افسانہ : وہ رات
مینا یوسف
صفاپورہ،مانسبل
”اس وقت تو ہسپتال پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے!اس وقت گھوڑا گاڑی کا انتظام کر پانا ہمارے بس سے باہر ہے۔باہر گھنگور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ابا حضور“۔
”بیٹا تمہاری ماں کی طبعیت دھیرے دھیرے بگڑتی ہی جا رہی ہے۔اگر کچھ انتظام نہ ہو پایا اور ہم اس سے ہسپتال نہیں لے جا پائے توکہیں کوئی انہونی نہ ہو جائے۔۔۔۔“
شہر کی ویران سڑکیں،مدت سے خالی پڑے گلی کوچے جن میں اب اگر کچھ دکھائی بھی دیتا تھا تو صرف آوارہ کتے۔مانو جیسے انسانوں کا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہو؟اسی لئے سلیم کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ اتنی رات کو کہیں سے گاڑی کا انتظام کر پائے۔
کچھ دیر کے بعد سلیم کی نظر تھوڑی دورٹمٹماتی ہوئی روشنی کی آڑ میں کھڑے گھوڑے پر پڑی جس سے دیکھ کر اس کی جان میں جان آگئی اور وہ بچتے بچاتے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے اُس گھوڑے والے کے پاس پہنچ گیا۔دروازے کی کنڈی کے کھلنے کی آواز سنتے ہی وہ ایک دم سے بیدار ہو گیا۔
”کون ہے،کون ہے وہاں“؟
”جی میں آپ ہی کی پڑوس میں رہتا ہوں اور اس وقت ہمیں آپ کے ٹانگے کی ضرورت ہے میری والدہ کو ہسپتال پہچانا بہت ضروری ہے۔آپ کا یہ ہم پر احسان ہوگا اگر آپ ہماری مدد کریں گے“۔
”بیٹا میں تمہاری مجبوری کو سمجھ سکتا ہوں لیکن اس وقت اور باہر کے حالات۔۔۔۔۔۔؟
”ہم سب بلکہ پورا شہر ابھی اسی پریشانی سے جوجھ رہا ہے لیکن اس وقت اگر میری والدہ ہسپتال نہیں پہنچی تو۔۔۔۔۔؟
آخر کار سلیم ٹانگے والے کو لے کر اپنے گھر کی طرف نکلا اور گھر پہنچ کر اپنی ماں کو اپنے والد کے ہمراہ ہسپتال کی طرف لے نکلے اور ایک لمحے میں گھوڑے کے ٹاپوں سے رات کا سناٹا چونک اٹھااور اُداس مکان اورنا معلوم خوف کی طرح دنیا پر چھانے والی تاریکی نے انہیں جیسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
سلیم کے ہاتھ میں لالٹین کی روشنی کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھاجیسے دور آسمان پر کوئی تارہ ٹمٹارہا ہو۔
”بیٹا تیل کا بھی خیال رکھنا کہیں ختم نہ ہو جائے“
”جی چچا“
سلیم کو اندر ہی اندر اپنی والدہ کی فکر کھائی جا رہی تھی جن کا چہرہ پورا زرد پڑ چکا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے والد کی پریشانی سے بھی پوری طرح واقف تھا۔
”بیٹا سلیم تمہاری والدہ کے ہاتھ پاؤں شل ہو تے جارہے ہیں اب اور کتنا وقت لگے گاہمیں پہنچنے میں“۔
آخرکار آدھے سے زیادہ سفر طے کرنے کے بعد سنسان رات کے سناٹے میں اچانک سے ایک شخص سفید پوشاک پہنے ہوئے آسمان سے نازل ہوتی ہوئی آیت کی طرح ایک دم سے چلتے ہوئے ٹانگے کے سامنے نمودار ہو گیا۔ٹانگے والے نے زور سے لگام کھینچی اور ٹانگہ روک دیا۔سب خاموشی سے آنکھیں پھاڑ کے اس کو دیکھنے لگے۔سناٹے میں انہیں اگر کچھ سنائی دیتا تھا تو وہ زور سے دھڑکتے ہوئے دل کی ”دھک دھک“۔
”کون ہے آپ؟ اور ہمارا رستہ کیوں روکا؟ مہربانی کر کے ہمیں جانے دیجئے کسی کی زندگی کا سوال ہے؟
سلیم نے ٹمٹماتے ہوئے لالٹین کی روشنی کو اوپر کرتے ہوئے پوچھا“۔
”ایک بھٹکتا ہوا وہ مسافر ہوں جسے اس شہر کی اور یہاں کے انسانوں کی ناگفتہ بہ حالت ایک ناسور کی طرح اندر ہی اندر کرید رہی ہے۔مجبور،لاچار بے بس،بے سہارہ مریض۔ویران پڑی ہوئی بے جان زندگیاں جنہیں سماج کے ٹھیکیدار روندتے پھر رہے ہیں۔جس شہر کی سڑکیں کبھی روں دواں نظر آتی تھیں،جو شہر ترقی کی منزلیں طئے کرتاتھا آج وہی شہرویراں دکھائی دیتا ہے۔جہاں دیکھو خاردار تاریں اور ہاتھ میں بندوق اور لاٹھی لئے ہوئے حکومت کے پہرے دار نظر آتے ہیں۔تمہارے اپنے پے جب آج زندگی بچانے کا سوال آن پڑا تو تم ہڑبڑا سے گئے۔زندگی کے لئے سوال کرنے لگے۔کاش کہ ہر کوئی دوسری کی جان کا سودا کرنے کے بجائے ان کی جانوں کا محافظ بنے تاکہ لہو گرنے سے بچ جائے اور یہ ویراں خاردارتاروں سے بندھا شہر جنت بن جائے“۔
اتنے میں کہیں سے ہوا کی ایک ایسی لہر چلی جس نے سلیم کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے لالٹین کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی کے ساتھ ساتھ اس شخص کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے ان سب کی زندگیوں میں اندھیرا بھر کے کہیں دور آسمان میں چلی گئی-
One thought on “افسانہ: وہ رات :- مینا یوسف”
عمدہ افسانہ ۔ آپ کی تحریر میں نکھار آرہا ہے۔ لکھتے رہیں ۔