حسنین عاقبؔ کی شخصیت
اور فن پر محسن ساحلؔ کی کتاب ’ہمہ آفتاب بینم‘ کا اجراء
ممبئی: 14 مارچ 2020 بروز سنیچر کو ممبئی پریس کلب میں معروف شاعر، ادیب و مترجم حسنین عاقبؔ کی شخصیت اور فن پر محسن ساحلؔ کی تحریر کردہ کتاب ’ہمہ آفتاب بینم‘ کا پروقار رسمِ اجراء عمل میں آیا۔ مشہور صحافی اور سائنسداں ڈاکٹر سلیم خان کی صدارت میں منعقدہ اس پروگرام میں شہر کی معروف ادبی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
تقریب کا آغاز اردو کارواں کے صدر فرید احمد خان کے استقبالیہ کلمات سے ہوا۔ کوئز ٹائم ممبئی کے بانی اور خانوادہئ سیماب ؔ کے ادبی وارث حامد اقبال صدیقی نے کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حسنین عاقبؔ عالمی شہرت کے حامل ادیب ہیں۔ ان پر تحقیقی کتاب تحریر کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔اس نیک کام کی شروعات ان کے شاگردِ عزیز محسن ساحل نے کی جو یقینا اردو ادب کے موجودہ ادبی منظر نامے کے حوالے سے ایک سنگِ میل ثابت ہوگی۔یہ حسنین عاقبؔ کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں محسن ساحلؔ جیسا سعادت مند شاگرد میسر آیا۔ حسنین عاقبؔ اردو ادب کے علاوہ انگریزی ادب کا بھی بڑا نام ہے اور مستقبل میں انھیں انگریزی ادب کے لیے زیادہ وقت دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر قمر صدیقی نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تحقیقی کتابیں اب تک جامعاتی سطح پر تحریر کی جاتی رہی ہیں لیکن محسن ساحلؔ نے اس روایت کو توڑ کر جامعاتی دائرے سے باہر رہ کر تحقیق کی نئی راہ ہموار کی ہے۔ اس کتاب کا ایک اختراعی پہلو یہ بھی ہے کہ عموماً اردو ادب میں یا تو میر ؔ، غالبؔ و اقبالؔ جیسے اساتذہ پر تحقیق کی جاتی ہے یا پھر ان پر جو مرحوم ہوچکے ہیں۔البتہ کسی زندہ فن کار یا قلمکار کی خدمات پر تحقیق کرنا جرات مندانہ عمل ہے۔یہ محسنؔ ساحل کی فکری تربیت کا نتیجہ ہے۔محسن ساحل نے ’ہمہ آفتاب بینم‘ کی تحریر کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے لیے حسنین عاقبؔ بالکل تیار نہیں تھے لیکن میرے اصرار اور محنت نے حسنین عاقبؔ کو رضامند کرلیا۔حسنین عاقبؔ پر تحقیق کے بہت سے زاویے تشکیل پاچکے ہیں جن پر مستقبل میں کام ہونے کے امکانات بہت واضح ہوچکے ہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ مستقبل میں میں کس درجے کا شاعر یا ادیب ثابت ہوں گا یہ اہم نہیں، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں حسنین عاقبؔ کے سعادت مند شاگرد کے طور پر پہچانا جاؤں۔صاحبِ کتاب شخصیت حسنین عاقبؔ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر شاگر د اپنے استاد کے لیے معنوی اولاد کی طرح ہوتا ہے اور اس حوالے سے محسن ساحل میرا معنوی فرزند ہے۔ یہ کتاب محسن ساحلؔ کی سعادتمندی، فکری وسعت اور تحقیق کے تئیں سنجیدگی کی دلیل ہے۔صدارتی تقریر میں ڈاکٹر سلیم خان نے کہامیں حسنین عاقبؔ اور محسن ساحلؔ کے درمیان اس رشتے کو حضرت شمس تبریز ؒ اور مولانا رومیؒ کے رشتے کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ یہ کتاب جہاں ایک طرف حسنین عاقبؔ کی شخصیت اور ان کی تین دہائیوں پر مشتمل طویل اور متنوع ادبی اور تعلیمی خدمات کا احاطہ کرتی ہے وہیں یہ محسن ساحلؔ جیسے اہلِ نظر قلمکار اور سعادت مند شاگر د کے خلوصِ قلب کو نئی نسل کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال بناکر پیش کرتی ہے۔شہر کی نمایاں ادبی و سماجی شخصیات نے شریک ہوکر پروگرام کو رونق بخشی جن میں میر صاحب حسن(مدیر تریاق) مشیر انصاری (مدیر اردو آنگن) ہارون افروز (مدیر صحافت)اعجاز ہندی، جاوید ندیم،شیخ عبداللہ مسرور، نظام الدین رائین،صحافی یوسف رانا، مستقیم مکی، عبید حارث، زہیر گول والا(سیفی ایجنسی) صدر معلمہ فریدہ سالم، زاہدہ حامد صدیقی، وقار انصاری، ریاض منصف،اشرف ریشم والا، افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ،سید خالد، ابراہیم نجیب، شیخ اقبال بی۔او، بی۔ایم۔سی، عبید الرحمن، محمد واصف، شاہینہ خان، شیرین انصاری، سید عثمان عاقبی، محمد انور، محمد وسیم، زیشان ساحرؔ،محمد شریف،عادل خان وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس پروگرام کی نظامت محترمہ شبانہ خان نے بحسن و خوبی انجام دی اور استاد و شاگر کے حوالے سے بہت سے تاریخی واقعات کا ذکر کرکے سامعین کو محظوظ کیا۔اظہارِ تشکر کی رسم معیار اسوسی ایشن کے عہدیدار ذیشان محمد صابر نے ادا کی۔رسمِ اجراء کا یہ پروگرام نہایت شاندار اور کامیاب رہا۔ اس پروگرام کا انعقاد معیار اسوسی ایشن اور اردو کارواں کے اشتراک سے عمل میں آیا۔