کالم : بزمِ درویش
سپر پاورز کی بے بسی
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
میں حیران پھٹی نظروں سے عجیب و غریب منظر زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا‘ میری طرح کرہ ارضی کے اربوں لوگ بھی اِس منظر پر یقین نہیں کرتے تھے لیکن آج یہ منظر سامنے تھا کہ بد معاش اعظم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ چینی صدر سے ٹیلی فون کرکے دونوں صدور کی بات کو عوام سے شیئر کر رہا تھا
ڈونلڈ ٹرمپ جو یقینا موجودہ دور کا سب سے بڑا بد معاش کن ٹُٹا ہے جس نے ساری زندگی کسی کو بھی گھا س نہیں ڈالی جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا‘ جوانی سے بڑھاپے تک اُس نے جو چاہا وہ کیا جس چیز کی خواہش کی وہ لونڈی بن کر سامنے آگئی اپنی حماقتوں بد معاشیوں نسل پرستانہ نعروں کے باوجود امریکی صدارت کی خواہش اور کوشش کی دنیا بھر کا میڈیا اور ارباب علم و سیاست یہ کہتے رہے کہ ڈونلڈ کبھی امریکی صدر نہیں بن سکتا لیکن پھر مہذب دنیا نے ایک سر پھرے بد معاش کو امریکی صدارت کے عہدے پر وائٹ ہاؤس میں داخل ہو تے بھی دیکھا اِس منظر اور خبر کے لیے کرہ ارض پر کو ئی بھی تیار نہیں تھا ایک تو فطری طور پر مزاج میں جارحیت‘ اپنی مرضی کے کام کر نا‘ جو شیلا پن اِس حد تک کہ مد مقابل پر جسمانی طور پر حملہ آور ہو جانا‘ بد تمیزی لڑائی جھگڑوں کے علاوہ من پسند خواتین کو حاصل کر نے کے لیے تمام اخلاقی حدود کو کراس کر جانا یعنی اِس سر پھرے نے جو چاہا کیا یہاں تک کہ امریکی صدارت کے کوٹھے پر بھی قبضہ کیا امریکہ کا صدر منتخب ہو نے کے بعد تو تکبر غرور من پسندی اور جارحیت کو آگ ہی لگ گئی مزاجی جارحیت سفید پرستی نسل پرستی کا گھمنڈ اِیسے میں امریکی صدرات اب تو دنیا کی خیر نہیں تھی باقی سفید فام اقوام کو ساتھ ملاکر بد معاشوں کا یہ ٹولا دنیا خطہ ارض پر موجود بے بس بے کس لاچار بے گناہ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے لگا‘ عراق شام مصر اور افغانستان میں لاکھوں معصوم بچوں خواتین اور بوڑھوں کو لاشو ں میں بد ل دیا الزام بار بار یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں اور اِس طرح جاری رکھیں گے غرور و تکبر نسلی برتری کے علمبردار یہ فرعونوں کا ٹولہ جدھر منہ کرتا اُس پر بمباری اور ڈرون حملوں کی برسات کر دیتا اقوام متحد جیسا انصاف کا علمبردار ادارہ تو گھر کی لونڈی بن چکاتھا اورتو اور مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑا کر اِس طرح اپنے ساتھ ملا لیا کہ بے گناہ معصوم فلسطیینوں کا قتل عام ہو یا کشمیر پر مہینوں کا کرفیو یہ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگ وقت کے فرعون بن کر بے بس مجبور لوگوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح اپنی ٹیکنالوجی اور اسلحہ کی برتری کے زعم میں مسلتے جارہے تھے جدید دور کے اِن فرعونوں کو کوئی روکنے والا نہ تھا ڈالر پو نڈ کا معاشی استحکام سائنس ٹیکنالوجی کا بخار اِس قدر چڑ ھا ہواتھا جو اُترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا خطہ ارض کے چپے چپے پر طاقت دولت ٹیکنالوجی اسلحے کی برتری کا فرعون راج ناچ رہا تھا کسی کے سامنے جرات نہیں تھی کہ وہ کہہ سکے کہ فلسطین عراق شام مصر لبنان اور افغانستان میں آپ نے لاکھوں معصوم خواتین بچوں بوڑھوں کو ناکردہ جرموں کی سزا دی‘ مدرسوں مساجد کو بموں سے اڑا یا معصوم بچوں کا قیمہ بنا نا اُن کے معصوم جسموں میں سوراخ کرنا معمول کی بات بن چکی تھی جب سے ڈرون شیطانی ہتھیار اِن کے ہاتھ چڑھا اِن کی منہ زوری اور بھی بے لگام ہو گئی پہلے تو اِن کو ڈر ہو تا تھا کہ کہیں ہمارا فوجی مقابلے میں نہ مارا جائے اب تو یہ گھر بیٹھے ڈرون کو مطلوبہ ٹارگٹ پر داغ کر اپنی طاقت اور دہشت کا بھر پور اظہار کر رہے تھے اگر کو ئی دبی زبان میں احتجاج کر تا تو اُس کو نشان عبرت بنادیتے تاریخ انسانی کے شائد ہی کسی دور میں کسی نے طاقت اور اسلحے کا اِس طرح وحشیانہ استعمال کیا ہو کشمیر میں کئی مہینوں سے بے گناہ معصوم بچے خواتین بو ڑھے خوراک اور دوائیوں کی کمی کا شکار مدد مدد پکار رہے ہیں لیکن اِن وحشی بھیڑیوں کے کان تک جون نہیں رینگی اگر کو ئی کرفیومیں پھنسے اِن لاکھوں کشمیریوں کی بات بھی کرتا تو اُس کو ٹال دیتے‘ترقی یافتہ اقوام کے انسانی آزادی کے علمبردار بھی دنیا کی سب سے بڑی جیل کے اِن قیدیوں کو مسلسل نظر انداز کئے جار ہے تھے جیسے وہ کشمیر جیل میں لوگ انسان نہیں بے زبان جانور ہیں انسانوں کے بے حسی دیکھ کر آخر قدرت کا ہاتھ حرکت میں آگیا سر زمین چین سے کرونا وائرس ایک خوفناک جان لیوا وبا کی صورت میں پھوٹ پڑا جب چین میں کرونا وائرس نے تباہی مچائی تو مغربی ترقی یافتہ سپر پاورز اور امریکہ بہادر اوپر اوپر سے افسوس کا اظہار کر تا رہا اور نام نہاد انسانیت کے بھاشن بھی دیتا رہا بعد میں جب دوسرے ملکوں میں بھی پھیلا تو ترقی دولت اور سپر پاور ایٹمی طاقت کے خمار میں کہ ہمیں کو ئی خوف یا ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر ہمارے ملک میں کرونا کی وبا آئی تو ہم بہت اچھے طریقے سے اِس کو کنٹرول اور علاج بھی کر لیں گے اِسی زعم اور تکبر میں دوسری ایٹمی طاقتیں کہ ہم ترقی یافتہ قومیں ہیں ہمار اہیلتھ سسٹم دنیا کا بہترین اور ترقی یافتہ سسٹم ہے اِس لیے ہم کسی بھی قسم کی بیماری اور وبا کو بہتر طریقے سے کنٹرول کر سکتے ہیں سپر پاور معاشی استحکام ایٹمی پاور اور ترقی یافتہ ملک ہو نے کا زعم اِن سب کو چڑھا ہوا تھا اور پھر جب کرونا نے یورپ کا رخ کیا اٹلی سپین جرمنی فرانس برطانیہ میں وبا جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی تو پہلے تو یورپی سپر پاور ز کے پاؤں کے نیچے سے زمین سر کی‘اموات جب سینکڑوں میں پہنچی یہاں تک کہ اٹلی میں تو ڈاکٹروں کی موت بھی سینکڑوں میں پہنچ گئی ہر گزرتے دن کے ساتھ تعداد ڈبل ٹرپل ہو تی گئی تو سپر پاورز کا نشہ اُترنا شروع ہو گیا چند ہی دنوں میں جب تعداد مرنے والوں کی سینکڑوں سے ہزاروں اور متاثرین کی تعداد لاکھوں میں پہنچی توڈاکٹروں نرسوں نے علاج کرنے سے انکار کر دیا کرونا سے مقابلے کے لیے مطلوبہ میڈیکل سامان نہ تھا اِس لیے ڈاکٹر اور طبی عملہ گھاس کی طرح کٹنے لگا تو اِن طاقت‘ سائنس اور معاشی استحکام کے نشے میں دھت سپر پاورز کے غبارے سے ہوا نکل گئی صدیوں سے اقوام عالم کی سر پرستی والی اقوام بے بس کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرنے لگیں تو بے بسی لاچارگی کی ناکامی کا دائرہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا اب اپنی اوقات میں آگئیں اور سپر پاور کا نشہ بھی اُتر گیا اِس دوران امریکہ بہادراور ڈونلڈ ٹرمپ معاشی استحکام اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نشے میں دھت کہ ہم اچھی طرح مقابلہ کرلیں گے چند دن پہلے جب کرونا کی عفریت نے امریکہ میں پھیلنا شروع کیاتو کر ہ ارض کے سارے ریکارڈ ٹوٹتے چلے گئے ہزاروں لوگ روزانہ مرنا شروع اور متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے اور امریکہ جیسی سپر پاور بے بسی سے ہاتھ پاؤں مارتی نظر آئی دولت اقتدار کے نشے میں دھت ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے سارا امریکہ لگ گیا کہ تم نے اُس وقت سستی کی جب احتیاطی تدابیر کر نے کا وقت تھا امریکہ میں کرونا اِس تیزی سے پھیلا ہے اِس کی وجہ امریکہ کے بر وقت اقدامات نہ کر نا ہے اِس طرح اِس صدی میں پہلی بار امریکہ اور ڈونلڈ ٹرمپ طاقت اور اقتدار کے گھوڑے سے نیچے اتر کر اب چین کے صدر سے ٹیلیفون پر بات کر نے اورمدد مدد کی بھیک مانگ رہا ہے قدرت کا ہاتھ حرکت میں آیا تو ہر برطانو ی وزیر اعظم شہزادہ چارلس اِس کا شکار ہو کر بند کمروں میں اور ٹرمپ چین سے مدد کی بھیک مانگ رہا ہے اِس طرح تیسری دنیا کے عوام حیران نظروں سے سپر پاورز کی بے بسی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔