واہ ری دنیا واہ !
محمد قمر سلیم
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
واہ ری دنیا واہ! لوگ کہتے ہیں توخواب دکھانے میں ماہر ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ تو اس کی تعبیر بتانے میں بھی ماہر ہے۔ہم نے آنکھ کھولی تو تیرا نعرہ سنا ہمارے اچھے دن آنے والے ہیں اور ہم تیرے جھانسے میں آگئے۔
اب ہم بے چارے تو ٹھہرے عام لوگ۔ آس لگا کر بیٹھ گئے کہ اچھے دن آئیں گے، اچھے دن آئیں گے اور وہی راگ لیکن ہم کہتے ہیں اب اچھے دن نہیں آئیں گے کیوں کہ اچھے دن تو آکر چلے گئے۔ ہاں!تونے یہ کب کہا تھا کہ ہمارے اچھے دن آئیں گے۔ اچھے دن تو ہمیشہ اونچے، امیراور طاقت ور لوگوں کے آتے ہیں،عام آدمی کے نہیں۔ اس بے چارے کے دل ودماغ سے ابھی اچھے دنوں کا خمار اترا بھی نہیں تھا کہ تو نے ہم ہندوستانیوں کو ایک اور خواب دکھا دیا ’نئے ہندوستان‘ کا،جس میں غربت نہیں ہوگی، ہر کس و ناکس کی آمدنی دگنی ہو جائے گی۔امن ہی امن ہوگا۔نوجوانوں کے خواب پورے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسا کیوں کر رہی ہے۔نہیں! ہمیں توبالکل نہیں لگتا ہمارے دن بدلیں گے۔ہم تو غریب پیدا ہوئے ہیں اور غریب ہی مریں گے۔ ویسے بھی تونے بڑی مبہم بات کہی ہے، نیا ہندوستان تعمیر کرنے کی۔ تونے یہ پیغام دے کرایک آس اور باندھ دی۔ہائے ہم عام لوگ کتنی امید وں کے ساتھ جئیں۔ادھر امید ادھر امید، کھانا امید پینا امید، جینا امید مرنا امید،ہائے امید کیسی امید! امید اوڑھنا امید بچھونااور اس میں سسکتی غریب کی امیری کی امید!واہ ری دنیا واہ۔
اے دنیا!تونے جب یہ کہا غربت نہیں رہے گی تو ہمیں اپنے سابق وزیراعظم اٹل بہاری جی کی تقریر کے وہ جملے یاد آگئے جب وہ کہتے تھے،غریبی کوئی نہیں ہٹاتا، غریبوں کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ غریبی گندگی کا وہ ڈھیر ہے جسے ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں گندگی ختم ہوگئی۔ ہمیں یقین ہے تو غریبی کو صفِ ہستی سے مٹا دے گی کیوں کہ جب غریب ہی نہیں ہوں گے تو غریبی کہاں سے ہوگی۔ تیرے راج میں غریب ہی کیا کچھ چنندہ لوگوں کو چھوڑ کر سب ہی سسک رہیں یہ ہم نہیں کہ رہے ہیں حالات کہہ رہے ہیں۔یہ بے چارا غریب آدمی تو اچھے دن کے خواب دیکھ کر ان کی تکمیل کا انتظار کر ہی رہا تھا کہ تونے ہمیں نوٹوں کے پھیرمیں ڈال دیا۔اے دنیا تو کتنی بھی اپنی پیٹھ تھپتھپا لے حقیقت تو یہ ہے کہ تونے لاکھوں کو بے روزگار کر دیا، کتنوں کو موت کی نیند سلا دیا،کتنوں کے گھروں کو برباد کردیا پھر بھی یہ عام آدمی بے چارا تجھے ہی پوج رہا ہے اور ہم ہندوستانی بھی۔ یہی تو اس بھولے ہندوستانی کا بھولا پن ہے لٹنے کے بعد بھی پر امید ہے۔اسے امید ہے کہ اس کا گھر بھی پیسوں سے بھر جائے گا اور وہ غریب سے امیر ہو جائے گا۔
ہم نے تجھے اپنے سر کاتاج اس لیے بنایاتھا کہ تو زمین پر رہتی ہے۔ زمینی حقیقت جانتی ہے اور تونے ہی تولوگوں کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر بٹھایاتھا۔اسے تو یہی امید تھی کہ تو اس کے حق کی بات کرے گی لیکن اسے تو ضرب پے ضرب لگتی چلی جارہی ہے جب سے تونے یہ تاج پہنا ہے، تونے تو ہمارا دم نکالا ہے۔کب تک سہے ہم غربت کی مار۔غریب کو تونے اور غریب بنا دیااور تو ہے کہ اسے بھی اپنی کامیابی بتاتے نہیں تھکتی کیوں کہ تو ایک عام آدمی کا درد نہیں سمجھ سکتی۔ ہم کیا دوسروں کی بات کریں ہم خود تیرے ظلموں کے مارے ہوئے ہیں۔تونے تو ہمارے اوپر اتنا بوجھ ڈال دیاکہ غریب تو غریب ہو ہی رہا امیر بھی غربت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب جو غریب ہیں وہ تو ختم ہو جائیں گے۔ پھر غریب کہاں رہیں گے۔ اے دنیا!اتنا خوش نہ ہو پھر غریب پیدا ہو جائیں گے،پھرتیرے اعدادو شمار تاریخ بن کر رہ جائیں گے اور تیرے کہنے کو بھی اچھا ہو جائے گا کہ ہم نے تو غربت ختم کردی تھی، یہ تو نئے غریب ہیں۔
ویسے بھی ہم نے اور پورے ہندوستان نے یہ تو دیکھ ہی لیا کہ تو، تیرے اعلیٰ و امیر اورضمیر فروش لوگ،ہم عام اور غریب لوگوں کے لیے دل میں کتنا درد رکھتے ہیں کہ معصوم بچے دانے دانے کو ترستے ہیں لیکن ان کے کانوں پرجوں نہیں رینگتی اورپھر بھی تو ہے کہ ان امیروں ہی کے پیٹ بھرتی ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ تیرے سینے میں بھی غریبوں کا درد نہیں ہے۔ جب وہ بھوک سے مرتے ہیں تو وہ تیرے لیے اکا دکا واقعات میں شمار ہوتے ہیں جو بقول تیرے ہوتے رہتے ہیں۔ تیرے اورتیرے چاہنے والوں کے لیے تو یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں۔ کاش تونے کسی بھوکے کی ماں کے دل سے پوچھا ہوتا کہ اس کے لال کی بھوک کی تڑپ کیا ہوتی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ اکا دکا واقعات ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو تیرے چاہنے والے ہیں کیوں کہ ہم حساس دل رکھتے ہیں اور ہماری نظر میں وہ بھی انسان ہیں۔
واہ ری دنیا واہ! تیرے طور طریقوں سے تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ خاص لوگوں کو ہی خوش رکھنا تیرا کا م ہے۔ تجھے نہ تو غریبوں سے اورنہ ہی عام آدمی سے کچھ لینا دینا ہے۔ تجھے تو اس پوری دنیا اور ہمارے ہندوستان کو غربت کے رنگ سے رنگنا ہے۔ غریبوں کی حلقہئ زندگی کو تنگ کرنا ہے۔غریبوں کو اور غریب اور امیروں کو اور امیربنانا ہے یہی وجہ ہے کہ تو غربت ہٹانے کی بات تو ضرور کرتی ہے لیکن تیرے الفاظ چھلاواہیں۔ اب تو ہی بتا ایسے میں ایک عام غریب آدمی کیا کرے۔ اے دنیا! ہم تو اب زبان کھولتے ہوئے ڈر تے ہیں۔کیا یہ دور بد ترین دور نہیں ہے، کہ آج عام اور شریف آدمی تجھ سے ڈرا اور سہما ہوا ہے۔