کالم : بزمِ درویش
لاک ڈاؤن
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
پو ری دنیا لاک ڈاون کے شکنجے میں کسی ہوئی تھی وطن عزیز پر بھی کرونا کی یلغار اور شروع میں حکومت کی نا اہلی روایتی سستی کی وجہ سے کرونا کی وبا کا دائرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ جب پھیلنے لگا تو مجبوراً صوبہ پنجاب میں بھی دنیا کا کامیاب ترین فارمولا لاک ڈاؤن لگا دیا گیا۔
آج لاک ڈاؤن کو بائیس دن ہو چکے ہیں اور ابھی یہ لاک ڈاؤن مزید بڑھنے کے چانسز بھی ہیں۔ میری گزشتہ دو عشروں کی زندگی شدید مصروفیت میں گزری ہے شادی بیاہ موت کسی بھی جگہ جانا ہوا تو لوگوں نے گھیرے میں لے لیا اوپر سے میرا مزاج بھی جو مجلس دوستوں کی کمپنی کو زیادہ پسند کرنا ہے اوپر سے تھوڑی بہت خدمت خلق روحانی امداد کے متلاشی مریضوں سے روزانہ کی ملاقاتیں یہ رش اتنا زیادہ کہ سالوں پر سال گزرتے گئے مصروفیت کم ہو نے کی بجائے بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ کئی بار جسم آرام نہ ملنے کی وجہ سے بیماری کی زد میں آیا اب جب لاک ڈاؤن ہوا تو پہلے تو میں نے خوب عبادت مراقبہ سانس کی مشقیں چھت پر جاکر کیں‘فطرت کے ساتھ گو شہ نشینی آسمان کا نیلا رنگ چاند ستارے آسمان کی نیلگوں وسعتیں پرندوں کی قطاریں ٹھنڈی فضاؤں کا رومانس کچھ دیر گھر میں ہی ہلکی ورزش کھانا فوری طور پر سبزی خوری والا کہ گھر میں مرغن غذائیں جسم پر اور چربی کی تہیں چھڑا دیں گی دوچار ایسی کتابیں جن کو عرصے سے پڑھنا چاہ رہا تھا لے کر رکھی ہ ئی تھیں لیکن بے پناہ مصروفیت ڈھلتی عمر کم وقت کی وجہ سے پڑھی نہیں جا رہی تھیں اُن کا مطالعہ شروع کیا بچوں کے ساتھ فرداً فرداً بیٹھ کر کمپنی اُن کے مسائل کے حل اور ایک لسٹ ایسی بنائیں وہ دوست اور جاننے والے جن سے کتنے سالوں سے رابطہ نہیں تھا میری مصروفیت کی وجہ سے اگر کسی کا پتہ چلا کہ وہ بیمار ہے یا فلاں مشکل میں تو میں بات نہ کر سکا روزانہ دوتین سے رابطہ کر کے خوب باتیں اُن کے مسائل کے حل اِس کے علاوہ تین چار دوستوں کے تعاون سے راشن اور گھروں میں بیٹھے لوگوں کی مدد تاکہ لوگوں کی زندگی کا دھاگہ ٹوٹ نہ جائے اور سفید پوشی بھی قائم رہے اِس فراغت کے ٹائم میں میری دوکتابیں جو عرصہ سے نامکمل پڑی تھیں اُن کو مکمل کیا اور تیسری کو شروع بھی کر دیا انسان جب لکھنا شروع کر تا ہے تو اُس کے ذہن کی گرہیں اور بھی کھلتی چلی جا تی ہیں فراغت کی وجہ سے تاریخی حقائق کی چھان بین کے لیے زیادہ وقت تھا وہ کام بھی احسن طریقے سے انجام پانے لگا خود شناسی اور غوروفکر کا سلسلہ جو عرصہ ہوا ختم ہو چکا تھا وہ بھی وقت مل گیا اِس لیے میں اِس لاک ڈاؤن کو بھی انجوائے کر رہا تھا بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے فقر کی بے نیازی سے بھی محروم تھا چاہتے نہ چاہتے ہو ئے بھی لوگوں سے ملنا پڑتا تھا اب تنگ کر نے والا کو ئی نہ تھا میں کھل کر فارغ وقت کو انجوائے کر رہا تھا سارے کام کر نے کے بعد آرام دہ کر سی پر نیم لیٹ کر ایک پرانے دوست کو فون ملایا جس سے کئی سال سے بات نہیں ہو ئی تھی دوسری بیل پر ہی اُس نے فون اٹھا لیا بہت زیادہ خوشی کا اظہار کر نے لگا کہ شکر ہے جناب آپ کو ٹائم تو ملا بات کرنے کا اور ساتھ ہی کہنے لگا میں تو خود تم سے بات کر نے والا تھا جب سے لاک ڈاؤن اور کرونا کی وبا نے پوری دنیا اور اب پنجاب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تو لاہور میں تو سنا ہے بہت حالات خراب ہیں سنا ہے ہر گلی محلے میں کرونا کے مریض ہیں باہر کے لوگ لاہور کے بارے میں یہی خیال کر تے ہیں کہ کرونا کے مریض سڑکوں پر سرعام پھر رہے ہیں جبکہ ایسی بات نہیں وہ گاؤں کا رہنے والا تھا میں نے اُس سے گاؤں کے لوگوں کے بارے میں پو چھا تو قہقہہ لگا کر بو لا یا رتم بھی بچے لے کر میرے پاس آجاؤ یہاں تو سب خیر ہی خیر ہے سارا دن گلی بازاروں میں میلہ لگا رہتا ہے لوگ تو وہی پرانی باتیں کہ موت کا جو دن لکھا ہے وہ آکر ہی رہے گااسی لیے ان کے سماجی تعلقات اور طرز معاشرت میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑا بلکہ اگر کو ئی گاؤں میں چہرے پر ماسک پہن لے تو اُس کا مذاق اڑا اڑا کر حشر کر دیتے ہیں اگر کو ئی گھر میں بیٹھ جائے تو گھر میں گھس کر اُسے بازو سے پکڑ کر باہر لے آتے ہیں یہاں احتیاط پرہیز لاک ڈاؤن کا نام تک نہیں ہے زندگی پہلے کی طرح رواں دواں ہے بلکہ تبدیلی یہ آئی ہے کہ جو لوگ شہروں میں نو کر ی کرکے ہفتہ رہ کر آتے تھے اب وہ عارضی طور پر آئے ہیں اُن کی وجہ سے گاؤں کی بیرونی سرگرمیاں اور بھی بڑھ گئی ہیں یہاں لاک ڈاؤن کیا ہونا تھا گھر وں سے باہر کی سرگرمیاں اور زیادہ ہو گئی ہیں لوگ گلی محلوں دوکانوں زمینوں باغوں میں مل کر زیادہ وقت گزار رہے ہیں تو میں نے لوچھا لوگ غریبوں کا خیال کر رہے ہیں تو وہ بولا گاؤ ں میں کو ئی غریب نہیں ہو تا یہاں پر غریب سے غریب بھی سالانہ بنیادوں پر غذائی اجناس سٹور کر لیتا ہے اُس نے گھر سے آٹا چاول پیاز وغیرہ نکال کر استعمال کر نا ہو تا ہے اِس لیے یہاں پر بھوک یا غذائی قلت کا معاملہ نظر نہیں آتا اور اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہے بھی تو آپس میں تعلق داریاں اور رشتہ داریاں اتنی گہری ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں اگر کسی کو ضرورت پڑے بھی تو وہ بلا خوف و خطر کسی سے بھی مدد لے سکتا ہے بلکہ جب سے میرے بیٹے کا کاروبار اچھا ہوا ہے میں بڑی رقم زکوۃ اور مدد کے لیے نکالتا ہوں یہاں تو کوئی ہے نہیں میں نے دو دن بعد ہسپتال میں کسی کو پو چھنے آنا ہے اگر تم کسی حق دار غریب خاندان کو جانتے ہو تو ضروربتاؤ میں اُس کے گھر راشن وغیرہ کا سامان دے کر آؤں گا اُس نے جب بار بار ایڈریس مانگا تو میں نے تین حق دار غریب بے آسرا خاندانوں کا پتہ اُس کو لکھوا دیا تو وہ بولا میں اُن کے گھر راشن دینے کے بعد تم کو بھی بتا دوں گا اِس کے بعد روٹین کی گپ شپ ہو تی رہی اورمیں نے فون بند کر دیا اور باقی کاموں میں مصروف ہو گیا۔ تین دن بعد میرے اُسی دوست کا فون آگیا جس نے راشن دینے کے لیے مُجھ سے غریب خاندانوں کے ایڈریس لئے تھے میں نے سوچھا شاید آج یہ اُن کے گھروں کی طرف جانا ہے اِس کو ایڈریس وغیرہ یا جانے کے لیے راہنمائی کی ضرورت ہے لیکن جب میں نے فون اٹھا یا تو صورتحال بلکل ہی مختلف نکل اُس کی دکھ اور درد میں ڈوبی ہو ئی آواز نکلی بلکہ وہ گلو گیر لہجے میں بولا یا رمیری تو رو رو کر بُری حالت ہو گئی ہے تم جانتے ہو ٹی بی بیماری کے دوران میں نے موت کو قریب سے دیکھا ہے میں جو کھلنڈرا لاپرواہ بنٹے کھیلنے والا وہ انسان تھا چند سال پہلے جب ٹی بی جیسی خوفناک بیماری نے مجھے بستر پر گرایا پھر اُس بیماری سے لڑائی اور علاج میں جو میرا وقت گزرا میری ساری لا پرواہی غیر سنجیدگی ہوا میں اُڑ گئی میں نے موت کو اور زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور میرا دل نرم پڑگیا اب میں کسی کو درد دکھ پریشانی میں دیکھ کر کمزور پڑ جاتا ہوں رو پڑتا ہوں آج بھی میرے ساتھ یہی ہوا جو پتے تم نے دئیے تھے دو کو راشن اور پیسے دے کر جب میں تیسرے پتے یعنی بیوہ عورت کی گلی میں پہنچا تو لاک ڈاؤن تھا پولیس نے پوری گلی کو لاک کیا ہواتھا جب میں نے بتایا کہ میں راشن مدد اور پیسے دینے آیا ہوں تو انہوں نے اجازت دی آخر میں نے کار جاکر اُس کے دروازہ پر روکی تو ایک بوڑھی عورت دروازے پر آئی میں نے سلام کیا تو وہ بولی جی بیٹا تو میں نے بتایا سامان لے کر آیا ہوں اور آپ کے گھر میں کون کون ہے تو وہ بولی یہ تین بیٹیاں ہیں چھ آٹھ اور دس سال کی اِن کے والدین بس حادثے میں مارے جا چکے ہیں میں کرائے کے گھر میں رہتی ہوں لوگوں کے گھروں میں اور ایک پرائیوٹ سکول میں صفائی کا کام کر تی ہوں بہت تنگی ہے سکول والوں نے تھوڑی سی تنخواہ بند کر دی ہے اب آپ جیسے لوگوں کی مدد پر زندگی کے دن پو رے کر رہی ہوں اِسی دوران جب میں سامان کے پیکٹ اندر رکھ رہا تھا اسی دوران چھ سالہ بچی اپنی دادی سے بولی دادی آجکل کونسے دن ہیں عید یا رمضان کہ ہمارے گھر سامان آرہا ہے جس کی وجہ سے ہم پیٹ بھر کر تین وقت کھانا کھا رہی ہیں ورنہ ایک یا دو وقت کھانا ملتا تھا جب یہ دن ختم ہو جائیں گے تو پھر تو راشن ہمارے گھر نہیں آئے گا اور پھر ہم بھوکی رہیں گی بچی کی بات خنجر بن کر میرے دل میں اُتر گئی کاش ہم سارا سال ایسے لوگوں کو راشن دیں۔