حضرت الشاہ عبدالقادر غوث اعظم دستگیر جیلانی رحمہ اللہ
محمدشعیب رضا نظامی فیضی گورکھپوری
استاذ ومفتی: دارالعلوم امام احمد رضا،
بندیشرپور، سدھارتھ نگر
9792125987
جس وقت میری یہ تحریر آپ کے ہاتھوں میں ہوگی اس وقت بحمداللہ آپ رمضان المبارک کے مقدس انوار وبرکات سے مالامال ہو رہے ہوں گے۔ اللہ رب العزت آپ کو اور ہم سبھی اہل ایمان کو صحت وعافیت، امن وسلامتی کے ساتھ مکمل روزے کی دولت بے بہا سے نوازے۔ آمین۔
رمضان المبارک کی شان وشوکت، اس کی عظمت ورفعت، اس کے فضائل وکمالات بیان کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے اس ماہ مبارک میں رب کائنات کا پاکیزہ کلام اور انسان وانسانیت کے لیے دستور حیات بشکل قرآن مجید نازل ہوا (شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن)
یقینا ہر سال رمضان المبارک سبھی اہل ایمان کے لیے بے پناہ رحمتیں، برکتیں اپنے دامن میں لیئے آتا ہے، ایسا ہی کچھ ہوا شہر جیلان کے ایک نیک سیرت، متقی وصالح، خدا ترس بزرگ حضرت ابوصالح موسی جنگی دوست علیہ الرحمہ کے گھر رمضان المبارک کے چاند کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے نور نظر، لخت جگر کی شکل میں پژمردہ زندگی کو تابناک بنانے والا چاند نظر آگیا، مسرت وشادمانی کی انتہا نہ رہی کہ رمضان المبارک کی برکتیں اور شہزادے کی آمد۔ اور وہ شہزادہ بھی ایسا کہ جس نے پیدا ہوتے ہی احکام شریعت کی ایسی پابندی کی کہ طلوع آفتاب سے لے کر وقت مغرب تک دودھ پینا موقوف کردیا اور ایک دو دن نہیں بلکہ پورے رمضان یہی معمول رہا، گویا کہ آپ روزہ رکھتے ہوں پورا جیلان شہر سرچشمہ حیرت واستعجاب بن بیٹھا کہ آخر یہ کوئی بچہ ہے یا فرشتہ جو ایام شیرخوارگی سے ہی اپنے رب کے حکم اور اپنے مقصد حیات ”عبادت رب کائنات“ کو نہیں بھولتا۔اور یہی نہیں بلکہ ابرآلود ہونے کی وجہ سے ۲۹/تاریخ کو عید کا چاند نظر نہ آیا تو لوگوں نے روزہ رکھ لیا اور اگلی صبح آپ کی والدہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے شہزادے نے آج دودھ پیا ہے تو والدہ نے فرمایا ہاں، آج میرے لاڈلے نے دن میں دودھ پیا ہے، لوگوں کو یقین ہوگیا کہ آج عید ہے پھر جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ واقعی ۲۹ کو چاند ہو گیا تھا۔ یہ مبارک شہزادہ کوئی اور نہیں بلکہ قطب ربانی، محبوب سبحانی، قندیل لامکانی، غوث الاغیاث، قطب الاقطاب، محی الدین والسنہ حضرت الشاہ عبدالقادر غوث اعظم دستگیر جیلانی رحمہ اللہ کی ذات تھی جنھیں برصغیر میں بڑے پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آپ کی ولادت کم رمضان المبارک ۴۷۰ ھ میں شہر جیلان میں ہوئی، آپ کے والد ماجد کانام: ابوصالح موسیٰ جنگی
دوست، والدہ کانام:
ام الخیر فاطمہ تھا رحمہمااللہ، آپ کے نانا وقت کے بزرگ ولی حضرت عبداللہ صومعی تھے۔ آپ اپنے والد بزرگوار کی جانب سے حسنی سید تھے اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی سید تھے۔ گویا کہ سلسلہئ نسب دونوں طرف سے جاکر حضور سرور کائناتﷺ سے ملتا تھا۔
بچپن:ایام طفولیت میں جب ہر بچہ کھیل کود میں مست ومگن رہتا ہے اس وقت بھی آپ نے نہایت متانت وسنجیدگی کی زندگی گزاری، کبھی لہو ولعب کی طرف مائل نہ ہوئے، اگر کبھی بتقاضاے طفلی ایسا ہوجاتا کہ آپ کھیل کی طرف مائل ہوجاتے تو فوراً ہاتف غیبی سے ندا آتی کہ ”تمھیں اس لیے نہیں پیدا کیا گیا ہے“اگر کبھی بلاوقت نیند آجاتی تو کان میں یہی آواز آتی، اس طرح آپ کو متنبہ کردیا جاتا اور مقصد حیات سامنے پیش کردیا جاتا۔
علم سے شناسائی:
علم جو انسان کو انسانیت سے سرفراز کرتا ہے اس سے ایں قدر لگاؤ تھا کہ مشہور روایت کے مطابق جب آپ کی عمر فقط چار سال کی تھی، رسم بسم اللہ خوانی کی ادائیگی کے لیے مکتب تشریف لے گئے، استاذ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا، استاذ نے شفقت بھرے لہجہ میں کہا بیٹا پڑھو ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ آپ نے نہ صرف بسم اللہ شریف پڑھا بلکہ سورہ فاتحہ سے لے کر مکمل اٹھارہ پارے (بعض روایتوں میں پندرہ پارے) زبانی پڑھ ڈالے۔ حاضرین کے ساتھ خود استاذ بھی محو حیرت، پوچھا: بیٹا، اسے کب اور کیسے یاد کیا، جواب دیا: میری والدہ اٹھارہ پاروں کی حافظہ تھیں اور ان کا معمول تھا کہ روزانہ ان اٹھارہ پاروں کی تلاوت کرتیں، اگر کام کاج سے وقت نہیں ملتا تو کام کرتے وقت بھی قرآن کی تلاوت کرتے رہتیں، اور میں ان کے شکم اور آغوش میں رہ کر تلاوت سنتا تھا جس سے مجھے اٹھارہ پارے یاد ہوگئے۔ سبحان اللہ! یہ ہے نیک سیرت خاتون کی پاکیزہ آغوش کا پروردہ کہ جب ماں قرآن کی تلاوت کرے تو بیٹا حافظ قرآن پیدا ہو، اے کاش آج بھی ہماری مائیں قرآن کی تلاوت سے اپنے گھر کو آباد رکھتیں،قرآن کی حافظہ نہ سہی دیکھ کر ہی صبح وشام قرآن کی تلاوت کرتیں تو ان کے بھی شکم وآغوش میں پل رہا بچہ قرآن کا حافظ نہ سہی تو دیکھ کر پڑھنے والا ضرور ہوتا، کہ جب ان کا دنیا سے جانا ہوتا تو بچہ کم از کم قرآن کی چند سورتوں کو پڑھ کر ان کی روح کو ثواب پہونچا دیتا۔
حق وصداقت کی علم برداری:
جب آپ کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی تو آپ نے مزید حصول علم کی خاطر بغداد جانے کی خواہش ظاہر کی، چوں کہ آپ کے والد بزرگ وار کا سایہئ عاطفت ومحبت سر سے اٹھ چکا تھا، آپ کی والدہ ہی آپ کی پرورش کرتی تھیں، ایک ہی شہزادہ تھا وہ بھی اتنا بابرکت، دل نے گوارا نہ کیا کہ اجازت دیں مگر بات جد کریمﷺ کے پاکیزہ وراثت ”علم“ کے حصول کی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے دی اور صدق گوئی کی تلقین کے ساتھ بطور خرچ چند دینار آپ کے عبا میں رکھ کر سل دیا تاکہ کہیں گرے نا۔ والدہ سے اجازت لے کر آپ بغداد کی جانب روانہ ہوئے تو راستہ میں ڈاکوؤں نے قافلہ پر حملہ کردیا، مال واسباب لوٹ لیے، آپ ایک جگہ کھڑے ہوکر خدا کے بندوں کو خدا کی حکم عدولی کرتا دیکھ رہے تھے مگر بچے ہونے کی وجہ سے ہاتھ وزبان سے ظلم کو روک نہیں سکتے تھے تو دل سے ہی برا گردانتے رہے لیکن مشیئت ایزدی کو آپ سے ہی کام لیناتھا، ایک ڈاکو آپ کے پاس آیا اور پوچھا کہ شہزادے تمہارے پاس بھی کچھ ہے آپ نے حق وصداقت کادامن اس مشکل گھڑی میں بھی نہ چھوڑتے ہوئے فرمایا: ہاں میرے عبا میں کچھ دینار ہیں۔ اس ڈاکو نے مزاق سمجھ کر نظر انداز کردیا، دوسرا آیا اس نے بھی وہی پوچھا اور حسب سابق جواب پاکر چلا گیا اور اپنے سردار کو جاکر سارا ماجرہ بتایا، وہ بھی حیرت میں پڑگیا کہ آخر کوئی ڈاکوؤں کوازخود اپنے سامان سے آگاہ کیوں کرے گا کہ ڈاکو لوٹ لیں گے، اس نے آپ کو بلاکر وجہ دریافت کی تو جواب ملا: میری ماں نے مجھے رخصت کرتے وقت کہا تھا کہ بیٹا کبھی جھوٹ نہ بولنا۔ ڈاکوؤں کے سردار نے کہا آپ کی ماں نے صرف تنبیہ کی تھی تو آپ نے ماں کی نافرمانی نہ کی، ہاے افسوس! کہ ہم سالوں سے اپنے خدا کی نافرمانی کرتے آرہے ہیں، اپنا ہاتھ آگے کریں کہ میں توبہ کرنا چاہتا ہوں، یہ دیکھ دوسرے ڈاکوؤں نے بھی توبہ کرلیا اور جن سے مال لوٹا تھا ان سے معافی چاہتے ہوئے ان کے مال واسباب کو واپس کردیا۔یہ صدق گوئی کی برکت تھی کہ ڈاکوؤں کاپوراا گروہ تائب ہوگیا، اور غوث اعظم کی شان ولایت دیکھیئے سب کو ولی بھی بنادیا۔ سچ ہے ؎
نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
فراغت، عبادت وریاضت:آپ نے بغداد میں فقیہ وقت حضرت ابوسعید مبارک مخزومی سے علم فقہ کی تعلیم حاصل کی،محدث عصر حضرت ابوبکر بن مظفر کے سامنے علم حدیث کے لیے زانوے تلمذ تہہ کیا تو تفسیر میں آپ کو امام المفسیرن حضرت ابومحمدجعفر جیسے استاذ کی شاگردی میسر آئی۔ آپ نے انتہائی محنت وجفاکشی کے ساتھ علم حاصل کی۔بعد فراغت آپ نے عبادت وریاضت کے لیے بغداد کو چھوڑ دیااور عراق کے جنگلوں، وادیوں، صحراؤں میں پچیس سالوں تک سخت عبادت وریاضت کی۔
مسند تدریس اور منبر وعظ پر:
پچیس سالوں تک سخت عبادت ومجاہدہ کرنے کے بعد دوبارہ بغداد تشریف لے گئے اور درس وتدریس، تقریر وتبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت اور نیک نامی بغداد سے نکل کر پورے عراق میں اور اس سے بھی آگے دور دراز تک پھیل گئی۔ مسلسل چالیس سالوں تک آپ نے مسند تدریس کو زینت بخشی اور تشنگان علوم دینہ کی پیاس بجھاتے رہیں،اور وعظ ونصیحت سے دین متین کی خدمت کرتے رہیں۔اس دوران آپ نے دین حق کی تبلیغ واشاعت کے سلسلے میں دورودراز کے کئی سفر بھی کئے۔
ازداواجی زندگی:
آپ نے تقریبا پچاس سال کی عمر میں اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا اور مختلف اوقات میں چار شادیاں کی۔ جن سے کل انچاس اولاد ہوئیں؛ بیس صاحبزادے اور انتیس صاحبزادیاں۔ چند مشہور صاحبزادوں کے اسما یہ ہیں: شیخ تاج الدین عبدالرزاق، شیخ سیف الدین عبدالوہاب، شیخ شرف الدین عیسیٰ، شیخ ابواسحاق ابراھیم، شیخ ابوبکر عبدالعزیز، شیخ ابوزکریا یحیٰ، شیخ عبدالجبار، شیخ ابونصر موسیٰ، شیخ ابوالفضل محمد۔ رحمھم اللہ (بحوالہ:تذکرہئ مشائخ قادریہ)
تصنیفی خدمات:
آپ نے شریعت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کی حفاظت وپاسداری اور طالبان علوم نبویہ کی پیاس بجھانے کے لیے کئی گراں قدر کتابیں تحریر کیں۔ ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: غنیۃ الطالبین، الفتح الربانی والفیض الرحمانی، فتوح الغیب، بہجۃ الاسرار، جلاء الخاطر، الحدیقۃ المصطفویہ، الرسالۃ الغوثیہ۔
وصال پرملال:آپ کا انتقال ۵۶۱ ھ میں نواسی(۸۹) سال کی عمر میں ہوا، اور آپ کی تدفین بغداد میں واقع آپ کے مدرسہ کے احاطہ میں ہوئی، آج بھی آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے.