ادبی تحقیق کے مسائل وسائل اور امکانات
رفیق جعفر (پونے)
9270916979
تحقیق ایک ایسا فن جو مشکل سے حاصل ہوتا ہے لیکن انسانی سماج میں آسانیاں پیدا کرتا ہے’ فائدہ پہونچاتا ہے۔ کہتے ہیں تحقیق کبھی مکمل نہیں ہوتی بات بڑی حد تک صحیح تو ہے لیکن کسی موضوع کو اپنی فکرکا مرکز بناکر جس محقق نے جو کام کیا ہے اس سے انکارنہیں کیا جاسکتا
یہ اور بات ہے کہ کچھ کام کسی نہ کسی وجہ سے ادھورے رہ جاتے ہیں یا ذاتی مسا ئل یا وسا ئل کی کمی کی وجہ سے کسی کام میں کمی رہ جاتی ہے دراصل تحقیق کا فن تمام فنو ن سے الگ انو کھا اورایک طرح کا جنونی کام ہے۔
تحقیق زندگی کے ہر شعبے میں ہوتی رہی ہے، ہورہی ہے اورہوتی رہے گی۔کیونکہ اس کی ضر ورت ماضی میں بھی رہی ہے اور حال میں بھی ہے۔ در اصل انسان کو دور جہالت کے اندھیر وں سے نکا ل کر چمکتے دمکتے اجا لو ں کی شاہراہوں تک لا نے کا کام تحقیق نے ہی کیا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا رہا ہے کہ کسی نے راہ تلاش کی اور کوئی اس پر چل پڑا اور کسی اور کے حصے میں منزل آگئی۔ اس لئے تحقیق کی دنیا میں محققین کے کاموں اورکارناموں پر بھی تحقیق ہوتی رہی ہے۔ اجتماعی تحقیق کا سہرا اس کے سربراہ کے سر جاتا ہے۔ سائنسی ایجادات میں اکثر انفرادی تحقیق سے بنیادی کام ہوئے ہیں جسے اجتماعی تحقیق نے آگے بڑھایا اور انسان کو سفر اور رہن سہن کی سہولتیں بہم پہونچائیں ۔ مہذب طریقے سے جینا سکھایا تعلیم و تربیت کے راستوں کا تعین کیا۔ بہرحال آج کی دنیا کی ترقی یافتہ شکل تحقیق کا ہی کرشمہ ہے۔ یہاں میں مزید تفصیل میں گئے بغیر ادبی تحقیق پر گفتگو کرنا چاہوں گا کیونکہ علمی تحقیق کا موضوع بہت وسیع ہے اور مجھ ایسے کم علم کے بس میں بھی نہیں، ویسے ادبی تحقیق پر لب کشائی کی توانائی بھی میں اپنے آپ میں نہیں پاتا لیکن مطالعہ کے شوق اور کچھ عالم فاضل بزرگوں اور دوستوں کی صحبتوں کی وجہ سے کچھ سمجھ سکتا ہوں اور لکھ بھی سکتا ہوں۔ اب آئیے ہم ادبی تحقیق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہے۔ ایک اقتباس ملا خطہ فرمائیں۔
”ادبی تحقیق کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ زبان و ادب کے کسی مسئلے کے حل، کسی سوال کے جواب کی تلاش یا حقائق کی بازیافت کے لئے متعین طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔ ادبی تحقیق کسی الجھاؤ کو سلجھانے کے لئے اختیار کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی اس کا یہ مقصد بھی ہوتا ہے کہ کسی رائج نظریے یا عام طور پر تسلیم شدہ روایت یا مقبول عام تصور کی اصلیت سے آگاہی حاصل کی جائے۔ ادبی تحقیق کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ کسی ادبی یا لسانی نکتے کے جملہ پہلوؤں سے تشفی بخش آگاہی حاصل نہیں ہے تو اس آگاہی کے حصول کی کوشش کی جائے تاکہ وہ نکتہ پوری طرح روشن ہوجائے۔“
(ڈاکٹر اقبال النساء۔ادبی تحقیق، ص۔ ۱۲۷، ناشر۔ ناگ پاڑہ، اشاعت دوم، مرتب۔ ندیم صدیقی، باندرا اسٹیٹ، ممبئی)
اس اقباس سے ادبی تحقیق کا مقصد ظاہر ہو جا تا ہے۔ اسے دوسرے طریقے سے بھی کہاجاسکتا ہے۔ لکھا جاسکتا ہے لیکن نا چیز کے خیال میں ادبی تحقیق کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے اس سے نکلنے والے کچھ گوشوں پر گفتگو کرنا ضروری ہے۔ایک تو یہ کہ صرف مودا کا اکٹھا کر لینا تحقیق نہیں کہلائے گا بھلے ہی مواد مشکل سے حا صل کیا گیا ہو، نایاب ہو، مواد پر غور وفکر لازمی ہے اور اظہار میں اسکا لر مواد پر کھل کر بات کرے اور اپنی بات کی تصد یق یا تائید میں کسی مستند قلم کار کی شائع شدہ تحر یر سے اقتبا س پیش کرے اور اقتباس کا تعلق زیر بحث موضوع سے ہو اور اس کے بعد بات آگے بڑ ھے نہ کہ رک جائے۔ لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جامعاتی مقالوں میں اقتباسات اس کے بر عکس ہوتے ہیں۔یعنی خانہ پوری اور صفحات زیا دہ کرنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ بات میں پی۔ایچ۔ڈی یا ایم فل کے چھپے ہوئے مقالوں کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ جامعات میں داخل کئے گئے مقالات میں سے بیس فی صد مقالے بھی کتابی شکل میں شائع نہیں ہو تے اور جوہوتے ہیں ان میں زیا دہ تر ترمیم و اضافوں کے سا تھ ہو تے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ جامعات میں داخل کئے مقالے یا غیر معیاری ہیں یا نظر ثانی کے محتاج ہیں اورجوترمیم و اضافوں کے سا تھ شا ئع ہو تے ہیں ان کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے کہ ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آ ئی اور اضافوں کی ضروت کیوں محسوس کی گئی۔ایسے اور بھی کئی سوالات ہیں جن کا جواب آج کی جامعاتی تحقیق میں نہیں ملتا۔اس طرف ماضی قریب کے کئی مستند ومعتبر اسا تذہ نے بار بار تو جہ دلا ئی ہے۔ خاص طور پر پروفیسر گیان چند جین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے لئے لکھے جانے والے مقا لوں کے مقا بل درس گا ہو ں کے با ہر دوسرے اہل ذوق بالعموم اس کا معیار سندی تحقیق سے کافی برتر ہوتا ہے۔ندیم احمد انصاری (مرتب ادبی تحقیق۲۰۱۹) نے اپنے ایک مقالے میں اسکالرس کے مسا ئل پربحث کرتے ہو ئے پروفیسر یونس اگاسکر کے مضمون سے ایک اقتباس نوٹ کیا ہے۔ملا حظہ فرمائیں۔
”جامعاتی تحقیق سے میں بہت نہ خوش ہوں، تحقیق کو جب کریئر کی بہتری اور منصب کے حصول سے جو ڑا جائے اور ڈگریوں کو محض کا غذی لیاقت کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جائے تو علمی کاموں کے معیار میں گراوٹ لازمی ہے اور اب تو تحقیق کی ڈگریاں پانے کے سہل الحصول طریقے بھی فراہم ہو گئے ہیں۔اس لئے مستقبل نہایت تاریک نظرآتا ہے۔“
(مظہرامام، سہہ ماہی تکمیل، اپریل۔ستمبر۲۰۰۸، ص۔۳۰۶ تا ۳۰۹)
ندیم احمد انصاری نے اس اقتباس پر اپنی رائے دیتے ہوئے اسکالرس کے ساتھ ساتھ گائیڈس(اساتذہ) کو قصوروار ٹھرایا ہے۔ ان کی سہل پسندی، لا پرواہی پر سیر حا صل گفتگو کی ہے۔
جامعاتی تحقیق کے اور بھی کئی مسا ئل ہیں۔ مو ضوع کے انتخاب میں گائیڈ کی پسند اور تر جیحات اور اسکالرس کی مجبوریاں، عدم دلچسپی اور جامعات کی پابندیاں، متعینہ وقت میں مقالہ لکھنا اور داخل کرنا اور صفحات کا تعین، مواد کی تلاش میں کوتا ہی، جومواد ہاتھ لگا اسی پر اکتفا کرنا وغیرہ۔ یہ اساتذہ(گائیڈس)، اسکالرس اور جامعات کی پابندی ایسے روڑے ہیں جو صحیح تحقیق کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں اور نتائج کے بارے میں کیا کہا جا ئے کہ جو جگ ظاہر ہیں۔
اکیسویں صدی کے ان دو دہوں میں ارو زبان میں جتنے تحقیقی کام ہو ئے ہیں اس سے پہلے جامعاتی سطح پر اتنے کا م نہیں ہوئے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ سا رے کام بے کار گئے ہوں۔ کچھ تحقیقی کاموں سے نئے در بھی وا ہو ئے ہیں لیکن افسوس ان کی تعداد کم ہے۔ جب کہ یو۔ جی۔ سی، مرکزی اور ریاستی جامعات نے کافی سہولتیں دے رکھی ہیں۔کچھ اسکالرس کو ماہا نہ وظیفے بھی دیے جا تے ہیں۔ سندیں حاصل کرنے کے بعد آگے کی تعلیم کے راستے بھی کھلے ہیں اور ملازمتیں بھی لیاقت کے لحا ظ سے مل رہی ہیں۔ ایسے میں طریقہ تحقیق کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔اسا تذہ کو ذمہ داری کااحساس کرنے کی ضرورت ہے۔انھیں اپنے پیشے سے وفاداری برتنے کی ضرورت ہے۔ جو ہوا سو ہوا اب بھی بہت کچھ نہیں بگڑابلکہ تحقیق کی دنیا میں آج پہلے کے مقا بل وسا ئل زیا دہ ہو گئے ہیں۔ وسا ئل سے فائدہ اٹھا کر مسا ئل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ آ گے امکانات روشن ہیں۔ ایک اقتباس ملا حظہ فرمائیں۔
”انٹرنیٹ اور ای اخبار و رسائل کے علاوہ سو شل میڈیا نے ذرائع ابلاغ کے تمام تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔کوئی سو چ نہیں سکتا تھا کہ آج کے دور میں سو شل میڈیا اس قدر لوگوں کی زندگی کا حصہ بن جائے گا، فیس بک، ٹیوٹر، واٹس اپ، گوگل پلس، انسٹا گرام اور دوسرے کئی ایک سوشل میڈیا نے ذرائع ابلاغ میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں جس طرح ذہن انسانی کا ارتقاء عمل میں آیا اسی طرح ذرائع ابلاغ میں پھیلاؤ آتا گیا۔ عقل حیران ہے۔ کب کونسی چیز سائنس ایجاد کردے اور ابلاغ عامہ کو ایک اور ذریعہ فراہم کردے۔“
(ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم، کتاب ”صحافت اور صحافی“ ۲۰۱۷ء، ص۔ ۲۰)
اس اقتباس سے ظاہر ہوا کہ انٹرنیٹ آج کتنا اہم ہے۔ یہ سا ئنس کی ترقی آج کے انسا ن کے لیے کتنی سہو لت بخش ہے۔ اور یہ اردو والوں کی خوش نصیبی ہے کہ انٹرنیٹ کے کئی شعبوں میں اردو زبان و ادب کے ما ضی اور حال کا جہان آبا د ہے۔ اس پر جہاں مختلف علوم و فنون پر معلومات کا خزانہ ہے وہاں ادبی تحقیق کے سینکڑوں ابواب روشن ہیں۔انشا اللہ تلاش کی محنت رائیگاں نہیں جا ئے گی۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے کئی در کھلے ہیں۔ ادھر سے نہیں تو اُدھر سے جو ہم چا ہتے ہیں مل ہی جائے گا۔ انٹرنیٹ پر ایک در تو حیدر آباد یو نیورسٹی کے صدر شعبہئ اردو پروفیسر ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم کا مشہور ویب سا ئٹ ”جہانِ اردو“ ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدہ نسیم سلطانہ(مصنفہ ”الیکٹرانک میڈیا میں اردو زبان وادب کا فروغ)اس ویب سا ئٹ پر علمی، ادبی اور معلوماتی تحقیقات کی نشریات جاری ہیں۔میرے مشاہدے کے پیش نظر ”جہانِ اردو“ سب سے زیا دہ پڑھی جانے والی ویب سا ئٹ ہے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ ویب سائٹ
www.jahan-e-urdu.com ایک عرصے سے اہل اردو کی خدمت کر رہی ہے اور سنجیو صراف کی قا ئم کرہ ویب سا ئٹ ”ریختہ“کے تو بڑے چر چے ہیں۔اس کا آغاز ۳۱۰۲ میں ہوا یہ ۳۳۲ ممالک میں ۳۴ لاکھ شا ئقین کی پسندیدہ ویب سا ئٹ بن چکی ہے۔ کم عرصے میں ترقی کرنے وا لی اس ویب سا ئٹ میں اردو زبان و ادب کا قدیم اور جدید سر مایہ موجود ہے۔ ریختہ کی آن لائن لائبریری ایک بہترین اور کار آمد لائبریریثابت ہورہی ہے۔
ان دونوں ویب سا ئٹس کے علاوہ محققین، قارئین اور اساتذہ کے لیے انٹرنیٹ پر بہت کچھ ہے۔ اب مواد کی تلاش کے لیے دور دراز شہروں اور ملکوں کے اسفار کی ضرورت نہیں، گھر بیٹھے تحقیق کے لئے مواد مل سکتا ہے۔ اسا تذہ (گائیڈس) طلباء و طالبات اور اسکالرس انٹرنیٹ کے مسلسل ربط میں رہیں تو مواد کا مسئلہ حل ہو جا ئے۔
تحقیق کے مروجہ طریق کار پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے لیکن یہاں اس کا محل نہیں لیکن معیار سے سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔حقائق اور سچائیوں کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے کام سے محبت اور بے حد محنت کی ضرورت ہے۔
یہاں میں اپنے ایک دوست مشہور شا عر اور عصری ادب کے ناقد شارق ؔ عدیل کی ایک تجویز پر توجہ دلانا چا ہوں گا کہ انھوں نے اپنے کسی مضمون میں تحقیق کے سلسلے میں لکھا تھا اس کے بارے میں میں نے فون پر ان سے ربط پیدا کیا۔ انھوں نے کہا: ”میں یہ مانتا ہوں کہ تحقیق ادب کی محافظ بھی ہے، اور ادب والوں کو فعال رکھنے کا ذریعہ بھی۔ اس لیے چونکہ ماضی کے ادب پر بہت کام ہوچکا۔ تحقیق سے نئے انکشافات بھی ہو ئے اور جو محفوظ ہونا تھا ہو گیا۔پچھلے چار پانچ دہوں سے جو ادب تخلیق ہو رہا ہے اس پر گاہے گاہے کام تو ہوا ہے لیکن اطمینان بخش کام میری نظر سے نہیں گذرا، اس میں شدت پیدا کرنے اور نئے نئے تحقیقی در کھولنے کی ضرورت ہے تاکہ بیسویں صدی کے وسط سے اکیسویں صدی کے دوسرے دہے تک نثری اور شعری ادب میں جو کام ہوئے ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ جامعاتی مقالے لکھے جائیں۔
شارق عدیل کی اس تجویز سے میں متفق اس لئے ہوں کہ جامعاتی اور غیر جامعاتی تحقیق کے بارے میں میں بھی سوچا کرتا ہوں کہ عصر حاضر کے ما ضی قریب کے ادب پر ہم عصر قلم کار تحقیقی کام کریں تاکہ آنے والی نسلوں تک موجودہ ادبی تحقیق پہونچ سکے۔
میں نے اپنی بساط، صلاحیت اور قابلیت کے مطابق ادبی تحقیق کے مسا ئل،وسا ئل اور امکانات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں مقالوں کے معیار کو موثر بنانے کے لئے ایک اقتباس پر اپنی گفتگو ختم کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں
”تحقیق کا فن“ ڈاکٹر گیان چند جین کی وہ قابل قدر تصنیف ہے جس میں فن تحقیق کو مو ضوع بنایا گیا ہے۔ اس کتاب کے بارے میں خود کو مصنف نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں ”تحقیق کا فن“کو اپنی بہترین کتاب سمجھتا ہوں، اس کتاب میں صرف ان کے زندگی کے علمی و تحقیقی تجربوں اور وسیع، گہرے مطالعے کا نچوڑ آگیا بلکہ ترتیب کے ساتھ فن تحقیق کے وہ سارے پہلو سا منے آگئے ہیں جو تحقیق کرنے والے ہر طالب علم پر استاد اور سب محقیقی کے لیے نہایت مفید ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے تحقیق کرنے والوں کی ایسی تعلیم و تربیت ہو جا تی ہیجن کی مدد سے وہ تحقیق کو سائنٹفیک بنیاد پر کام کرسکتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے ایک طرف ایم فل، پی۔ایچ۔ ڈ ی کے مقالوں کا حصار بلند ہو گا۔ ترتیب و تدوین صورت وجود میں آئے گی۔“
(تحقیق کافن، پیش لفظ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی، ص۔۱، سن اشاعت 2017، پبلیشر روشان پرنٹرس، دہلی)
——
Rafiq Jafar,
Ranjit Singh Colony, Nalbangali,
Talegaon Dabhade, Taluka Maval,
Pune – 410506 (Maharashtra)
9270916979/ 7517854804