مولانا محمد سراج الحسن کی یاد میں
مولانا مفتی محبوب شریف نظامی
صدر رحمت سوسائٹی
ونائب صدر وفاق العلماء تلنگانہ، و اڑیسہ
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
حضرت مولانا محمد سراج الحسن کی ولادت 03-03-1933سمستان گرکنٹہ، ضلع رائچور، تعلقہ لنگ سور، ریاست حیدرآباد دکن ہوی۔
ابتدائی تعلیم جولگرہ تعلقہ سندھ نور اور ثانوی تعلیم رائچور میں۔ 1948ء پولیس ایکشن اور گھریلو حالات کی ناسازگاری کی وجہ اعلی تعلیم نہ پاسکے۔ جولگرہ تعلقہ سندھنور جو راجہ کا سمستان تھاوہی آپکے والد کا وطن تھا آپکے والد بزرگوار محمد ابوالحسن صاحب اس علاقہ کے بہت بڑے ساہوکار تھے اُس زمانے میں جبکہ موٹروں کا چلن نہیں تھا والد ماجد موٹر نشین تھے راجہ کے دربار میں قدر و منزلت سے دیکھے جاتے تھے۔ راجہ کی موروثی جائدادیں جسکا حصول راجہ کیلئے مشکل تھا اپنی پیروکاری اور زرکثیر سے راجہ کے حق میں بحال کروادیئے۔ راجہ خود بھی ابوالحسن صاحب کا زیر احسان تھا اور آپ کے مکان کو آیا کرتا تھا۔ والدہ ماجدہ بھی گرکنٹہ سمستان کے معزز گھرانے کی خاتون تھیں جنکے والد سمستان کے مشہور اور ذی اثر وکیل تھے۔ والد والدہ دونوں طرف سے آپ کا گھرانہ ضلع رائچور کا خوش حال اور ذی اثر گھرانہ تھا مہمانوں کی آمد و رفت رہتی ضرورت مند اور حاجتمند بلا مذہب و ملت گھیرے رہتے۔ یہاں آکر بغیر کھائے پئے جانا روایات و رواداری کے خلاف سمجھا جاتا۔ رواداری کا یہ حال تھا کہ مدعی خود مدّعی علیہ کو اپنی موٹر میں رائچور لیجاتا۔ مقدمات کی لڑائی اپنی جگہ مگر رواداری کی پاسداری بھی اپنی جگہ باقی رہتی والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ ہی بڑی زراعت و وسیع کاروبار سنبھالے رہیں ایسے میں 1948ء پولیس ایکشن ہوا مہاراشٹرا کے وہ اضلاع جو ریاست حیدرآباد میں شامل تھے فوج اور فسطائی طاقتوں کے نشانہ بنے وہیں کرناٹک کے وہ اضلاع بھی جو ریاست کی سرحد پر تھے ظلم و ستم کی چکی میں پسے۔ راجہ کی جائدادوں کی بحالی کیلئے جو ایک لاکھ روپئے خرچ ہوئے تھے اُسکے حصول کیلئے کوشش کیگئی اسکے باوجود رقم حاصل نہ ہو سکی تو مقدمہ عدالت میں دائر کیا گیا ایسے میں پولیس ایکشن کا سانحہ درپیش ہوا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے راجہ کے لوگوں نے مولانا کا گھر بھی لوٹا، گھر کو لوٹنے کے لئے جب لوگ آئے تین دن تک محافظ کتا کسی کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا رہا تین دن کے بعد گھر کے ملازم سے کسی طرح کتے پر قابو حاصل ہوا جب کہیں لوٹ شروع ہوئی ان حالات میں مولانا رائچور منتقل ہوگئے۔ بعض حاسدین و معاندین نے خود مولانا پر بھی کئی مقدمات دائر کردئے اور مولانانے روپوشی اختیار کرلی۔
اُن دنوں مولانا کی مشغولیت دینی کتب کا مطالعہ بالخصوص علامہ شبلی اور مولانا سلیمان ندوی کی سیر ت النبیؐ کے چھ جلدیں بڑی گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا۔ اسیطرح مولانا تھانویؒ کی کتب بھی زیر مطالعہ رہیں۔ مولانا کے اخلاق و کردار سے شریف النفس لوگ بے حد متاثر تھے انہوں نے مولانا کے اخلاق و کردار کی عدالت میں گواہی دی مقدمات خارج کردئے گئے۔ مولانا نے اصلاح المسلمین کے نام سے ایک تنظیم قائم کر کے اصلاح معاشرہ کا کام کرنے لگے۔ محترم مولانا جعفر منیار رکن جماعت اسلامی ضلع رائچور سے ربط و تعلق کے نتیجہ میں مولانا مودودیؒ کا لٹریچر کا مطالعہ بھی بڑی گہرائی سے کیا، دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی تمام کتب بھی خریدیں۔1951ء میں جماعت سے متعارف ہوئے 1952میں ہمدردوں میں شامل ہوئے نیز شہر کے ناظم مقرر ہوئے،اسطرح تحریکی کاموں میں سرگرم ہوگئے۔ 1957میں رکنیت منظور ہوئی اُسی سال درسگاہ اسلامی رامپور کے طرز پر جول گرہ میں ہمہ وقتی دینی مدرسہ کے قیام کا ارادہ ہوا، اس ضمن میں مولانا احمد محی الدین صاحب نظامی سے ربط پیدا کر کے عملی جامہ پہنایا اور آپکو تدریس و تنظیم مدرسہ کا ذمہ دار بنایا مولانا نظامی مولانا سراج صاحب کے خلوص و محبت کی وجہ 23سال مدرسہ کا نظم سنبھالے رہے۔
1958ء حج و زیارت النبی ﷺ سے مشرف ہوئے۔والد مرحوم کی زرعی وغیر زرعی جائدادوں کو دین کی خدمت کے لئے ورثاء میں شرعی طریقہ پر تقسیم کردیا۔ تحریکی کاموں میں رکاوٹ محسوس کرتے ہوئے عدالت میں زیر دوراں ساہوکاری کھاتے کے ایک لاکھ روپئے کے قرض اور ایک مکان کے مقدمہ سے دستبردار ہوگئے اور اس ضمن کے سارے کاغذات کو پھاڑ کر پھینک دیا تاکہ آئندہ اس کا خیال تک نہ آئے، اور جو کچھ ساھوکاری کھاتے میں وصول طلب تھا سب کو معاف کردیا۔ 1958ء میں حج سے واپسی کے بعد سے 1984ء تک امیر حلقہ کرناٹک و گوار ہے۔جس وقت آپ امیر حلقہ بنے پورے حلقہ میں صرف چار ارکان تھے بنگلور میں 2 اور میسورمیں 2 اور اب الحمدللہ تقریباً 1000ہیں۔ 1984ء مرکزی شوری کے فیصلہ پر سکریٹری جماعت کے عہدے پر فائز ہوئے 1988ء تک اس عہدے پر رہے اور ہندوستان بھر کا آپ نے دورہ کیا۔ 1990ء جماعتِ اسلامی ہند کے امیر منتخب ہوئے، تین میقات2003ء تک پورے ہندوستان کی امارت سنبھالے رہے مولانا ابواللیث اصلاحی و ندوی سے آپ نے جائزہ حاصل فرمایا۔اسوقت تک آپ مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر منتخب ہوچکے تھے، بہت عرصہ تک نائب صدر رہے۔مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی کے رکن بھی رہے۔ آپ کے دورِ امارت کی خصوصیات میں اہم خصوصیت یہ ہے کہ داعیانہ فکر و عمل کو بڑھاوا ملا۔ غیر مسلم برادری سے رواداری میں اضافہ ہوا ہندوستان بھر کے اہم انسانی پاسداری کے علمبردار رُشیوں اچاریوں سے تعلقات اُستوار ہوئے اُنکے ساتھ امن و آشنی کیلئے دورے کئے جماعت کی سکریٹری شپ کے دور میں ہندی پر ایسا عبور حاصل ہوا کہ ہندی زبان گویا مادری محسوس ہوتی۔ آپکی ہر تقریر مربوط، انسانیت کے درد سے معمور ذہن و فکر کے زاویوں کو بدلنے والی ہوتی بالخصوص سیرت النبیﷺ کے عنوان پر کیجانے والی تقاریر غیر معمولی موثر ہوتیں۔
ہر بول ترا دل سے ٹکراکے گذرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالیؔ ہے سب سے جدا تیرا
آپکے دور میں ندوۃ العلماء اور دارالعلوم دیوبند سے بہت حد تک دوریاں دور ہوئیں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مولانا سراج الحسن کی ملت کے تئیں دردمندی اور انسانی خیرخواہی سے بہت متاثر تھے اور مولانا سراج الحسن کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے مولانا علی میاں دو دن مولانا کے گھر مہمان بھی رہے۔
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھینچ آتے ہیں ائے واعظ
حقیقت خودکو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی
مولانا کی خصوصیات میں تعلقات کو استوار رکھنا۔ بالخصوص علمائے کرام کا احترام اور خطوط کے ذریعہ خبر گیری بڑی اہم ہے، حیدرآباد تشریف لاتے ہیں تو لازماً مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ اور دیگر علماء سے ضرور ملاقات کرتے ہیں۔ ربیع الاول میں اہل ایمان سیرت النبیﷺ کے جلسوں کا بڑا اہتمام کرتے اور نذرانے دیکر خطاب کیلئے علمائے کو بلاتے آپ بھی اکثر مدعو ہوتے، آپ نے خطاب کیلئے کبھی کوئی ہدیہ قبول نہیں فرمایا۔ آپکی خوش اخلاقی اور دین داری سے اہل سیاست بھی بہت متاثر تھے الیکشن سے پہلے اور بعد بعض یم یل اے، یم پیز آپ سے ملنا ضروری سمجھتے۔ سیاست پر بھی گہری نظر تھی رام کرشنا ہیگڈے چیف منسٹر کرناٹک اور عزیز سیٹھ جیسی شخصیتیں آپکے مشوروں اور ہدایات کا خاص لحاظ رکھتیں، مولانا جب بھی بنگلور جاتے رام کرشنا ہیگڈے آپ سے ملاقات کا متمنی رہتا۔ اللہ نے آپکی للہیت و اخلاص کا بدولت زبان میں تاثیر بھی دی ہے ہزاروں مریض دعا سے شفا پاتے ہیں بچھو کا زہر بھی فوری اتر جاتا ہے۔ بواسیر کا مرض بھی آپکی دعا و دوا سے کم ہوجاتا ہے۔ بقول مولانا قاری طیب قاسمیؒ ”ہندوستان صوفیوں اور سنتوں کی زمین ہے یہاں دین کی دعوت کیلئے وہی طریقے زیادہ موثر ہیں جو صوفیوں سنتوں میں رائج ہیں“ جسکا کچھ پرتو مولانا کی زندگی میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مولانا کو ایک صاحبزادی اور چھ صاحبزادے ہیں صاحبزادوں کے نام یہ ہیں: محمد ابوالمحسن، محمد ابوالحسن، محمد نجم الحسن، ڈاکٹر محمد نجیب الحسن، محمد انوار الحسن، محمد فیض الحسن۔
ایسی عظیم المرتبت شخصیت طویل علالت کے بعد 2/اپریل 2020 بروز جمعرات 6بجے شام اپنے آبائی وطن رائچور میں داعی اجل کو لبیک کہا، افسوس کہ لاڈون کی وجہ سے مختلف ریاستوں کے ہزاروں معتقدین اور متوسلین سراج المت کے آخری سفر میں شریک ہونے سے قاصر رہے، دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا کی دینی ملی خدمات کو قبول فرما کر جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔