زکوٰۃ : فلسفہ و فوائد
ابو عبدالقدوس محمد یحییٰ
لیکچرر’ علیمیہ اسلامک ڈگری کالج
اللہ رب العزت نے حضرت انسان کی تخلیق جنت کے لئے فرمائی یہی اس کا ابتدائی مسکن بھی ٹھہرا اوریہیں اس کا ابدالابادمستقر بھی قائم کردیا گیا ۔ماسوائے ان لوگوں کے جو جنت میں اپنے اصل جائے قرار کی مطلوبہ اہلیت ثابت نہ کرسکیں اور اپنی نالائقی ،کوتاہی،غفلت،سرکشی،عناد، بغض، بخل،تکبر اور انکار کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہوسکیں تو ان افرادکے لئے جہنم میں بھی ایک بدترین ٹھکانہ مقررکردیا گیا۔
پھر اس اہلیت کو جانچنے کے لئے انسان کو دنیا میں اتاراجو حصول جنت کےلئے امتحان گاہ یعنی دارالمحن قرارپائی۔ یہاں امتحان کے ذریعے مومن و کافر ، صالح وغیر صالح اور پاک و ناپاک الگ الگ کئے جائیں گے۔ کیونکہ جنت پاکیزہ مقام ہے وہاں صرف پاکیزہ فطرت ،نیک طبیعت اورپرخلوص لوگ ہی داخل ہوسکتے ہیں۔
اس دارالمحن میں انسان کے لئے بغرض آزمائش وامتحان بہت سی چیزوں کومزین، خوبصورت اوردلکش بناکر پیش کیاگیا کہ کون ہے جو اس حسن، دلکشی، رعنائی، زیبائی اورکشش کے باوجود ان چیزوں پر رب کی رضا کو ترجیح دیتا ہے۔ جہاں تک ان چیزوں کی مرغوبیت اوردلکشی کا تعلق ہے اس امر پر خود قرآن کریم بھی شاہد ہے۔
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ (آل عمران :14) "لوگوں کو(ان کی) مرغوب چیزوں کی محبت خوشنما بنادی گئی(بالعموم لوگ لذت پسند ہوتے ہیں، ان چیزوں کے طالب ہوتے جو نفس چاہتا ہے)یعنی عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے(اعلیٰ قسم کے) گھوڑے اور مویشی اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے۔”
اس آیت کریمہ کی رو سے انسان میں مال و متاع،زرو جواھر، سونا چاندی کی محبت فطری چیز ہے اور دنیاوی زندگی کے لئے یہ بہر کیف ضروری بھی ہے۔زر کواسی ضرورت کی بنا پر قاضی الحاجات بھی کہاجاتاہے۔جیسا کہ علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بھی اپنے شعر میں اسے قاضی الحاجات سے تعبیر کیا ہے:
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے مَیّسر، تونگری سے نہیں
قاضی الحاجات بایں معنی کہ اس فانی ومادی دنیا کی عارضی و وقتی ضروریات اس زر سے پوری کی جاسکتی ہیں ۔لیکن اسے اسی حد تک لینا چاہئے نہ کہ اس کی اندھی محبت میں گرفتار ہواجائے جیسا کہ انسان ہوجاتاہے،ٹھہرا جو نادان اورغافل۔ پھر اس کی مال سے یہ محبت بہت شدید ہوجاتی ہے۔قرآن مجید میں فرمان الہی ہے:وَاِنَّه لِحُبِّ الْخَـيْـرِ لَشَدِيْدٌ۔ (العادیات:8) "اور بے شک وہ مال کی محبت میں بڑا سخت ہے۔”
پھر محبت شدید ہوتے ہوتے اس حد تک چلی جاتی ہے کہ وہ اسے جمع کرنا شروع کردیتا ہے۔ اسے گن گن کر رکھتا ہے۔یہاں تک کہ اس کی پرستش یعنی زرپرستی شروع کردیتاہے ۔ جو کہ اس کے لئے ہلاکت و تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:اَلَّذِىْ جَـمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَه۔ يَحْسَبُ اَنَّ مَالَـه اَخْلَـدَه۔كَلَّا لَيُنْـبَذَنَّ فِى الْحُطَمَةِ۔(ھمزۃ:2۔4)”جو مال کو جمع کرتا ہے اور اسے گنتا رہتا ہے۔وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا مال اسے سدا رکھے گا۔ہرگز نہیں، وہ ضرور حطمہ (بھڑکتی ہوئی آگ)میں پھینکا جائے گا۔”
حُبٌِ مال انسان کی ابدی کامیابی میں رکاوٹ:
انسان میں ہمہ وقت انگنت،بے شمار،لاتعداد خواہشات ،تمناوں اور آرزؤں کا بحربیکراں ہے۔اور انسان کا دل اس میں ڈوب کر فنا ہو جاتاہے۔بقول اسماعیلؔ میرٹھی
خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو
ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا
یہی آزمائش ہے کہ کون؟ ان کے ساتھ اپنے رب کے احکامات کی اطاعت کرتا ہے اور کون صرف خواہشات و لذات کے حصول میں اپنی زندگی گزار دیتاہے۔لیکن اللہ رب العزت نے انسان کو اس خواہشات کے بحربیکراں میں تنہا نہیں چھوڑا بلکہ اسے ایک بحری بیڑے سے بھی نوازا ہے ۔یہ بیڑہ اسلام کی صورت میں ہے کہ جو اس میں داخل ہوگا ،اس پر عمل کرے گا وہ تمام قسم کی آزمائشوں سے بآسانی کامیاب ہوکر نکل سکتاہے۔اسلام انسان کو ایک روڈ میپ دیتا ہے،یعنی ہر دلکش، دلربا، دلعزیز ، دلپسندسحرانگیزاشیاء کاسد باب ، توڑ اوران کا حل دیتا ہے۔ مثلاً حب مال کا سحر زکوٰۃ سے توڑا جاسکتاہے،حب الشھوات کے سرچڑھتےجادو کا زورنکاح اور روزے سے توڑاجاسکتاہے اورنمود و نمائش کے عفریت کا طلسم ہوشربا، اخلاص وللہیت سے کاٹا جاسکتا ہے۔ اب جو شخص اسلام کے دیئے گئے روڈ میپ سے ان خواہشات پر قابو پالے گا یعنی دنیاوی آزمائشوں پر پورااترے گا اسے فوزوفلاح کےسرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا۔ اللہ کے محبوب افراد میں اس کا شمار ہوگا۔ وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں اپنے مستقر کوپالے گا۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْـهَـوٰى، فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِىَ الْمَاْوٰى(النازعات:40 ،41)اور لیکن جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اس نے اپنے نفس کو بری خواہش سے روکا۔سو بے شک اس کا ٹھکانا بہشت ہی ہے۔
بہترین نفع بخش و برمحل تجارت:
دنیا کی چند روزہ فانی زندگی کا سودا حیات ابدی سے کرلیاجائے۔کس قدر سستا سودا ہے،کیا ہی خوب تجارت ہے،کیا ہی برمحل نفع بخش تجارت ہے(تجارت میں سازگار وبہترین وقت کی اہمیت سے کون آگاہ نہیں) موت کا کوئی بھروسہ نہیں کب آجائے۔ چندساعتیں جو باقی ہیں انہیں غنیمت جانئے کچھ وقت اپنی آخرت کی تیاری میں بھی صرف کریں۔ دنیا کا مال تو دنیا میں ہی رہ جائے گا۔ ابھی بھی موقع ہے قبل اس کے ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب تمہارے اپنے قریبی عزیز و اقارب تم سے یہ سب مال چھین لیں گے اور تمہیں تمہاری تمام تر آرزوں و خواہشوں کے ساتھ زمیں میں دفن کرآئیں گے اور آپس میں یہ سب مال بانٹ لیں گے۔ بقول سید محمد حسین( قمرجلالوی)
دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
اور پھر انہیں تمہاری ہر خواہش کھٹکے گی کہ تمہارے مال میں سے تم ہی پر خرچ کرتے ہوئے ناگوار گزرے گا اور وہ کہیں گے کہ اس شخص کی خواہشیں ختم ہی نہیں ہوتیں بقول کیفی اعظمی
انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیے دو گز کفن کے بعد
اورپھر تم اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ جب تمہیں دوبارہ جی اٹھایا جائے گا اس دن یہ مال و اولاد تمہیں کچھ نفع پہنچادیں گے،نہیں یقیناً ایسا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ۔یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ(الشعراء:88)جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ بیٹے۔
اس دن کی رسوائی سے بچنا ہے تو ابھی اسلام پر عمل کرو،اس کے دیئے گئے احکامات پر عمل کرو،اگر کرلوگے توپھر یہی صلوٰۃ،صیام، حج وزکوٰۃ تمہیں آتش سوزاں سے بچالیں گے۔ بقول مولانا عبدالرحمن خان حماد عمری
آتشِ سوزاں جہنم کی بجھاتی ہے زکاة
جنت الفردوس میں گھر بھی بناتی ہے زکاة
اسلامی نظام اقتصاد:
اسلامی نظام اقتصاد کی اساس تین امور پر ہے: زکوٰۃ کی صحیح اور منصفانہ تقسیم،قوانین وراثت پر کماحقہ عمل اورحرمتِ سود ۔
ارتکاز دولت اورمعاشرتی ناہمواری امن و سلامتی کے لئے سمِ قاتل ہےکیونکہ اس سے مالدار اور نادار طبقہ کے درمیان ایک طبقاتی کشمکش شروع ہوجاتی ہے جب مالدار طبقہ کمزوروں کا استحصال کرتا ہے تو ناتواں طبقہ بغاوت کا علم سربلند کردیتا ہے جس سے معاشرہ انتشار و تباہی کا شکار ہوجاتاہے۔ اسلامی نظام اقتصاد معاشرے کو اس ابتری و انتشار سے نکال کر اسے پرامن بنادیتاہے۔
زکوٰۃ ایک مکمل اوربہترین معاشرتی نظام ہے۔جہاں زکوٰۃ دولتمندوں سے لے کر نادار لوگوں کو دی جاتی ہے۔یوں نادار طبقہ کی قوت خرید بڑھنے سے نظام اقتصاد ترقی کرتاہے، انسان کے دل سے مال کی حرص و ہوس ختم ہوتی ہے، محروم طبقہ کی کچھ دادرسی ہوتی ہے اور محروم طبقہ کی امراء سے منافرت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ نیز سود کی حرمت بھی انسان کو اپنا سرمایہ کاروبار میں لگانے کی ترغیب دیتی ہے جس سے سرمایہ منجمد نہیں ہوتا بلکہ گردش کرتا رہتاہےاور گردشِ زر کی اہمیت وضرورت سے ماہرین معاشیات بحسن وخوبی آگاہ ہیں ۔ اسی طرح اسلامی قوانین کی رُوسے وراثت کی صحیح تقسیم سے دولت منقسم ہوتی رہے گی اور دولت کا ارتکاز خودبخود ختم ہوجائے گا۔اس نظام اقتصاد میں حرام آمدنی کے چور دروازے بند ہو جائیں گے۔ کسبِ حلال کے راستے کھلتے چلے جائیں گے۔ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔امیر اور طاقتور مسلمان غریبوں کو سنبھال لیں گے۔ اس طرح ان تمام امور کے نتیجے میں ملک میں غریب اور امیر کے درمیان فرق کم ہوجائے گااور نتیجۃً ملک میں سلامتی ، خوشحالی کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی قائم ہوجائے گا۔
آئے گردابِ حوادث میں اگر کوئی سماج
امن کے ساحل سے پھر اس کو لگاتی ہے زکوٰۃ
فلسفہ زکوٰۃ(نظام)
اسلام ایسا معاشرہ استوار کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد ، بے لوثی، بے غرضی، للہیت، اخلاص اور اپنے نفس کی نفی پر ہو۔ جہاں انسان صرف اپنا یا اپنے متعلقین کے بارے میں سوچنے کے بجائے من حیث الکل مخلوق کی بھلائی کا سوچے۔ خود غرض ، زرپرست ،بخیل آدمی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام خودغرضی اوربخل کا دشمن ہے۔ جہاں تک سود کی حرمت اور اللہ سے جنگ کا تعلق ہے اس کی بنیادی وجہ بھی سود خور ی اورسودی نظام میں پائی جانے والی خود غرضی ہے۔
لہذا اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تورب نے جس مقام پر رہنے کے لئے انسان کی تخلیق کی ہے اور جس جانب اسلام انسان کو بڑھانا چاہتا ہے اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مال ہے۔جیسا کہ حلیۃ الاولیاء میں حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک قول نقل کیا گیاہے : حُبُّ الدُّنْيَا رَأْسُ كُلِّ خَطِيئَةٍ، وَالْمَالُ فِيهِ دَاءٌ كَثِيرٌ، ” دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے اور مال میں بہت سی(روحانی و جسمانی) بیماریاں ہیں۔”حب مال ابلیسی جالوں میں سے ایک جال ہے جسے دشمنِ آدم نے انسان کواس کی منزل(جنت) سے دور کرنے کے لئے مزید مزین اور پرکشش بناکر پیش کیا۔انسان پر لازم ہے کہ اس جال سے بچنے کے لئے رحمٰن کے دیئے گئے راستہ پر عمل کرے ۔
جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں ذکرکیا گیا کہ اس جال کو کاٹنے کے لئے اللہ رب العزت نے انسان کو زکوٰۃ کی صورت میں ایک راستہ دیا ہے کہ انسان کم از کم ڈھائی فیصد اپنے مال سے زکوٰۃ نکالے۔اس میں زیادہ کی کوئی حد نہیں۔وہ اپنے دل کا بڑا پن دیکھے کہ وہ کس حدتک لٹانا برداشت یا قبول کرسکتاہے۔ نفلی صدقات کے لیے نصاب کی کوئی حد متعین نہیں کی گئی۔ واجب صدقات ( زکوٰۃ، عشر اور صدقہ فطر) کیلئے کم از کم حد (Minimum Limit) مقرر ہے جس کی ادائیگی ہر صاحب نصاب کے ذمے فرض ہے۔ تاکہ اس کا دل بڑا ہوجائے۔ قلب سے اس کے مال کی محبت کم ہوجائے۔ اس کے اندر اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے۔کہ ایک دفعہ بظاہر کڑوا گھونٹ بھر لے تو پھر اس کے اندر سے حقیقی کڑوا پن اور میل کچیل نکل جائے اور طبیعت میں پاکیزگی آجائے جو انسان میں جذبہ انفاق کو مزید بڑھائے گی۔
جذبہ انفاق کو پروان چڑھاتی ہے زکاۃ
حرص دنیا اور لالچ کو مٹاتی ہے زکاۃ
فرضیت ِزکوٰۃ
زکوٰة کی فرضیت سن 2ہجری میں ہوئی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں 72 مقامات پر نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا بھی ذکرکیا ہے۔
حلاوتِ زکوٰۃ:
اللہ رب العزت کی راہ میں مال خرچ کرنے کی اپنی شیرینی ، حلاوت ،مٹھاس اور چاشنی ہے۔ جو اسے ایک بار چکھ لے گا وہ پھر پوری زندگی ایسا کرتا رہے گا۔ اگرچہ اس کے پاس کچھ نہ ہو وہ ایسی تمنا کرے گا کہ اسے اللہ رب العزت کچھ عطا کرے وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں لٹادے۔جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ ہے :
مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا أُنْفِقُهُ كُلَّهُ إِلاَّ ثَلاَثَةَ دَنَانِيرَ (صحیح بخاری)
"مجھے نہیں پسند کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو سوائے اس کے کہ میں سب اللہ کی راستے میں خرچ کر ڈالوں لیکن صرف تین دینار(قرض کی ادائیگی کے لئے روک لوں)”
اللہ کی راہ میں جان ،مال ، وقت خرچ کرنے کی اپنی ہی ایک لذت ہے۔ اس لذت سے وہی آشنا ہوسکتاہے۔جوکم از کم ایک بار اس عمل سے گزراہو۔مثلاً بظاہر مناسک حج کی ادائیگی ایک قسم کی دیوانگی محسوس ہوتی ہے۔ ایک انسان لاکھوں روپے صرف کرکے کچھ ایسے افعال اداکرتا ہے جس سے بظاہر اسے کسی قسم کا دنیاوی نفع حاصل نہیں ہوتا بلکہ وہ کسی محب،دیوانے،عاشق کی فریفتگی کااظہارکرتی ہیں۔ وہ لاکھوں روپے صرف کرکے وہاں سے کیا لینے جارہاہے؟ وہ ایسا کیوں کررہاہے؟ اس کا جواب وہی دے سکتاہےجو اس عمل سے گزرا ہو۔جب ایسا کرنے والے سے پوچھا جائے گا تو یقیناً وہ یہی کہے گا کہ اس کا دل بار بار وہاں جانے کو مچلتا ہے اوروہ باربار اس دیوانگی اوروارفتگی سے گزرنا چاہتاہے۔
؎ محبت بھلے چنگے کو دیوانہ بنادیتی ہے
اسی طرح زکوٰۃ ،صدقات کے سلسلے میں بظاہر کوئی معترض اعتراض کرسکتاہے کہ کوئی اپنا مال بغیر کسی منفعت کے دوسروں پر خرچ کرنے میں کیسے لذت محسوس کرسکتا ہے۔ ان احباب کے لئے عرض یہ ہے کہ دنیاوی اعتبار سے بھی دیکھا جائے یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض اوقات انسان نمود ونمائش کے لئے اپنی جان بھی داؤ پر لگادیتا ہے اور مال بھی ۔ یقینا ایسا کرنے سے اسے کچھ تو اطمینان محسوس ہوتا ہوگا۔ جیسے کوہ پیما ماونٹ ایورسٹ سر کرتے ہوئے بعض اوقات جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،سیلفی کے شوقین انتہائی خطرناک انداز سے سیلفی لیتے ہوئے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کرنے کیوں گیا تھا؟ وہ کیا جذبہ،شے ، محرک اس کے پیچھے کارفرما تھا ؟جس نے اسے مجبور کردیا۔یقینا کچھ تو تھا۔بہرحال وہ تمام محرکات دھوکہ،ابلیسیت،دجالیت پر مبنی تھے لیکن اللہ کی رضا کی خاطر حالت ایمان میں اپنا جائز وحلال مال دوسروں پر لٹانے والا کئی قسم کی خوشیوں سے سرشار ہوتاہے۔جیسے بظاہر نہ نظر آنے والی خوشگوار باد صبا سحر خیزانسان کے بدن کو چھوکر اس میں جو گدگداہٹ یا برقی رو پیدا کرتی ہے،سرشاری اورتوانائی کا احساس دلاتی ہے وہ کمرے میں محبوس بستر پر لیٹنے والا کیامحسوس کرسکتاہے:
شاخ گل کو جیسے چھیڑے ہے نسیم جان فزا
یوں دل منعم کو چھو کر گدگداتی ہے زکوٰۃ
فوائد ِ زکوٰۃ:
جنت کے آٹھ دروازوں کی مناسبت سے یہاں آٹھ فوائد زکوٰۃ ذکر کئیے گئے ہیں:
اول: اللہ رب العزت جو کہ قاضی الحاجات ہے وہ اپنے بندوں سے خوش ہوتا ہے جب وہ اس کی مخلوق کی حاجت روائی کررہا ہوتا ہے۔ جو شخص مخلوق کی حاجت روائی کرتاہے اللہ رب العزت اس کی حاجت روائی کرتا ہے۔یقناً جس کی حاجت روائی اللہ رب العزت کرے گا اور جس پر وہ خرچ کرے گا تو وہ تمام مخلوق سے بے نیاز ہوجائے گا۔
أَنْفِقْ يَا ابْنَ آدَمَ، أُنْفِقْ عَلَيْکَ۔( مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
"اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) مال خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔”
دوم: کسی ضرورت مند کی حاجت روائی اوراحتیاج کی تکمیل میں معاونت پر دلی سکون میسرآتاہے۔دوسرے کی چہرے کی خوشی بھی انسان کو سکون اور خوشی عطا کرتی ہے۔اس شخص کے دل میں منعم کے لئے محبت پیدا ہوتی ہے۔ یوں زکوٰۃ ایسے معاشرے کی تشکیل میں مدد کرتی ہے جہاں لوگوں میں بغض و نفرت و حسد کی آگ کے بجائے محبت واتحاد ہوتا ہے:
روٹھنے والوں کو آپس میں ملاتی ہے زکاة
بغض ونفرت سے بنی دیوار ڈھاتی ہے زکاة
سوم: جب انسان کسی حاجت مند کی ضرورت پوری کرتا ہے تو سامنے والا دل کی گہرائی سے یعنی زبان قال کی بجائے زبان حال اور اپنے وجود کے انگ انگ سے دعا دیتا ہے تو وہ دعا فوراً قبولیت کی منازل طے کرلیتی ہے۔
چہارم: اس کا اپنا مال پاک ہوجاتاہے۔ بڑھنے لگتاہے۔زکوٰۃ مال کا وہ میل کچیل ہے جسے نکال دیا جائے تو مال آلودگی سے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔اس کی ادائیگی سے بے شمار برکتیں پیدا ہوتی ہیں اور دینے والے کا مال بجائے گھٹنے کے بڑھتا رہتا ہے۔
جو بھی دولت خرچ ہوتی ہے خدا کی راہ میں
وہ کبھی گھٹتی نہیں اس کو بڑھاتی ہے زکاة
پنجم:اللہ رب العزت اس پرآنے والی بلائیں و ناگہانی آفات و پیش آمدہ مصائب ٹال دیتا ہے۔إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتَقَعُ فِي يَدِ اللهِ قَبْلَ أَنْ تَقَعَ فِي يَدِ السَّائِلِ، وَإِنَّ اللهَ لِيَدْفَعُ بِهَا سَبْعِينَ بَابًا مِنْ مَخَازِي الدُّنْيَا (حلیۃ الاولیاء)
"صدقہ سائل کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ رب العزت کے ہاتھ میں جاتاہے۔اور اللہ رب العزت اس سے دنیا کی ستر بیماریاں اوررسوائیاں دور کرتاہے۔”
حفظ مال وجان و ایمان کا سبب بنتی ہے وہ
ہر بلائے ناگہانی سے بچاتی ہے زکوٰۃ
ششم: زکوٰۃ روحانی بیماریوں کاعلاج ہے جن میں کثرت مال کی خواہش ، تکبر، حرص، بخل، ہوس اورخودغرضی جیسی بیماریاں شامل ہیں جن کے ازالے کے لئے زکوٰۃ فرض ہے۔
نفس امارہ کا ہوجاتاہے اس سے تزکیہ
دل کو اک شفاف آئینہ بناتی ہے زکوٰۃ
ہفتم: زکوٰۃ نہ دینے کا برا انجام
مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالاً، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ، لَهُ زَبِيبَتَانِ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ ـ يَعْنِي شِدْقَيْهِ ـ ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ۔
"حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ جس کو مال دے اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ جس کی آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے ہوں گے کی شکل بن کر اس کے گلے کا طوق ہوجائے گا پھر اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہےگا میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں۔”
جو قوم زکوٰٰۃ روک لیتی ہے اللہ رب العزت اس قوم پر قہر نازل کرتاہے۔کیونکہ زکوٰۃ انسان کے مال میں اللہ کے بندوں کا حق ہے۔ناحق دوسروں کا مال اپنے پاس روک کر رکھنے والا غاصب کہلاتا ہے ۔اسی لئے اس کا مال پاک و ناپاک مال کے خلط ملط ہونے سے اس کے لئے باعث ہلاکت بن جاتاہے۔ یعنی اگر مال میں زکوٰۃ کا حصہ ملا ہوگا، اور وہ نکال کر مستحقین کو نہیں دیا جائے گا، تویہ چیز آدمی کے دین و ایمان کو تو تباہ کرنے والی ہے ہی، ساتھ ہی اس کا پورا سرمایہ بھی اس کے ظلم کے سبب تباہ ہوسکتا ہے۔ زکوٰۃ نہ ادا کرنے کی وجہ سے آدمی کا سارا مال ناقابلِ استعمال قرار پاتا ہے۔ زکوٰۃ نہ دے کر آدمی اپنے سارے مال کو ناپاک کر دیتا ہے۔ اس سے بڑی ہلاکت اور بدبختی کی کیا بات ہوسکتی ہے۔
نیز یہ ذہن میں رہے زکوٰۃ کی ادائیگی بندے پر فرض ہے وہ اس کی ادائیگی کی صورت میں کسی پر احسان نہیں کرتاہے۔اسے اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ ایسا نہ ہوکہ وہ صدقہ نکالنا چاہے اور اس سے صدقہ قبول کرنے والا کوئی نہ ہو۔کیونکہ ایک حدیث مبارکہ ہے:
تَصَدَّقُوا فَإِنَّهُ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ، فَلاَ يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا(صحیح بخاری:1412)
صدقہ کرو،ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک آدمی اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائے گا۔
ہشتم: اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کیا گیا مال اس کی بارگاہ میں جمع ہوتا رہتا ہے۔مستقل بڑھتا رہتا ہے ۔یہ وہ محفوظ ترین مقام ہے جہاں جمع کرایا گیا مال نہ جلتا ہے، نہ چوری ہوتاہے نہ ڈوبتا ہے بلکہ جس دن انسان کو اس مال کی اشد حاجت ہوگی اس دن بڑھا کر واپس کردیا جائے گا۔ایک حدیث قدسی ہے:يَا ابْنَ آدَمَ، أَوْدِعْ مِنْ کَنْزِکَ عِنْدِي، وَلَا حَرَقَ وَلَا غَرَقَ وَلَا سَرَقَ أَوْتِيْکَهُ أَحْوَجَ مَا تَکُونُ إِلَيْهِ.( بيہقي 3 / 221، الرقم : 2342)”اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : اے ابن آدم! اپنے خزانے میں سے کچھ نکال کر میرے پاس ودیعت کر۔ وہ نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا اور نہ چوری ہو گا، جب تجھے اس کی سخت ضرورت ہو گی تو میں تجھے یہ واپس لوٹا دوں گا۔”
جملہ معترضہ:
کیا انسان اپنا مال اپنے ساتھ قبر(آخرت) میں لے جاسکتاہے؟ یقیناً انسان کا مال بھی اس کے ساتھ بلکہ اس کے قبر میں جانے سے پہلے ہی وہاں جاسکتا ہے۔ کیسے؟
ایک حکایت ہے کہ امام رازی سے کسی نے پوچھا اگرکوئی چاہے کہ اس کا سارا مال اس کے ساتھ قبر میں جائے تو اس کی تکمیل کیسے ہو؟
آپ نے اس سوال کے جواب میں یہ حدیث رسول ﷺ سنائی۔
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهُمْ ذَبَحُوا شَاةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَقِيَ مِنْهَا» ؟ قَالَتْ: مَا بَقِيَ مِنْهَا إِلَّا كَتِفُهَا قَالَ: «بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا
"رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ ایک بکری صدقہ کی تھی اور اسکا گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا اور گھر سے نکل گئے جب واپس پلٹے تو پوچھا کہ کچھ باقی بھی بچا ہے تو اہل بیت نے عرض کیا صرف ایک ران باقی بچی ہے تو آپ ﷺنے فرمایا اس ران کے سوا سارا ہی باقی بچ گیا ۔”یعنی سارا ہی آخرت کے لئے بچ گیا۔
یا ایک اورحدیث مبارکہ میں آتاہے:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: يَقُولُ الْعَبْدُ: مَالِي، مَالِي، إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ: مَا أَكَلَ فَأَفْنَى، أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَى، أَوْ أَعْطَى فَاقْتَنَى، وَمَا سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ ذَاهِبٌ، وَتَارِكُهُ لِلنَّاسِ۔(صحیح مسلم: 2959)”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ کہتا ہے:میرا مال ‘میرا مال‘بے شک اُس کے (جمع کردہ)مال میں سے اُس کا حصہ صرف تین قسم کا مال ہے:جو اُس نے کھالیا اور فنا ہوگیایاجو اُس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہوگیا یا جو اُس نے اللہ کی راہ میں دے دیا اور وہ اُس کے لیے ذخیرۂ آخرت بن گیا ‘اس کے سوا جو کچھ بھی ہے (وہ اس کا نہیں ہے )‘وہ تو (آخرت کا مسافر ہےوقت مقررہ پر ) چلا جائے گااور (ترکہ )چھوڑ جائے گا” ۔
ان دواحادیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ انسان اپنا وہ مال جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اپنے ساتھ آخرت میں لے جاتاہے۔قبر چونکہ آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ مال اس کے ساتھ قبر میں جائے گا اورباقی مال وہ اپنے ورثاکے لئے چھوڑ جائے گا۔
خلاصہ کلام:جب ہر صاحب ایمان پر زکوٰۃ کی اہمیت،فرضیت اور فضائل متحقق ہیں تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ کے احکامات اورفقہی مسائل بھی معلوم کرے۔زکوٰۃ کے مسائل کا اس حد تک علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے کہ وہ صحیح زکوٰۃ کی ادائیگی کرنے کے قابل ہوجائے ۔ پھر وہ انتہائی باریک بینی سے اپنے مال سے زکوٰۃ کا ایک ایک پیسہ نکالے(جومحروموں کا حق ہے) جیسے ایک امانت دار شخص دوسروں کی امانتیں واپس لوٹاتا ہے اور اس کا صحیح مصرف یعنی حق دار بحق رسید کے مقولہ کے تحت حق دار تک پہنچائے۔ تاکہ اس کا مال پاک ہوجائے اور دنیا و آخرت کی خیر وبرکات کا موجب بن جائے۔آخر میں زکوٰۃ کی اہمیت پر حضرت بیدلؔ رحمۃ اللہ علیہ کی لکھی گئی ایک نظم پیش خدمت ہے جسے حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ذکر حبیب میں نقل کیا ہے:
اہل حاجت کودیتے ہیں جوزکوٰۃ
اُن سے راضی ہے قاضی الحاجات
کیامولیٰ نے فرض بندوں پر
حصہ چالیسواں کریں خیرات
ایک دیں سات سوکاپائیں ثواب
ایک سے سات سوملیں درجات
ہائے مونہہ موڑوایسے محسن سے
اے بخیلانِ تارکانِ زکات
موت آئے جب ان بخیلوں کو
ہاتھ مل مل کے یہ کہیں ہیہات
ہائے کیوں ہم نے خرچ کرنہ لیا
اب چلے چھوڑ کر یہ سب ترکات
دل پر اس دم ہوحسرتوں کی مار
جان پر ہووے موت کی سکرات
ہو وہ حالت کہ بس خدا نہ دکھائے
وہ قلق وہ تڑپ وہ تکلیفات
لپٹے محشر میں ان کوبن کر سانپ
ان کا مال و متاع وفخرونات
کہے وہ سانپ میں وہی ہوں مال
جان دیتے تھے جس پہ تم دن رات
کرکے گرم ان کا سب زروزیور
داغ دیں جسم پربصدصدمات