کرونا وائرس سے متعلق چند سوالات کے جوابات
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ و مفتی دار العلوم وقف دیوبند
E-mail:
Mob: 07207326738
کرونا وائرس سے اس وقت پوری دنیامیں عجیب و غریب افراتفری مچی ہوئی ہے،ہمارا ملک ہندوستان کئی دنوں سے لاک ڈان ہے، جس میں بلاشدید ضرروت کے گھر سے باہر نکلنے کی پابندی ہے، اس صورت حال نے بہت سے نئے مسائل جنم دئے ہیں، بہت سے لوگ فون، واٹس ایپ اور ایم میل کے ذریعہ مختلف سوالات کررہے ہیں۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان مسائل کو اختصار کے ساتھ ایک جگہ قلم بند کردیا جائے تاکہ عام لوگوں کے لیے افادہ آسان ہو۔ اس کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں پر سوالات کے جوابات دینے پر اکتفاء کیا گیا ہے، دلائل سے قطعا گریز کیا گیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ جوابات عام حالات کے اعتبار سے نہیں لکھے گئے ہیں؛بلکہ اس وقت جو ناگفتہ بہ صورت حال پیدا ہوئی ہے اس تناظر میں یہ جوابات لکھے جارہے ہیں اس لیے عام حالات پر ا ن کو منطبق نہ کیا جائے اور نہ ہی ہمارے قدیم فتاوی سے ان کو ملایا جائے۔اس لیے کہ وقت اور حالات کے بدلنے سے مسائل بدل جاتے ہیں اور عذر کی صورت اور بلاعذر کی صورت میں فرق ہوتا ہے۔ اس وقت بہت سے علماء کرام نے جو رائے اختیار کی ہے اسی کے تناظر میں یہ جوابات لکھے جاررہے ہیں۔
سوال(۱)اس وقت مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے یامساجد کو بند کردینا چاہیے؟
جواب (۱) اس وقت احتیاط اسی میں ہے کہ مسجد کی جماعت کا نظام مختصر کردیا جائے اور چندمتعین افراد مسجد میں جماعت سے نماز پڑھ لیں باقی افراد اگر گھر میں جماعت کرسکتے ہیں تو گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں یا پھر تنہا نماز پڑھ لیں۔
سوال (۲) گھر میں نماز پڑھنے کا کیا طریقہ ہوگا؟
جواب (۲) مسجد میں جو اذان دی جاتی ہے وہ اذن کافی ہے، گھر میں اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے، صرف اقامت کہہ کر نماز پڑھی جائے جائے، اگر چند افراد ہوں تو امام آگے کھڑا ہو اور باقی افراد پیچھے کھڑے ہوں جس طرح مسجد میں نماز ہوتی ہے، اور اگرامام اور ایک مقتدی ہو تو مقتدی امام کے دائیں طرف امام کے ساتھ کھڑا ہو، تھوڑا سا امام سے پیچھے رہے تاکہ بے خیالی میں کہیں امام سے آگے نہ بڑھ جائے، گھر میں نمازکی صورت میں خواتین بھی شریک ہوسکتی ہیں اور خواتین کی صف بالکل اخیر میں ہوگی اگر گھر میں نماز پڑھنے والے صرف میاں بیوی ہوں تو بیوی، امام کے مصلی کے پیچھے کھڑی ہوگی۔
سوال(۳) جمعہ کی نماز کا کیا ہوگا؟مسجد میں جمعہ کی نماز ہوگی یا نہیں؟ کئی جماعت مسجد میں کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب (۳)(۱)جمعہ کا نظام بھی عام دنوں کی طرح رہے گا،مسجد میں ایک مختصر جماعت ہوگی جس میں متعین افراد ہی شریک ہوں اورباقی لوگ گھر میں تنہا ظہر کی نماز پڑھ لیں البتہ جن جگہوں پر جمعہ ہوتی تھی لیکن موجودہ حالات کی بناپر جمعہ کے لیے مسجد میں نہیں جاپارہے ہیں وہ لوگ مسجد کی جماعت کے بعد اپنے گھروں میں چند افراد مل کر جمعہ کر سکتے ہیں،جمعہ کی نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں ہے؛ بلکہ شہریا بڑا قصبہ ہونا اور اذن عام کا ہونا شرط ہے۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ گھر وں پر بھی بڑا مجمع نہ کیا جائے بلکہ چند حضرات مل کر نماز پڑھ لیں۔
(۲)گھر میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا وہی طریقہ کا ہے جو مسجد میں پڑھنے کا ہے، ہاں یہاں پر دو اذان نہیں ہوگی، بلکہ امام کے ممبر پر بیٹھنے کے بعد اذان دی جائے گی، اور امام مختصر دو خطبہ دے گا،گھر میں ممبر کے لیے کرسی کا استعمال کرسکتے ہیں۔
(۳)اگرآدمی تنہا ہو یا دو لوگ ہو ں تووہ ظہر کی نماز پڑھیں،جمعہ کی نماز کے لیے چار افراد کا ہونا ضروری ہے۔جن علاقوں میں پہلے سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی اور لوگ دور دراز کی مسجدوں میں جمعہ کے لیے جاتے تھے اب وہ وہاں نہیں جاسکتے ہیں تو وہ لوگ اپنی مسجد میں یا اپنے گھر وں میں جمعہ نہیں کریں گے؛ بلکہ ظہر کی نماز پڑھیں گے۔
سوال (۴)جن علاقوں میں حکومت کی طرف سے سختی نہ ہو تو کیا وہاں پر جمعہ کی نماز تمام لوگ مسجد میں پڑھ سکتے ہیں، بعض جگہ پر امام صاحب دو جماعت کے لیے بھی تیار نہیں ہیں وہ کہتے ہیں یہ مسئلہ اس جگہ ہے جہاں پر حکومت کی طرف سے سختی ہو ہمارے یہاں پر ایسا کچھ نہیں ہے اس لیے ایک ہی جمعہ ہوگی او رتمام لوگ ایک ساتھ ہی نماز پڑھیں؟
جواب (۴) امام صاحب کا طرز عمل درست نہیں ہے، حکومت کی طرف سے سختی ہو یا نہ ہو احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، خود بھی نقصان سے بچنا ہے اور دوسرو ں کو بھی نقصان سے بچانا ہے، ایک آدمی جو مسجد میں آیا اس کو نہیں معلوم ہے کہ وہ کرونا سے متأثر ہے اور وہ کئی لوگوں سے ملے گا اس طرح وہ کئی لوگوں کو نقصان پہچانے کا ذمہ دار ہوگا۔ اس وقت انسانیت کی خدمت یہ ہے کہ انسان سے فاصلہ بنایا جائے یہ ایمان کی کمزوری کی بات نہیں ہے؛بلکہ احتیاطی تدابیر کا تقاضہ ہے۔
سوال (۵)اگر مسجد میں چند لوگ نماز پڑھیں اور ہردومصلی کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ ہو تو کیا نماز درست ہوجائے گی؟
جواب (۵)نماز میں صفوں کو درست کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور صفوں کی درستگی میں مل مل کر کھڑا ہوناہے او رمل مل کرکھڑا ہونا سنت ہے اس لیے اگر اس طرح کا فاصلہ کیا جائے تو مجبوری کی حالت میں اس کی گنجائش ہے اور نماز ہوجائے گی۔
سوال (۶) ماسک پہن کر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ ہمارے یہاں امام صاحب بھی ماسک لگاکرنماز پڑھتے ہیں۔
جواب (۶) عام حالات میں بلا عذر ناک اور منھ پر کپڑا لپیٹنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ عذر کی بناء پر ناک یا چہراڈھانپنا بلاکراہت درست ہے اس لیے موجود حالات میں عذر کی بناء پر ماسک پہن کر نما ز پڑھنا درست ہوگا امام صاحب بھی ماسک لگاسکتے ہیں۔
سوال(۷)کیا اذان میں حی علی الصلاۃ کی جگہ صلو ا فی بیوتکم کہا جاسکتا ہے؟
جواب (۷) بعض روایت میں حی علی الصلاۃ کی جگہ صلو فی بیوتکم پڑھنا ثابت ہے،لیکن ہمارے یہاں لوگ عربی نہیں جانتے ہیں اس لیے صلوفی بیوتکم کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا پھر لوگوں کو مسئلہ معلوم نہیں ہوتا ہے اس لیے عام لوگوں میں بحث کا ایک موضوع بن جائے گا اس لیے بہتر یہ ہے کہ اذان مکمل دی جائے ا ور اذان کے بعد اردو میں یا مقامی زبان میں یہ کہہ دیا جائے کہ گھر پر نماز پڑھ لیں۔
(۸)سینیٹائزر پاک یا یا ناپاک؟ جب کہ اس میں الکحل ملا ہوتا ہے اور کیا سینیٹائزر استعمال کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں؟
(۸)کجھور،انگور اور منقی سے بنی الکحل نجس اورحرام ہے۔ پھل یا دیگر مائعات سے کشید کردہ الکوحل نجس اور حرام نہیں ہے اس لیے دواؤں میں اس کا استعمال جائز ہے،ماہرین کی تحقیق یہی ہے کہ دواؤں میں جو الکحل استعال ہوتا ہے وہ پھل وغیرہ کا ہوتا ہے اس لیے سینیٹائز کا استعمال کرنا جائز ہے اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اور اس کو استعمال کرنے کے فورا بعد نماز پڑھنا درست ہے۔
سوال(۹)موجودہ حالات میں مصافحہ کرنا چاہیے کہ نہیں؟ اگر ہم مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں تو بعض لوگ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور مصافحہ نہیں کرتے ہیں کیا یہ ایمان کی کمزوری نہیں ہے؟
جواب (۹)حدیث میں مصافحہ کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے حدیث میں ہے کہ جب دو مصافحہ کرنے والے مصافحہ کرتے ہیں تو ہاتھ کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اس لیے مصافحہ کرنا مستحب عمل ہے لیکن موجودہ حالات میں چوں کہ وائرس ہاتھوں کے ذریعہ منتقل ہوسکتاہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا ہے وہ وائرس سے متاثر ہے یا نہیں؟ بسااوقات آدمی وائرس سے متاثر ہوگا اور وہ مصافحہ کرکے اپنا وائرس دوسرے میں منتقل کردے گا اس طرح یہ دوسروں کے لیے بھی تکلیف کا باعث ہوگا اس لیے ماہرین اطباء کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے موجودہ حالات میں مصافحہ سے پرہیز کرنا چاہیے یہ ایمان کی کمزوری کی علامت نہیں ہے۔
سوال (۱۰)وبائی امراض پھیلنے کی صورت میں اذان دینے کا کیا حکم ہے آج کل واٹس ایپ پر بہت گشت کررہا ہے کہ اپنے گھروں کے سامنے اذان دیں اس کی کیا حیثیت ہے کیا اذان دینا چاہیے یا نہیں؟
جواب (۱۰)وبائی امراض کے موقع پر اذان دینا حدیث سے ثابت نہیں ہے،البتہ حضرات فقہاء نے غم اور مصیبت کے وقت غم کو ہلکا کرنے کے لیے اذان دینے کی بات لکھی ہے، اکابردیوبند میں حضرت گنگوہی نے منع کیااور بلا کے وقت اذان دینے کو بدعت کہا ہے جب کہ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نے اس موقع پر اذان دینے جائز لکھا ہے اس لیے سنت اور ضروری نہ سمجھتے ہوئے انفرادی طور پر اذان دینے کی گنجائش ہے۔لیکن موجودہ حالات میں اجتماعیت سے ساتھ اور التزام کے طورپر اذان دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ عمل بدعت کی طرف لے جانے والا ہے۔اور حضرات صحابہ سے طاعون وغیر ہ وباء کے وقت اذان دینا ثابت نہیں ہے۔
سوال (۱۱)اگر کرونا سے متأثر شخص کی موت ہوجائے تو اس کی تجہیز و تکفین کا کیا حکم ہے؟
جواب(۱۱): موت کا ایک وقت متعین ہے اور ہر شخص کو اس کے اپنے متعین وقت میں موت آتی ہے اس سے پہلے نہیں،چاہے کسی بھی مرض سے موت آئی ہو اس لیے اگر کسی کی موت کرونا سے ہوجائے تو اس کے ساتھ بھی عام میت جیسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ تاہم اگر اطباء کی رائے ہے کہ اس کو چھونے سے مرض منتقل ہوسکتا ہے تو جن احتیاطی تدابیر کے ساتھ ڈاکٹر اس کا علاج کرتا ہے انہی احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کے غسل اور تجہیز و تکفین کا نظم کیا جائے گا۔ کرونا سے وفات پائے ہوئے میت کو بھی غسل دینا اس کی تجہیز و تکفین کرنا واجب اور ضروری ہے۔