خوفِ خدا سے دوری،گناہوں پر دِلیری
کورونا سب پر بھاری
حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
رابطہ: 09431332338
آج کا اِ نسان جس سے ڈر نا چا ہیے اُسی سے یعنی”رب ذوالجلال والا کرام“ سے ہی نہیں ڈرتا باقی ساری دنیا سے ڈرتا ہے۔ صرف!اک ربِ ذُوا لجلال کا خوف انسان کو دلیر کر تا ہے، جو رب سے نہیں ڈرتا وہ ساری دنیا سے ڈر تا ہے، اور وہ بزدل(ڈرپوک، کم ہمت،) ہوتا ہے،
خوف اور ڈر ہر ذی روح میں پایا جاتا ہے۔ خوف کی کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی جب کوئی بڑا حادثہ یا واقعہ رونما ہوتا ہے تو خوف بہت بڑھ جاتا ہے، جیسے اِسوقت ساری دنیا اور دنیا کے بڑے بڑے تاجدار،بادشاہ ”تَھرتَھرا“ رہے،کانپ رہے ہیں، چاہے وہ دنیا کے سپر پاور ملک امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں، یا روس کے صدر ولادیمیرپوتن ہوں یا ہمارے ملک ہندوستان کے تالی بجوانے، تھالی بجوانے،گھنٹہ ہلانے، اور اب موم بتی جلوانے والے مہاشے مودی جی ہوں، سبھی کاCovid.19 کے خوف سے برا حال ہے۔ مشرکانہ عمل میں فرنگی محل کے خالد رشید فرنگی محلی سے لیکر ندو ہ تک مولانا عبدالحمید نعمانی اور کئی نام ہیں، بات بات پر میلادالنبی پر لائٹ، چراغاں پر دلیل مانگنے والے سر کاری مولویوں نے”فرعونِ وقت کے آدیش پر چراغاں کیا،نہ صرف چراغاں کیابلکہ کہہ بھی رہے ہیں کہ: قرآنی آیت اور اسلامی شریعت کی روشنی میں اس ہندو وانہ کلچر اورخاص اصلاح کے ساتھ”جیوت جلانا“ موم بتی روشن کر نا اسلام کے مطابق ہے اور اس ہندو وانہ رسم کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس عمل میں حصہ بھی لیا، بڑے بڑے جبہ ودستار والوں نے خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور چاپلوسی وظِلِّ الٰہی (بادشاہوں کا لقب)والے فر مان کو بجا لانے میں خوب پیش پیش رہے۔”معاذ اللہ ثُمَّ معاذاللہ“۔ یہ لوگ کس کو اپنی وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں، اُن کو جو دن رات آپ کو غدار ثابت کر نے میں لگے ہیں، مسلمانوں کو بد نام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، سوشل میڈیا پر ندوہ کی تصویر جہاں لائٹ گل کردی گئی اور پھر جو ہوا دیکھ کر ایسا لگا کہ کسی نے گلے پر چھری چلا دی ہو…. مسلمانوں کا سر شرم سے جھک گیاہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰاجِعُون۔
؎ گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گر دُوِ تھا جس کا ہے اک ٹوٹا تارا
(خطاب بہ نوجوانانِ اسلام،علامہ اقبال)
ایسے ہی ضمیر فروش علما کے بارے میں اکبرالہٰ آبادی نے کیا ہی خوب کہاہے:
؎ اب تو ہے عشق بتاں میں زندگی کا مزہ
جب خدا کا سامنا ہو گا تو دیکھا جائے گا
مودی کی بات مان کر ایسی احمقانہ حرکت کی جو شر کیہ تھی اور کامن سینس سے بالکل دور تھی بیوقو فی کی حد کردی، خدا کاخوف بھی ختم ہوگیاان ظالم،ڈر پوک،مادیت پرستی کے غلام علماکا،اب وقت آگیا ہے کہ اِن علما کا بائیکاٹ کیا جائے؟۔
خوف اورڈر کاتعلق دل و دماغ سے ہوتا ہے:خوف حیوانات (بشمول اِنسان) سب میں پایاجاتا ہے،جوکسی خطرے سے آگاہیت کے سبب ذہن میں پیدا ہوتا ہے،جب کسی مصیبت کے آنے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اس وقت انسان کے دل دہل جاتے ہیں خصو صاً ناگہانی حالات کے وقت تو دل کی حرکت تک بند ہو جاتی اور موت واقعی ہوجاتی ہے۔ پر یہ مہاشے مودی جی ایسے ہیں کہ ان کی ڈھٹائی جگ ظا ہر ہے ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے ایک کتاب مرتب ہوجائے گی۔ یہcorona virus کا ہی خوف تھا کہ مہاشے جی نے بغیر سوچے سمجھے، بغیر پلاننگ مارے ڈرکے”لوک ڈاؤن“ کا اعلان کر دیا اور کہا کہ تین باتوں پر عمل کر نا ہے،گھر میں رہنا ہے، گھر میں رہنا ہے، گھر ہی میں رہنا ہے۔ لیجئے جناب اب کروڑوں لوگ مجبوری ہی سے صحیح گھر میں ہی رہ رہے ہیں۔ پر بہت سے غریب،مزدور،کمزور، روز کمانے والے پیٹ کی بھوک مٹانے کی غرض سے نکل، نکل کر شہر کے شہر خالی کر کے اپنے گھروں کی جانب،گاؤں،دیہات پیدل ہی بھاگ رہے ہیں اب تک 30 لوگوں کی اس بھاگ دوڑ میں جانیں چلی گئیں ہیں، گودی میڈیا،دلال میڈیا دل دہلادینے والی مناظر موتوں کی خبر وں کو نہ دیکر، کورونا کو مسلمان بنانے میں لگ گیا اور کامیاب بھی ہوگیاہے۔ہے نہ ہمارے ملک کی میڈیا کا کمال،انسان تو دور کی بات،جانوروں کو بھی (گائے) ہندو مسلمان بنانے والا میڈیا اب بیماری کو بھی مسلمان بنادیا”بلے بلے“ کرونا کو مسلمان بنادیناکہ لوگ اِسی میں اُلجھ جائیں۔دہلی فساد، لوک ڈاؤن میں جو بدنامی ہوئی،کنیکا کپور گلو کارہ کورونا وائرس ٹیسٹ میں پوزیٹیو نکلیں پھر بھی سیاستدانوں کے ساتھ محفلیں ساجھا کرتی رہیں کہ بد نامی، پی ایم کیئرس فنڈ کے قیام پر طرح،طرح کی باتیں وغیرہ وغیرہ،ان سب سے دھیان ہٹا نے کے لیے سب سے طاقتور ہتھیار،میڈیا کو استعمال کر نے کا ڈھنگ مہاشے جی سے زیادہ اور کس کو آتا ہے۔ پھر کیا میڈیا نے کو روناکو پھیلانے کا پورا ٹھیکرا تبلیغی جماعت کے مرکز پر اور مسلمانوں پر ڈالدیا،اور لوگوں کا دھیان اس طرف کردیا،یہ رجحان ملک کے لیے اِنتہائی خطر ناک ہے،حد تو یہ ہے کہ اندھوں میں کانا راجہ اب NDTV نے بھی پالا بدل لیا ہے،پیسہ بولتا ہے! پیسہ بولتا ہے!۔
خوف کی کیفیت:
تمام مخلوق میں affection ڈر اور خوف پا یا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام چھوٹے جاندار،بڑے جانداروں سے ڈرتے ہیں،بکری کا بھیڑئیے سے دور رہنا،گیدڑ، لومڑی اور دیگر جانوروں کا شیر سے دور رہنا اور تمام جانداروں کا حضرتِ انسان کے قریب نہ آنا خوف اور ڈر ہی کی وجہ سے ہے، کیونکہ ایک بکری کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ بھیڑیا اس کادشمن ہے، وہ جہاں اس کو پائے گا کھا جائے گا؛ اس لئے وہ اس سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرتی ہے اور فرار کی راہ اختیار کرتی رہتی ہے۔ تمام مخلوق میں اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلو قات کے شرف سے نوازا،سب سے بہتر مخلوق ہونے کے با وجود اِ نسانوں میں بھی ڈر اور خوف پایا جاتا ہے۔دنیوی زندگی میں انسان بے شمار چیزوں سے ڈر تا ہے۔ ولیکن حقیقت میں ڈر اُسی کا ہونا چاہیئے جس سے کوئی زبردست نقصان ہونے والا ہو جس کی تلافی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے ہی جیسے انسانوں سے طرح طرح کے خطرات سے ڈرتے ہیں۔ پر اِن انسانوں میں وہ انسان تمام انسانوں سے بہتر ہیں جوصرف اورصرف اپنے خالقِ حقیقی سے ڈرتے ہیں۔ مقام و مرتبہ کے اعتبار سے عزت وشرف کا حقیقی میعار،پرکھ،جانچ، کسوٹی accurate.level اللہ سے ڈر نا،خوف رکھنا اور تقویٰ ہی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔تر جمہ: بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پر ہیز گار ہے بیشک اللہ جاننے والا خبر دار ہے۔(القرآن،سورہ الحجرات،49:آیت13۔کنز الایمان) (تقویٰ۔ پرہیز گاری، پارسائی، خدا ترسی)کو کہتے ہیں اس کے بہت وسیع معنیٰ ہیں۔حضور ﷺ ممبر پر تھے ایک شخص نے سوال کیا یا رسول للہ!سب سے بہتر کون ہے؟ ”آپ نے فر مایا جو سب سے زیادہ اچھی بات کا حکم دینے والا،سب سے زیادہ بری بات سے روکنے والا، سب سے زیادہ صِلح رحمی کرنے والا“۔(مسند احمد)
تعلق با للہ اور مسلمان:
بندہ مومن اللہ کی پکڑ اُس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے برائیوں کو چھوڑ دیتا ہے،پر ہیز گاری،اطاعت و فر مانبر داری،اطاعت شعاری کے راستے کو اپناتا ہے اور وہ اللہ کا قرب حاصل کر نے کے لیئے خداترسی،مخلوقِ خدا کے ساتھ نر می احسان مندی کرتا ہے تاکہ خدائے پاک خوش اور راضی ہو۔خوفِ خدا کی وجہ سے گناہوں کے کاموں سے اپنے کو دور رکھتا ہے،جس سے اُسے پوری ایمانی طاقت ملتی ہے۔ فر مان الٰہی ہے،تر جمہ: وہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے دھمکاتا ہے تو ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔(القرآن،سورہ،اٰلِ عمران:3 آیت 175۔کنز الایمان) تعلق،با اللہ اور مسلمان یہ ہوا کہ مومن کو اللہ یہ حکم دے رہا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو، پارسائی، اختیار کرو، اور اللہ کاہی ڈر اور خوف رکھو۔اللہ کا تعلق مسلمانوں اور تمام بندوں سے اس طرح ہے کہ اللہ رب العزت نے ہی پوری کائنات کو پیدا فر مایا اور ہر وقت وہ اس کائنات کی نگرانی اور حفاظت فر مارہا ہے۔ کائنات کا ذرہ،ذرہ اللہ رب العزت کی نگا ہوں میں ہے۔آسما ن کی کوئی چیز یا زمین کا کوئی ذرہ بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات میں لاکھوں کروڑوں اقسام کی مخلوقات پیدا کیں،اِن کی ایک ایک ضروریات کی کو وہ پوری فر مارہا ہے۔ اِن کی ایک،ایک حر کت اور ایک،ایک عمل پر وہ نظر رکھے ہوئے ہے۔بھوک لگتی ہے تووہ ان کو کھا نا کھلا تا ہے،پیاس لگتی ہے تواُن کو پانی پلا تا ہے حتیٰ کی ایک چیونٹی جو ایک گرام کا٪40 فیصد کھاکر اللہ کاشکر ادا کرتی ہے اور سمندر میں رہنے والی وہیل مچھلی جو ایک وقت میں 8سے 12ٹن خوراک کھاتی ہے اس کو بھی ہی رزق عطا فر ماتا ہے۔قرآن مجید میں ہے، کس کو کس مقدارquantity میں رزق کی ضرورت ہے وہ جانتا ہے،اُسی اعتبار سے اُسے رزق دیتا ہے۔اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِ ہٖ وَیَقْدِرُلَہٗ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔تر جمہ: اللہ کشادہ کرتا ہے رزق اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فر ماتا ہے جس کے لیے چاہے،بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔(القر آن،سورہ۔العنکبوت:29آیت62۔کنزالاایمان) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں خواہ وہ مومن ہوں یا کافر، جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، اللہ سب جانتا ہے کس چیز میں بھلائی ہے کس میں نقصان،کون کب امیری کے لائق ہے اور کون کس وقت غریبی کے لائق۔ سچ اور حق تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسانوں پر اپنی نعمتوں،رحمتوں کا نزول جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن انسانوں نے خدا کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر،اپنی طاقت وحکومت کے زعم میں اللہ کی مخلوق پر طرح طرح کے ظلم وجبر کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔حرام و حلال،جائز وناجائز، ہر طرح کی تمیز ہی کو ختم کر دیا ہے،بہت کم ہی لوگ اس طرف توجہ دے رہے ہیں، الا ماشا ء اللہ۔
نوبل پرائز یافتہ فرانسیسی سائنس داں ”الیکس کاریل“Alexis carrel اسلام کا ہم نواہوکراپنی کتاب”انسان نا معلوم“Man the Unknown میں لکھتا ہے:”ہم جائز وناجائز کی تمیز کھو چکے ہیں، ہم نے قوانین طبیعت کے خلاف ورزی کر کے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیاہے جس کی سزا پائے بغیر رہ نہیں سکتا۔ جب بھی کوئی شخص زندگی سے ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے، زندگی اس کے جواب میں اسے کمزو ربنا دیتی ہے۔ یہی ہے کہ تہذیب رُو بہ زوال ہے“۔ ایک سائنسداں حرام وحلال کی تمیزکو سمجھ رہا ہے،یہ اسلام کی سچائی ہے ولیکن ہم میں جو لوگ اس کو سمجھ کر بھی تمیز نہیں کر رہے ہیں،یقیناً اُن کو سزا مل کر رہے گی دیکھئے کورونا مرض کی وجو ہات میں پہلی بات یہی آئی ہے کہ اِنسان ازدہا سانپ، لومڑی، چمگادڑ، بھیڑیا وغیرہ وغیرہ کھاکر اپنے کو ہلاکت میں ڈالا،اور پوری دنیا کو بھی ہلاکت میں ڈالدیا؟۔
گناہوں میں دلیری عذاب کا باعث:
ہر آدمی جانتا ہے کہ اچھے برے عمل کا ردِ عمل ضرور ہوتا ہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے برے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضگی سے ہے۔آج ہمارا اپنا معاشرہ حقیقی اِ سلامی معاشرہ نہیں،بلکہ ایک مخلوط معاشرہ ہے جس میں اسلامی تعلیمات اور روایت کے ساتھ مغربی معاشرہ کی ملاوٹ کے ساتھ ساتھ بر صغیر کی ہندو جاہلی تہذیب کی بہت سی روایات مل جُل گئی ہیں۔ اسلام کے احکامات اور تعلیمات کے کچھ اجزا ضرور ہماری روایت کا حصہ ہیں، اسلامی قانون”شریعت“ کے مقاصد سے ہم بے پر واہ ہو گئے ہیں۔5 اپریل2020ء کو ساری دنیا نے حیا سوز منظر دیکھا کہ کیسے سر کاری علماؤں نے اسلام کی روح کو تار تار کر دیا۔مہاشے مودی جی کے اعلانِ شرکیہ پر کس طرح شریک ہوئے؟ بکے ہوئے، بہرے گونگے، بصارت سے محروم فکرِ دیوبند کا ہمنوا ادارہ”دارالعلوم ندوہ،فکراہلسنت وجماعت کے”صلح کلی“ کے ہمنواخالد رشید فرنگی محلی نے اپنے دروازے پر موم بتیاں جلا نے کے برہمنی ٹوٹکے پر عمل پیرا ہیں، کیا کوئی مسلمان آسانی سے اسے برداشت کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں، یہ سوچا نہیں جاسکتا، چاپلوسی،ضمیر فروشی کی ساری مریادائیں دفن کردیں، طاقت کی لاٹھی کے سامنے سب نے ہتھیار ڈالدیے،جائز کی دلیلیں بھی آنے لگی ہیں،الامان والحفیظ۔ وباؤں سے حفاطت کے لیے دی جانے والی اذانوں کو ثبوت مانگنے والے شرکیہ کام کی دلیلیں دینے میں کوئی شرم وعار نہیں محسوس کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حالات کو(خواہ اچھے ہوں یا بُرے) انسانی اعمال سے جوڑا،اور وابستہ فر مایا ہے،”چنانچہ اِنسان کے نیک وبد اعمال کی نوعیت کے اعتبار سے احوال مرتب ہوتے ہیں“صحت ومرض، نفع ونقصان، کامیابی وناکامی، خوشی وغمی،بارش وخشک سالی، بدامنی ودہشت گردی،وبائی اِمراض،زلزلہ، طوفان،سیلاب وغیرہ وغیرہ یہ سب ہمارے بد اعمالی کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔بڈفُلو،سوائن فلو، کورونا جیسے عبرت انگیز وبائیں،بیماریاں،در اصل رب ذُو الجلال والاکرام کی طرف سے”الارم“ اور تنبیہ ہیں! تاکہ اِنسان اپنے اعمال کا محاسبہ(جائزہ،آڈٹ رپورٹ، جانچ پڑتال) کرے اللہ کی جانب سے مواخذہ اس کی غفلت کو دور کردے!”یاد رہے کار گاہِ حیات میں جو قومیں پھونک پھونک کر قدم رکھتی اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتی رہتی ہیں وہ زندگی کی مستحق قرار پاتی ہیں۔“
؎ جب بھی میں کہتا ہوں: اے اللہ میرا حال دیکھ ٭ حکم ہوتا ہے کہ اپنا نامہ اعمال دیکھ
دنیا میں ہونے والے واقعات سے انسان کو تجربہ بھی ہے کہ بہت ساری قوموں کی نافر مانی کی وجہ سے دنیا ہی میں ان پر مختلف قِسم کے عذاب آئے ہیں، جیسے کی صورت مسخ کردی گئی بندر بنا دیا گیا، سورہ انفال میں صراحت سے ذکر موجود ہے،کوئی زمین میں دھنسا دیا گیا، کوئی دریا میں غرق کر دیا گیا، کوئی طوفان کی نذر ہوا،تو اِن تباہ شدہ قوموں کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی لوگوں کے لیے درسِ عبرت ہیں۔فَاعْتَبِرُوْا یٰآُ ولِی الْاَبْصَارِ۔ترجمہ: تو اے آنکھ والو عبرت حاصل کرو۔(القرآن،سورہ،الحشر:59آیت2) رب فر مارہا ہے پچھلی قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرو اور ان کے جیسے اعمال و افعال کرنے سے بچو۔معذب قوموں کاذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
Covid 19 یقیناً عذابِ الٰہی ہے:
موجودہ دور میں ہر قوم کے لوگوں میں بے راہ روی پائی جاتی ہے افسوس اور فکر کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں بھی فحاشی،ظلم وجبر،حقوق العباد کی پامالی اور سب سے بڑی یہ ہے کہ اِن گناہوں کے مرتکب، کم ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے گناہوں پر نادم یا شر مندہ ہیں بلکہ ڈھٹائی پراڑے ہوئے ہیں،کچھ کو چھوڑکر الا ماشاء اللہ،مسلمانوں کو چاہئے کہ گناہوں سے صدق دل سے اللہ کی بارگاہ میں معافی مانگیں،حقو ق العباد کی پامالی نہ کریں فرائض وواجبات کی ادائیگی پر توجہ دیں،سنن ونوافل سے اعمالِ حسنہ میں اضافہ کریں،دل کو خوف ِ خدا سے لبریز رکھیں،اللہ رحیم و کریم ہے بخشش فر مائے گا رحم وکرم کی بارشیں فر مائے گا ضرور ان شا ء اللہ تعالیٰ۔
خوفِ خدااِنسانوں کو گناہوں سے اور عذابِ الٰہی سے بچاتاہے:خوف خدا کے بے شمار فوائد ہیں،قرآن مجید میں جابجا اس کا بیان ہے۔ یقیناً اس وقت ہم آز مائشی دور سے گزر رہے ہیں، گناہوں پر دیدہ دلیری، خوف خدا سے دوری ہی سے آج ہم پر پریشانیوں کا پہاڑ سا کھڑا ہواہے؟
ماں:بیٹی! اُٹھو،دودھ میں پانی ملادو۔ بیٹی آپ نے سنا نہیں کہ خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منادی کردی ہے کہ دودھ میں پانی ملاکر نہ بیچو؟ ماں: اس وقت حضرت عمر کہاں ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں دیکھ رہے ہیں۔اُٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو۔ بیٹی: میں دودھ میں پانی نہیں ملاؤں گی۔ خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں دیکھ رہے تو کیا ہوا؟ ہمارا خالق و مالک اللہ تبارک و تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے!۔۔۔
ماں اور بیٹی کا یہ مکالمہ بہت اہمیت کا حامل ہے دودھ میں پانی ملاکر بیچنا ایک ناقابلِ معافی جر م ہے۔ بیٹی یہ اچھی طرح جانتی تھی۔ ماں کے صرار پر بھی بیٹی نے پانی ملا نا گورا نہیں کیا۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ بیٹی کے اندر حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا کسی انسان کا خوف نہ تھا بلکہ صرف اورصرف اللہ کاخوف تھا۔ اگر کسی انسان کا خوف ہوتا تورات کی تاریکی میں اور وہ بھی گھر کے اندر ضرور پانی ملاتی اور ماں کے حکم کی تعمیل ضرور کرتی۔ یہ بات طے ہے کہ آدمی کے اندر اگر خوف خدا پیدا ہوجائے تو وہ غلطی اور گناہ کے قریب بھی نہیں جائے گا چاہے شیطان اُسے کتنا ہی بہکائے وہ ہر طرح کے گناہوں، اور بُرائیوں سے نفرت کرے گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے فضل وکرم سے اپنا خوف عطا فر مائے اورجو ہماری خطاؤں کی وجہ سے کورونا وبا آئی ہے اسے جلد سے جلد دور فر مادے،ہم سب پر اپنی رحمت کی بارش فر مائے آمین ثم آمین۔
——-
Hafiz Mohammad Hashim Quadri Misbahi
Imam Masjid-e-Hajra Razvia
Islam Nagar, Kopali, P.O.Pardih, Mango
Jamshedpur, Jharkhand.Pin-831020
Mob.: 09279996221