محمد دانش غنی کی شعر فہمی اور تنقیدی بصیرت
” شعر کے پردے میں “ کے حوالے سے
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی
صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ ڈگری
کالج، سدی پیٹ (تلنگانہ)
ڈاکٹر محمد دانش غنی کے تنقیدی، تحقیقی مضامین اور چند ناقدانہ مکتوب کا مجموعہ ”شعر کے پردے میں“ حال میں ہی چھپ کر منظرِ نام پر آیا ہے۔ بنیادی طور پر اس کتاب کا موضوع تنقید و تحقیق ہے جن کا آپس میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔
تحقیق ہو یا تنقید دونوں کسی ادبی تحلیق کی اہمیت، افادیت اور مونوعیت کو نمایاں کرنے کی خدمت دیتی ہیں۔ دونوں کا سفر بڑی حد تک شانہ بہ شانہ چلتا ہے۔ دونوں دیانت، لگن، محنت، ہمدردی اور توجہ کی طالب ہوتی ہیں۔ تحقیق کی بنا تنقید اور تنقید کی بنا تخلیق نا مکمل ہوتی ہے۔ محقق کے اندر تنقیدی شعور کا پایا جانا لازمی ہے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کے الفاظ میں:
”تخلیق ایک پیکر تراشی ہے اور تحقیق اس کے مواد سے بحث کرتی ہے اور تنقید اس پیکر کی اچھائی برائی کا اظہار کرتی ہے۔“
ڈاکٹر محمد دانش غنی کی شخصیت میں یہ دونوں عناصر رچ بس گئے ہیں اور ان کی شخصیت کا جزو بن گئے ہیں۔ انھوں نے بڑے سلیقہ سے ہم دردی، دیانت، لگن، محنت، ہمدردی، توجہ خلوص اور ذوق و شوق کے ساتھ تنقید و تحقیق کے گل بوٹے کھالئے ہیں اور ادب کے شائقین و مسافرین کے لیے روحانی مسرت و بصیرت اور فکر و نظر کی تازگی کا توشہ تیار کیا ہے۔
بہ حیثیت تنقید نگار محمد دانش غنی کا پلہ زیادہ بھاری معلوم ہوتا ہے۔ ان کا دل کش تنقیدی اسلوب، فنی پرکھ اور جمالیاتی و تاثراتی طرز ان کو مستقبل کا ایک بڑا ناقد بننے کا اشارہ کرتا ہے۔
محمد دانش غنی نے الطاف حسین حالی، محسن کاکوروی، محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور ساحر لدھیانوی جیسے معمارانِ ادب کی شاعری پر بصیرت افروز ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔ ان کے ساتھ ہی ریاستِ مہاراشٹر کے استاد شعرا جیسے غنی اعجاز، بشر نواز، خضر ناگپوری، قاضی فراز احمد اور شریف احمد شریف کی شاعری کو اپنے تنقیدی اظہار کا موضوع بنایا ہے۔ ان کے علاوہ مہاراشٹر کے اہم با حیات شعرا میں شمیم طارق، ساحر شیوی، نذیر فتح پوری، ظفر کلیم، شکیب غوثی، سعید کنول اور تاج الدین شاہد کی شاعری پر نقد و تبصرہ کرکے ان کے کلام کو استناد و اعتبار عطا کیا ہے۔ جب کہ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے علامہ اقبال، حیدر بیابانی اور اقبال سالک کی نظموں کا غائرانہ جائزہ لیا ہے۔
دبستانِ تنقید میں نفسیاتی تنقید کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ نقاد فن کار کی زندگی کے خارجی واقعات اور نجی زندگی کے واقعات تک رسائی حاصل کرے اور ان کا نفسیاتی تجزیہ کرکے تخلیقات کا مطالعہ کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب تنقید نگار فن کار کی شخصیت اور اس کی نجی زندگی سے اچھی طرح واقف ہو۔ اس اصول کے پیشِ نظر محمد دانش غنی نے اپنی ریاست کے اہم شعرا کے کلام پر تنقید و تجزیہ کرکے ان کی رہنمائی اور ان کے مقام کا تعین کیا ہے۔غنی اعجاز کے بارے میں محمد دانش غنی کے تنقیدی بیان سے شاعر اور نقاد دونوں کی خوبیاں نکھر کر سامنے آتی ہیں:
”غنی اعجازؔ کی غزل کا افق بہت بلند اور وسیع ہے اور ان کی تجربات میں سرشاری کے ساتھ گہرائی بھی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے فکر و ادراک سے ایک نئے تغزل کی بازیافت کی جس میں زندگی کے متنوع تجربات اور مشاہدات کو سمویا گیا ہے۔ لہذا ان کے یہاں معنوی آہنگ اور غنائیت جیسی خوبیاں پیدا ہوئیں جن سے ان کی غزل نرم و لطیف اور نازک خیالات کی ترجمان بن گئی ہے۔“
(شعر کے پردے میں، صفحہ نمبر ۲۹)
بشرؔ نواز ایک ایسے جدید شاعر ہیں جن کی شعری فکر جہاں کلاسیکی روایات سے تعلق رکھتی ہے وہیں نئی اقدار سے بھی ہم آہنگ ہے۔ ان کے یہاں روایت و جدت کا یہ سنگم مفاہیم کی نئی نئی تصویروں اور معانی کی نئی نئی جہات کو روشن کرتا ہے۔ محمد دانش غنی نے ”بشر نواز کے شعری پیکر“ کا جائزہ لیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا:
”بشرؔ نواز نے شعری پیکر کا استعمال محض لسانی خوبصورتی اور شاعرانہ فنکاری کے اظہار کے لیے نہیں کیا بلکہ انسان زندگی اور کائنات کے اسرار کو ایک تخلیق کار کی حیثیت سے ڈھونڈنے کے لیے کیا ہے۔ چنانچہ ان کے تجربات و مشاہدات پر چھائی ہوئی کیفیت ان کے فکر، اسلوب، شعری تنوع، حسن و جمال، تازگی اور معنویت میں اضافہ کرتی ہے۔“ (شعر کے پردے میں، صفحہ نمبر ۸۹)
جب کہ خضر ناگپوری کے کلام کا زبان و بیان اور موضوعات کے انتخاب کا جائزہ لیتے ہوئے اسلوبیاتی انداز میں بہترین محاکمہ کیا ہے:
”میں نے شروع میں خضرؔ ناگپوری کوجدیدیت کی اولین آوازوں میں شمار کیا ہے لیکن وہ شاہدؔ کبیر،مدحتؔ الاختر اور عبدالرحیم نشترؔ کی طرح کے جدید شاعر نہیں ہیں۔ ان کی غزلوں میں ان کی زبان ہی انہیں جدید شاعر ٹھہرانے کا جواز بنتی ہے۔ وہ اصلاً زبان کے شاعر ہیں۔ ان کے یہاں داغؔ کے اتباع میں زبان کا استعمال دکھائی دیتا ہے مگر ان کے موضوعات اور زبان کے بامحاورہ اور برجستہ چبھتے ہوئے اظہارات ان کی شاعری کو جدید لب و لہجے سے قریب کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور اسی طرح وہ جدیدشاعری کی اولین آوازوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔“ (شعر کے پردے میں، صفحہ نمبر ۳۰۱)
اسی طرح قاضی فراز احمد، شریف احمد شریف، شمیم طارق، ساحر شیوی، نذیر فتح پوری، ظفر کلیم، شکیب غوثی، حیدر بیابانی، سعید کنول، تاج الدین شاہد اور اقبال سالک کے شعری محاسن اور فنی خوبیوں کا خلوصِ دل سے شگفتہ اندازِ نقد میں اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔
تحقیق کے زمرہ میں تین اہم مقالات شامل ہیں۔ کوکن کے اردو لوک گیت، ودربھ میں جدید اردو غزل اور رتناگری کی شعری روایت۔ ان عنوانات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ محمد دانش غنی نے اپنے علاقہ کی ادبی تاریخ اور شعری روایات کو محفوظ و متعارف کرانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ انھوں نے کوکن کے اردو لاک گیتوں میں دکنی اور کوکنی بولیوں کی آمیزش کا اظہار کیا ہے۔ حیدر آؓاد اور دکن کے علاقوں میں آج بھی ڈھولک کے گیت بہت مقبول ہیں۔ محمد دانش غنی نے کوکن کے بہت سے لوک گیتوں کا متعارف کرایا ہے اور انھیں محفوظ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ ذمہ داری خود قبول کریں اور اپنے گھر والے اور طالبات کی مدد سے اس پروجیکٹ کی تکمیل کریں۔
اس کتاب میں شامل مکتوبات تنقیدی و اصلاحی نوعیت کے ہیں جو موقر ماہنامہ آج کل اور روزنامہ انقلاب کے مدیران کے نام لکھے گئے ہیں۔ یہ مکتوبات جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ نصیحت اور خلوص پر مبنی ہیں۔ محمد دانش غنی کے صرف دو خطوط ملاحظہ کیجیے:
”آپ کی توجہ منور رانا کی غزل کی طرف کرانا چاہتا ہوں۔
’اپنے بازو پہ مقدس سی اک آیت باندھے‘
جن گھروں میں امامِ ضامن باندھنے کا دستور ہے وہاں قرآنِ پاک کی کوئی آیت لکھ کر بازو پر باندھ دی جاتی ہے اور پڑھی بھی جاتی ہے۔ آیت اور غیر آیت یا مقدس اور غیر مقدس کے درمیان ”آیت سی“ یا ”مقدس سی“ کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر آیت مقدس ہوتی ہے۔ ”مقدس سی“ کہنے سے آیت کا تقدس پامال ہوتا ہے۔
’زنا زادے‘ اور ’دستارِ فضیلت‘ کی نسبت بھی افسوس ناک ہے۔ ”جو کھڑے رہتے ہیں درباروں میں نیت باندھے“ کا اطلاق خود منور رانا پر ہوتا ہے۔ ان کے بیانات لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ مجھے تسلیم ہے کہ سخن ناشناس ہجوم میں منور رانا کو بہت داد ملے گی مگر ایسے مصرعوں اور شعروں کی جو ضرب شاعری کے ستھرے ذوق کے علاوہ عقیدے پر پڑتی ہے اس کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی دونوں غزلیں ہجومی تشدد کے زمرے میں رکھی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔ میں آپ کا اور ’آج کل‘ کا مداح ہوں۔ ’چڈی پہن کر پھول کھلا ہے‘ جیسی شاعری کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے اس لیے میں نے چند سطور لکھ دیئے۔ مجھے منور رانا سے کوئی کد نہیں ہے۔“
(مدیر ماہنامہ آج کل نئی دہلی کے نام، صفحہ نمبر ۳۳۲)
۰۰۰۰۰
”ایک مختصر عرصہ چھوڑ کر میں پانچ سال کی عمر سے کوکن میں ہوں۔ اس لیے کوکن اور اہلیانِ کوکن سے میرا جذباتی لگاؤ فطری ہے۔ ۲ / ستمبر کے انقلاب میں رتناگری کے شاعر اور میرے بزرگ دوست رفیق وستا کی غزل دیکھی تو بڑی مسرت ہوئی مگر پڑھی تو احساس ہوا کہ زبان کے رموز و نکات سمجھنے والے کئی لوگ کوکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ساحر شیوی، پروفیسر یونس اگاسکر، انجم عباسی وغیرہ۔ رفیق وستا اگر اپنی غزل ان میں سے کسی کو اصلاح کی غرض سے دکھا لیتے تو زبان کا عیب دور ہوجاتا۔ مطلع ہے ؎
میں کہاں ہوں، ادھر ادھر ہوں میں
باوجود اس کے معتبر ہوں
’میں کہاں ہوں‘ سوال ہے۔ ’ادھر ادھر ہوں‘ جواب ہے۔ اس سوال جواب کا معتبر اور غیر معتبر ہونے سے کیا تعلق ہے؟ بکھرا ہوا وجود بھی معتبر ہوسکتا ہے۔ مثلاً خوشبو، چاندنی۔ ایک دوسرا شعر ہے ؎
آپ کی فہم پر جو کھل جاتا
سہل اتنا کہاں مگر ہوں میں
فہم میں آنا زبان ہے۔ فہم پر کھلنا فصاحت کے منافی ہے۔ اسی طرح دوسرے مصرعہ میں ’کہاں‘ اور ’مگر‘ کا بیک وقت استعمال معنی اور شعریت دونوں کا خون کر دیتا ہے۔
مطلع اور مقطع دونوں میں اپنے لیے معتبر کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ’میں‘کی قید میں ہے۔ تعلی بری بات نہیں مگر ’میں‘ کی قید میں ہونا اور تعلی سے کام لینا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ میری دعا ہے کہ رفیق وستا ’میں‘ کی قید سے نجات پائیں۔“ (مدیرروزنامہ انقلاب ممبئی کے نام، صفحہ نمبر ۵۳۲)
ان مکتوبات سے بھی محمد دانش غنی کی شعر فہمی اور تنقیدی بصیرت عیاں ہوتی ہیں۔
غرض یہ کتاب محمد دانش غنی کے تنقیدی و تحقیقی شعور، بصیرت، سلیقہ مندی، ذہانت فصاحت، شگفتہ، ششہ و معتدل طرزِ اظہار کے ساتھ نفسیاتی، اسلوبیاتی تاثراتی اور جمالیاتی تنقید کا عمدہ و اچھوتا نمونہ ہے۔ بلا شبہ اسے تنقیدی ادب کی مختصر و منتخب تاریخ کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔
—–
Dr. Syyed Asrar-ul-Haque Sabeli
Dept. of Urdu
Govt. Degree College,
Siddipet (Telangana)
Mobile No. 9346651710