کرونا وائرس اور اسلامی ہدایات
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذو مفتی دار العلوم وقف دیوبند
Mob: 07207326738
اس وقت عالمی سطح پر کرونا وائرس کی دہشت ہے،اس وائرس کا آغاز چین سے ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کی لپیٹ میں آگئے، اور موت کا لقمہ تربن گئے،چین کے علاوہ اٹلی،ایران اور دوسرے ملکوں میں اس سے متأثرین کی تعداد ہزار وں میں ہے قریب ۱۴۰ /ممالک میں اس کے متاثرین پائے جارہے ہیں
اور ہندوستان میں بھی اس وائرس سے متاثرین کی تعداد سو سے متجاوز ہوچکی ہے اور کئی اموات بھی اس سے واقع ہوچکی ہیں،ہندوستان میں اس کی تعداد او ربھی زائد ہوسکتی ہے اس لیے کہ ڈیرھ ارب والے ملک میں وسائل کی بہت کمی ہے؛ اس لیے اس کی تعداد کا صحیح اندازا لگانا مشکل ہے۔تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ یہ ایک وبائی مرض ہے جس نے پوری دینا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے یہ وائرس کسی مذموم مقاصد کے لیے چھوڑا بھی جاسکتا ہے جیسا کہ خود چین امریکہ پر اس کا الزام عائد کیا ہے تاہم اس وقت یہ ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے۔
بیماری متعدی ہوتی ہے :
ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ یہ بیماری متعدی ہوتی ہے اور اس کے کچھ علامات ہیں جس سے یہ بیماری دوسروں میں منتقل ہوسکتی ہے۔یہ مسئلہ اسلامی شریعت کے خلاف نہیں ہے۔جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جس میں کہا گیاہے کہ بیمای متعدی نہیں ہوتی ہے اس سلسلے میں معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث میں جاہلیت کے عقیدہ کی نفی مقصود ہے کیوں کہ وہ حضرات بیماری کے تعدیہ کو مؤثر بالذات مانتے تھے، اور ہر قسم کی بیماری میں تعدیہ کا عقیدہ رکھتے تھے، اسلام نے ان کے اس عقیدہ کی نفی کی کہ بیماری متعدی ہونے میں مؤثر بالذات نہیں ہے اور ہر بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ درست نہیں ہے ہاں اسباب کے درجہ میں بعض بیماریاں متعدی ہوسکتی ہیں اسی وجہ سے بعض روایات میں ہے کہ لا یوردن ممرض علی مصح (صحیح مسلم حدیث نمبر ۵۷۹۱)بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس مت لے کر جاؤ،اسی طرح جذامی مریض سے بچنے کے لیے آپ ﷺ نے اس سے ایک نیزہ کے فاصلہ سے بات چیت کرنے کی تاکید کی حدیث میں ہے: کلم المجذوم بینک و بینہ قید رمح(التیسیر بشرح الجامع الصغیر۲/۲۲۰)اس کاصاف مطلب ہے کہ بیماری متعدی ہوسکتی ہے۔علامہ نووی نے لکھا ہے:دونوں طرح کی روایات ہیں بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی ہے او ربعض سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری متعدی ہوتی ہے اس میں تطبیق یہ ہے کہ بیماری اپنی طبیعت کے اعتبارسے تو متعدی نہیں ہوتی ہے لیکن اللہ تعالی نے بعض بیمارسے ملنے کو متعدی ہونے کا سبب بنایا ہے۔ پس جس حدیث میں تعدیہ کی نفی ہے اس میں درحقیقت جاہلیت کے تعدیہ والے عقیدے کی نفی مقصود ہے اور دوسری روایت میں اللہ تعالی کی تقدیر سے بعض بیمار سے ملنے پر جو ضرر اور نقصان ہوسکتا ہے اس کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ وجہ الجمع أن الامراض لا تعدی بطبعہا و لکن جعل اللہ سبحانہ و تعالی مخالطتہا سببا للاعداء فنفی فی الحدیث الاول ما یعقتدہ الجاہلیۃ من العدوی بطبعہا و ارشد فی الثانی الی مجانبۃ ما یحصل عندہ الضرر عادۃ بقضاء اللہ و قدرہ (شرح النووی ۱/۳۵) شراح حدیث نے لکھا ہے کہ سات بیماری متعدی ہوتی ہیں،اور یہ قدیم اطباء کی رائے ہے اس لیے اگر ماہر ڈاکٹر یہ کہے کہ یہ بیماری منتقل ہوسکتی ہے تو اس کوقبول کیا جاسکتاہے یہ اسلام کا حکم۔ اس میں بھی مریض کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے میرے لیے اس بیماری میں مبتلا ہونا مقدر کیا تھا اس لیے ہمیں یہ بیماری ہوگئی۔
خوف سب سے بڑا وائرس ہے :
وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے،شریعت نے اس کی ہدایت دی ہے، تاہم اس سے خوف اور دہشت میں آنے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ خوف و دہشت سے بڑاکوئی وائرس نہیں ہے۔ بہت سے لوگ جو اس میں بیماری میں مبتلا نہیں ہیں لیکن خوف نے اس پر اس قدر دبیز چادر تان لی ہے کہ وہ کرونا سے زائد مہلک بیماری میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ بعض مرتبہ نفسیاتی خوف ایک مہلک بیماری بن جاتا ہے یہا ں ایک واقعہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک مجرم کو پھانسی کی سزا طے ہوئی لوگوں نے یہ طے کیا کہ اس کو تو مرنا ہی ہے اس لیے اس کو پھانسی نہ دی جائے؛بلکہ سانپ کے کاٹنے سے موت واقع کی جائے چنانچہ اس کو ایک کرسی پر آنکھ پر پٹی ڈال کر بٹھادیا گیا اور اس کو دو سوئی چبھوئی گئی اور ٹھوڑی دیر میں دیکھا گیا ہے وہ مرگیا ہے او رجب اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آئی تو اس میں پتہ چلا کہ اس کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہوئی ہے،یہ صرف دہشت کا نتیجہ تھا اس مجرم نے سمجھ لیا کہ مجھے سانپ نے کانٹا ہے اورسانپ کا کاٹا نہیں بچتا ہے اس طرح اس کی موت ہوگئی جب کہ اس کو صرف سوئی چبھوئی گئی تھی۔اس لیے خوف و ہراس سے بڑا کوئی مہلک مرض نہیں ہے۔مسلمانوں کے پاس عقیدہ کی اتنی مضبوط طاقت ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے پاس آنے والے خوف کو ختم کرسکتے ہیں۔ ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ موت کا ایک وقت متعین ہے جس سے پہلے کسی کی موت نہیں ہوسکتی ہے اور اگر موت کا وقت آجائے تو کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا ہے۔قرآن میں اللہ تعالی نے اس کو بہت واضح اندازمیں بیان کیا ہے۔ اذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ و لا یستقدمون (سورہ نحل ۶۱)جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک سکنڈ کے لیے آگے پیچھے نہیں ہوتا ہے۔ایک مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اگر اللہ تعالی کسی کونقصان پہچانا چاہے توپوری دنیا مل کر اس کو نفع نہیں پہنچاسکتی ہے اور اگر اللہ تعالی کسی کو نفع پہنچا نا چاہے تو پوری دنیا مل کر اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔آپ ﷺ نے ہمیں یہ دعا سکھلائی ہے: اللم لا مانع لما اعطیت و لا معطی لما منعت و لاینفع ذاا لجد منک الجد (صحیح البخاری،حدیث نمبر ۸۴۴)اے اللہ جس کو آپ کوئی نعمت دینا چاہیں تو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے آپ روک دیں کو تو کوئی اسے دے نہیں سکتا ہے اورمال والوں کی اس کی مال داری نفع نہیں پہنچاتی ہے۔ایک مسلمان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ بیماری دینے والی ذات اللہ کی ہے اور شفاء دینے والی ذات بھی اللہ کی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ بیماری اور دواء کے درمیان ایک پردہ حائل ہوتا ہے جب اللہ کاحکم شفاء کا ہوتا ہے تو وہ درمیانی پردہ زائل ہوجاتا ہے اور دوا کارگر ہوجاتی ہے اور مریض شفاء پاجاتا ہے (مرقاۃ المفاتیح،کتاب الطب والرقی ۷/۶۱۲۸)۔
وبائی امراض میں لاک ڈاؤن (lock down) :
شریعت نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور ان احتیاطی تدابیر پر جس حد تک عمل ممکن ہو کرنا چاہیے، طاعون کے سلسلے میں اسلام کی ہدایت ہے آپ ﷺ کا ارشاد ہے:ذکر الطاعون عند رسول اللہ ﷺ فقال:رجز أصیب بہ من کان قبلکم فاذا کان بأرض فلاتدخلوھا واذا کان بہا و انتم بہا فلاتخرجوا منہا (مسند احمد حدیث نمبر:۱۴۹۱)کہ جس علاقے میں طاعون پھیلا ہو لوگ وہاں نہ جائیں اور وہاں کے لوگ وہاں سے نہ نکلیں بلکہ صبر کرکے انہی علاقوں میں رہیں اگر موت مقدر ہوگئی تو شہادت کی موت ہوگی وہاں سے نکلنا موت سے فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے جب کہ اگر کسی کی موت کا وقت آگیاہے تو وہ موت سے بھاگ نہیں سکتا ہے۔ قرآن نے کہا ہے کہ اینما تکونوا یدرکم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ (سورۃ النساء ۷۷)تم جہاں کہیں بھی رہو موت تم کو آپکڑے گی اگر چہ تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجاؤ۔اور دوسرے لوگوں کو وہاں جانے سے اس لیے منع کیا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو، اور جہاں وبائی امراض پھیلے ہیں وہاں جانا گویا کہ اپنے آپ کو ہلاکت کے قریب کرنا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وبائی امراض متعدی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وبائی امراض کے پھیلے ہوئے علاقو ں میں جانے سے منع کیا گیا۔ آج جو بہت سے ملکوں میں (lock down)لاک ڈاؤن کیا گیا ہے کہ کوئی دوسرے ملکوں سے نہ آئے اور اس ملک کا کوئی باہر نہ جائے تو درحقیقت اسلام کا ہی نظریہ ہے جو اسلام نے چودہ سو سال پہلے لوگوں کے سامنے وبائی امراض سے نمٹنے کے لیے پیش کیا تھا اگر حالات اس قدر خراب ہوجائیں اوروبائی امراض اس قدر پھیل جائے تو لاک ڈوان کیا جاسکتا ہے یہ اسلام کی تعلیمات کے عین موافق ہے۔
وبائی امراض پھیلنے کی صورت میں ہماری ذمہ داریاں :
وبائی امراض یا وائرس کا پھیلنا ایک قسم کا عذاب خداوندی ہے اس سے نہ صرف لوگوں کی موتیں واقع ہورہی ہیں؛ بلکہ دنیا بالکل سمٹ سی گئی ہے، اسفار پر پابندی ہے، لوگ ادھر سے ادھر نہیں جاپارہے ہیں،معیشت کا بہت بڑا نقصان ہورہا ہے، چیزیں بہت سے علاقوں میں مہنگی ہوگئی ہیں جس سے عام لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب عام لوگوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے اس لیے بحیثیت مسلمان اور محمد ﷺ کے غلام اور ایک عالمی و آفاقی امت ہونے کے ہمیں آپ ﷺ نے جو ہدایات دی ہیں ان کو بروئے کار لاکر اس سے نجات پانے کی سعی و کوشش کرنی چاہیے، آپ ﷺ کا عام معلوم یہ تھا کہ جب بھی کوئی مصیت اور پریشانی آتی، آندھی طوفان کی شکل میں ہو یا آفات و بلیات کی شکل میں آپ مسجد کی طرف جاتے اور مسجد میں حضرات صحابہ کو جمع کر تے،نماز اور دعا کی تلقین فرماتے،حضرات صحابہ کی زندگی میں بھی یہ چیز بہت اہمیت کے ساتھ ملتی ہے؛ قال اتیت انسا فقلت یا أبا حمزۃ،ہل کان یصیبکم مثل ہذا علی عہد رسول اللہ ﷺ قال:معاذ اللہ ان کانت الریح لتشتد فنبادر المسجد مخافۃ القیامۃ(سنن ابی داؤد حدیث نمبر:۱۱۹۶) اس لیے آج جب کہ پوری دنیا میں کرونا وائرس کی دہشت ہے مسلمانوں کو نماز او ردعا کا خاص اہتمام کرنا چاہیے حدیث میں آتا ہے کہ اس موقع پر جن خاص دعاؤں کا ا ہتمام کرنا چاہیے ان میں چند یہ ہیں:(۱)بسم اللہ الذی لا یضرہ مع اسمہ شئی فی الارض و لافی السماء و ہو السمیع العلیم (مسند احمد،حدیث نمبر ۷۴۴)اس اللہ کے نام سے جس نے کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔حضرت عثما ن کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جو شخص صبح میں یا شام میں تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لے تو اس دن کوئی چیز اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے (۲)اعوذ بکلمات اللہ التاماۃ من شر ما خلق (مسند احمد حدیث نمبر ۷۸۸۴)۔میں اللہ تعالی کے تمام کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جواس نے پیدا کیا ہے۔حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں جو شخص شام ہونے پر تین مرتبہ یہ کلمات کہہ لے اس رات اسے کوئی زہریلی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔(۳) اللہم انی اعوذبک من البرص و الجنون والجذام و سئی الاسقام (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر ۱۵۵۴)اے اللہ ہم آپ کی پناہ چاہتے ہیں برص سے جذام سے جنون سے اور بیماریوں سے۔حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اس دعا کا معمول تھا۔
صدقہ و خیرات رب کے غضب اور بلاکو ٹالٹے ہیں اس لیے صدقہ و خیرات کا اہتمام کرناچاہیے۔بیماری کے حملہ آور ہونے میں گندگی کو بہت دخل ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر صفائی ستھرائی کا خاص خیال کرنا بہت ضروری ہے،اس کے علاوہ محکمہ صحت کی طرف سے جو ہدایات (ایڈوائزری) جاری کی جارہی ہے اس پر حتی الامکان عمل کرنا چاہے،عالمی ادارہ صحت (who)کی طرف سے جو رپورٹ شائع کی گئی ہے اس میں ہے یہ وائرس فضاء میں برقرار نہیں رہتا ہے بلکہ کسی جگہ پر رہتا ہے اس لیے اس سے بچنا ممکن ہے عام طور پر یہ وائرس کسی جگہ پر ہوتا ہے جہاں پر ہاتھ لگنے سے کسی آدمی کے ہاتھ میں اور پھر اس کے واسطے سے آدمی کے اندر یہ وائرس منتقل ہوسکتا ہے اس لیے اس موقع پر کثرت سے صابن سے ہاتھ دھونا چاہیے اور بھیڑ بھاڑ کی جگہوں سے دور رہنا،ماسک استعمال کرنا،لوگوں سے مصافحہ کرنے سے وقتی تقاضہ کے تحت رکناچاہیے۔ اس طرح کے عالمی ادارہ صحت کے جو مشورے ہیں جن پر عمل کرنے میں ہمارے فرائض و واجبات متاثر نہیں ہوتے ہیں ان پر عمل کرنا چاہیے۔
کرونا وائرس اور نظام جمعہ و جماعت :
البتہ عالمی طور پر جمعہ او رجماعت کا مسئلہ بھی پیدا ہورہا ہے، بعض عرب ممالک میں مسجدمیں نماز بندکردی گئیں ہیں، بعض جگہوں میں اذان میں ہی یہ ہدایت دی جاری ہے کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، اگر چہ بعض روایت میں اذان کے اندر صلو فی بیوتکم پڑھنا ثابت ہے سنن ابی داؤد کی روایت ہے: ان ابن عباس قال لمؤذنہ فی یوم مطیر اذا قلت:اشہد أن محمد رسول اللہ فلا تقل:حی علی الصلاۃ قل: صلوا فی بیوتکم فکأن الناس استنکروا ذلک فقال:قد فعل ذا من ہو خیر منی ان الجمعۃ عزمۃ و انی کرہت أن اخبرجکم فتمشون فی الطین و المطر(سنن ابی داؤد،باب التخلف عن الجمعۃ حدیث نمبر:۱۰۶۶) بہت ممکن ہے کہ جن ملکوں میں ایسا ہوا ان کے سامنے یہ حدیث رہی ہو۔ تاہم دھیرے دھیرے یہ صورت حال ہمارے ملک میں بھی پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے۔، کل ایک دوست کا ممبئی سے فون آیا کہ پولس والے مسجد آئے تھے او رانہوں نے مسجد میں نماز نہ پڑھنے کے لیے کہا ہے، اسی طرح ایک صاحب کا انڈومان نکوبار سے فون آیا کہ حکومت کے اہل کار نے آکر یہ ہدایت کی آپ اس طرح نماز پڑھیں کہ صفوں میں ہر طرف سے ایک میٹر کا فاصلہ ہو یعنی ہر دو مصلی کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ ضروری ہے ورنہ مسجد بند کردیں گے،ہماری حکومت کی طرف سے اس طرح کی باتیں اسی بنیاد پر کہیں جارہی ہیں کہ بعض عرب ملکوں میں اس پر عمل ہورہا ہے جسے بنیاد بنا کر ہماری حکومت یہاں بھی اس طرح کے اقدامات کرنا چاہتی ہے اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ہمارے لیے عرب ملکوں کا کوئی عمل حجت او ردلیل نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی حجت اور نمونہ ہے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے تاہم اس طرح کی صورت حال میں ضروری ہوگیا کہ ان مسائل کا جائزہ لیا جائے او رموجودہ صورت میں کوئی مناسب حل تلاش کیا جائے۔ا س سلسلے میں بہت سے عرب علماء کے فتاوی بھی واٹس ایپ پر گردش کررہے ہیں جس میں بعض میں مسجد بند کرنے کی تائید کی گئی ہے اور اس کے جوازکو مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ بعض میں عدم جواز کو مدلل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہاں دلائل دونوں طرح کی ہیں اس لیے شریعت کا مزاج، اور اس کی روح کو سمجھنے کی کوشش ہونی چاہیے، اور ملکی او رعالمی حالات کے تناظر میں ایسا حل نکالنا چاہیے کہ شریعت پر عمل آوری بھی ممکن ہو اور حالات او رملکی و عالمی قوانین کی پاسداری بھی ہو سکے۔
اس سلسلے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے یہ ایک نیا موضوع ہے جس پر اہل علم کو غو رو فکر کرنا چاہیے، میں غور و فکر کے بعداس سلسلے میں میں اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ کوئی ایک حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے بلکہ جو علاقے اس سے زیادہ متاثر ہیں وہاں کے احکام ذرا مختلف ہوں گے اور جہاں صرف احتیاط کے تحت اس طرح کی بات کی جارہی ہے وہاں کے احکام اس سے قدرے مختلف ہوں گے جن علاقوں میں وائرس سے متاثر لوگ پائے جاتے ہیں وہاں پر احتیاط کی شدید ضرورت ہوگی اور اس احتیاط کے تحت اگر مسجد میں نماز پڑھنے کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی بات کہی جائے تو کسی حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے۔کیوں کہ بارش اور دیگراعذار کی بنا پر جمعہ کی نماز گھر میں پڑھنے کا حکم روایت میں صراحت کے ساتھ ہے اوپر ابن عباس کی جو حدیث ذکر کی گئی ہے وہ بھی جمعہ سے ہی متعلق ہے اسی طرح ایک روایت میں ہے:شہد النبی ﷺ زمن الحدیبیۃ و اصابہم مطر فی یوم جمعۃ لم یبتل اسفل نعالہم فامرہم النبی ﷺ أن یصلوا فی رحالہم (صحیح ابن خزیمۃ،الرخصۃ فی ا لتخلف عن الجمعۃ حدیث نمبر ۱۸۶۳) تاہم جہاں اس طرح وائرس کے اثرات نہیں پائے جاتے ہیں لیکن وہاں بھی حکومت کی اڈوائزری ہے کہ مساجد بند کردئے جائیں تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ قابل عمل نہیں ہوگا بلکہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے او رجمعہ و جماعت کو موقوف نہیں کرنا چاہیے۔احتیاطی تدابیر کے طورپر یہ چیز یں کی جاسکتی ہیں۔
(۱) لوگ گھرسے ہی وضو کرکے آنے کا اہتمام کریں تاکہ وضوخانہ پر کم سے کم لوگوں کا اختلاط ہو۔
(۲) نماز مختصر کی جائیں خاص طور پر جمعہ کی نماز جس میں مجمع بڑاہوتا ہے اس میں اردو خطبہ کو موقوف کردیا جائے اور عربی خطبہ مختصر کردیا جائے اور نماز بھی مختصر ہو، تاکہ جلد سے جلد لوگوں کا یہ اجتماع ختم ہوجائے۔
(۳) سنت و نوافل کے اندر اصل یہی ہے کہ گھر میں پڑھی جائے،اس لیے موجودہ حالات پر ان پر خاص طور پر عمل کیا جائے اور سنت و نوافل گھر میں پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔
(۴)نماز میں صف کی درستگی کی بڑی تاکید آئی ہے اور صف کی درستگی میں یہ بھی ہے کہ لوگ مل مل کر کھڑے ہوں لیکن موجودہ حالات میں احتیاط کے طور پر اگر ایک بالشت کا فصل رکھا جائے تو لوگوں کے جسم ایک دوسرے سے کم سے کم ملیں تو ناگزیر حالات میں اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
(۵) جن جگہوں پر حکومت کی طرف سے مسجد بند کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہاں پر حکومت کے اہل کار سے بات کر کے کوشش کی جائے کہ نماز کا سلسلہ منقطع نہ ہو اس کے لیے جماعت کو مختصر کردیا جائے کچھ لوگ مسجد میں جماعت سے نماز پڑھیں اور کچھ لوگ گھرپر جماعت بنالیں، اسی طرح مجمع کم کرنے کے لیے جماعت ثانیہ کا اہتمام کیا جائے، جماعت ثانیہ عام حالات میں فقہاء احناف کے یہاں مکروہ تحریمی ہے لیکن اگر ہیئت اولی پر نہ ہو تو حضرت امام ابویوسف نے اس کی اجازت دی ہے،عن ابی یوسف انہ اذا لم تکن الجماعۃ علی الہیءۃ الاولی لا تکرہ والا تکرہ و ہو الصحیح (فتاوی شامی ۱/۳۵۵) اسی طرح جماعت ثانیہ کی کراہت کی علت تقلیل جماعت ہے یعنی کہ پہلی جماعت میں مجمع کم رہے گا اس لیے دوسری جماعت کرنے سے منع کیا گیا لیکن یہاں پر مجمع کم کرنا ہی مقصود ہے اس لیے یہاں پر جماعت ثانیہ کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
(۶)جن جگہوں پر حکومت کے اہل کار یہ کہتے ہیں کہ دو مصلی کے درمیان ایک میٹر کے فاصلہ کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں ورنہ مسجد بندکرو تو اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ مسجد بند کرنے کے مقابلہ میں اس پر عمل کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ صفوں کا اتصا ل ضروری ہے لیکن اگر مسجد یا فناء مسجد یا صحن مسجد میں کہیں مصلی ہو اور صف کا انقطاع ہوجائے یا دو مصلی کے درمیا ن ایک میٹر کا فاصلہ ہوجائے تو بھی نماز درست ہوجاتی ہے اگر چہ ایسا کرنا مکروہ ہے لیکن یہاں پر ایسا کرنے کی مجبوری ہے اس لیے اہون البلیتین کے طور پر اس کو اختیار کیا جاسکتا ہے اشباہ و النظائر میں ابن نجیم لکھتے ہیں کہ وفناء المسجد کالمسجد فیصح الاقتداء و ان لم تتصل الصفوف (الاشباہ و النظائر ص:۱۹۷)علامہ شامی نے واضح کیا ہے کہ اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے مسجد یا فناء مسجد میں اتصال صفوف ضروری نہیں ہے بلکہ امام کے احوال کا علم ہونا یہ کافی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ وبہ علم أن الاقتداء من صحن الخانقاہ الشیخونیۃ بالامام فی المحراب صحیح و ان لم تتصل الصفوف لأن الصحن فناء المسجد و کذا اقتداء من بالخلاوی السفلیۃ صحیح لان ابوابہا فی فناء المسجد (فتاوی شامی ۱/۵۸۵) فتاوی دارالعلوم میں ایک سوال ہے کہ ایک یا دو صف چھوڑ کر کچھ لوگ پیچھے کھڑے ہوگئے تو ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟ اس کے جواب میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب نے لکھا ہے کہ نماز ہوگئی مگریہ خلاف سنت ہے صفوف کو متصل کرنا چاہیے اور فرجہ درمیان نہ چھوڑنا چاہیے(فتاوی دارالعلوم ۳/۱۳۵)۔
(۷)جو لوگ اس سے متاثر ہیں ان کو مسجد نہیں آنا چاہیے، ان کو اپنے گھر میں نماز پڑھی چاہیے اس لیے کہ ان حضرات کا مسجد آنا دیگر لوگوں کی وحشت کا باعث ہے بلکہ وائرس کے منتقل ہونے کی صورت میں دوسرے لوگوں کی تکلیف کا باعث ہے اس کو دیکھ کر دوسرے لوگ مسجد نہیں آئیں گے۔مشرق وسطی کے کسی ملک میں ایک شخص کرونا سے متاثر تھا اور ایک بجے وہ ہاسپٹل سے غائب ہوگیا اور ڈھائی بجے واپس آگیا لوگوں نے لوگوں کہا گئے تھے تو اس نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے لیے لیے گیا تھااس طرح کے واقعات عام لوگوں کے لیے خوف کا باعث بنتے ہیں اس لیے ایسے لوگوں کو مسجد نہیں جانا چاہیے، فقہاء کے یہاں اس کی تصریح ہے کہ اگر کسی کو منہ کی بدبو کی بیماری اس کے مسجد میں آنے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہو تو اس کو مسجد نہ آنے کی اجازت ہے فتاوی دارالعلوم میں ہے کہ جذامی سے جمعہ و جماعت ساقط اور معاف ہے اس وجہ سے کہ وہ مسجد میں نہ آوے پس جذامی کو چاہیے کہ وہ جماعت میں شریک نہ ہونا چاہیے اور جو لوگ جذامی شخص سے علیحدہ رہیں اوراحتراز کریں اس پر کوئی ملامت نہیں ہے کہ جذامی سے بھاگنے اور بچنے کا حکم رسول ﷺ نے فرمایا ہے (فتاوی دارالعلوم ۳/۷۰)رد المحتار میں ہے:ویمنع منہ -المسجد -و کذا کل مؤذ ولو بلسانہ -و کذلک ألحق بعضہم بذالک من بفیہ بخر او بہ جرح لہ رائحۃ و کذالک القصاب و السماک و المجذوم والابرص اولی بالالحاق (رد المحتار ۲/۷۷۳)
خلاصہ یہ کہ کرونا وائرس یہ ایک وبا ہے جس سے لوگوں میں ایک عجیب و غریب دہشت بھی ہے اس کا تقاضہ ہے کہ مسجدوں کو آباد رکھ کر رب کو راضی کیا جائے،ان سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرکے اس عذاب سے نجات کی دعا کی جائے، نہ یہ کہ مسجد کو مقفل کردیا جائے۔عربوں کا عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے؛ بلکہ عربوں کو اپنے عمل پرنظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔اسکاؤٹ لینڈکے وزیر اعظم کا بیان آیا ہے کہ ہم یہ یقین دہائی کراتے ہیں کہ مساجد،چرچ اور گرودوارہ یہ سب بند کئے جائیں گے اس لیے جس طرح ہم ہاسپیٹل بند نہیں کرسکتے ہیں جہاں لوگوں کاجسمانی علاج ہوتا ہے؛ اسی طرح ہم ان جگہوں کو بند نہیں کرسکتے ہیں جہاں لوگوں کا روحانی علاج ہوتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسکاؤٹ لیننڈ کے وزیر اعظم کے بیان سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ جس کو ہم ملحد اور بے دین تصور کرتے ہیں ان کا کیا جذبہ اور نظریہ ہے اور وہ کس طرح سوچتے ہیں؟کیا مسلمانوں کا پاس اس قدر بھی ایمان نہیں رہ گیا جو یہ سوچے کہ مسجد روحانی تربیت کی جگہ ہے جسے ہمیں ہر حا ل میں بحال رکھنا چاہیے۔ یہ ایک معروضی تحریر ہے کوئی فتوی نہیں ہے،ارباب علم کو اس پر غور کرنا چاہیے اور مشکل حالات میں امت کے لیے کیا بہتر رہنمائی ہوسکتی ہے اسے پیش کرنا چاہیے-