اے حرمین شریفین ! ترے دید کو ترسے ہیں میری آنکھیں :- ڈاکٹر حافظ محمد فضل اللہ شریف

Share
ڈاکٹر حافظ محمد فضل اللہ شریف

اے حرمین شریفین !
ترے دید کو ترسے ہیں میری آنکھیں

ڈاکٹر حافظ محمد فضل اللہ شریف
اسٹنٹ پروفیسر شعبہ عربی’ اے کے ایم اورنٹیل کالج
(ملحقہ جامعہ عثمانیہ) کاچی گوڑہ،حیدرآباد، انڈیا

تو رحیم ہے، تو کریم ہے، تو علیم، تو فہیم ہے، یہ جتا دیا میرے ہر عمل کا صلہ مجھے بھلا کیا ملے گا سنادیا، تیری ذات پاک اے خدا! تیری شان جل جلا لہ، مکہ ایک ایسا شہر جسے دیکھنے کو جی چاہتا ہے، اس کی ہواؤں، فضاؤں میں جھومنے کو جی چاہتا ہے، اس کی رحمتوں کے بٹورنے کو جی چاہتا ہے،

خدا کاوہ گھر جسے پیغمبروں اور فرشتوں نے حکمِ خداوندی کے تحت تعمیر کرکے اسے آباد کیا، جہاں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے،غم ویاس میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو رحمت خداوندی کی برسات سے سکون ملتا ہے، اس عظمت خداوندی کے مرکز کو اپنی ان پیاسی آنکھوں سے دیکھوں،اس مقدس شہر کی خاک کو سرمہ چشم بصیرت بناؤں جہاں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی ترپن بہاریں دیکھیں،بعثت نبوی کے بعد قریبا تیرہ سال اس شہر میں جام توحید کو پلایا، بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھا راستہ دکھلایا، معبودانِ باطل کی پرستش کرنے والی قوم کو ظلمت کے دلدل سے نکا ل کر ایک ایسی روشنی دکھلائی جو کل تک چرواہے تھے وہی آج قوم کے معمار بن گئے، ایسے مقاماتِ مقدسہ کو دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ مالک کائنات کے در رحمت سے اذن سفر کی ندا مل جائے، جہاں میں نور سے مزین درودیوار کو دیکھوں!۔ برستی آنکھ، کپکپاتے ہونٹ، لرزتے قدم، ندامت سے جھکی پیشانی کے ساتھ اک نظر بیت اللہ پر ڈالوں، جو کہنا ہووہ بھول جاؤں، جو مانگنا ہو یاد نہ رہے، بس عالم بے خودی ہو، الفاظ گونگے ہوں،احساس ہو، بن مانگے ہی سب کچھ پا لوں۔
ہر نسل، ہر رنگ وبو، ہر مسلم ملک سے آنے والے بچے، بوڑھے، جوان ایک ہی جذبے سے سرشار، ایک ہی پکار کے ساتھ بیت اللہ کے گرد یوں دیوانہ وار چکر لگا رہے ہوں جیسے شمع کے گرد پروانے۔ کیا روح پرور منظرہوگا کہ لوگوں کے جم غفیر میں بیت اللہ تک رسائی ہوجائے۔ رکن یما نی، حجر اسود، میزاب رحمت، مقام ابراہیم،ہر مقام نور کے پیکر کو دیکھنے کو جی چاہتا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ حجر اسود کا بوسہ لوں اور رکن یمانی کو چھوؤں، یہ دو جنت کے ایسے یاقوت ہیں جن کی روشنی کو اللہ نے مٹادیا ورنہ یہ مشرق ومغرب کو اپنے نور سے منور کردیئے ہوتے۔
جی چاہتا ہے کہ رکن یمانی کوچھوؤں جہاں ستر فرشتے اس بندے کے حق میں آمین کہتے ہیں، جب وہ یہ دعا کرتا ہے:
”اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ“
رکن اسود اور رکن یمانی یہ دونوں کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے اوردونوں جنت کے دروازے ہیں، جہاں دعا مقبول ہوتی ہے۔ اور میزاب رحمت کے نیچے جو جنت کا دروازہ ہے بارانِ رحمت کے چھینٹوں سے مستفید ہوں۔
جی چاہتا ہے کہ میرا سینہ، چہرہ،دونوں کہنیوں اور ہتھلیوں سمیت سارے جسم سے ملتزم کو چمٹ جاؤں اور خوب گریہ وزاری کروں اوراپنے مالک کو منالوں۔
جی چاہتا ہے کہ ان ہزار انبیاءِ بنی اسرائیل کی سنت کو ادا کروں جنہوں نے بیت اللہ کی عظمت وتقدیس میں اپنے نعلین مبارک کو مقام ذی طوی پر چھوڑ آیا تھا۔
جی چاہتا ہے کہ ان انبیاء علیہ السلام(جن میں نوح، ہود،صالح،شعیب اور اسماعیل ودیگر ستر انبیاء علیہم السلام)کی مرقد کو دیکھوں جنہوں نے سرزمین مکہ کو اپنا وطنِ عزیز بنایا اور وہیں کی خاک زمزم اور حجر اسود کے درمیان کو اپنی ابدی زندگی کے لئے چن لیا۔
دیوانہ وارہو کعبۃ اللہ کے سات چکر لگاؤں، مقام ابراہیم دور رکعت نماز ادا کروں اور زمزم سے سیراب ہوجاؤں تاکہ اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو ایسے معاف کردے جیسا کہ ابھی میں اپنے ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہوں۔میرا ان لوگوں میں شمار ہوجاؤں جن پر اللہ کی ساٹھ رحمتوں کا نزول ہوتا ہے، کبھی قیام میں، کبھی رکوع کبھی سجود میں اس طرح منہمک ہوجاؤں کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور میں خدا کو دیکھ رہا ہے اور ساتھ ہی چالیس رحمتوں کی برکھا کے چھینٹے مجھ پر بھی آگریں یا پھر کبھی بیت عتیق کو اس طرح دیکھوں کہ میرے ہوش وحواش گم ہوجائیں اور فکر وخیال میں اسی کا تصور ہو، احساسات وجذبات میں بھی وہی رس بس جائے اور اسطرح باران رحمت کے بیس حصوں کو سمیت لوں۔
کرہئ ارض پر کوئی ایسا پانی نہیں جو ماءِ زمز م کی طرح ہو جو درحقیت جنت کا چشمہ ہے، جس میں اللہ نے خیر رکھا ہے، کھانے والے کے لئے غذا، بیمار کے لئے شفا ہے، طلب حصول علم کے لئے نفع، رزق میں کشادگی، جس کو دیکھنا عبادت اور جو جس مقصد کے تحت اسے پی لے اس کے مقصد میں کامیابی، سب سے بڑھ کر گناہوں کو مٹانے کا سبب ہے، چاہتا کہ ہوں اس عظیم پانی کو خوب سیراب ہو کر پیوں تاکہ جہنم کی آگ اور زمزم کا پانی میرے پیٹ میں یکجا نہ ہو سکے،اور منافقین کی صف سے باہر آجاؤں۔
صفا مروہ کی سعی کے دوران حضرت ہاجرہ کی بے قراری وبے اور تڑپ،دل کی دیواروں پہ دستک دیتی ہو۔ مکہ کی فضا میں اللہ کا رعب، عظمت اور جلال محسوس ہو، یہ حقیقت بھی عیاں ہو کہ اللہ سے محبت کرنے والوں کی ایک ایک ادا کے اس بارگاہ میں انمول دام لگتے ہیں۔ ان کا مرتبہ اللہ کریم اتنا بلند کرتے ہیں کہ ساری کائنات مل کر بھی اسے نہیں پا سکتی۔جی چاہتا ہے۔
جی چاہتا ہے تمام مشاعر حرم کو دیکھوں جہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسک کو ادا کیا تھا، میدان عرفات پر ٹھہروں،جبل رحمت پر دیکھوں جہاں سرکارِ عالی مقام نے تعلیمات اسلامیہ کا منشور پیش فرمایا تھا، مزدلفہ میں رات گذاروں، منی میں سنت ابراہیمی کو ادا کروں اور اس جذبہ کو تازہ کروں جہاں بیوی ہاجرہ، ابراہیم اور بیٹے اسماعیل نے شیطان کو دھتکارا تھا، میں بھی اسے خاک آلود کروں، تجلیات نور سے معمور اس پہاڑ کو دیکھوں اور اس مقام پرجاؤں جہاں روح القدس نے بحکم خداوندی اس کلام الہٰی کو لے آئے جو تمام نسل انسانی کے لئے ہدایت ہے، محمد عربی ﷺپر نازل فرمایا اور آپ کو سردار انبیاء، شافع المذنبین، خاتم النبیین اور رحمت للعالمین کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔
غار ثور پر حاضری دوں جہاں باذن رب اپنے رفیق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بعثت نبوی کے تیرہ سال بعد مک آپ کے چہرہ انور پر دشمنان اسلام نے تھوکا، مٹی اڑائی، گالیاں کسیں،کچرا پھینکا، اوجھ ڈالا، پتھر برسائے، شہر بدر کیا، شعب ابی طالب کی گھاٹی میں سالہاسال قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کیا،اخیرش آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیاگیا تو باذن بحکم خداوندی آپ نے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی اور راہ میں غار ثور میں پناہ لی، قرآن نے ”ثانی اثنین فی الغار“ سے تعبیر کی۔ حشرات الارض نے آپ کے پر نور چہرہ کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہوکر صدیق اکبر کو ڈنسا، میں اس جذبہ کے ساتھ اس غار کا دیدار کروں،اس مٹی کو اپنے جسم پر ملوں۔
سرزمین مکہ کی ان پرنور فضاؤں کے بعد دیارِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز ہو، دل خوشی سے جھوم اٹھے۔ ردائے شوق اوڑھ کر کوئے محبوب میں قدم رکھوں تو ہر گلی کو سراپا خوشبو پاؤں۔ یہ خوشبو انصار کی محبت، جانثاری اور وفاداری کی ہے۔ ہر قدم پر یہ احساس ہوکہ یہ مٹی کتنی خوش نصیب ہے؟ان درودیوار کی عظمت کا کیا کوئی ثانی ہو سکتاہے؟جہاں اس ہادی اعظمﷺ کے نقش پا ثبت ہوئے جس نے عالم کو ہدایت کی راہ دکھائی۔ جہاں آپﷺ نے اپنے جانثاروں کے ساتھ نمازیں ادا کیں۔ جہاں دربار رسالتﷺ لگتا اور فیصلے ہوتے۔ جہاں نبی رحمت ﷺکے اردگرد ابوبکر و عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم ہوتے جو چہرہ نبوت کو ایک بار تکتے تو سو سو بار نثارہوتے۔
دربار نبوتﷺ کا تمام نقشہ خیالوں میں سجائے روضہ رسولﷺ پر حاضری دوں،میں کیا میری حقیقت،جو دربار رسالت مآب ﷺمیں بعجز وانکساری ایک ایسا تحفہ جو سوائے درود وسلام کی مالا کہ ہو جسے آنسووں کی لڑی میں پرو کر اس شہنشاہ کونین کی نذر کروں جس نے دنیا کو جینے کا طریقہ سکھلایااور رہن سہن کا سلیقہ دیا۔
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے
سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے
سلام اس پر کہ جس کی سادگی درس بصیرت ہے
سلام اس پر کہ جس کی ذات فخر آدمیت ہے
روضہ رسول پر سلام پیش کرتے ہوئے یوں محسوس کروں کہ وہ مہربان اور شفیق پیغمبرﷺآنسووں کی کہانی سے ہماری محبت، عقیدت اور دل کے ہر دکھ کو جان کر دست رحمت سے مسیحائی کر رہے ہوں۔ مسجد نبویﷺ، مسجد قبا، مسجد ذو قبلتین، جامع خندق، سبع مساجد، مسجد بلال اور وہ مسجد جہاں آپﷺ نے جنگ بدر کی رات حق کی بقا کے لئے اللہ سے مدد طلب کی، ہر مسجد میں جا کر خدا کی رحمت کے قریب ہونے کا احساس ہو۔ طویل مسافت، ناکافی سامان رسد، تین سو تیرہ کی قلیل جماعت بمقابلہ تین ہزار یہ میدان بدرہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
بلاشبہ یہ عشق رسول ہی تھا جس نے فتح و شکست کے معیار کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ کوہ احد آج بھی اسی شان، عظمت اورجلالت سے کھڑا ہے اور وہ پہاڑی درہ جہاں پیغمبر اعظم ﷺنے صحابہ کی ایک جماعت کو ہر حال میں جمے رہنے کا حکم دیا تھا آج بھی یہ راز عیاں کر رہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اصل کامیابی پیغمبر عربی ﷺکی اطاعت ہے۔ تلاش حق میں نکلنے والے حبشی غلام حضرت سلمان فارسی کے اس باغ کی زیارت کروں جس میں آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے کھجورکے پودے لگائے۔
مدینہ طیبہ میں ان گنت مقامات کی زیارت کروں جن کے ساتھ اس عظیم پیغمبرﷺ کی یاد وابستہ ہے جس نے ایک مہاجر کی حیثیت سے یہاں قدم ر نجہ فرمائے، دس سال تک حکومت کی اور دنیا کو حکمرانی کے لازوال اصول سکھائے۔ اس طرز حکمرانی، انصار و مہاجرین کی جانثاری، اخوت و محبت کے اثرات کی بنا پر مدینہ پاک کے کوچہ و بازار میں آج بھی ٹھنڈک، سکون محسوس کروں۔ اذان کی صدا جب بلند ہوہو تو کوچہ و بازار سنسان اور مساجد آباد ہوجائیں۔۔۔۔ نبیﷺ کے دور کی یاد تازہ ہوجائے۔ مسجد نبوی ﷺ سے بلند ہونے والی اللہ اکبر کی صدا اذان بلالی کی یاد دلاتی ہو۔
مدینہ کی خواہش کرنا بھی نصیب کی بات ہے، مدینہ میں رہنا بلند بختی ہے اور مدینہ سے دور رہ کر بھی مدینہ میں رہنا صرف اللہ کی توفیق ہے۔۔۔ مدینۃ النبیﷺ جانے کا شوق اپنی جگہ لیکن مدینے جانے کیلئے بھی حوصلہ چاہیئے، سوچتا ہوں تو سوچا نہیں جاتا، بیان کرنا چاہوں تو لفظ نہیں ملتے، مدینہ کا ذکر ہو تو خیال کی پلکیں جھک جائیں، بس گلابی دھوپ میں جنت البقیع سے پرے کوئی سبز رنگ نظر آتا ہو اور اس سے آگے سانس گم ہو جائے۔
مدینہ کی بات چلے تو دل پہلو میں اتھل پتھل ہونے لگے،بھلا ان پیروں کی اوقات کہ مدینہ کی مٹی کو چھو سکیں، یہ تو مدینے کی خاک کے قابل ہی نہیں، مدینہ کی بات کیسے کریں لفظ احساس کو زبان دینے سے قاصر اور لفظ مل جائیں تو بھلا زبان اس قابل کہاں کہ مدینہ کی بات کرے، حروف جنبش سیلاچار ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ
میرے آقا سلطان جہاں ﷺکادربار دیکھ آتے ہیں، وہ بڑے لوگ ہیں جو آپﷺ کا مدینہ دیکھ آتے ہیں ہم توکیا ہیں ہماری حقیقت کیا ہے،ہم ان لوگوں کو دیکھتے رہتے ہیں جو مدینہ دیکھ آتے ہیں، میرے آقا اے نبی محترمﷺ!مدینہ کی بات کس سے کریں، اس معطر ہوا سے جو وہاں ناز سے چلتی ہے! یا اس سنہری بارش سے جس کے قطرے مدینہ پہ نثار ہوتے ہیں۔۔۔ یہ مدینۃ النبیﷺ چھانٹ دیتا ہے منافق کو، چھوڑ دیتا ہے منافق کو، اپنی مٹی سے دل نہیں لگنے دیتا منافق کا، مدینہ ایمان کی پرکھ ہے، مومن کی جانچ ہے، میرے آقاﷺ! ایک مومن کیلئے مدینہ سے ملنے کی حسرت بھی ایمان ہے، مدینہ کی مٹی میں مل جانے کی حاجت بھی ایمان ہے، اور مدینہ سے محبت بھی ایمان ہے۔ اے نبی مکرم و محتشم ﷺ! مدینہ مومن کے دل کا چراغ اور برزخ میں جنت کے راستوں کا سراغ ہے، مدینہ تو روح کی ویران بستی میں سرخ گلابوں کا باغ ہے۔۔۔
اے مدینۃ النبیﷺ اے شہر خوش خصال و بے مثال، تیرے بام و در خوش جمال، تیری گلیاں تیرے کوچے تیرے راہرو با کمال، اے شہر خوش رنگ اے شہر لازوال۔ اے مدینہ اے شہر مصطفیﷺ تیری مٹی پہ عود و عنبر کی مہک نثار ہوئی جاتی ہے، تیری ہوؤاں پہ مشک ختن قربان ہوتی رہتی ہے اور فضا سے خوشبو آتی رہتی ہے، اے مدینہ تیری راتوں سے چاند اپنی چاندنی اجالتا ہے، تیری شام سے سورج اپنی روشنی ادھار لیتا ہے، تیری فلق کی کرنیں فلک کے ستارے جگمگاتی ہیں۔۔۔ میرے آقاﷺ! مدینہ کی زمین پر پاؤں کیسے دھروں کہ میرے لہو میں معصیت، روح پہ کلنک، دل پہ سیاہ چادر اور اعمال کا کاغذ کوئلے کی کان کی نوکری جیسے، اے شہرنبیﷺ جگہیں اپنا مزہ اور لطف کھو دیتی ہیں لیکن ایک تیری زمین ہے جسکے موسم چھونے کی خواہش انگلیوں کی پوروں میں دل بن کے دھڑکتی رہتی ہے۔۔۔ اے مدینہ تیری حسرت جینے کی امنگ اور زندگی کا رنگ ہے جب دنیا کی کوفت زدہ راتیں اور بیزارصحبتیں جی کلساتی ہیں تو تیرے نام کا جگنو چمکنے لگتا ہے اور آنکھیں بند ہوں تو مدینہ نظر آتا ہے دور کچھ پہاڑ، کھجوروں کے جھنڈ اور انکے بیچ کچی مٹی کے بنے گھر خنک شام کی ٹھنڈک اور مسجد سے بلند ہوتی آذان۔
اندھیری رات ہو تو مدینہ پاس چلا آتا ہے تاحد نگاہ تک نور ہی نور، نور کا فرش، نور کے حجرے، نور کا باغ، نور کا پانی، نور پہنتے ہوئے چاند لوگ، لیکن مدینہ میں حدی خواں کیا کرے، سارا مدینہ چھان لیا، سب سے بات ہو گئی، لیکن جنہیں دیکھنے کی حسرت میں آنکھیں پائیں وہ ماہ کامل ﷺ نظر نہیں آتے۔۔۔ اے مدینہﷺ تو کائنات کی انگھوٹھی میں دھڑکتا ہوا وہ نگینہ ہے جس کی شعائیں ویران اور بے آباد دلوں میں غار حرا کا دروازہ کھول دیتی ہیں، میرے آقاﷺ عرب کے ریگزاروں میں مدینہ نخلستان کی طرح دھڑکتا ہے جب یہ دل معصیت کی حبس میں پھڑپھڑانے لگتا ہے تو مدینہ کی ٹھنڈی یاد سکون دیتی ہے۔۔۔ کہیں جنگل کے اندھیرے میں، کہیں صحرا کی خموشی میں، کہیں برف کے پہاڑوں پر اور دور کسی جھونپڑی میں، جہاں جہاں مکہ سے لو لگی ہے وہاں وہاں مدینہ یاد ہے، دھیان میں کہیں دل کا درد، روح کے ناسور، اعمال کا کوڑھ، سلگتے گھاؤ، ٹوٹی ہوئی خواہشات، لہو میں بہتی چیخیں اور تسلی کیلئے فقط ایک آسرا، مکہ اور مدینہ کا سفر۔۔۔ درحقیقت مدینہ کی یاد ایسی دلا ویز شے ہے کہ بے ذائقہ موسم رسیلا ہو جاتا ہے، جینے کی امنگ دل میں ہلکورے لینے لگتی ہے اور زندگی یکایک بامقصد ہو جاتی ہے۔
زندگی کا دریا بہتے بہتے آخری پل کے پاس پہنچ چکا کچھ دیر ہے یہ جسم کے کناروں سے بہہ نکلے گا، میرے آقا ﷺ! حیات کی خنک شام مدینے کی مٹی چاہتی ہے۔
کبھی دیوانہ وار جی چاہتا ہے کہ کوئی خواب ہو جو ہستی کو اڑا لے جائے آنکھ کھلے تو حرم مکہ کا جمال و جلال اپنی رحمت میں سمیٹ لے پھر آنکھ صحن نبوی کی رات دیکھے اور بند ہو جائے، میرے آقاﷺ! جب دنیا جی جلاتی ہے اور ہر رشتہ ناتا دل کو خفا کرتا ہے تو ہم چپ چاپ سر جھکا کر آنکھیں موند کر مدینہ کی یاد کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ میرے آقا ﷺ! دنیا غم و الم اور حسرت و یاس کی جگہ ہے تو دل سکون و بے قراری کا مرکز و محور ہے اور اس دل کے باہر بس خاکِ حجاز ہے جہاں سکون کے موتی ملتے ہیں اے مدینۃ النبی ﷺ کچھ باتیں صرف تیری خاک سے کرنے والی ہیں جب ہم سر نیواڑے چلتے ہونگے تو ہمارے چہرے بھیگے ہونگے ہر اشک کچھ کہے گا تم سن لینا۔۔
اے رحمت العالمین! آپ کے اوصاف کے کیا کہنے!خالق کائنات ہی تیرا ثناء خواں ہے،مجھ میں اتنی بساط کہاں کہ تیرے اوصاف بیان کروں،تیرے صحبتِ بافیض سے فیضاب صحابی رسول کی زبانی ثنا خواں رہوں، پاکیزہ روح،کشادہ چہرہ، صاحبِ جمال، نہ نحیف و لاغر، نہ توند نکلی ہوئی، آنکھیں سیاہ اور فراخ، یعنی بڑی آنکھیں، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن،بلند گردن،باریک پیوستہ ابرو، جب خاموش ہوتے تو وقار بلند ہو جاتا، بات کرتے تو بات واضح ہو جاتی، دور سے دیکھنے میں سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت،بارونق، قریب سے شیریں اور کمال حسین، شریں کلام، فیصلہ کن بات،تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد وقامت، نہ لمبوترا نہ پست قد، دوشاخوں کے درمیان ترو تازہ شاخ کی مانند،اس کے ساتھی اس پر بچھے جاتے تھے، جب وہ کچھ کہتے تو چپ چاپ سنتے ہیں۔ حکم دیتے ہیں توتعمیل کے لییک پڑتے ہیں۔ نہ کوتاہ سخن نہ ترش رو، نہ فضول گو۔بس تیرے دیدکو یہ نگاہیں ترسے ہیں۔اے نبی محترم!
اللہ کے گھر سے نبیﷺ کے در اور پھر بیت اللہ کی حاضری سے واپسی تک کے تمام محسوسات کو الفاظ میں بیان کروں تو داستان بہت طویل ہو جائے، زبان عاجز رہ جائے اور قلم ساکت ہوجائے،پھر بھی بات نامکمل رہ جائے۔ ہر مسلمان چاہتا ہے کہ اسے حرمین کی زیارت نصیب ہو، وہ دیکھنے کے لیے تڑپتا ہے اور جو ایک بار حاضری کی سعادت حاصل کرے وہ پھر سے اس در کی زیارت کے لیے بے قرار رہتا ہے، یہی اس گھر کا اعجاز ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ایمان کی دولت کے ساتھ اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائے۔ آمین۔
در کی زیارت کے لیے بے قرار رہتا ہے، یہی اس گھر کا اعجاز ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ایمان کی دولت کے ساتھ اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائے۔ آمین۔

Share

One thought on “اے حرمین شریفین ! ترے دید کو ترسے ہیں میری آنکھیں :- ڈاکٹر حافظ محمد فضل اللہ شریف”

Comments are closed.

Share
Share