کتاب : شعر کے پردے میں – مصنف : محمد دانش غنی :- تجزیہ : ڈاکٹر صفیہ بانو. اے. شیخ

Share

کتاب : شعر کے پردے میں
مصنف : محمد دانش غنی

تجزیہ : ڈاکٹر صفیہ بانو. اے. شیخ
Email:

؎ ادب نوازی سے دانش غنی کی اے اخترؔ
ہم آشنا ہوئے، نا آشناتھے جن سے کبھی (اختر حسین اخترؔ)
مہاراشٹر کے ضلع رتنا گری کے گوگٹے جوگلے کر کالج کے شعبۂ اردو کے اساتذہ کی فعالیت قابل داد ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اردو سے متعلق پروگرام منعقد کرتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد دانش غنی اسی کالج کے شعبۂ اردو سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے والد عبدالرحیم نشترؔ ؔمشہور شاعر ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر محمد دانش غنی کی نئی کتاب ’شعر کے پردے میں‘(تنقید،تحقیق اور مکتوبات) شائع ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اس کتاب پر کچھ کہوں ’حرفِ دانش‘ کے مندرجہ ذیل اقتباس سے اپنے مقالے کا آغاز کر رہی ہوں:
”ہمارے ناقدین ادب نے اردو شاعری کی طرف خصوصی توجہ دے رکھی ہے اور اس حوالے سے
بعض نئے مباحث بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ ان مباحث پر میری نگاہ ضرور رہی اور وقتاً فوقتاً
میں نے ان سے استفادہ بھی کیا ہے مگر اوّل تو میں کسی خاص دبستان تنقید کی تقلید کا قائل نہیں رہا
دوسرے یہ مضامین جن لوگوں پر لکھے گئے ہیں وہ بھی کسی ایک عہد ست تعلق نہیں رکھتے۔اس لیے
ان میں کسی مقصود تنقیدی نقطۂ نظر کی تلاش بے سود ہوگی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے
اپنے طور پر اردو شاعری کے چند گوشوں کو اور زاویوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ “ ۱؎ (ص ۔۷)
اس کتاب میں شامل مضامین کو دیکھ کر ہر کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ڈاکٹر محمد دانش غنی فنِ شاعری کو سمجھنے اور سمجھانے کا یعنی ادب نوازی کا ایک منفرد انداز رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے حصہ الف میں الطاف حسین حالیؔ، محسن کاکوروی ؔ، علامہ اقبالؔ، محمد علی جوہر ؔ، حسرت موہانی ؔ، جگر ؔ مرادآبادی، ساحرؔ لدھیانوی، غنی اعجازؔ، بشر ؔ نواز، خضر ؔ ناگپوری، قاضی فرازؔ احمد اور شریف احمد شریفؔ وغیرہ پر تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس حصے کے زیادہ تر شاعروں پر کتابیں لکھیں گئی ہیں رسائل و اخبارات میں میں بھی بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لہٰذا میں اپنے مقالے کو طول نہ دیتے ہوئے اختصار سے ڈاکٹر محمد دانش غنی کی ادب نوازی کے روشن پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گی۔
( تنقید )
” ؎ شعر کے پردے میں جو کچھ لکھ گئے دانش غنی
اُن کے تنقیدی رویوں کی نئی پہچان ہے (اختر حسین اخترؔ)
تنقید کے لغوی معنی جانچ،پرکھ،تمیز،ایسی جانچ جواچھے برے،کھرے کھوٹے میں تمیز کرے۔جس کو انگریزی میں (کرٹِسِزم) criticism کہتے ہیں۔ تنقید عربی لفظ ہے جس کے معانی خلاص کرانا،رہائی دلانا،اورپرکھنا ہوتا ہے۔تنقید کو نہ تو سمجھنا آسان ہے اور نہ ہی اس کو پچانا یعنی تنقید کے مقصد کو جانے بغیر ہم نکتہ چینی،بغض و عنا جیسے نام دے کر اس کلام کو یا بات کو سمجھ نہیں پاتے بقول اخترحسین اخترؔ:
”کسی بھی چیز کے اچھے اور برے،پسندیدہ اور ناپسندیدہ، مستند اور غیر مستند
معیاری اور غیر معیاری، موضوعی یا غیر موضوعی، داخلی اور خارجی،معروضی
غیر معروضی، حقیقی اور غیر حقیقی، مادّی اور غیر مادّی، پہلوؤں کا محاکمہ کرنا
تنقید کہلاتا ہے۔“
تنقید کی مذکورہ تعریف میں تنقید کے سارے دبستانوں کے جملہ مباحث مقید ہیں۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنے مضامین میں جن گوشوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ان کا میں آسانی سے احاطہ کر سکوں گی۔
(۱)”الطاف حسین حالی ؔکی اصلاحی شاعری‘‘: حالیؔ عہد سرسید کے پہلے نظریہ ساز نقاد اور عظیم سوانح نگار ہیں۔وہ جہاں جدید نظم یعنی نیچرل شاعری کے بانی ہے وہیں مرثیہ کی صنف کو شخصی مرثیوں کی جہت عطا کرنے والے مرثیہ نگار ہے۔ توہم پرستی، تنگ نظری، قدامت پرستی اور جاہلانہ رسوم کے خلاف اپنے اصلاحی مشن کے تحت حالیؔ نے ’مجالس النساء‘ تحریر کی تھی۔ ان کی اصلاحی شاعری کی جھلک ہمیں ان کی متعدد نظموں میں دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں چپ کی داد اور مناجات بیوہ، حالیؔ کے شعور اور فکر پر دال ہے:
؎ اے ماؤ، بہنو، بیٹیو،، دنیا کی زینت تم سے ہے
ملکوں کی بستی ہو تمھیں،قوموں کی عزت تم سے ہے (نظم: چپ کی داد)
؎ کیوں پڑتے ہم غیر کے پالے؟ ٭ کیوں ہوتے اوروں کے حوالے؟
آٹھ پہر کیوں دُکھ یہ اٹھاتے؟ ٭ جیتے ہی جی کیوں ہم مرجاتے؟ (نظم: مناجات بیوہ)
؎ جاہلیت میں تو تھی اک یہی آفت کہ وہاں
گاڑ دی جاتی تھی بس خاک میں تنہا دختر (نظم: بیٹیوں کی نسبت)
؎ جو کہ رہتے ہیں تجھ سے دور سا
ان کو کیا ہوگا زندگی کا مزہ (نظم: حب وطن)
؎ نوح ؑکی کشتی کا سہارا تھی تو
چاہ میں یوسف ؑ کی دل آرا تھی تو ( نظم: نشاطِ امید)
ڈاکٹر محمد دانش غنی کہتے ہیں:”مذکورہ بالا نظموں کے بند میں الفاظ کی بندش، خیالات کی پیش کش، اظہار کی تازگی اور زبان کا برجستہ اور بر محل استعمال ملتا ہے۔ ان نظموں میں زندگی سے تعلق اور سماج کی اصلاح کا جذبہ رواں دواں نظر آتا ہے۔“ ۲؎ (ص۔ ۷۲)
(۲) ” محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری“ : محسن کاکوروی ۱۸۲۶ء؁ میں ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہیں بچپن ہی سے نعت گوئی کا شغف تھا۔ وہ دبستان لکھنؤ کے درخشندہ ستارے ہیں۔ اردو میں قصیدہ،غزل، مثنوی، نظم، گیت، رباعی، دوہا، ہائیکو،تقریباً ہر صنف میں نعت کہی گئی ہے۔ محسن کارکوروی کے ایک قصیدہ ’مدیح خیرالمرسلین‘ کے اشعار کی تعداد ۱۴۳ ہے۔اس قصیدے کی بے مثل تشبیب، گریز، مدح اور مناجات کی فکری اور فنی بلندی کے سبب تمام بڑے نقادوں نے اسے ان کا شاہکار نعتیہ قصیدہ کہا ہے۔ اس قصیدے کی تشببیب میں ہندوستانیت کو بڑی خوبی سے سمویا گیا ہے اس کی ابتداء اس شعر سے ہوتی ہے:
؎ سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل
تشبیب کے بعد گریز کی ابتداء اس شعر سے ہوتی ہے:
؎ گُل خوش رنگ رسولِ مدنی عربی
زیبِ دامانِ ابد طرۂ دستارِ ازل
گریز کے بعد مدح اس شعر سے شروع ہوتی ہے:
؎ نہ کوئی اس کا مشابہہ ہے نہ ہم سر نہ نظیر
نہ کوئی اس کا مماثل نہ مقابل نہ بدل
مدح کے بعد مناجات کے اشعار میں دعا کے لیے یہ شعر حاصلِ قصیدہ ہے:
؎ ہے تمنا کہ رہے نعت سے تیری خالی
نہ مرا شعر، نہ قطعہ، نہ قصیدہ، نہ غزل
ڈاکٹر محمد دانش غنی کے مطابق:
” انہوں نے گنگا، جمنا،اور کاشی بطورِ پس منظر استعمال کیے اور اس طرح سینکڑوں سنسکرت
و ہندی اصطلاحوں کا پہلی مرتبہ نعتیہ کلام میں استعمال کرکے نعت گوئی کی ایک منفرد
ہندوستانی تاریخ کی داغ بیل ڈالی۔“ ۳؎ (ص۔ ۳۹)
(۳) ”علامہ اقبالؔ (بچوں کے نمائندہ شاعر)“ : شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؔ ۳۷۸۱ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو اور فارسی کے بڑے شاعر تھے۔ انہوں نے داغ ؔ دہلوی سے اصلاح لی۔ بچوں کے لیے لکھیں گئیں ان کی نظمیں شعری مجموعہ بانگ درا‘ شامل ہیں۔اقبالؔ نے بچوں کے لیے کم لکھا لیکن جو کچھ لکھا وہ لاجواب لکھا۔
؎ آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہو ا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا ( نظم: پرندے کی فریاد: بانگ درا)
؎ چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا ( نظم: ہندوستانی بچوں کا قومی گیت: بانگ درا)
؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا (نظم: ترانۂ ہندی : بانگ درا)
؎ وہی لوگ پاتے ہیں عزت زیادہ
جو کرتے ہیں دنیا میں محنت زیادہ (نظم: محنت: باقیات اقبال)
؎ اک چرا گہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں ( نظم: ایک گائے اور بکری: بانگ درا)
؎ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدا یا میری (نظم: بچے کی دعا : بانگ درا)
؎ ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا ( نظم: ہمدردی: بانگ درا)
؎ کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے ( نظم:ایک پہاڑ اور گلہری : بانگ درا)
؎ میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب ( نظم: ماں کا خواب: بانگ درا)
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے بجا فرمایا کہ ” متذکرہ بالا اشعار میں سادگی اور سلاست ہے۔ شگفتگی اور روانی ہے۔ موضوعات میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تحمل نہیں کہ اقبال کو بچوں کے لیے دلچسپ اور موثر نظم کہنے پر مہارت حاصل تھی۔دلکش اسلوب اور پر اثر انداز بیان نے ان نظموں کی مقبولیت اور افدیت کو دوبالا کردیا ہے۔“ ۴؎ (ص۔ ۴۹)
(۴) ”محمد علی جوہر ؔ کی روح پرور شاعری“: رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہرؔ ۱۸۷۸ء ؁ میں رامپور کے خوشحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نواب رام پور کے وظیفے کی وجہ سے وہ ۱۸۹۹ء ؁ میں انگلینڈ گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ان کی شاعری میں بھی عشق ہے مگر اس میں جذبۂ وطن، جذبۂ ملتِ اسلامیہ کا غلبہ ہے۔ وہ ایک بلند پایا شاعر، بے مثال ادیب، نابغہ عالم، حقیقت بیاں خطیب، عدیم النظیر مقرر علی ترین مدبر، کوہ وقار مجاہد،اخبار نویس، جلیل القدر، مذہبی و سیاسی رہنما تھے لہٰذا ان کی تمام شعری تخلیقات میں تصورِ ملیّ اور جذبۂ حریت کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ان شخصیت پر اور ان کی شاعری پر یوں تو بہت کچھ جا چکا ہے مگر کربلا کے آفاقی استعارے پر مبنی ان کا یہ شعر زبان زدِ خاص و عام ہے۔
؎ قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کر بلا کے بعد (دیوانِ جو ہر)
ڈاکٹر محمد دانش غنی یہ رائے بڑی اہمیت کی حامل ہے:” انھوں نے اپنی شاعری میں تغزل کورفعت بخشی اور تشبیہ و استعارہ، ایجاز و اختصار اور پیکر تراشی کے کامیاب نمونے پیش کیے۔ ان کی شاعری کا مطالعہ سیاسی و سماجی پس منظر میں کیا جائے تو اس کی اہمیت و افادیت میں اضافہ ہوگا۔ “ ۵؎ (ص۔ ۶۲)
(۵) ” احساسِ جمال کا شاعر حسرت ؔموہانی“ : مولانا فضل الحسن حسرتؔ موہانی ضلع اناؤ کے مو ہان میں ۱۸۸۱ء میں پیدا ہوئے۔وہ تحریک آزادی کے ایک سرفروش مجاہد اور راست باز سیاست داں تھے۔ وہ ایک صاحب علم مسلم اشتراکی، بے باک صحافی، مشرقی طرزِ فکر کے نقاد، عروض داں، تذکرہ نگار، ممتاز شاعر جیسی پہلوؤ دار شخصیت کے حامل تھے۔ ۱۹۵۵ء میں شائع ہونے والے کلیات حسرتؔ میں ان کے تیرا (۱۳) دیوان شامل ہیں۔اس کلیات میں ان کی نظمیں اور گیت بھی شامل ہیں۔حسرتؔ کے اشعار میں حُس و عشق، معاملہ بندی،ادا بندی، داخلی عمور، نفسیاتی عمور، نئی ترکیبوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
؎ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو ا ب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
ڈاکٹر محمد دانش غنی کا خیال درست ہے”: مومنؔ کی غزل کی طرح کلام حسرت میں عشق کی ساری کیفیتیں اور حسن کے روپ نظر آتے ہیں۔“ ۶؎ (ص: ۶۶)
(۶) ” جگر مرادآبادی (دنیائے حسن و عشق کا سفیر)“ : شہنشاہِ غزل علی سکندر جگرؔ مرادآبادی۱۸۰۹ء میں پیدا ہوئے۔ جگر ؔ کے دادا حافظ نورؔ محمداور والد مولوی علی نظر ؔبھی شاعر تھے۔وہ غزل کو نیا آہنگ اور لب و لہجہ دینے والے رومانی شاعر تھے۔ ان کے اشعار میں داغؔ دہلوی کی سی صفائی، سادگی، سلاست اور روانی ہے البتہ داغؔ دہلوی کی سی شوخی اور بے ساختگی بھی نہیں ہے۔ ؎
؎ ہم کو مٹا سکے یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانہ سے ہم نہیں
؎ یہ عشق نہیں آساں اتنا سمجھ لیجئے
اک آگ کس دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
؎ ان کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے، جہاں تک پہنچے
جگرؔ کی شعری خصوصیات پر اپنا تنقیدی نظریہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد دانش غنی نے لکھا ہے: ” انہوں نے لطافت، پاکیزگی، معصومیت و دلکشی، راعنائی و زیبائی، درد و تڑب، نیاز و بے نیازی کے کے ایسے لازوام نقوش غزل کو عطا کیے جو اردو کے کسی اور غزل گو شاعر سے نہ ہوسکا۔“ ۷؎ (ص : ۷۵)
(۷) ” ساحر ؔ کی عشقیہ اور انقلابی شاعری“: چودھری عبدالحئی ساحرؔ لدھیانوی ۱۹۲۱ء میں پیدا ہوئے۔ ساحرؔ ایک ذہین طالب علم تھے انہیں سیاسیات اور معاشیات میں بڑی دلچسپی تھی۔ وہ اپنی انقلابی نظموں کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ ساحرؔ کی شاعری فیض ؔ کی شاعری سے یوں الگ ہے کہ فیض ؔ کے یہاں معشوق نواز حُسن پرستی ہے جبکہ ساحرؔ کے یہاں غالب ؔ کی سی عاشقانہ انانیت ہے۔ترقی پسند شاعروں میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسے نغمہ نگار بھی تھے،جن کے ادبی شاہکار نغموں میں ڈھل کر خاص و عام کے دلوں میں جگہ پا گئے۔
ادبی روپ ٭ فلمی روپ
؎ میں ہر اک پل کا شاعر ہوں ٭ میں پل دوپل کا شاعر ہوں
ہر اک پل میری کہانی ہے ٭ پل دو پل میری کہانی ہے
ہر اک پل میری ہستی ہے ٭ پل دو پل میری ہستی ہے
ہر اک پل میری جوانی ہے ٭ پل دو پل میری جوانی ہے
(ادبی روپ: کلیات ساحرؔ،ص ۳۳۲) ٭ (فلم: کبھی کبھی، ۱۹۷۲ء)
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے ساحرؔ کی شاعری سب سے بڑی خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ ” وہ سیدھی سادی زبان، عام فہم الفاظ کے ذریعے اپنے سچے افکار و خیالات اور جذبات کو پیش کر دیتے ہیں۔“ ۸؎ ( ص ۔ ۸۴)
(۸) ” غنی اعجازؔ کی غزل“ : آزادی کے بعد غزل نے مغربی ادب کے اثرات قبول کیے۔ اس نے جدید اردو غزل کی شکل اختیار کر لی۔ غنی اعجازؔ برار میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی غزل میں مشاہدے اور تجربے کے ایسے رنگ بھرے کہ ان کی شاعری انہیں جدیدیت کے زمرے میں شامل کرتی ہے۔ ان کے تغزل میں افسردگی، مایوسی، نفرت، طنز و مزاح اور جرئات مندی کے ساتھ واردات حیات کا منفرد پیرایا ملتا ہے۔
؎ موسم کی خبر لے کے صبا بھی نہیں آتی
ساون کا مہینہ ہے گھٹا بھی نہیں آتی
؎ ہوا میں اڑنے والے ظالموں سے عرض کرنا ہے
قضا نزدیک ہو تو چیونٹیوں کے پر نکلتے ہیں
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے غنی اعجازؔ کی غزل کے افق کی بلندی اور وسعت پر اپنے رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ”انہوں نے فکر و ادراک سے ایک نئے تغزل کی بازیافت کی جس میں زندگی کے متنوع تجربات اور مشاہدات کو سمویا گیا ہے۔ “ ۹؎ (ص۔۹۲)
(۹) بشرؔ نواز کے شعری پیکر“: بشارت نواز خاں یعنی بشر نواز ۱۹۳۵ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک ترقی پسند شاعر تھے۔ ان کی شعری فکر کلاسیکی روایت سے تعلق رکھتی ہے۔ان کے خیالات سماجی رویوں اور رجحانوں سے ٹکرا کر ذہنی کشمکش، کسک اور ذاتی انتشار کا روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ ایک عرصے تک فلموں سے بھی وابستہ رہے۔فلم بازار کا نغمہ ’کروگے یاد تو ہر بات یاد آئے گی“ انہی کا لکھا ہوا ہے۔
؎ ہر چہرے میں آتا ہے نظر اپنا ہی چہرہ
ہر موڑ پہ جیسے کوئی آئینہ کھڑا ہے
بقول ڈاکٹر محمد دانش غنی: ”شکست خوردہ، تہذیب، زندگی کے جبر، ہولناکی اور کسمپرسی کی غیر شائستہ فضا بشرؔ نواز کی غزل میں واضح طور پر دیکھ جاسکتی ہے۔“ ۰۱؎ ( ص۔ ۹۶)
(۱۰) خضر ؔ ناگپوری : زبان و بیان کا شاعر“: محمد خضر ؔ ناگپوری ۱۹۴۳ء میں پیدا ہوئے۔ روانی، سلاست، مہاروں کی چست بندش،تشبیہات، استعارات، بلند خیالی، بالغ نظری ان کے کلام کی وہ خوبیاں ہیں جو انہیں ناگپور کے اپنے ہم عصر شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔انہیں جانشینِ ناطقؔ حضرت مرزا ظفر حسین ظفرؔ ناگپوری سے شرفِ تلمذحاصل تھا۔ خضرؔ ماہر عروض اور منفرد طرز کے نقادِ فن تھے۔
؎ درست ہی سہی، دشمن سے دوستی کا خیال
ہمارا دوست ہی دشمن ہے کیا کیا جائے
ڈاکٹر محمد دانش غنی اپنے والد عبدالرحیم نشترؔ سے ہم خیال ہوتے ہوئے خضر ؔ ناگپوری کی شاعری پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:”وہ ایک نیک سرشت، خوش خصال، سادہ دل آدمی تھے اور ان کی شاعری بھی انہی رنگوں سے نکھری ہوئی ہے۔“ ۱۱؎ (ص۔ ۱۰۰)
(۱۱) قاضی فرازؔ احمد کی شاعری سے ایک مکالمہ“: قاضی فرازؔ احمد ۱۹۳۷ء میں کو ساگوے (راجہ پور۔ رتنا گیری) میں پیدا ہوئے۔ان کی شاعری میں ان کے مزاج کی سادگی اور شائستگی صاف نظر آتی ہے۔ان کا انداز بیان پر وقار ہے۔ ان کی شاعری سیاسی، سماجی،اور تہذیبی فکر و شعور کا مرقع ہے۔
؎ وہی ہم ہیں ، وہی حالات کی ٹوٹی چھتری
زندگی ہے، وہی برسات کی ٹوٹی چھتری
قاضی فراز احمد کی شاعری پر اپنے ناقدانہ خیال کا اظہار خیال پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد دانش غنی نے لکھا ہے:”میں پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی شاعری براہِ راست زندگی کے مسائل و مصائب سے مکالمہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ۱۲؎“(ص۔ ۱۰۲)
(۱۲) شریف احمد شریف ؔ: ایک معتبر شعری آواز“: انہیں قدیم ادبی اور تہذیبی روایتوں سے پیار تھا ان کے افکار و خیالات ان کی شاعری کا حصہ ہے۔ تشبیہات اور استعارات کی ندرت موضوع پر گرفت اور معنویت کا خصوصی التزام ان کی عصری آگہی کو پیش کرتا ہے۔ ان کی نظموں میں تاریخی واقعات اخلاقی اور مذہبی موضوعات نمایاں ہیں۔ان کی غزلوں میں رومانیت کے ساتھ شعری حُسن اور خیال کی پاکیزگی موجود ہے ان کا انداز بیان سادہ دلوں میں اتر جانے والا دلکش اور والہانہ انداز ہے۔
؎ سوال یہ بھی ہے کس فاصلے سے تیر چلا
یہ دیکھنا بھی ہے گہرائی کتنی گھاؤ میں ہے
؎ وہ ننھا چاند سا بچہ محمدؐ
بہت پیارا بہت سچا محمد ؐ
؎ رسولوں کی دعا میں جو رہا ہے
ابھی وہ پالنے میں سو رہا ہے (نظم: گہوارے کا چاند)
ڈاکٹر محمد دانش غنی کا یہ بیان بجا ہے: ” ان کے کلام میں فکر کے ساتھ تخیل کی پرواز، غنائیت،عصری حسیت اور آگہی کے بہترین نمونے جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔“ ۱۳؎ (ص۔ ۱۱۷)
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صوبائی شاعروں کی رسائی بڑے دبستانوں تک نہیں ہوپاتی نیز بڑے نقادوں کی رسائی ایسے شاعروں تک نہیں ہوپاتی یوں وہ اپنی زبان کے ادب کا حصہ نہیں بن پاتے۔ہماری زبان اردو کا یہ المیہ ہے سوبائی اکادمیوں کا سارا سرمایا ایک دو کاموں کو چھوڑ کر بے جا کاموں میں صرف ہوجاتا ہے اور ایسے بنیادی کام یعنی علاقائی شاعروں اور ادیبوں کی شخصیت اور کارنامے جیسے دبستان تیار نہیں ہوتے جو ہماری آنے والی نسلوں کا ادبی ورثہ اور سرمایا ثابت ہو۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنی کتاب ’شعر کے پردے میں (تنقیدی، تحقیقیاور مکتوبات)‘ کے تنقیدی حصہ ’ب‘میں جن شاعروں پر مضامین لکھے ہیں ان میں شمیم طارق، ساحرؔ شیوی، نذیر فتح پوری، ظفر کلیم، شکیب غوثی، سعید کنول، تاج الدین شاہدؔ، حیدرؔ بیابانی اور اقبال سالک شامل ہیں۔ اس حصے میں شامل تمام شعراء کا تعلق مہاراشٹر کے صوبے سے ہیں۔ ان کی شعری خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے دیانت داری سے ان کی شاعرانہ خوبیوں کو اجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
بقول اختر حسین اختر ؔ:
؎ دانش غنی نے ’شعر کے پردے‘ میں ذکر کر
صوبے کے شاعروں کو شناسا بنا دیا
(۱۳) شمیم طارق کے ضرب المثل اشعار“: شمیم طارق ناقد، محقق، اور شاعر ہے۔ ان کی شاعری میں معنویت بھی ہے اور رمزیت بھی۔وہ موقع و محل پر فی البدیہہ اشعار کہہ لیتے تھے۔وہ مکامی، قومی، عالمی اور ملّی صداقتوں کو چبھتے ہوئے رنگ میں کہنے کا ہنر رکھتے تھے۔ ان کی غزلوں میں ایمائیت، اشاریت اور تہہ دار ہے
؎ طارقؔ جو عیش کرتے ہیں ایمان بیچ کر
ان میں یہ خاکسار نہ کل تھا نہ آج ہے
؎ کس سے پوچھیں کون بتائے کس نے محشر دیکھا ہے
چپ چپ ہے آئینہ جس نے سارا منظر دیکھا ہے
؎ ہمہ شناس گنے جا رہے ہیں حرفِ شناس
ہمارے عہد کی پہچان کم نگاہی ہے
شمیم طارق کے مطالعے سے متاثر ہو کر ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنی یہ رائے قائم کی ہے: ”شمیم طارق نے ایسے سینکڑوں شعر کہے ہیں جو موقع محل پر یاد آتے ہیں اور ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ۴۱؎ “ (ص۔ ۶۲۱)
(۱۴)ساحرؔ شیوی کا شعری سفر :“ ان کی شعر گوئی کا آغاز طالبِ علمی ہی کے زمانے ہی سے ہو گیا تھا۔ان کی شاعرانہ زندگی نصف صدی پر محیط ہے۔ان کے کلام میں سادگی، تازگی،سلاست اور روانی ہے۔ ان کے کلام میں معاملہ بندی، معنی آفرینی، حسن بیان، لطافت اور موسیقیت نے بھی جگہ پائی ہے۔ وہ اپنے کلام میں جدید خیالات اور جدید رجحانات کو آب و تاب کے ساتھ برتنے میں کامیاب رہے ہیں یوں انہوں نے اپنے کلام کو عصری آگہی سے ہمکنار کیا ہے۔ان کی نظموں میں تاثر،گہرائی، تسلسل اور لطف ِ بیان ان کے چونکا دینے والے تجربات کی غماز ہیں۔
؎ دم بھر میں سارے شہر کو بیدار کر گئے
جو کام ہم نہ کرسکے اخبار کر گئے
ڈاکٹر محمد دانش غنی کا خیال ہے کہ: ”مجموعی طور پر ساحرؔ شیوی کی نظموں اور غزلوں پر کلاسیکی شاعری کا انداز، لب و لہجے اور آہنگ کے گہرے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں“ ۱۵؎ (ص۔۱۴۰)
(۱۵) نذیر ؔفتح پوری کی غزلوں پر ایک نظر“ : نذیر فتح پوری راجستھان اور مہاراشٹر کی مشترک فضا کے امین ہے وہ بہ یک وقت شاعر، نثر نگار، صحافی اور پبلیشرہے۔ان کی غزلوں اور نظموں میں محبت اور دلفریفتگی کے ساتھ نفرت اور بغاوت کا اظہار بھی ملتا ہے۔ ان کی غزلوں میں الفاظ کی بندش، لہجے کی شیرینی، اور جذبات کی نزاکت اور حسنِ تخیل کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ان کے یہاں جدّت، تازگی،سوز و گدازملتا ہے۔ حقیقت نگاری، درد مندی اور متانت ان کے اشعار سے جھلکتی ہے۔ان کی غزلیں رمزیت، ایمائیت اور تہہ داری رکھتی ہے۔
؎ آگ لے کر دوڑتے لوگوں میں شامل ہوگیا
یوں اجالا باٹنے والوں میں شامل ہوگیا
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے یہ تجویز کیا ہے کہ ” جہاں وہ(نذیر فتح پوری)اپنی نظموں میں ربط و تنظیم، وضاحت و صراحت، حقیقت بینی اور جزیات نگاری کا مظاہرہ کرت ہیں وہیں غزل کو اشاروں اور کنایوں کا فن بھی سمجھتے ہیں۔ “
۱۶؎ ( ص۔ ۱۴۲)
(۱۶) ظفرؔ کلیم کی غزل کا لہجہ اور اسلوب“ : ۱۹۶۰ء کے بعد جن شعراء نے اردو غزل کے افق پر اپنا مقام بنایا۔ ان میں ظفر کلیم ناقابلِ فراموش حیثیت کے حامل ہیں۔ ان کی غزلوں میں قدیم اور جدید غزل کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کے موضوعات میں تازگی اور نیا پن موجود ہے۔ ان کی غزلیں ان کے عہد کے کرب کی غماز ہیں۔ وہ ان کے عہد کے تجربات اور وادات کی نشاندہی کرتی ہے۔ سوز و گداز اور سادگی و پر کاری ان کے اشعار کا حُسن ہے۔ سیماب اسکول کی وابستگی سے ان کے کلام میں خیالات کی رنگا رنگی نئے آہنگ کے ساتھ نظر آتی ہے۔
؎ بچوں کو تتلیوں کی کہانی سنا کے ہم
ماضی کے کچھ حسین خیالوں میں کھوگئے
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے کا یہ تصور ہے کہ ” ظفر ؔکلیم کی غزل پڑھتے ہوئے ہم ایک ایسے سفر پر نکل پڑتے ہیں جہاں زندگی کی تلخ حقیقت اور کڑوی سچائیوں سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ “ ۱۷؎ ( ص ۔ ۱۴۹)
(۱۷) شکیبؔ غوثی کی غزل گوئی“ : شکیب ؔ غوثی کے یہاں غزل گوئی اور نظم نگاری دونوں یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کی غزلیں ان کے تجربات کی غماز ہیں۔ ان میں اداسی، مایوسی، تھکن، منتشر خیالی، جیسی اضطرابی کیفیات، کی بھرمار میں محرومیاں،ناکامیاں اور پریشانیاں ان کی غزلوں کی رمزیت کا مسئلہ ہے۔ حزن و الم سے بھرے خیالات اور جذبات نے ان کے لہجے اور آہنگ کو بھی حزنیہ بنادیا ہے۔ ان کے اشعار میں نشتریت پائی جاتی ہے جو ان کے اشعار میں ایک منفرد تاثیرپیدا کرتی ہے۔
؎ مہنگا پڑا ہے ذات کا سود ا نہ پوچھئے
سونے کو بیچ آئے ہیں مٹی کے بھاؤ میں
ڈاکٹر محمد دانش غنی کے نظر میں ” شکیبؔ غوثی کی غزلوں میں ایک خاص قسم کا خلوص اور درد مندی جھلکتی ہے جس نے ان کی غزلوں کو جاذبِ نظر اور دلکش بنا دیا ہے۔ “ ۱۸؎ (ص ۔ ۱۵۹)
(۱۸) غزل کے حوالے سے سعیدکنولؔ کی شناخت“ : سعید کنولؔ کا تعلق رتنا گری سے ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں عصری زندگی کے مسائل اور تقاضوں پر لطیف رمزیہ انداز میں اظہار کیا ہے۔ انہوں ے اپنے احساسات کو غزل کی نئی جمالیات کے پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں تخلیقی رعنائی اور دلکشی پائی جاتی ہے۔ اشعار میں ڈھلے ان کے جذبات، احساسات اور تجربات میں زندگی کی حقیقت سادگی اور صفائی جھلکتی ہے۔ ان کے اشعار میں ایجاز و اختصار کے علاوہ رمز و ایمابھی ہے۔
؎ میں روشنی میں تھا تو سبھی آس پاس تھے
جب چھا گیا اندھیرا تو سائے بھی ٹل گئے
ڈاکٹر محمد دانش غنی غزل کے حوالے سے سعید کنولؔ کی شناخت پر اپنی بات رکھتے ہوئے کہتے ہیں: ” مجموعی طور پرسعید کنول ؔ کی غزل عصری حسیت، کلاسیکی اقدار اور حیاتِ انسانی کی زندہ تصویروں کو پیش کرنے کا فن جانتی ہے۔“ ۱۹؎ (ص۔۱۶۵)
(۱۹) تاج الدین شاہدؔ : نو کلاسیکی شاعری کی ابھرتی ہوئی آواز “ : کوکن کی شعری و ادبی روایتوں آگے بڑھانے والوں میں نئی نسل کے شاعر تاج الددین شاہدؔ سر فہرست ہے۔ ان کے اشعار میں عصری حسیت، سماجی معنویت، اظہار ذات، تنہائی کا المیہ، اقدار کی شکست و ریخت،صاف صاف دیکھائی دیتی ہے۔ وہ ابھی اپنی شناخت کی تشکیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں اس لیے ان کے مقام و مرتبے کا تعین کرنا قبل از وقت ہوگا۔
؎ کوئی تو سانحہ گزرا ہے شہر میں اپنے
ہر اک مکان کا پتھر اداس لگتا ہے
ڈاکٹر محمد دانش غنی کے نزدیک ”تاج الدین شاہدؔ کی شاعری نو کلاسیکی اردو شاعری کی ایک ابھرتی ہوئی آواز ہے۔ “ ۲۰؎ (ص۔ ۱۷۲)
(۲۰) حیدرؔ بیابانی کی نظمیں “ : حیدرؔ بیابانی ایک اچھے شاعر اور انشائیہ نگار ہے۔ وہ بچوں کے شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ان کی نظموں میں حب اوطنی کا جذبہ، اخلاقی قدریں، فطرت کا حُسن، مذہبی رواداری، جیسے موضوعات اور مسائل پائے جاتے ہیں۔ وہ بچوں کے نفسیات سے واقف ہے۔ ان کی زبان اور اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ان کے اشعار میں خوبصورتی، دلکشی، سلاست، روانی، ندرت، نغمگی، پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار سبق آموز اور نصیحت آمیز ہوتے ہیں۔
؎ دادی کی انمو ل کہانی ٭ لگتی ہے سو سال پرانی
پریاں ساری بوڑھی ہو کر ٭ اپنا سب میلے میں کھو کر
دھرتی کے اس پار گئی ہیں ٭ اپنا سب کچھ ہار گئی ہیں
راجا جی کا راج ہے چوپٹ ٭ ان کا تخت و تاج ہے چوپٹ
گویا سب کچھ گزر گیا ہے ٭ میرا بچپن کدھر گیا ہے ( نظم: میرا بچپن )
ڈاکٹر محمد دانش غنی کے خیال میں ”فن اور اسلوب کی خوبیوں کے باعث حیدرؔ بیابانی کی نظموں میں غضب کی روانی و نغمگی در آئی ہے۔ “ ۲۱؎ ( ص۔ ۱۸۰)
(۲۱) اقبال سالک ؔکا پہلا قدم“ : اقبال سالکؔ بھی بچوں کے شاعر ہے۔ ان کے یہاں نئے خیالات اور نئے الفاظ ملتے ہیں۔ وہ پامال لفظیات سے نئی نئی ترکیبیں اخذ کرنا جاتے ہے۔ ’پہلا قدم‘ اقبال سالکؔ کی بچوں کی لکھی ہوئی نظموں کا پہلا مجموعہ ہے۔ اشعار کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ بحریں چھوٹی ہیں الفا ظ مترنم ہے۔ان کے یہاں نئی نئی کیفیات، نئی نئی ترکیبیں، اور نئے نئے استعارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی نظموں میں ہمارے مخصوص تہذیبی، سماجی اور فکری رویوں کی گنج ہے۔
؎ تو زمینوں میں آسمانو ں میں
عکس تیرا ہے چاند تاروں میں
دل میں ایمان گھلنے لگتا ہے
جب بھی آتا ہے تو خیالوں میں (حمد)
ڈاکٹر محمد دانش غنی اپنا تاثر یوں پیش کرتے ہیں ” اقبالؔ سالک کی بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظموں کے پہلے مجموعے”پہلا قدم“ کی نظموں میں وہ مکمل اور بھر پور خیال جو ہمارے مخصوص تہذیبی، سماجی اور فکری رویوں کی پہچان ہے، جابجا ایک تیز روشنی کی طرح پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ “ ۲۲؎ (ص ۔ ۱۸۲)
(تحقیق )
بقول: اختر حسین اخترؔ
؎ ’رتنا گری کی شعری روایت‘ سے اک نیا
دانش غنی نے مکتبِ تحقیق وا کیا
” تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں کھرے کھوٹے کی چھان بین۔ انگریزی میں اسے ریسرچ (Research ) کہتے ہیں۔ریسرچ یعنی علم اور معلومات کے ذخیرے کو بڑھانے کے لیے باقاعدہ طور پر تخلیقی کام کرنا۔ادبی تحقیق میں ادب سے وابستہ افراد، ثقافت، تہذیب اور معاشرے کی روایتوں کا دیانت داری سے مطالعہ کرنا اور حق باتوں کی تصدیق کرنا،جھوٹی اور غلط باتوں کو خارج کرنا جیسی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ اردو ادب میں تذکرے اس کا روشن ثبوت ہیں۔مولانا محمد حسین آزاد کی کتاب ’آبِ حیات‘ اردو کا وہ تذکرہ ہے جس میں کچھ تحقیق سے کام کیا گیا ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی ؔ کی کتاب حیات سعدی‘تحقیقی پہلو سے خوب آراستہ ہے۔ شبلی کے بعد ان کے شاگرد سید سلیمان ندوی نے کئی تحقیقی کتابیں لکھیں۔ اردو ادب میں تحقیقی کام کے لیے مشہور حافظ محمود شیرانی سرِ فہرست ہیں۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہماری زبان اردو کی ادبی تاریخ میں صوبائی سطح کے شاعروں اور ادیبوں کی نثری و منظوم تحریروں پر تحقیق کے کام نہ کل کیے گئے تھے نہ آج کیے جارہے ہیں۔ بے شمار ادیبوں اور شاعروں کے قیمتی ادبی سرمائے سے ہم پہلے بھی محروم تھے اور اب بھی محروم ہیں۔اگر ہماری یونیور سیٹوں اور اکادمیوں میں علاقائی سطح کے شاعروں اور ادیبوں پر تحقیقی کام نہیں کیا گیاتو ہماری آنے والی نسلیں اردو ادب کے بے شمار ادیبوں کی لاتعداد ادبی کاوشوں سے محروم رہ جائے گی۔
( ۱) کوکن کے اردو لوک گیت“ : لوک گیت کی ابتدا ماں کی گود سے ہوتی ہے۔ لوریاں ان کا ابتدائی روپ ہیں جیسے جیسے انسانی تہذیب پروان چڑھتی گئی ویسے ویسے مختلف رسم و رواج بڑھتے گئے۔ ہر قوم کی عورتیں اپنی اپنی بولیوں میں بچے کی پیدائش کے موقع پر، بسم اللہ خانی کے موقع پر، عقیقہ، شادی بیاہ کے موقع پر، مختلف تہواروں اور تقریبوں پر بے ساختہ پن میں گیت گانے لگتیں تھیں۔ زبان سے پہلے کا درجہ بول چال کا ہے اور اس سے بھی پہلے کا درجہ بولی کا ہے جس میں دیسی الفاظوں کا دیسی تلفظوں میں استعمال ہوتا تھا مثلا ً کاں، کہاں، آپت، آفت، انکیاں، آنکھیں، اجان، انجان، ماف، معاف، ماڑی، مٹی، ماڑی، ماں، مج، مجھے، ملیا،ملا، جندگی، زندگی وغیرہ
خطۂ کوکن تھانے، رائے گڈھ رتنا گری اور سندھودرگ نامی چار اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں کے اردو بولنے والے عوام پر مراہٹھی زبان کے علاوہ دکنی اور کوکنی بولی کے ملے جلے اثرات ملتے ہیں۔یہاں کے لوک گیتوں میں ہندوستانی اساطیر کا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنے اس مضمون میں چند مثالیں پیش کی ہیں۔ ایسے اور بھی لوک گیت جس سے ملیں، جہاں سے ملیں، جس قدر ملیں،انہیں محفوظ کر لیناچاہیے کیونکہ یہ ہماری ادبی، لسانی تہذیبی تاریخ کا بیش بہا سرمایا ہیں۔
(۲) ودربھ میں جدید اردو غزل“ :۱۹۶۰ء کے بعد ودربھ میں محبوب راہی، حفیظ مومن، سید یونس، ضیا انصاری، ظفر کلیم، غنی اعجازؔ، شریف احمد شریف ؔ، منصور اعجاز، شکیبؔغوثی اقبال اشہر،غیور جعفری، فدالمصطفیٰ فدوی، عاجز ہنگن گھاٹی، فصیح اللہ نقییب، بدر جمیل، منظور ندیم، عارج میر، غلام رسول اشرف، خواجہ ربانی ظہیر عالم، رشید الظفر، محفوظ اثر، ضمیر ساجد، عبید حارث نمایاں ہیں۔عبدالرحیم نشتر ؔنے ودربھ نامہ جاری کرکے نیز شاہد کبیر مدحت الاختر نے ان شعراء کی غزلوں کا انتخاب ”چاروں اور“ شائع کیا۔ ۱۹۱۷ء میں عبدالرحیم نشتر ؔ نے ’ارتکاز“ نام سے انشاعروں کی منتخب ٖزلوں کا مجموعہ شائع کیا۔
ان شاعروں کے کلام میں عصری حسیت، کرب ذات، جنسیت، داخلیت، احساس کی شدت، انسانی ذات کی شکست و ریخت کی داستان ہے۔ کہیں کہیں معنوی گہرائی اور گیرائی بھی ملتی ہے۔آسان اور رواں دواں بحروں میں ندرت، معنی آفرینی اور جدّت فکر اپنا وجود دکھاتی ہے۔ بعض شعراء کے یہاں احتجاج بھرا لہجہ اور منفرد سوچ و فکر اور نئے اضافے دکھائی دیتے ہیں۔ڈاکٹر محمد غنی دانش نے اپنی تحقیق کا نتیجہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے: ” مجموعی طور پر سبھی کے کلام میں زندگی موجود ہے۔ فرق صرف برتاؤ کا ہے بیشتر شعراء نے اپنی منفرد سوچ اور فکر سے غزل میں بعض عمدہ اور بہت عمدہ اضافے کیے ہیں۔ “ ۲۳؎ ( ص ۔ ۲۱۳)
(۳) رتنا گری کی شعری روایت“ : رتنا گری کی شعری روایت پرانی ہے۔ یہ خطّہ مختلف سیاسی، سماجی اور تہذیبی رنگوں کا گلستاں ہے۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے ہے لہٰذا یہاں کے شعراء نے مناظر فطرت کو شہر کارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ یہاں کے شاعروں میں حسامی کردوی، قیصر رتناگروی، گرامی شرگانوی، حیرت کوکنی، عارف سیمابی بانکوٹی، یکتا ہندی، صوفی بانکوٹی، پرکار رتناگروی، صفدر رتناگروی، آدم نصرت، عابد کالستوی، ناچیز قیصری، انجم یزدانی، قاضی لطیف، داؤد غازی، ساز پریمی، حسین شاکر، ساحر شیوی، صابر مجگانوی وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے کلام میں رومانیت ہے۔رونی کے ساتھ معنی آفرینی ہے۔ زبان میں سادگی اور سلاست کے ساتھ فصاحت اور بلاغت بھی جھلکتی ہے۔ان کے اشعار میں الفاظ کی بندش اور انداز بیان نیا پن لیے ہوئے ہیں۔بعض شعراء کے یہاں اثر آفرینی اور پر کاری نمایاں ہیں۔
بدیح الزماں خاورؔ، عبداللہ ساجدؔ، اقبال اخترؔ، سعید کنولؔ، تاج الدین شاہدؔ، منظر خیامی ؔ، اور اقبال سالک کے شمار رتنا گری کے جدید شعراء میں ہوتا ہے۔ ان شعراء کے کلام میں جدید خیالات اور رجحانات اپنی اعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں۔ بے یقیقنی، عدم اعتمادی، ناآشنائی، نااستواری، اور ذہنی خلفشاری جیسے جذبات اور احساسات سے بھرے موضوعات ان شعراء کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنی محققانہ رائے قائم کرتے ہوئے لکھا ہے: ” آج رتنا گری کی شعری روایت اپنے اسلوب، انداز، پیرائے بیان، ندرت، ذہنی و فکری مقصد، عصری حسیت اور فن و ہیئت کے نئے تجربات کرتے ہوئے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ “ ۲۴؎ (ص ۔۲۲۸)
(مکتوبات )
بقول: اختر حسین اخترؔ
؎ دانش غنی کے شائع شدہ مکتوبات سے
ظاہر یہی ہوا کہ وہ ہیں اک سخن فہم
مکتوب یعنی خط دو افراد یا اداروں کے درمیان معلومات،خبریں، خیر خیریت،خیالات، جذبات، اور احساسات کی تحریری ترسیل کا ذریعہ۔ اب سے پہلے پتر، پتری، چھٹی، نامہ، مراسلہ، رقعہ، یاخط کازیادہ استعمال کیا جاتا تھا۔ لکھے ہوئے خط کئی بار مرسل الیہ تک نہیں پہنچتے تھے۔ہمارے رسائل اور جرائد میں مکتوبات کے کالم میں قارئین اپنے تاثرات لکھ بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنی اس کتاب میں مکتوبات کے تحت اپنے چار خط شامل کیے ہیں۔ پہلے دو خط مدیر ماہنامہ آج کل دہلی کے نام ہے بقیہ دو خط مدیر روز نامہ انقلاب کے نام ہے۔
(۱)مکتوب: ماہنامہ آج کل، نئی دہلی، نومبر ۲۰۱۸ء
پہلے خط میں انہوں نے اپنے تاثرات کے تحت لکھا ہے کہ ”ستمبر کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ اس شمارے میں کئی شاعروں کی غزلیں اور ایک شاعر کی کئی رباعیات شائع ہوئی ہیں مگر کوئی غزل یا رباعی متاثر نہیں کرتی۔کبیر اجمل کی غزل کا مطلع اور مقطع ہے۔
؎ جہاں بے نور منظر آبِ جو کا رقص میں ہے
وہیں کی خاک میں جذبہ نمو کا رقص میں ہے (مطلع)
؎ میرے اطراف اب بھی ایک عذاب جانکنی ہے
مگر اجمل ؔ پرندہ آرزو کا رقص میں ہے (مقطع)
اس پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد دانش غنی نے لکھا ہے ” آبِ جو کا رقص کرتا ہوا منظر کیسے بے نو رہو سکتا ہے؟ آبِ جو بے جان ہے اس میں جذبہ کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟عذابِ جانکنی جس سے باہر نہیں ہوتا اس لیے اطراف کہنا صحیح نہیں ہے۔ شعر یوں کہہ سکتے تھے“ ۲۵؎ (ص۔ ۲۱۳)
؎ عذابِ جانکنی ہے ، میں گرفتارِ بلا ہوں
مگر اجملؔ پرند ہ آرزو کا رقص میں ہے
(۲) مکتوب: ماہنامہ آج کل، نئی دہلی، نومبر ۲۰۱۹ء
ماہِ جون کا آج کل‘ موصول ہوا۔ تعریف میں بہت کچھ لکھ سکتا ہوں مگر آپ کی توجہ منور رانا کی غزل کی طرف کرانا چاہتا ہوں۔
منور رانا کی غزل کا مصرع ہے ؎ ’اپنے بازو پہ مقدس سی اک آیت باندھے“
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اس پر جرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”آیت سی‘ یا مقدس سی‘ کوئی چیز نہیں۔ ہر آیت مقدس ہوتی ہے۔ مقدس سی کہنے سے آیت کا تقدس پامال ہوتا ہے۔“ ۲۶؎ (ص۔ ۲۳۳)
(۳) مکتوب: مدیر روزنامہ ’انقلاب‘ بمبئی کے نام
۲ستمبر کے انقلاب میں رتنا گری کے شاعر ’ررفیق وستا کی غزل شائع ہوئی تھی۔ مطلع تھا ؎
؎ میں کہاں ہوں ، اِدھر اُدھر ہوں میں
باوجود اس کے معتبر ہوں میں
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے ” میں کہاں ہوں“ سوال ہے۔ ”اِدھر اُدھر ہوں“ جواب ہے۔ اس سوال جواب کا معتبر اور غیر معتبر ہونے سے کیا تعلق ہے؟ اسی غزل کا ایک شعر ہے “ ۲۷؎ (ص ۔ ۲۳۵)
؎ آپ کی فہم پر جو کھُل جاتا
سہل اتنا کہاں مگر ہوں میں
ڈاکٹر محمد دانش غنی نے تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے ”فہم میں آنا‘ زبان ہے فہم پر کھُلنا فصاحت کے منافی ہے۔ اسی طرح ”کہاں، ’اور، ”مگر کا بہ یک وقت استعمال معنی اور شعریت دونوں کا خون کر دیتا ہے۔“ ۲۸؎ (ص۔ ۲۳۶)
(۴) مکتوب: مدیر روزنامہ ’انقلاب‘ بمبئی کے نام
۱۲ نومبر کے انقلاب کے ادب نما کالم میں مخدوم محی الدین کی مشہور نظم”چارہ گر“ کے تجزیے شائع ہوئے۔ ڈاکٹر محمد دانش غنی نے اپنا اظہار خیال ان الفاظ میں کیا ہے”قمر صدیقی نے تو اپنے تجزے میں نظم کا پوراتاثر غارت کر دیا ہے جو خود کو شمس الرحمن فاروقی کا ہمزاد سمجھتا ہے وہ نظم ”چارہ گر“ کا تجزیہ کرتے ہوئے بالکل مہمل نتیجہ اخذ کرتا ہے۔“
۲۹؎ (ص ۔ ۲۳۷)
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شعر کے پردے میں‘ ڈاکٹر دانش غنی کے تنقید ی اور تحقیقی مضامین نیزمکتوبات ان کی ادب نواز ی کا حوالہ اور اشاریہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حواشی :حوالہ ۱ سے ۲۹ =کُل ۲۹؎
مصنف : محمد دانش غنی ، کتاب :شعر کے پردے (تنقید، تحقیق اور مکتوبات)، سنِ اشاعت: ۲۰۲۰ء ، طباعت: نورانی آفسیٹ پریس، اسلام پورا، مالیگاؤں۔
—–
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad

ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ
Share
Share
Share