دیدہ کے بود مانند آزمودہ
محمد شعیب رضا نظامی فیضی گورکھ پوری
نزد نوری مسجد وارڈ نمبر1 گولابازار، گورکھ پور
9792125987
آج سے تقریباً ساڑھے چار ماہ قبل چین کے شہر ہوبئی (Hubei) میں وُوہان(Wuhan) نامی بازار سے کورونا وائرس کا جنم ہوا، اور اسی شہر کا ایک ۵۵/ سالہ شخص سب سے پہلے اس مرض سے متاثر ہوا تب سے لے کر آج تک اس خوفناک مہلک وبا نے پوری میں تباہیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے،
اگر چہ اس سے متاثر ہونے میں مرنے والوں سے کئی گنا زیادہ صحت یاب ہونے والوں کی ہے، چنانچہ تادم تحریر عالمی پیمانے پر اس سے متاثر ہونے والوں کی کل تعداد پانچ لاکھ بتیس ہزار دو سو چوبیس(532224) ہے جن میں سے تقریبا ساڑھے چار فی صد(4.56%) یعنی کل چوبیس ہزار دو سو ستاسی(24287) لوگوں نے جان گنوائی ہے، جبکہ تقریبا ساڑتے تیئیس فی صد(23.35%) یعنی ایک لاکھ چوبیس ہزار تین سو چھبیس(124326) افراد اب تک مکمل صحت یاب ہو کر ہسپتال سے اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ اور فی الحال متاثرین کی کل تعداد تین لاکھ تراسی ہزار آٹھ سو گیارہ(383811) ہے جن میں سے تقریبا پنچانوے فی صد(94.95&) یعنی تین لاکھ چوسٹھ ہزار چار سو پیتالیس(364445) متاثرین بہتر حالت(Mild Condition) میں ہیں جبکہ صرف پانچ فی صد(5.04%) یعنی انیس ہزار تین سو ستاون(19357) متاثرین ہی نازک(Critical)حالت میں ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس وبا سے متاثرین کی شرح اموات فقط ساڑھے چار فی صد ہونے کے باوجود لوگوں میں اس قدر خوف ہے کہ لوگ ڈرے سہمے نظر آرہے ہیں جبکہ زمینی سطح پر جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں نوویل کورونا(Novel Corona) سے بھی خطرناک کئی ساری بیماریاں مثلاً ایڈس(AIDS)، کینسر(Cancer) موجود ہیں جن میں شرح اموات بیس فیصد(20.0%) سے لے کر اسی فی صد(80.0%) تک ہے مگر ہم ان بیماریوں سے اتنے خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرکے انہیں شکست بھی دیتے ہیں مگر نوویل کورونا سے ایں قدر خوف! تعجب ہے، شاید اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے ابھی تک ہمیں نوویل کورونا کی عادت نہیں پڑی ہے جبکہ ان بیماریوں سے ہمارا معاشرہ صدیوں سے جوجھ رہا ہے اس لیے ان کی عادت پڑگئی ہے۔ اسی طرح موجودہ کورونا کے ہم زاد کورونا ایس۔ اے۔ آر۔ ایس(SARS) اور کورونا ایم۔ ای۔ آر۔ ایس(MERS) جو نوویل کورونا سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہیں وہ پہلے سے ہی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں مگر ہمیں ان کا اتنا خوف نہیں، اس خوف کی سب سے بڑی وجہ افواہوں پہ کان دھرنا ہے جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے ع شنیدہ کے بود مانند دیدہ مگر آج کی یہ ترقی یافتہ تکنیک تو اس سے بھی کہیں آگے ہے کہ شاید اب کہنا پڑے ع دیدہ کے بود مانند آزمودہ۔ اور ہم صرف افواہوں کو توجہ ہی نہیں دیتے بلکہ اس کی تشہیر میں اپنا نمایاں کردار بھی ادا کرتے ہیں اور ہمارے اس کام میں سوشل میڈیا نے خوب ہاتھ بٹایا ہے کہ چند لمحے میں کوئی بھی افواہ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد تک پہونچ جاتی ہے اور پورا معاشرہ اس افواہ کی طرف متوجہ ہوکر خائف و ہراساں ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتاہے اور اگر حقیقت سے کوئی تعلق ہوتا بھی ہے اتنا نہیں جتنا اس افواہ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں خوف وہراس گھر کرلیتا ہے۔ لہذا ہمیں ان سارے افواہوں پہ کان دھرنے کی قطعی ضرورت نہیں جو ہمیں احتیاط کے نام پر خوف میں مبتلا کردیتے ہیں اور اس کی تشہیر تو بھولے بسرے بھی نہیں۔ اور اللہ ارحم الراحمین کی ذات پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیئے کہ وہی زندگی اور موت، وبا اور شفا سب کچھ دیتا ہے۔ البتہ ضروری احتیاط لازماً برتنی چاہیئے مگر اس قدر نہیں کہ لوگ اس سے خوف زدہ ہوجائیں اور خود آپ اور آپ کے اہل خانہ بھی خوف وہراس میں زندگی گزاریں۔