افسانہ :
اَلَم یَجعَل کَیدَ ھم فِی تَضلِیلٍ
ڈاکٹر نورالامین
پربھنی
گھر میں کھانا نہیں تھا… مائی کی دوائیں نہیں تھی… کورونا کی وجہ سے پردھان منتری نے ملک میں لاک ڈاؤن کر دیا تھا.. پھر بھی آصفہ کا چہرہ کھل رہا تھا…. ارے نہیں یہ کشمیر والی آصفہ نہیں یہ تو بابا لال دین کی آصفہ ہے. …
جسے اس نے کوڑے دان سے اٹھاکر لایا تھا…
بابا لال دین بھی محمود کی فلم کی طرح کنوارا باپ تھا بس فرق اتنا تھا کہ مجبور نہیں تھا…..
لیکن آج کل گھر کول کے مکان میں رہتا ہے بیماری تو ویسے کچھ نہیں، البتہ آصفہ کی فکر میں زندہ تھا اور مرا بھی جا رہا تھا…!!!
ویسے اُس نے آصفہ کو ڈی ایڈ کرایا تھا اسے نوکری بھی مل گئی تھی لیکن بلدیاتی اسکول میں جہاں چھ چھ آٹھ آٹھ ماہ تنخواہ نہیں ہوتی تھی….!!! اس لیے بڑی تنگ دستی رہتی تھی پھر بھی اسے کچھ شکایت نہیں تھی….. کیونکہ باہر کے چہرے اس کے لیے بہت عذاب تھے اور گھر کے چہرے راحت……. مائی اور بابا لال دین اس کے لیے سب کچھ تھے…..
یعنی کہ اس کے وجود کا حصہ…..
بابا لال دین تھا تو رام بھگت لیکن اس نے آصفہ کا نام اور اس کی تعلیم کا بڑا خیال رکھا تھا اس کے نام اور اس کی تعلیم کے باری میں وہ یہ بتلاتا کہ وہ اسے اردو کے اخبار میں لپٹی ہوئی ملی تھی…….نام آصفہ اس لئے کہ آصف جاہی دور میں اس کے اجداد کی حویلیاں ہوا کرتیں تھیں…عجیب رام بھگت تھا نفرت کے ماحول میں بھی، باپ سی محبت دے کر آصفہ کی دیکھ بھال کر رہا تھا…. جیسے زمانہ کا رنگ اس پر چڑھا ہی نہ ہو…. آصفہ بھی اپنے آپ کو ان بیٹی سمجھتی تھی حالانکہ بابا لال دین نے کوڑے دان والی بات اسے کبھی نہیں بتلائی تھی… ہاں کبھی وہ پوچھتی تو وہ یہ کہتا تم ایشور کی جانب سے دی گئی ایک ذمہ داری ہو جسے میں پوری کر رہا ہوں….. میری بیوی اور میرے نروان کا راستہ تمہاری تعلیم و تربیت سے ہو کر گزرتا ہے… تم جو حدیث سناتی ہونا ویسا….!!!!!
آصفہ چُپ ہو جاتی…..
آج بھوک سے مرجانے کی حالت میں بھی وہ بہت خوش تھی….!!!! کیوں کہ اب بابا لال دین اور مائی سے جدا ہونے کا خوف نہیں تھا… حکومت نے جب سے این آر سی اور این پی آر کا اعلان کیا تھا تب سے وہ فکر مند تھی کیونکہ اس کے پاس ٹی سی، آدھار اور بہت کچھ تھا لیکن بابا لال دین اور مائی کے پاس کچھ نہیں تھا…. چھ ڈسمبر 1992کے فسادات میں سب کچھ جل گیا تھا…. بچی تو تین جانیں تھی… اور
سب کچھ اچھا ہونے کی ایک آس……..
اب اگر حکومت این آر سی اور این پی آر کراتی تو یقین اسے بابا لال دین اور مائی سے جدا ہونا پڑتا اس کا پھر کون ہوتا… باہر گِدھوں کا غول اس کی تاک میں تھا….. وہ اللہ سے دعا کرتی….
اے رب العالمین تو بس شاہین باغ کے دھرنے کو کامیاب کرا دے اے مالک ومختار میرے زمینی سہاروں پر رحم کر مجھے وحشی ہاتھوں میں نہ دے مولا……. ہر نماز ہررات تہجد میں یہی دعا کا ودر رہتا وہ اللہ سے ایسے باتیں کرتی جیسے کوئی اپنی سہیلی سے کرتا ہو……
پھر یہ ہوا کہ کرونا وائرس کی وبا پھلی……
اور
ایک خبر آئی…… حکومت نے کرونا کی وبا کے چلتے این پی آر اور این آر سی کو فی الحال موخر کر دیا ہے…..
وہ بابا لال دین اور مائی سے کہتی تھی……کچھ نہیں ہوگا میری بات ہو گئی ہے…. میری نگاہ جب بھی آسمان کی جانب اٹھتی ہے تو سورہ فیل کی یہ آیت زبان پر آ جاتی ہے…
اَلَم یَجعَل کَیدَ ھم فِی تَضلِیلٍ
اور وہ مطمئین ہو جاتی…
اس لئے شاید کہ وہ توکل حاصل ہوتا جو جدا ہونے کے خوف کو دور کرتا…..
سچ ہے….
اَلَم یَجعَل کَیدَ ھُم فِی تَضلِیلٍ
"کیا ان کے مکر کو بے کار نہیں کر دیا؟”