہیں۔آسان سے مشکل کی جانب پیشرفت سے طلبہ میں اعتماد پروان چڑھتا ہے اور اکتساب کی شرح میں بھی اضافہ واقع ہوتا ہے۔
(12)مطالعے کے وقت میں اعادہ(Revision)کو بالخصوص شامل کرنا چاہئے تاکہ جو کچھ سیکھا اور پڑھا گیا ہے اس یاد رکھنے اور بروقت بازیافت میں آسانی ہو۔مطالعے کی کامیابی لگاتار جائزہ لیتے رہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی ضرورتوں کے لحاظ سے مثبت تبدیلیاں لاتے رہیں تاکہ مطالعہ موثر اور کارآمد بن سکے۔
(13)والدین کو ان کے بچوں کے مطالعے کے وقت کی اہمیت سے آگاہ کریں تاکہ وہ بچوں کے مطالعے میں ہرج پیدا کرنے والی چیزوں سے مطالعے کے ماحول کو پاک بنا سکیں اور بچوں کے تعلیم و اکتساب کو پروان چڑھانے والے مطالعاتی ماحول فراہم کرسکیں۔
(14)دستیاب وقت کو زیادہ سے زیادہ سودمندی سے استعمال کرتے ہوئے مطالعے کے مقاصد کو حاصل کرنا ہی ٹائم مینج مینٹ کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔
مطالعاتی (سیلف اسٹڈی) سرگرمیوں کی تنظیم،ترتیب و انصرام:-
مطالعے کے دوران انجام دینے والی تمام سرگرمیوں کو اہمیت کے اعتبار سے ترجیحی ترتیب دینے سے مطالعے کے میعار میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔طلبہ کو بغیر کسی تشیک و شبہہ کے ہوم ورک اور اسٹڈی کی سرگرمیوں کی انجام دہی کے طریقے کار سے آگہی ضروری ہے۔طلبہ کو ہوم ورک اور دیگر مطالعاتی سرگرمیوں کو ترجیحاً ترتیب دیتے ہوئے انھیں کب اور کیسے انجام دینے کی حکمت عملی بھی مطالعے سے قبل مرتب کرنی چاہئے۔طلبہ مطالعہ کا آغاز اپنے پسندیدہ قابل تکمیل سرگرمیوں اور آسان مضامین سے کریں۔طلبہ کا یہ اقدام مطالعے میں ان کی دلچسپی کی برقراری اور وقت کے بہتر استعمال میں کارگرثابت ہوتا ہے۔مشکل اور ادق مضامین کے مطالعے کے وقت جب طلبہ کو ان کے تفہیم اور ادراک میں دقت پیش آتی ہے تو ان میں مایوسی اور چڑچڑے پن کا درآنا ایک فطری اور نفسیاتی عمل ہے۔ایسے وقت وہ مطالعے سے چند منٹوں کا وقفہ لیتے ہوئے اپنے آپ کو تروتازہ چست اور چوبند کرسکتے ہیں۔چند منٹوں کے وقفے و آرام کے بعد وہ ان مضامین کے مطالعے کے لئے کوئی اور طریقہ کار اور حکمت عملی سے پیش قدمی کریں۔اس ضمن میں اساتذہ کی رہبری و رہنمائی بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔مطالعے میں ہرج و خلل پیدا کرنے والی چیزوں اور عادات سے طلبہ کو بہت جلد گلوخلاصی حاصل کرلینی چاہئے۔اگر مطالعے کو متاثر کرنے والی خراب عادات پر اولین وقت پر بندش نہیں کی جاتی ہے تو وہ جڑ پکڑلیتے ہیں اور ان سے چھٹکارا پانے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔طلبہ اپنے مطالعے میں خلل پیدا کرنے والے عناصر سے گلوخلاصی کے لئے متعدد طریقے مختلف ذرائع اور اساتذہ سے معلوم کرسکتے ہیں اور جو طریقہ کار ان کے لئے معاون اور کارگر ثابت ہووہ اس پر ثابت قدمی سے جم جائیں اور اس میں کمال پیدا کرلیں۔اس طرح سے وہ اپنے مطالعے کو خلل پیدا کرنے والی عادات اور عناصر سے پاک کرتے ہوئے بہتر اور نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں۔
اپنی پڑھائی اور مطالعے کے دوران جب بھی کسی مدد کی ضرورت پیش آئے تو اسے حاصل کرنے میں ہرگز تذبذب سے کام نہ لیں۔مطالعاتی سرگرمیوں کی انجام دہی کے بعد تفریحی،سکون آور،آرام دہ سرگرمیوں کی شمولیت سے مطالعے کی برقراری میں دلچسپی باقی رہتی ہے۔اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ کے لئے ترغیب وتحریک کا وسیلہ ہوتی ہیں۔ہفتہ واری اور ماہانہ واری بنیادوں پر طلبہ اپنے مطالعہ کردہ مواد اور اپنی قابلیت کی از خود جانچ اور جائزہ لیتے رہیں۔طلبہ جانچ و جائز ہ کے عمل کے دوران اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان مضامین اور موضوعات پر خاص توجہ مرکوز کریں جس میں ان کو مزید محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔طلبہ کا خود سے جانچ و احتساب کا عمل ان کے مطالعے اور سیکھنے کے عمل کو بہت جاندار بنا دیتا ہے۔مطالعے کے وقت نئے سیکھی ہوئی مہارتوں ا و رسرگرمیوں پر ضرور عمل کریں۔ تمام حاصل کردہ ہدایات کو مربوط فقروں و جملوں (نوٹس)کی شکل محفوظ کرلیں۔ آزادانہ فکر و عمل کو طلبہ اپنی مطالعاتی سرگرمیوں کا لازمی جزو بنالیں۔جبطلبہ اپنی مطالعاتی سرگرمیوں کو آزادانہ طور انجام دیتے ہیں تو ان میں اکتسابی(سیکھنے) تجربات کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے ان کا مطالعہ معنی آفرینی اور نتیجہ خیزی کا مرقع بن جاتا ہے۔طلبہ اپنے مطالعاتی سرگرمیوں میں تجریدی فکر اور معنی خیز تجربات کو ضرور شامل رکھیں۔
آج کل کمپیوٹر س اور اس سے وابستہ آلات (Accessories) کی آزادانہ مطالعے میں اہمیت وافادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ کمپیوٹر اور اسے منسلک آلات اور دیگر تعلیمی ایپس بچوں کے آزادانہ مطالعے میں بہت معاون و مددگار ہیں۔ تعلیمی اہمیت کے حامل دستیاب کئی ڈیٹا بیس پروگرامس،گرافکس اور ملٹی میڈیا پروگرامس نے طلبہ کو علوم کے بیکراں سمندر تک رسائی فراہم کردی ہے۔اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی مدد سے تیار کردہ سیلف اسٹڈی میٹریلس کی مقبولیت میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہاہے۔کمپیوٹر کی مدد سے تیار کردہ مطالعاتی مواد نہ صرف اکتساب کو فروغ دیتا ہے بلکہ یہ اکتساب کو ایک دلچسپ عمل بنا دیتا ہے۔ملٹی میڈیا پروگرامس جو عبارت،تصاویر،خاکوں،آواز کا مرکب ہوتے ہیں یہ نہ صرف طلبہ کو زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرتے ہیں بلکہ طلبہ کوخوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہوئے انھیں متحرک اکتساب اور اختراعی فکر فراہم کرتے ہیں۔بازار میں ایسے کئی مواد دستیاب ہیں لیکن انھیں خریدنے سے پہلے معلوم کرلیں کہ کیا یہ آپ کے مطالعے اور تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے متحمل ہیں یا نہیں۔ بازار ملٹی میڈیاتعلیمی مواد کا انتخاب یقینا دانشمندی کا متقاضی ہے۔
درسی کتب (ٹکٹس)کا باقاعدہ مطالعہ:-
سیلف اسٹڈی (خود سے مطالعہ کرنے) کے دوران درسی کتب کے عبارت کا منظم اور توجہ مرکوز طریقے سے مطالعہ کافی اہمیت کا حامل ہوتاہے۔توجہ اور دلچسپی سے درسی کتب کے مطالعے سیطلبہ کے علم میں بہت زیادہ اضافہ ہوتاہے۔درسی کتب کا کوئی نکتہ یا پہلو اگر مبہم و مشکوک نظرآئے تب خارجی مواد کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔ درسی کتب یا مطالعاتی مواد کی عبارت کے مطالعے سے طلبہ کو جہاں بنیادی طور پر اس کے مقاصد، تسلسل،ترتیبی طریقہ کار،خیالات و نظریات کی پیش کش سے آگہی پیدا ہوتی ہے وہیں بہتر فہم،معلومات میں تسلسل و ارتباط،فکر میں گہری و گیرائی اور دلچسپی و توجہ کی برقراری میں مددملتی ہے۔عام طور پر درسی کتب میں پیش کردہ معلومات و نظریات ایک دوسرے سے مربوط ہوتے ہیں۔اسی لئے نظریات و خیالات کے بہتر تفہیم کے لئے ایک نظریہ کو بہتر سمجھنے کے بعد ہی دوسرے کو سمجھا جاسکتا ہے۔مطالعے کے وقت طلبہ کو درسی کتب کے تسلسل عناوین کے تسلسل کو ذہن میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ایک موضوع کو مکمل سمجھنے کے بعد ہی دوسرے کے جانب پیش قدمی کریں تاکہ فہم وادارک قوی مضبوط اور مستحکم ہو۔درمیان میں سے کوئی موضوع،کہیں سے کوئی سبق،کہیں سے کوئی سوال پڑھنے سے اتنا فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے جس طرح تواتر و ترتیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے مطالعہ کرنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ذیل میں چند نکات و حکمت عملیاں بیان کی گئی ہیں جس سے مطالعہ کو موثر و فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے۔
(1)اسباق کی عبارت اور عنوان در عنوان سبق کے مطالعے سے قبل طلبہ تمام ذیلی عنوانات(Sub Headings)،وضاحتوں،جدول میں درج معلومات وغیرہ کا جائزہ ضرور لیں اس سے کتاب میں پیش کردہ اہم مواد کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
(2)سبق و عنوان کے تعارفی حصہ(Introduction)،سبق کے اختتام پر درج کردہ خلاصہ اور سبق کے درمیان و آخر میں دئیے گئے سوالات کا محتاط مطالعہ ضروری ہے۔
(3)کسی خاص سبق یاباب کو غایت درجہ احتیاط سے پڑھنے اور مکمل مطالعے کے بعد اپنے اکتساب علم(Learning Outcomes)کا جائزہ لینے چاہئے تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ آپ نے اپنے مطالعے سے کس قدر اخذ و اکتساب کیا ہے بصورت دیگر مطالعے کے طریقے کار میں تبدیلی لائی جائے۔
(4)بعض باشعور طلبہ پورے سبق کے عمومی یا تفصیلی مطالعے سے قبل سبق کے آخر میں بیان کردہ تمام سوالات کو پہلے پڑھتے ہیں۔طلبہ کا یہ شعورپر مبنی اقدام واقعتا ان کے مطالعے میں بہت مددگار ہوتا ہے۔اس طریقے کار سے وہ شعوری طورپر واقف ہوجاتے ہیں کہ انھیں سبق کے کن امور اور نکات پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہے۔
(5)سبق سے اہم نکات،اہم اصطلاحات(Terms)،نئے یا غیر مانوس الفاظ،جلی یا واضح حقائق(Highlighted Facts)کا سبق کے مطالعے سے پہلے نوٹس بنا کر انھیں سمجھنے کی کوشش سے مطالعہپرکیف، بامعنی،بامقصد،کارآمد،نتیجہ خیز اور فہم وادراک کو وسعت فراہم کرنے والاہوجاتا ہے۔
(6)مختصر لیکن جامع نوٹس بنانا،خیالات و نظریات کو اپنے الفاظ میں بیان کرنا،مضمون کا خلاصہ لکھنا،اعادے پر مبنی سوالات کے جوابات دیناوغیرہ ان تمام امور سے سبق کا مطالعہ بامقصد ہوجاتا ہے۔
(7) خاص طور پر سائنس یا کسی ٹیکنیکل اسباق کے مطالعے کے وقت تمام بنیادی نظریات،اصطلاحات،تعریفیں و توضیحات(Definitions)،درجہ بندیاں،عناصر و عوامل کے درمیان پائے جانے والا تعلق وارتباط(Relationships)،ضابطے(Formulas)،نظریات(Theories)،کلیات(laws)اور مثالوں سے پہلے آگہی،تعارف و شناخت پیدا کریں۔تعارف و آگہی کے بعد جب دوبارہ مطالعہ کریں گے تو فہم و ادراک کے در وا ہوں گے اور اسباق میں پوشیدہ اسرار و اموز کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
(8)ریاضی کے متن کو پڑھتے وقت لازمی طور پر ایک سوال،اشکال ومفروضے کو مرحلہ وار طریقے سے کریں۔ریاضی کے مطالعے کے وقت بعض اوقات الٹی سمت (Backward Direction)میں کام کرنے سوالات اور مفروضوں کو بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔فارمولوں کو الفاظ کی صورت گیری دے کر سمجھنے کی کوشش کریں۔ایک سوال کے حل و جواب تک پہنچنے کے کئی طریقے اور راستے پائے جاتے ہیں انھیں آزمائیں۔ریاضی کے تصورات (concepts)کی تشریح،تعریف وتوضیح بیان کریں۔،زہنی ومنطقی طور پر جوابات کا اندازہ یا قیاس کرنے کی کوشش کریں۔فارمولوں (ضابطوں)،پیمائشی اکائیوں و اسکیلس کی ایک علیحیدہ فہرست تیار رکھیں تاکہ فوری حوالے کے کام آسکے۔
(9) کسی بھی ادبی عبارتوں یا اسباق کے مطالعے کے وقت نئے اور غیر مانوس الفاظ و معنی کی فہرست تیارکرتے ہوئے اس سے آشنائی اور اس پر عبور پیدا کرنا چاہئے۔عام طور پر ادب میں کہانیاں،قصے،واقعات اور مشہور شخصیات کی سوانح یا تفصیلات وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ کہانیاں،قصے،واقعات،مشہور شخصیات وغیرہ کوپڑھتے وقت ان عبارتوں کے پس پردہ پوشیدہ پیغام،مصنف کے نقطہ نظر،احساس وجذبات کو سمجھنے کی شعوری کوشش ضروری ہے۔ادب کے مطالعے وقت زبان کے قواعد (Grammar)پر گہری نگاہ رکھنی ضروری ہے۔
(10)جب سماجی یا معاشرتی علوم کا مطالعہ کرتے ہیں تو واقعات کے وقو ع پذیری کا وقت،مقام کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لینا ضروری ہے۔جب تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو تجزیے کرنے میں غایت درجہ احتیاط سے کام لیں،کوئی بھی واقع کون سا فرد،کونسا واقعہ کب،کہاں،کیوں اور کیسے ہوا اس کی خاص معلومات مطالعے سے اخذ کریں۔عبارت کے عبوری جائزے سے اخذ و اکتساب کی عادت ابتدا میں ہی مطالعے کی تنظیم وترتیب کی جانب راہنمائی فراہم کردیتی ہے۔جغرافیائی حقائق،عجائب و رجحانات کو ان کے سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے مرحلہ واری طریقے سے پڑھنا چاہئے۔
(11)ابواب سے مطالعہ کردہ عوامل،واقعات کی ترتیب،اہم تنصیابت،مرکزی خیال،اہم حروف،بنیادی مقاصد،نمونے،تعریفیں اورنتائج وغیرہ کو آزادانہ طور پر دوبارہ بیان کرنے سے مضامین کو سمجھنے میں بہت مددملتی ہے اس کے علاوہ مطالعہ کردہ موضوعات،مضامین اور عبارتوں پر عمومی تبصرے کرتے ہوئے مطالعے کو کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔
مطالعے اور اس سے متعلق سرگرمیوں کی انجام دہی کے لئے مذکورہ بالا چند طریقے اور تجاویز پیش کئے گئے ہیں جو مطالعے کی عادتوں کو راسخ کرنے مطالعہ کو مستحکم کرنے اور اکتساب کو تیزتر کرنے میں معاون اور آزمودہ ہیں۔طلبہ ہمیشہ اپنی نصابی کتب کے علاوہ مختلف ذرائع دستیاب اضافی مواد کو بھی اپنے مطالعہشامل رکھیں۔
سودمند اکتساب کے جانب پیش قدمی کے لئے تمام تر صلاحیتوں سے آراستہ ہونے کے باوجود ناقص نظام الاوقات، مطالعے کی غیر منظم عادات کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب اور سیکھنے کا عمل بیشتر موقعوں پر عدم اطمینان اور غیر آسودگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اساتذہ اپنی کوششوں سے مطالعے کے دوران پائی جانے والی غیر پسندیدہ عادات کو شعوری طور پر منظم اور صحت مند عادتوں میں تبدیل کرسکتے ہیں۔بے چینی و اضطرب، سستی و کاہلی اور عدم دلچسپی جیسے سیلف اسٹڈی کو تباہ کرنیعناصر کو اساتذہ درج ذیل اہم و جامع تلخصیی نکات پر عمل آوری کے ذریعے مطالعے کو منظم،مربوط اور نتیجہ خیزبناسکتے ہیں۔
(1)مطالعے کے لئے ایک ایسے موزوں مقام کا انتخاب کریں جو آرام دہ ہونے کے ساتھ شور و غل اور کام میں خلل پیدا کرنے سے پاک ہو۔
(2)مطالعے کے لئے پوری پوری منصوبہ بندی کریں۔مشکل اور اہمیت کی ترجیحات پر مطالعاتی سرگرمیوں کومنظم کریں۔
(3)مطالعے کے لئے موزوں وقت کا انتخاب کریں جس وقت پر آپ کی مطالعے اور اکتساب کی صلاحیتیں بام عروج پر ہوتی ہیں۔وقت کو کارآمد بنائیں اور عقل مند سے استعمال کریں۔
(4)مطالعے کی جگہ صاف ستھرا رکھیں اور ایسے تمام چیزوں کو وہاں سے ہٹادیں جس سے آپ کو توجہ بٹ سکتی ہے۔
(5)اپنا موازنہ کبھی دوسروں سے نہ کریں۔ہر ایک کی سیکھنے کی صلاحیت جداگانہ ہوتی ہے۔اپنے مطالعے واکتساب کی رفتار معلوم کریں۔ جو طریقے آپ کے مطالعے موزوں و مناسب ہے اسے اپنائیں۔روازنہ مطالعے سیلف اسٹڈی کے لئے ایک وقت اور مقام مختص کردیں۔
(6)ایک کام کی تکمیل کے بعد دوسرا کام انجام دیں۔ایک وقت میں کئی کام انجام نہ کریں یعنی ملٹی ٹاسنک سے بچیں۔ایک وقت میں ایک ہی کام کریں۔ایک موضوع کی مکمل فہم آوری(Understanding) کے بعددوسرے موضوع کا مطالعہ کریں۔
(7)وقت بروقت خودکلامی سے کام لیں۔اپنے آپ سے بات کرتے ہوئے مطالعے پر لگائے وقت سے مستقبل میں حاصل ہونے والے فوائد کو گنائیں۔اس طرح کا طرزعمل آپ کو ہر وقت مطالعے کی اہمیت و افادیت یاد دلاتا رہے گا۔
(8)مطالعے کے بعد آرام کرنے کے لئے اور خود کو ترو تازہ کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے وقفے لیں۔مطالعے کے بعد آرام کے چھوٹے چھوٹے وقفوں سے ذہنی و جسمانی ارام ملتا ہے۔مزید مطالعے کے لئے تحریک اور توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔
(9)مطالعے میں زیادہ تر اہمیت نصابی کتب اور ماخذی کتابوں (Source Books)کو دیں۔تجزیاتی،تنقیدی اور تخلیقی فکر کو جاگزیں کرتے ہوئے فہم و ادراک کو بلند ی فراہم کریں۔
(10)اپنے مطالعے کی ترقی اور کامیابی کا خود سے جائزہ لیں۔اپنے طور پر اپنی قابلیت کو جانچیں۔خود اپنا امتحان لیں۔اپنے پرچے کو خود جانچیں۔جو اغلاط کے مرتکب ہوئے ہیں ان سے سیکھیں اور آئندہ ان غلطیوں کو نہ دہرائیں۔
(11)تشفی بخش نتائج اور اپنی ذاتی ترقی کے لئے روانہ مطالعے کو خود سیبغیر کسی زوروجبر کے انجام دیں۔
منظم سیلف اسٹڈی کے ذریعے طلبہ آزادانہ طور پر سیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں اوریہ عادت ان کوایک دائمی مکتسب بنادیتی ہے۔ناقص منصوبہ بندی اور بری عادتوں کی وجہ سے مطالعاتی عمل (اسٹڈی) میں بہت زیادہ وقت ضائع ہوجاتاہے۔طلبہ کو مناسب منصوبہ بندی اور مہارتوں سے لیس کرتے ہوئے ان کوایک عمدہ مکتسب(Learner)بنایا جاسکتا ہے اور ان کے وقت کو تباہی سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔کامیابی و آسودگی کا حصول صرف مطالعے کی تکنیک و مہارتوں کو سیکھنے اور بری عادتوں پرقابو پانے سے ممکن ہے۔