توبہ ،کیوں، کب اور کیسے
ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ
یہ اکیسویں صدی ہے زمانہ بہت ترقی کرچکاہے۔آج تیزرفتاری کا دور ہے ۔ لیکن حیرت انگیز طور پرجس قدر زمانے کی رفتار تیزہوتی جارہی ہے اسی قدر انسان کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ آج کا انسان پہلے ادوار کے مقابلے میں زیادہ پریشان ہے۔
ہر سو افراتفری کا عالم ہے۔اس کے پاس رک کر کچھ سوچنے اورغور کرنے کا بھی یارا نہیں کہ ان پریشانیوں کے اسباب اورسدباب کے بارے میں غوروفکرکرسکے۔اور اس کی حالت اس آیت کی مصداق ہوجاتی ہے: اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّـهُـمْ يُفْتَنُـوْنَ فِىْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ثُـمَّ لَا يَتُـوْبُـوْنَ وَلَا هُـمْ يَذَّكَّرُوْنَ (التوبۃ: 126) "کیا نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ آزمائے جاتے ہیں پھر بھی توبہ نہیں کرتے اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں۔”
پھر جب وہ اپنے مستقبل کی جانب نظردوڑاتا ہے تو اسے انفرادی ، قومی اوربین الاقوامی سطح پر حالات بہت اندوہناک و خوفناک نظرآتے ہیں۔ جن کا وہ تصور بھی نہیں کرناچاہتا۔حالات مستقل بگڑتے چلے جارہے ہیں۔وہ مسلسل مایوسی کی دلدل میں دھنستا چلا جارہاہے۔ وہ تمام ظاہری اسباب ووسائل (مادی ترقی کی خیرہ کردینے والی روشنی )کے باوجود انتہائی تاریکی کے عالم میں بھٹک رہا ہے۔آج کی ترقی یافتہ و تیزرفتار دنیا اپنی تمام تروسعتوں اورفراوانیوں کے باوجود اس پر تنگ ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی ذہنی کیفیت پسماندگی اورابتری کی طرف مائل ہے ۔ وہ معاشی تنگی، ذہنی ناآسودگی،جسمانی بیماری، اخلاقی گراوٹ،جذباتی افسردگی اور سماجی جھمیلوں میں الجھا ہوا ہے۔لمحہ بہ لمحہ اس کی ذہنی ابتری بے سکونی، دربدری ،بیماری ،معاشرتی تنہائی ،خوف و غصہ،رزق کی تنگی وغیرہ وغیرہ میں اضافہ ہونے سے وہ ایسے مسائل کا شکار ہورہاہے جن کا حل اس کی بساط سے مکمل باہر ہے۔ اس کے سامنے تمام راستے بھی مسدود نظر آتے ہیں کوئی دروازہ ایسا نظرنہیں آرہا جہاں شنوائی کا امکان بھی ہو۔ انسان کا ذہن ان فتنوں وآزمائشوں میں گھرنے کے باوجود توبہ کی جانب نہیں آتا لیکن وہ یہ خواہش ضرورکرتا ہے کہ وہ زمین کی سطح پر ہونے کے بجائے اس کے نیچے ہوتا۔ حالانکہ زندگی سے فرار بھی ممکن نہیں کیونکہ خودکشی اورحرام موت جیسے راستے اختیار کرنے کی اسلام قطعا کبھی بھی اورکسی حال میں بھی اجازت نہیں دیتا۔آخر کاروہ مکمل پریشان ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے۔
زندگی اپنی نہ موت اپنی نہ دل پر اختیار
سوچتاہوں کس قدر بے آسرا انسان ہے(کلیم)
جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا کہ انسان کی ان پریشانیوں کا سبب وہ بداعمالیاں ہیں جن سے اس کی زندگی مرقع ہے۔ ان میں سے کچھ بداعمالیاں توشایداسے یاد بھی ہوں۔لیکن ان گنت ایسی بھی بداعمالیاں ہونگی جن کااسے احساس تک نہ ہوگا ۔اورجب ان اعمال بد کے نتیجے میں اسے پریشانی و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ انتہائی بے بسی اورحسرت سے سوچتا ہے کہ کاش وہ ماضی میں جاکر ان بداعمالیوں کا ارتکاب نہ کرتا توآج اسے نہ یہ دن دیکھنا پڑتا اور نہ ہی اس قدرپریشانی کا سامنا کرناپڑتا۔ حالانکہ ابھی وہ زندہ ہے اور ان سانسوں کی ڈور کےقائم ہونے کی وجہ سے اس کے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر یہ قیامت کادن ہوتا، روز حشر ہوتا، اعمال تولے جانے والے ہوتے، تواس شخص کی کیا حالت ہوتی؟
اس دنیا میں تو انسان ہلکی سی سزا، ناگواربات ،حتی کہ کسی کی طرف سے کی گئی ہلکی سی تنقید برداشت نہیں کرتا جب تک اس کے منہ پر جوتا نہ مارلے یا اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دے،روزمحشر وہ کیا کرے گا جب دوسرے افراد اس سے اپنے حق کا تقاضہ کریں گے اورحق ثابت ہونے پر، بدلے میں اس کی نیکیاں لے اڑیں گے یا پھر اپنے گناہوں کا ٹوکرا اس کے سر منڈھ دیں گے۔اوراس سبب وہ مجرمین میں شامل کردیا جائے گا۔کوئی بھی صاحب عقل و خرد مکمل نہ سہی کچھ اندازہ ضرورلگاسکتاہے۔ اس وقت بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جانے والے مجرمین کی کیاحالت ہوگی۔لیکن اس صورتحال پر مایوس و ناامید ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ رب العزت اپنے ان بندوں سے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا فرماتاہے:
قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنفُسِھِم لَا تَقنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہ یَغفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیعاً ط اِنَّہ، ھُوَالغَفُوْرُ الرَّحِیْمِ (الزمر:53)آپ(ﷺ) ان سے فرما دیجئے کہ اے میرے بندو تم نے اپنی جانوں پر (کتنے ہی) ظلم کئے ہوں ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جانا یقیناً اللہ تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا۔ وہ تو غفور الرّحیم ہے ۔
اے اللہ! دنیا اورآخرت دونوں جہانوں میں تو ہمیں معاف فرما۔
گناہ ومعصیت کیا ہے؟
گناہ رب کے احکامات سے روگردانی کرنا ہے۔ یہ رب کی رحمت سے انسان کو دور کردیتاہے۔ گناہ و معصیت کوفسق وظلم ، کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔فسق: تَرْكُ المأمورات وفعل المنهيات۔فسق کے معنی ہیں احکام کو چھوڑنا اور منع کردہ افعال کا ارتکاب کرنا۔(التفسير الكبير،فخر الدين الرازي خطيب) ظلم کے معنی ہیں: وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحِلِّهِ ۔ کسی چیز کواس کے اصل مقام سے ہٹا کر رکھنا ۔یعنی اس کا غلط و بے موقع استعمال کرنا ۔ (شرح العقيدة الطحاويہ، صدر الدين محمد بن علاء الدين الحنفی)
ہر چیز کا درست استعمال و موقعہ و محل بنانے والا ہی جانے ، پس کائنات کی تمام چیزوں کے استعمال کا طریقہ وہی ہے جو کائنات کا خالق مالک مطلق بتائے، اس کے بتائے ہوئے طریق کے خلاف جو استعمال بھی ہو ، وہ غلط، اسی کوفسق، ظلم اور گناہ کہتے ہیں ۔
نیز بعض اوقات نیکی و بھلائی کے کام بھی برائی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ نیکی رب کی رضا ہے ۔ وہ نیکی جوانسان کی خودنمائی کوپروان چڑھائے وہ نیکی نہیں اپنی خواہشات کی تکمیل ہے ۔ اس میں لطیف سافرق ہے ۔ بقول نریش کمار شاد
محسوس بھی ہو جائے تو ہوتا نہیں بیاں
نازک سا ہے جو فرق گناہ و ثواب میں
رب کی خاطر نیک کام کرنے والا دوسروں کوحقیر نہ سمجھے گا۔ لیکن جب انسان اپنی خواہشات ، شہرت ، خودنمائی کی خاطر نیکی کرے وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے کے ساتھ ساتھ خود پرستی میں مبتلا ہوجاتاہے ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی خود پرستی اس کی خدا(معبود) بن جاتی ہے ۔ ایسے ہی شخص پر اکبر حیدرآبادی صاحب نے کیا خوب طنز کیا ہے:
خودپرستی خدا نہ ہو جائے
احتیاطاً گناہ کرتا ہوں
گناہ کیوں ہوجاتاہے!
اول: انسان پر بعض اوقات غفلت طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ خواہش نفس کاغلام بن جاتاہے اوراللہ رب العزت کی موجودگی کے احساس کو کھودیتا ہے۔ وہ اس حالت میں رب کی نافرمانی کربیٹھتا ہے۔ گناہ میں بھی اسے اک لذت محسوس ہوتی ہے،خواہ عارضی اور شیطان کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو ۔ کچھ اس قسم کی کشش و مقناطیست کا سحر اسے جکڑ لیتاہے کہ باجودوعید و سزا کے اعلان کے انسان وقتی طور پر اسے کرگزرتاہے۔ گناہ کی منصوبہ بندی کرنے والے انسان کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتاہے وہ سوچتا ہے کہ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ابھی تو میں یہ کرگزروں۔ اس کی مثال شوگرکوٹڈ اس تھوہڑ کے درخت کی طرح ہے جو کڑوی اورزہریلی ترین چیز ہے لیکن اس پر چینی کی تہہ اورخوشنما دیدہ زیب رنگوں کی وجہ سے کوئی بھی نادان وہ زہر بخوشی کھانے پر تیار ہوجائے گا۔ گناہوں کی اسی قسم کی خوشنمائی اور زینت کے بارے میں قرآن مجید کی صراحت ملاحظہ فرمائیں:فَزَيَّنَ لَـهُـمُ الشَّيْطَانُ اَعْمَالَـهُـمْ(النحل: 63)شیطان نے ان کے (برے) اعمال ان کیلئے مزین کردیئے۔اس ہی حقیقت کو ایک شاعر گوپال متل اس انداز سے پیش کرتاہے:
کیا کیجئے کشش ہے کچھ ایسی گناہ میں
میں ورنہ یوں فریب میں آتا بہار کے
لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ وقتی جذبات میں آکر بہکنے والا انسان اپنے پیچھے صرف پچھتاوے کی راکھ چھوڑجاتاہے۔ کیونکہ بظاہر جس کام کی جانب اس کا دل مائل ہے اور وہ وقتی لذت و خوشی محسوس کررہا ہے اس کام کے نتائج بہت ہی بھیانک ظاہرہوں گے ۔
دوم: انسان جب گناہوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے تو ان میں اس کے مبتلا ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتاہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
إِنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ.(صحیح بخاری، رقم:6308)
"مومن اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ ایک پہاڑ کے نیچے کھڑا ہو اور اسے خطرہ ہو کہ کسی وقت بھی یہ پہاڑ (مصیبت)اس پر آن گرے گا۔ اس کے برخلاف،فاجر اپنے گناہوں کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی مکھی کو جو ان کی ناک سے گزرکر غائب ہو جاتی ہے۔”یعنی انسان دنیاوی و مادی غلطی کو تو بہت اہمیت دیتاہے ۔مثلاً اگرکسی سے اپنے ادارے میں کوئی غلطی سرزد ہوجائے جس سے اس کے روزگار(Job) کے چھوٹنے کا اندیشہ یا تنزلی کا خطرہ ہو تو بہت پریشان ہوتا ہے ۔کسی طاقتور کو چھیڑ لے توجان ،مال، عزت وآبرو کا بہت ڈرہوتاہے۔کوئی ویسے ہی دھمکی دے دے تو پھرخوف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ لیکن جب رب کی نافرمانی،سرکشی اورعصیان کا معاملہ ہو ،غلطی پر غلطی ، ڈھٹائی، اصرارکرتاہے اور اس گناہ کے انجام کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتا جتنی مکھی کے ناک پر بیٹھنے کو کیوکہ مکھی کے ناک پر بیٹھنے سے ظاہری و مادی دنیا میں کچھ تو تکلیف ہوتی ہے لیکن نادان کو گناہ سے بظاہر کوئی تکلیف ہوتی محسوس نہیں ہوتی۔ یہی وہ عمل ہے جو اسے بے باک اور جری کردیتاہے اورآہستہ آہستہ وہ سیاہ قلب والا بن جاتاہے۔
قابل غور نکتہ:
گناہوں کے سلسلہ میں ایک اور قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر کسی کو آگاہ نہ کرے۔ وہ اس طرح وہ خود اپنے گناہوں پر لوگوں کو گواہ بنادے گا۔ جب اللہ رب العزت نے پردہ رکھا اس پردہ کا کھولنا بیوقوفی ہے۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر اپنے سیاہ کارناموں کا چرچا کرتے ہیں، گپیں ہانکتے ہیں بلکہ بعض اوقات اپنے گناہ سے بڑھ بیان کرتے ہیں جتنا گناہ نہ کیا ہو ،شاید ایسا وہ بڑائی بیان کرنے کے لئے کرتے ہیں حالانکہ یہ شرم سے پانی پانی ہونے کا مقام ہے۔الامان و الحفیظ
نیزایسا نہیں کہ اللہ رب العزت انسان کو پہلی بار ہی گناہ کرنے پردنیا میں عذاب یا انتقام کا نشانہ بنادیتاہے۔ بلکہ وہ انسان کوبار بار مہلت دیتاہے۔ابتداء تو اس کے گناہ کا پردہ رکھتا ہے۔ ہاں اگر انسان ہی اپنا پردہ فاش کردے یاگناہوں میں بے باک ہوجائے توپھر دنیا میں بھی اسے رسوائی و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑتاہے۔
علامات گناہ:
گناہ کرنے والے شخص کے دو رویہ ہوتے ہیں ۔ ایک رویہ ان افراد کا ہے جن کے اندر اچھائی برائی کی کشمکش ہو۔ایساانسان جب کسی غلط کام کا ارادہ کرے یا وہ کوئی غلط کام کررہا ہو تو اس کے چہرے پر خوف کی لہریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ آواز کا گلے میں پھنسنا،جسم میں کپکپاہٹ ،گھبراہٹ ،اضطراب پریشانی،دل کی دھڑکن کابے قابو ہونا،جسم کا ٹمپریچر تبدیل ہونا،بلڈ پریشر کم یا زیادہ ہونا وغیرہ وغیرہ۔نیزوہ گناہ کرنے سے پہلے ادھر ادھر دیکھتا ہے۔یہ وہ علامات ہیں جن سے وہ شخص پہچان سکتا ہے یہ گناہ کا عمل ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ہے:
وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاس ۔
گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے۔اور دوسروں کا(اس سے) مطلع ہوجانا تجھے برالگے۔(صحیح مسلم :2553)
دوسرا رویہ ان عادی مجرمین کا جنہیں گناہ کرنے پر احساس گناہ،پشیمانی،ندامت ،خفت،شرمندگی اورافسوس نہیں ہوتا اورنہ ہی انہیں نیکی کرنے پر کوئی خوشی ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اسے گناہ کا کوئی خوف نہیں رہتا ۔ اس کا دل اس قدر سخت ہوچکا ہوتا ہے کہ اس میں ایمان کی علامتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔کیونکہ نیکی پر خوشی اور بدی پر کراہت یہ تو علامات ایمان میں سے ہیں۔
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ مَا الْإِيمَانُ ؟ قال : إِذَا سَرَّتْكَ حَسَنَتُكَ، وَسَاءَتْكَ سَيِّئَتُكَ فَأَنْتَ مُؤْمِنٌ ۔(مسند احمد:رقم 22166)
حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ ایک شخص نےرسول اللہﷺ سے سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تیری نیکی تجھے خوش کرے اور تیرا گناہ تجھے برا لگے تو تو مومن ہے ۔
گناہ کے نقصانات:
گناہ اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔انسان اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتاہے۔ گناہ کرنے سے انسان کی رزق،عمر اور علم میں برکت نہیں رہتی۔انسان کی آخرت کی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تنگ ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى (طہ: 124)
اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔
إِنَّ لِلْحَسَنَةِ ضِيَاءً فِي الْوَجْهِ وَنُورًا فِي الْقَلْبِ وَسَعَةً فِي الرِّزْقِ وَقُوَّةً فِي الْبَدَنِ وَمَحَبَّةً فِي قُلُوبِ الْخَلْقِ، وَإِِنَّ لِلسَّيِّئَةِ سَوَادًا فِي الْوَجْهِ وَظُلْمَةً فِي الْقَلْبِ وَوَهَنًا فِي الْبَدَنِ وَنَقْصًا فِي الرِّزْقِ وَبِغْضَةً فِي قُلُوبِ الْخَلْقِ.( مواقف حلف فيها النبي ﷺ، أبو محمد خميس السعيد محمد عبد الله)
بیشک نیکی کرنے والے کے چہرے پہ چمک دمک، دل میں نور،رزق میں کشادگی، بدن میں قوت و طاقت اور مخلوق کےدل میں اس کے لیے محبت ہوتی ہے اور گناہ کرنے والے کے چہرے پہ سیاہی(نحوست) ،دل و قبر میں تاریکی ،بدن میں کمزوری،رزق (خیر وبرکت) میں کمی اور مخلوق کے دل میں اس کے لیےبغض پیدا ہوجاتا ہے ۔
ان سب کے علاوہ گناہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ لمحہ شیطان کے وار کا بہترین موقع ہے اور وہ انسان سے اس کی سب سے قیمتی چیز یعنی ایمان کو اچک لینا چاہتاہے۔ الْمَعَاصِي بَرِيدُ الْكُفْرِ، كَمَا أَنَّ الْحُمَّى بَرِيدُ الْمَوْتِ۔گناہ کفر کی ڈاک ہیں جس طرح بخار(بیماری) موت کی ڈاک ہے۔(شعب الإيمان،أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر البيهقي)
اس ڈاک کے مستقل آنے سے اورخطاؤں میں مبتلا ہوتے رہنے سے انسان کمزور ی و ضعف کا شکار ہوجاتاہے۔ گناہوں سے رغبت بڑھتی ہے اور نیکیوں سے طبیعت میں نفورپیدا ہوتاہے۔ اور پھر ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے کہ اس وقت کئے گئے حملہ سے اس(گناہ گار) کے متاثر ہونے اورایمان کی نعمت سے محروم ہونے کے شدید امکانات ہیں(العیاذ باللہ)۔
یہاں ایک مختصر حکایت کے ذریعے شیطان کے وار کا طریقہ بتایا گیاہے۔ ایک دفعہ ایک طاقتور پہلوان نے ایک آدمی کوپتھر مارا۔ اس نے وہ پتھر سنبھال کر رکھ لیا۔ایک دفعہ اس نے دیکھا کہ وہی پہلوان کنوئیں میں گرا ہوا ہے۔ اس نے وہ پتھر لاکر اس کے سرپر مارا ۔ پہلوان نے کہا بھائی تومجھے کیوں ماررہاہے۔ میں تو خود بہت کمزور اوربے بس ہوں۔میری مدد کے بجائے تو مجھے ماررہاہے۔ اس نے کہا تو نے ایک بار مجھے ماراتھا یہ وہی پتھر ہے۔ اس نے کہا تو نے آج ہی بدلہ لینا تھا اس دن کیوں نہ لیا۔ اس شخص نے کہا اس دن تو مجھے اورمارتا اورمیں تیرا مقابلہ نہ کرپاتا۔ آج مجھے کسی قسم کے ضرر کے اندیشہ نہیں کیونکہ میں نے سن رکھا تھا ” کسی پر حملہ تب کرنا چاہئے جس وقت وہ انتہائی کمزورحالت میں ہو۔” لہذا میں نے اپنا بدلہ لے لیاہے۔(شیطان بھی اسی طرح انسان کے کمزورپہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کاری وار کرتاہے!)
لمحہ فکریہ!
کیا گناہ کی طرف دعوت دینے والا،اسے خوشنما بنا کر پیش کرنے والا شیطان ، انسان کو دنیاوی زندگی میں راحت و سکون و ترقی کرتا ہوا دیکھناچاہتاہے۔نہیں ہرگز نہیں۔شیطان انسان کو دنیا اورآخرت دونوں مقامات میں ذلیل و رسوا کرنا چاہتا ہے۔یہ مفروضہ غلط ہے کہ شیطان انسان کو دنیاوی ترقی کرتے دیکھنا چاہتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ آخرت کی بربادی چونکہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے اس سے روکنے کے لئے وہ انسان کی دنیاوی ترقی برداشت کرلیتا ہے۔اگر اسے موقع ملے تو وہ انسان کو دنیا و آخرت دونوں مقامات پر ذلیل و رسوا کردے۔ اس بات کو حقیقی زندگی کے اس واقعہ سے سمجھا جاسکتاہے:ایک شخص اپنی جوانی کی سیاہ کاریوں کو اپنی ڈائری میں قلمبند کرتا گیا۔ غلطی سے بڑھاپے میں اس کی ڈائری بچوں کے ہاتھ لگ گئی۔ڈائری پڑھ کر انہیں اپنے باپ سے شدید نفرت ہوگئی۔یہاں تک کہ اس شخص نے رو رو کران سے معافی مانگی۔ لیکن اس کی اولاد اسے معاف نہ کرسکی۔وہ اپنے خاندان سے ملنے والی ذلت اورتنہائی کو نہ برداشت کرسکا اور خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا۔یوں شیطان نے آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی اسے ذلیل و رسوا کردیا۔(العیاذ باللہ)
اور پھریہ بھی ذہن میں رہے کہ سچی توبہ کرنے سے رب تومعاف کردیتا ہے لیکن بسا اوقات انسان انسان کو معاف نہیں کرتے۔ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو خواہ سو قتل کرنے ،شرک و کفر کا ہی گناہ کیوں نہ ہو اللہ رب العزت سچی توبہ کرنے سے معاف کردیتاہے اوربندے اور رب کے درمیان توبہ کے معاملہ میں کوئی بھی حائل نہیں ہوسکتا۔ بہرحال توبہ خلوص دل سے ہی کرنی چاہئے اور ایسی صورت میں لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔
توبہ کیا ہے؟
علامہ فیروز آبادی نے ”القاموس المحیط“(ص:59)میں لکھا ہے :”تاب إلیٰ اللّٰہ” اور”توبۃ” گناہ اور معصیت سے لوٹنے کو کہا جاتا ہے ۔شریعت اسلامیہ میں اللہ کی معصیت و نا فرمانی ترک کرکے اس کی اطاعت اختیار کر نے کوتوبہ کہتے ہیں ۔لہذا اللہ رب العزت کی طرف لوٹنے،پلٹنے، رجوع کرنےکوتوبہ کہتے ہیں۔ محض گناہ چھوڑنے کو توبہ نہیں کہتے۔ گناہ سے معافی مانگنا بھی توبہ نہیں یہ استغفار ہے۔ گناہ چھوڑنا،اس پر اظہار ندامت کرنا اورمغفرت طلب کرکے نیکی، اطاعت اور تقویٰ کی طرف پلٹ جانے کو توبہ کہتے ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ: النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔(سنن ابن ماجہ:4252)
توبہ (درحقیقت) شرمندگی کا نام ہے ۔ زبان سے لاکھ توبہ و استغفار کہیں ،بے سود وبے کار۔خلوص نیت وتہہ دل سے شرمندگی وندامت کے ساتھ ایک بار توبہ کی جائے اس عہد کے ساتھ کہ آئندہ اس گناہ کے قریب بھی نہ پھٹکوں گا ، یقینا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قبولیت کی امیدہے ۔
اگر غورکیا جائے تو ! توبہ بجھی ہوئی ٹارچ کو روشن کرنایعنی تاریک راہ کو روشن کرنا،گم کردہ راستے پر واپس آنا، اورایک طرح نہانے کے متراد ف ہے۔گناہ ایک زہر ہے جس کا تریاق توبہ ہے،گناہ ایک جرم ہے جس کا کفارہ توبہ ہے، گناہ ایک بیماری ہے جس کا علاج توبہ ہے، گناہ ایک خسارہ ہے جس کا مداوا توبہ ہے،گناہ ایک بدنما داغ جس کی صفائی ودھلائی توبہ ہے، گناہ حکمی نجاست ہے اور اس نجاست سے غسل کے لئے عام پانی نہیں بلکہ آنکھ (چشمہ عین) سے نکلنے والے آنسو (سیلاب اشک رواں) کی ضرورت ہے۔ توبہ یہ ہے کہ جب گناہ کی یاد آئے تو نفس اس میں لذت محسوس نہ کرے بلکہ ندامت ،پشیمانی اورکراہت کا احساس ابھرآئے۔یہاں تک کہ اس کی آنکھوں میں ندامت کے آنسو امڈآئیں۔اورآنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلے۔
اتيتك يا خالقي باكيا
و دمع الاسى كل حين يزيد
فقد قلت في الآيۃ لا تقنطو
و ان تعفو عني ف ذا يوم عيد
اے رب میں نے روتے ہوئے تیری طرف رجوع کیا
ندامت میں آنسو زارو قطار گررہے ہیں
تونے ہی ایک آیت میں قرآن کی ہمیں بتایا ہے کہ مایوس نہ ہو
تو مجھے بخش دے تو یہ میرے لئے عید (خوشی و مسرت)کا دن ہوگا
ایک لحاظ سے یہ بہت ہی آسان کام ہے کہ اس پر نہ کچھ خرچ ہوگا نہ کوئی جسمانی محنت ہوگی،نہ ہی کسی کی سفارش کی ضرورت ہے ،نہ کوئی دماغی محنت یا منصوبہ سازی درکار ہے۔ بس دو قطرے آنسو بہانا ہے۔۔۔لیکن ایک اعتبار سے سب سے مشکل کام ہے۔ بہت ہی مشکل۔اول اپنی غلطی تسلیم کرنا ہی بڑی بات ہے اس پر ندامت کرنا،عاجزی کا اظہار کرنا،جھکنا،اورآئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ توبہ کے لئے اپنے نفس کو مارنا پڑتاہے،اپنی انا کو دبانا پڑتاہے،کچلنا پڑتاہے۔ یہی وہ مقام و مقال ہے جو انسان کو شیطان سے ممتاز کرتاہے۔ شیطان اپنی غلطی پر اکڑگیا،اصرار کرنے لگا،تاویلات پیش کرنے لگا، منطقی (قول کے ذریعے) و سائنسی وحیاتیاتی دلائل (اپنی تخلیق اور تخلیق آدم کے درمیان پائے جانے والے امتیازات) پیش کرنے لگا، اوراپنی غلطی کو صحیح قراردینے لگا۔لیکن توبہ نہ کی اورنہ کبھی کرسکتاہے!!! اتنا بھی آسان نہیں،رب جسے توفیق عطافرمائے۔
توبہ کی ضرورت:
ظاہری اعتبار سے اگر دیکھا جائے کوئی انسان غلطیوں سے مبرا نہیں۔ ایسا کوئی نہیں جس سے کبھی کوئی خطا سرزد نہ ہوئی ہو۔ایک حدیث قدسی ہے :
يَا عِبَادِي إِنَّكُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ،(صحیح مسلم:2577)
اے میرے بندوں تم دن رات گناہ کرتے ہواورمیں ہی سب کے سب گناہ معاف کرتاہوں سو مجھ سے مغفرت مانگوں میں تمہارے گناہ معاف کروں گا۔
جب کسی صاحب عقل وشعور سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور اسے اس کا احساس بھی ہوجائے تو اس صورت میں اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس عمل کو undo کرکے اس غلط کو فوراً صحیح کرلے۔قدم واپس کرلے۔ یوں اگر توبہ کو” کوریکشن پین(وائٹؤ)،اریزراورCTRL Z یا Undo کمانڈ سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
کارٹون اورفلموں میں بعض اوقات دکھایا جاتا ہے کہ کسی سے غلطی سرزد ہوگئی اس نے فوراً اپنی غلطی کوواپس( ریوائنڈ )کرلیا۔ ۔ ایسا شایداس لئے دکھایاجاتاہے کہ وہ انسان کی خواہش ناتمام کی ناتمام آرزو تھی۔ اول تو غلطی کی اصلاح ہوجائے اور وہ بھی بغیر کسی تکلیف و مشقت کے۔ کمپیوٹر استعمال کرنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ اسی ناتمام آرزو کی تکمیل کے لئے سوفٹ ویئرز میں ایک کمانڈ رکھی جاتی ہے جس کا نام ہی undo ہے۔جسمانی غلطی ،مالی غلطی ،سماجی غلطی، جذباتی غلطی میں توشاید ایسا نہ ہوسکتا ہولیکن روحانی غلطی(جو سب سے بڑی غلطی ہے) کے سبب پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج توبہ و استغفار ہے:
حضرت ابوذرغفاری سے مرفوعا نقل ہے کہ:إنَّ لكلِّ داء دواءً، وإنَّ دواء الذنوب الاستغفار( جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الكلم،زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي)۔بیشک ہر بیماری کی دوا موجود ہے اور بیشک گناہوں کا علاج استغفار ہے۔یعنی توبہ و استغفار سے انسان اپنی غلطی بالکل مٹاسکتا ہے ۔ایسا کرکے انسان اپنی غلطیوں کو یکسرختم کرنے کی یا انہیں نیکوں سے بدلنے کی خواہش پوری کرسکتاہے۔
توبہ اورانسانی فطرت
توبہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی نوع انسانی کی تخلیق۔حضرت آدم علیہ السلام کو جنت میں رکھ کر ایک (محبت میں کی گئی) غلطی کے باعث جنت سے نکالاگیا۔ آدم و حوا نے توبہ کی،رب کا منصوبہ شاید یہی تھا کہ انسان احساسِ ندامت اور توبہ کا طریقہ دنیا میں ساتھ لے کرجائے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو ایک راستہ دکھا دیا۔ اس کی فطرت میں توبہ کی جبلت اسی طرح رکھ دی گئی جس طرح غلطی انسان کی فطرت میں موجود ہے۔
اگر عمومی زندگی پر غور کیا جائے تو اس توبہ کی مثالیں جابجا ہمیں اپنے ارد گرد ملتی ہیں۔ مثلاً آپ کا بچہ قصور کرتا ہے ، اگر اس پر اکڑتا اور بے پروائی کرتا ہے، آپ کا غصہ بڑھتا ہے ، لیکن اگر آپ کے سامنے آتا اور معافی طلب کرتا ہے، ڈر کے مارے ہانپتا ،کانپتا، روتا، آنسو بہاتا، اپنی کمزوری کا احساس دلاتا ہے، آپ کا دل بخود بھر آتا ہے ،آپ معاف کرتے ،چمکارتے اور کلیجہ سے لگاتے ہیں۔ وہ مالک تو ہزاروں ماؤں سے زیادہ مہربان۔اور انسان کوخود توبہ کا حکم دیتاہے:
تُوبُوۤا اِلَی اللّٰہِ (التحریم:8) "خدا کے دربار میں توبہ کرو۔”
پھر یقین دلاتا ہے کہ توبہ و استغفارکے سبب ان کو عذاب نہ دیا جائے گا ۔
وَمَاکَان اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:33)”اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نہ کرے گا جبکہ وہ استغفار کرتے(گناہوں پر مغفرت چاہتے) رہیں ۔”
نہ صرف مغفرت کردے گا بلکہ اس مضطرب و بے چین دل کی ہر پکار پر محبت بھرا جواب اور اس کی فریاد رسی کرتاہے۔
اَمَّن یُّجِیْبُ المضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (النمل:63)
"کون ہے جو بے چین کی پکار پر اسے جواب دیتا ہے ۔”
توبہ کب کرنی چاہئے؟
توبہ کا احساس اور اس کی توفیق رب کی خاص عطا ہے۔اس لئے جب انسان کے دل میں یہ احساس پیدا ہو اسی وقت توبہ کرلینی چاہئے۔ انسان مستقبل میں کرنے کی آس میں اگر وقت گزارے گا تو و ہ وقت کبھی نہیں آتا۔
ظا لم ابھی ہے فرصتِ توبہ نہ دیر کر
وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا
شیطان مختلف انداز ،اطوار،احوال،حیلوں،چالوں، عیاریوں، دھوکوں سے انسان کے گرد دائرہ تنگ کرکے اس کے لئے گناہ کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ گناہوں سے نفرت ختم کردیتا ہے، اسے باورکرادیتاہے چاہے جتنے مرضی گناہ کرلو وہ توبہ کرنے سے معاف تو ہو ہی جائیں گے۔ اپنے ان وساوس سے اس کے قلب میں راہ پالیتاہے، نرم گوشہ پیدا کرلیتا ہے کہ آخر میں توبہ کرنے سے رحمت الہی کی وسعت اور مغفرت کی چادر اس کے گناہوں کو ڈھانپ لے گی ۔ اس کی نگاہیں رحمت الٰہی کی اس تابانی کے ساتھ چمکنے لگتی ہیں اور گناہ کی ہیبت ، ہولناکی، خطرناکی اس چمک (التباس) کے پیچھے اوجھل ہو کر رہ جاتی ہے!
شیطان کا یہ وار انسان پربہت کاری ہوتا ہے۔ شیطان غافل انسان کو کھلے عام گناہ پر مائل کرلیتا ہےاور کبر وغرورمیں مبتلا کردیتا ہے۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص کہے کہ میں گناہ کرکے توبہ کرلوں گا۔
ایک بات ذہن میں رہے کہ غفلت سے کئے گناہ پر توبہ کی توفیق مل جاتی ہے لیکن تکبر سے کئے گناہ پر توبہ کی توفیق نہیں ہوتی۔توبہ کرتے وقت اگر دل میں برائی سے نفرت موجود نہیں یا پھر خواہش گناہ موجود ہے تو توبہ ہوئی ہی نہیں۔وقتِ توبہ برائی سے نفرت ہونا اور دل میں عزم کہ آئندہ کبھی نہ کروں گا توبہ کا جزو لازم ہے۔اگر بعد میں پھر غفلت و شہوت کی بنا پرگناہ مبتلا ہوگیا تو پھر فورا توبہ کرلے۔ اسی طرح وہ عبادات،نمازیں، عمرہ وحج ، جس میں پیش نظر حکمت یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کو ختم کرنے کے لئے کررہا ہوں آئندہ ابھی نہ توبہ ہے نہ ہی توبہ کا ارادہ ہے تو پھر جان لیں کہ ایسی عبادات سے پچھلے گناہ ختم ہوئے ہی نہیں۔
توبہ کیسے کی جاتی ہے؟
امام شرف الدین یحییٰ نووی فرماتے ہیں: اگر گناہ کا تعلق اللہ اور بندے کے درمیان ہے، کسی آدمی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے تو توبہ کی تین شرطیں ہیں:
شرائط توبہ(حقوق اللہ)
اول : گناہ سے باز آجائے
دوم : سچے دل سے اپنے فعل پرنادم ہو
سوم: وہ یہ عزم کرے کہ گناہ کی طرف کبھی نہ پلٹے گا۔
شرائط توبہ (حقوق العباد )
اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو اس کی چار شرطیں ہیں: تین تو وہی جو اوپر بیان کی گئیں اور چہارم : جس کے خلاف جرم کیا ہواس سے معاف کروائے، اگر مال لیا ہو تو اس کو واپس کرے، اگر تہمت،بہتان اورافتراء باندھا ہو جس سے کوئی سزا اس پرواجب ہوتی ہے تواس کو موقع دے یا معاف کرائے یا غیبت کی ہے، تو اس سے معاملہ صاف کرلے، اگران شرائط میں سے کوئی فوت ہوگئی تو توبہ صحیح نہیں ہے۔ (ریاض الصالحین، ص:11)
توبہ و استغفار میں فرق
اول:استغفار کا مطلب ہے گناہ سے معافی مانگنالیکن گناہ کوچھوڑ کر،اس پر اظہار ندامت کرکے،مغفرت طلب کرکے نیکی، اطاعت اور تقویٰ کی طرف پلٹ جانے کو توبہ کہتے ہیں۔
دوم:انسان مغفرت طلب کسی کے لئے بھی کرسکتاہے لیکن توبہ صرف اپنی جانب سے ہی کرتاہے۔
سوم: استغفار کی قبولیت سے صرف گناہوں کی مغفرت ہوتی ہے لیکن توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہونے پر بعض اوقات اس کے سابقہ گناہ بھی نیکیوں سے بدل دیئے جاتے ہیں ۔ انسان گناہوں کے انبار لگادیتا ہے لیکن آخر صدق دل سے توبہ کرلے ، توبہ نصوح کرلے تو اللہ اس کی توبہ کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے اس کے گناہوں کو نیکیوں کو بدل دیتاہے۔عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:إِنَّ اللَّهَ لَيَنْفَعُ الْعَبْدَ بِالذَّنْبِ يُذْنِبُهُ (مسند الشهاب:1095)حضرت ابن عمر حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک اللہ رب العزت انسان کو گناہوں کے بدلہ میں جو اس نے گناہ کیے نفع دیتاہے۔
یعنی وہ افعال ( گناہ) جواللہ رب العزت کی ناراضگی کا سبب تھے ،رزق،مال،صحت کی تباہی کا باعث تھے وہ بھی انسان کے لئے دنیا و آخرت میں نفع بخش بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہیں۔شاید اس ہی نفع کو دیکھتے ہوئے جناب اکبر الہ آبادی نے یہ شعر کہا ہوگا:
گناہگاروں نے دیکھا جمال رحمت کو
کہاں نصیب یہ ہوتا جو بے خطا ہوتے
ایک ہی گناہ سے توبہ کتنی دفعہ کی جاسکتی ہے
بسا اوقات انسان اخلاص نیت وعزم صمیم سے توبہ کرتا ہے کہ اب یہ گناہ دوبارہ نہیں کروں گا۔ لیکن نشہ باز کی طرح جس کو نشہ کی شدید طلب محسوس ہواس لمحہ وہ اپنی انا،وقار،سماجی حیثیت،علمی قابلیت،شہرت،عزت ،آبرو،پر غور نہیں کرتا ،بلکہ سب کچھ داؤ پر لگا کر اس کا مطمح نظر صرف اورصرف نشہ ہوتاہے۔اس کے لئے وہ یہ سب چیزیں قربان کرنے پر تیار ہوجاتاہے۔ اسی طرح گناہوں میں مبتلا انسان جب دوبارہ اس ماحول میں جاتا ہے ،یا اسے گناہ کے لئے سازگار حالات مل جائیں تو غفلت اور نفسانی جذبات کے سبب اس گناہ سے دوبارہ دوچار ہوجاتاہے۔بقول جلیلؔ مانک پوری
بات ساقی کی نہ ٹالی جائے گی
کر کے توبہ توڑ ڈالی جائے گی
ایسی صورت میں جیسے ہی ندامت ہو،توبہ کی طرف دل مائل ہو فوراً کرلینی چاہئے ۔ کیونکہ جب تک سانسوں کی مالا قائم ہے تو حضورﷺ کے فرمان جلیل کے مطابق بندے اور عبد کی توبہ کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا۔
إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِر(سنن الترمذی:3537) کہ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے۔
لہذا گناہوں کی تو کوئی حد ہوسکتی ہے لیکن توبہ کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی سرحد۔نہ ہی یہ کسی عدد میں مقید ہے ۔ہاں شیطان ضرور یہ دھوکہ دیتا ہے کہ اب توبہ قبول نہیں ہوگی۔ اور جب وہ ناامید و مایوس ہوجاتاہے تو اسے اکساتا ہے کہ جس قدر گناہ کرسکتے ہو کرلو۔ لیکن جب تک زندگی کی سانسیں قائم ہیں انسان سچائی،دیانت داری،اخلاص ،ندامت کے ساتھ جتنی دفعہ بھی توبہ کرے اللہ رب العزت اس کی توبہ قبول کرتاہے۔
مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ، وَإِنْ عَادَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةٍ(سنن ابی داؤد: 1514)
وہ شخص (گناہوں پر) اصرار کرنے والا (ضدی ) نہیں جو مغفرت طلب کرے اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ(غلطی سے) پلٹ کر گناہ کا ارتکاب کرلے۔
بعض اوقات انسان صدق دل وصمیم قلب سے توبہ اورگناہ چھوڑنے کا عزم مصمم کرنے کے بعد کہ اگر اس گناہ کا موقع ملا پھر بھی اس میں مبتلا نہ ہوں گا۔لیکن شومئ قسمت خود کو آزمانے کے لئے اس یقین کے ساتھ گناہ کے قریب جاتاہےکہ اب تومیں اس میں کبھی بھی مبتلا نہ ہوں گا۔لیکن جب وہ گناہ کی حدود کے قریب جاتا ہے تولغزش قدم سے وہ اس کی سرحدوں میں داخل ہوجاتاہے۔اوراس میں مبتلا ہوجاتاہے اوربعد میں کف افسوس ملتا رہتاہے۔اس لئے انسان پر لازم ہے کہ وہ گناہ سے بچے اور اس کے قریب لے جانے والے امور سے بھی بچے۔ امام شرف الدین یحییٰ نووی فرماتے ہیں:
” اور جان لو کہ ہر حرام کردہ چیز کا حدود اربعہ ہے، جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ (جو اس گناہ کے سبب حرام ہے) جیسا کہ اجنبیہ سے خلوت(تنہائی) فعل حرام(زنا) کے سبب حرام ہے ۔ ہر شخص پر لازم ہے وہ حرام سے بچے اور اس کی حدود سے بھی دور رہے۔پس حرام بنفسہ ممنوع (حرام لعینہٖ)ہے اور اس کی حدود میں داخل ہونا اس لئے حرام ہے کہ وہ بتدریج حرام میں مبتلا کردیتاہے۔”(شرح اربعین نوویہ،ص40)
کیا ندامت جسمانی صحت کےلئے نقصان دہ ہے؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلش گناہ صحت کے لئے نقصان دہ ہے ۔اس سے بچنا چاہئے!
یہ قطعاً نقصان دہ نہیں کیونکہ اگر کہیں کوئی فساد وبگاڑ پیدا ہو اوراس کے باوجود درد نہ ہو یا درد کو دبانے کے لئے پین کلر استعمال کی جائے یہ نقصان دہ عمل ہے نہ کہ درد۔درد کو دبانا یا پین کلر کھانا نقصان دہ ہے درد کا ہونا نقصان دہ نہیں بلکہ وہ جونقصان ہوچکا ہو درد اس کا اعلان ہے۔اصل جسم کی اصلاح کی جانی چاہئے۔اگر کسی شخص کو درد کا احساس ہی نہ ہو تو اسے ایب نارمل خیال کیا جائے گا اوراس کا علاج کیا جانا چاہئے وہ اعضاء چیختے چلاتے ہیں کہ ان کی قوت سے بڑھ کر کام لیاگیا ہے غلط طریقے سے کام لیا گیا ہے۔ ایسے میں اس بگاڑ کی اصلاح کی کوشش کی جانی چاہئے نہ کہ اسے ماؤف یا سن کر کے خاموش کردینا چاہئے جو بہت جلد بہت بڑے نقصان میں تبدیل ہوجائے گا۔
لہذاگناہ صحت کے لئے نقصان دہ ہے خلش گناہ نہیں۔جب انسان جان بوجھ کر کوئی گناہ کرنا چاہتا ہوتوگناہ کی منصوبہ بندی سے لے کر اس کے کرنے تک فطری طور پر دل میں ایک عجیب قسم کی گھبراہٹ اور بے چینی اضطراب گھٹن رہتی ہے جو اسے گناہ کرنے سے روکنے میں معاون بنتی ہے۔ اگراس گھبراہٹ اور خوف خدا کے سبب آخری وقت اس سے رک جائے تو اس کے دل میں ایک گونہ گو مسرت کی کیفیت پیداہوتی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتاہے۔جو صحت افزا کیفیت ہے۔
امت محمدیہ ﷺ پر فضل:
پہلی امتوں کے لئے توبہ کرنا بھی اس قدر آسان نہ تھا بلکہ انہیں گناہوں کی مناسبت سے دنیا میں بھی سزا بھگتنی پڑتی ۔مثلاًخود کو قتل کرنا پڑتا،آنکھیں نکالنی پڑتی،کپڑا کاٹ کر پھینکنا پڑتا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو رب ذوالجلال کا فضل عظیم ہے کہ اس امت کے لئے اس قدر آسانیاں پیدا کردیں۔ تاکہ بندہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ محسوس کرے۔
توبہ کی برکات
توبہ کی برکت سے اللہ رب العزت انسان کے تمام گناہوں کو یکسر مٹادیتا ہےاور وہ دوبارہ سے اس شخص کی مانند ہوجاتاہے جس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔سنن ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ(سنن ابن ماجہ:4250)
گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی جیسا کہ اس کا کوئی گناہ نہ ہو۔
اس حدیث مبارکہ کے مفہوم کو والد ماجد جناب ابوعلی محمدرمضان ؒ نے اپنے اشعار میں کچھ یوں پیش کیاہے:
توبہ کی ہوگئی جسے توفیق دوستو
ارشاد ہے نبی(ﷺ) کا ذرا غور سے سنو
اس کے تمام کردہ گناہ ہوگئے ہیں معاف
جیسا وہ بے گناہ تھا ویسا ہوا وہ صاف
تائب کے لئے ایک ایسا مقام بھی آتاہے جب رب بھی اس سے محبت کرتاہے۔اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ(البقرۃ:222)
بیشک اللہ رب العزت توبہ کرنے والوں سے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتاہے۔
آخری بات:
کیا اب بھی ہمارے لئے وقت نہیں آیا کہ ہم اپنی سیاہ کاریوں سے توبہ کریں۔کیا ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جب موت اچانک آن دبوچے گی پھر وہ ایک لمحہ بھی موخر نہ ہوگی اور اس کے آتے ہی توبہ کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے۔ اس لمحہ کے آنے سے پہلے توبہ کرلو ایسا نہ ہو تاخیر ہوجائے اور کف افسوس ملنے کی بھی موقعہ نہ مل سکے۔
لہذا ابھی توبہ کرلیں اور اگرممکن ہو نبی کریم ﷺ کےروضہ اطہر پر حاضر ہو کر اپنے ہاتھوں کو توبہ و دعا کے لئے بلند کریں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جہاں بھی ہوں وہیں اپنے رب کے حضور سربسجود ہوکر اپنے گناہوں سے نادم ہوں اور رب کی طرف رجوع کریں۔انشاء اللہ ہم رب کو توبہ قبول کرنے والا پائیں گے۔
وَلَو اَنَّھُم اِذ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَاؤُ وْ کَ فَاسْتَغْفِرُوْ اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا ط (النساء:64)”یا رسول اللہ) وہ لوگ اپنی جانوں پر کتنے ہی ظلم کیوں نہ کریں ، آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں اللہ سے بخشش طلب کریں اور رسول اللہﷺ بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں ، یقینا ًاللہ کو توبہ قبول کرنے والا ور رحم کرنے والا پائیں گے۔”
پھر انشاء اللہ العزیز دنیا و آخرت میں ہم سرخرو و کامیاب و کامران ہوں گے۔آخر میں والد محترم ابوعلی محمد رمضان علیہ الرحمہ کے دوشعر :
مولیٰ تیرے عذاب کا ڈر تھا مفرنہ تھا
تھا تجھ سے شرم سار کوئی چارہ گرنہ تھا
رحمٰن ہے تورحیم ہے توذوالجلال ہے
اک مغفرت کا رحم سے تیرے سوال ہے