کالم : بزمِ درویش
مسکراتی آنکھیں
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
مشک وعنبر سے مہکی زندگی سے بھر پور روشن آنکھوں والا وہ شخص آج پھر میرے پاس آیا ہوا تھا حسبِ معمول وہ آج بھی کسی کام کے سلسلے میں نہیں آیا تھا نہ ہی زندگی کی تلخ حقیقتوں کا رونا رونے آیا تھا وہ ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش خوش و خرم تھا
اللہ کی مو جود نعمتوں کا اسے شدت سے ادراک تھا اور جو کچھ بھی اس کے پاس نہیں تھا اس میں خدا ئے بزرگ و برتر کی حکمت سے بھی آگاہ تھا وہ ایک مطمئن شخص تھالیکن ملکی حالات اور عوام کش نظام پر اکثر افسردہ ہو جاتا ایک ہی دعا ہر بار کراتا کہ کسی طرح اچھی لیڈر شپ آجائے نظام حکومت انصاف پر کھڑا ہو جائے معا شرے میں موجود نفرت پر اکثر رنجیدہ ہوجاتا کہ مساجد جو کبھی امن کے پھول تقسیم کر تی تھیں آج نفاق اور فرقہ پرستی کی فصل کا شت کرتی ہیں فرقہ پرستی کا زہر انہی مسجدوں میں بویا جاتا ہے ہم کیسے مسلمان ہیں جو خدا کے گھر میں بیٹھ کر دوسر ے مسلمانوں کو کا فر قراردیتے ہیں حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ پو لیس کی نگرانی کے بغیر ہم نماز اور جنازے ادا نہیں کرسکتے جہاں سے ایمان کے نور پھوٹتے تھے وہیں سے دہشت گردوں کی قطا ریں برآمد ہو تی ہیں زندگی کی بنیاد دودھ دو ا اور پانی یہاں خالص نہیں ملتا یہاں لو گ مزارات اور مساجدمیں چوریاں کر تے فائرنگ کر تے ہیں یہاں لو گ عمرے اور حج کے نا م پر فراڈ کر تے ہیں حرام جانوروں کی اون سے جا ئے نماز بناتے ہیں کاروبار کو پروان چڑھانے کے لیے لو گ دودو روپے پر جھو ٹی قسمیں کھا لیتے ہیں عدالتوں میں قرآن کی جھو ٹی قسمیں کھا نے والے جتھے کے جتھے موجود ہیں مسیحا ڈاکٹر مریضوں کے گر دے چوری کر تے ہیں جان بو جھ کر غلط آپریشن کر دیتے ہیں ہما رے ملک کے نام نہاد مالک سیاستدان قرآن اٹھا کر لو ٹے بن جاتے ہیں امریکہ بہا در کو خو ش کر نے کے لیے معصوم بچوں کے مدارس پر بم گرا کر انہیں گا جر مو لی کی طرح کاٹ ڈالتے ہیں ہما ری جہالت اور نا پختگی کا یہ عالم ہے کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ابھی تک عصبیت کے دائروں میں تقسیم نظر آتے ہیں 70برس بعد بھی ہم پنجابی سندھی بلو چی پٹھان ہیں ہم آج تک پاکستانی نہیں بن سکے ہم کسی بھی ملکی لیول کے مسئلے پر اکٹھے نہیں ہو سکے ہماری وطن پرستی کا یہ عالم ہے کہ1971میں آدھا ملک گنوا کر بھی نعرے ما رتے رہے ہیں ہمارے پنجابیوں کو سندھی نہیں اور سندھیوں کو پنجابی نہیں آتی یہی حال بلو چ اور پٹھانوں کا ہے بد نظمی کا یہ عالم ہے کہ 70برس بعد بھی ہمیں قطار بنا نی نہیں آتی لوگ آج بھی بجلی کے بل ایک دوسرے سے کشتی کر تے ہوئے ادا کر تے ہیں حج فارم کے لیے جو ہنگا مہ ہو تا ہے وہ سب جانتے ہیں قانوں کا یہ حال ہے کہ اِس ملک میں بڑے سے بڑا مجرم کسی وقت بھی ملک کے سب سے بڑے عہدے پر بیٹھ سکتا ہے سڑکوں پر گاڑیاں ایک دوسرے کو روندتی ہو ئی آگے بڑھتی ہیں اشارے پو لوگ اشارے کو تو ڑتے ہو ئے اِس شان سے دوڑ جاتے ہیں جیسے انہوں نے کو ئی کارنامہ انجام دیا ہے ہم کیسے لو گ ہیں جو ہر ادارے میں منا فقت کے بیج بو کر یہ آس لگا لیتے ہیں کہ یہاں خو شحالی اور ترقی کی فصل تیار ہوگی اور پھر یہ توقع کر تے ہیں کہ وہ ہم پر کرم کرے گا رحم کر ے گا جھوٹ فراڈ منا فقت ہماری فطرت کا حصہ بن چکے ہیں ہم دوسروں کو دھوکہ دے کر تا لیاں بجاتے ہیں میں اپنے سامنے بیٹھے شخص کا درد سن رہا تھاوہ بالکل ٹھیک فکرمند تھا اس کو پاکستان اور یہاں کے عوام کا درد تھا اس کی خوبی یہ تھی ایک دن مجھے کہنے لگا میں نے خود کو اچھائی کے سانچے میں ڈھالنے کی پوری کو شش کی ہے اور وہ اس پر عمل کرنے کی بھی پوری کو شش کرتا ہے کافی دیر با تیں کر نے کے بعد وہ ہمیشہ کی طرح بولا جناب میرے لا ئق کو ئی حکم اور پھر محبت سے مل کر چلا جاتا تھا مجھے اس سے پہلی ملاقات یاد آگئی اور وہ واقعہ بھی جس کے بعد میں اس کی بہت قدر کر تا ہوں وہ مجھے زندہ ولی معلوم ہو تا ہے وہ عملی طور پر نیک انسان ہے وہ باتوں کا کھلاڑی نہیں بلکہ اپنے کردار اور خدمت خلق سے معاشرے میں محبت اور امن کے پھول کھلا تا ہے اِسی طرح ایک دن یہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا ہوا تھارش زیادہ تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح آرام سے ایک طرف اپنی گا ڑی میں بیٹھا ہوا تھا کہ میں سب سے مل کر فری ہو کر اِس سے مل لوں اِسی دوران ایک غریب عورت اپنی بیٹی کے ساتھ میرے پاس آئی ہوئی تھی عورت کی بیٹی بیمار تھی اللہ تعالی نے اس کوشفا دی تو اب ماں اس کی شادی کرنا چاہتی تھی ماں بیٹی کسی فیکٹری میں ملازمت کرتی تھیں فیکٹری مالک نے ادھار دینے کا جھوٹا لارا لگا یا ہوا تھا ماں بیٹی فیکٹری میں کئی سالوں سے کام کرتی تھیں مالک نے دونوں کے کچھ پیسے دبا رکھے تھے کہ تمہا ری بیٹی کی شادی پر تمہیں دوں گا اب بیٹی کی منگنی ہوچکی تھی اب لڑکے والے مسلسل شادی کی تاریخ مانگ رہے تھے عورت بیوہ تھی لڑکی کا باپ تو تھا نہیں اِس لیے اب ماں بیٹی میرے پاس یہ دعا کر انے آرہی تھیں کہ کسی طرح فیکٹری کامالک شادی کے لیے پیسے اور ادھار دے دے تاکہ بیٹی کی شادی آسانی سے ہوسکے ماں بیٹی کی آنکھوں سے بے بسی لاچارگی دکھ اور فریاد پانی بن کر برس رہا تھا ماں دبے لفظوں میں بتا رہی تھی کہ جو لڑکیاں فیکٹری مالک کے بیڈ روم تک چلی جاتی ہیں ان کو وہ آسانی سے قرض اور پیسے دے دیتا ہے میں مر جاں گی لیکن یہ گناہ کبھی نہ ہونے دوں گی فرشتوں جیسی معصوم بیٹی نظریں جھکائے بیٹھی تھی درد کرب تکلیف بے بسی دریائے فرات کی طرح اس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا ماں بیٹی کی یہ دردناک حالت دیکھ کر میرا کلیجہ بھی پھٹ رہا تھا اور میں دل ہی دل میں پیسوں کا بندوبست کرنے کا سوچ رہا تھا کہ اچانک یہ شخص میرے پاس آیا اور الگ لے گیا اور پوچھا مسئلہ کیا ہے میں داستان غم سنادی تو وہ بولا آپ پریشان نہ ہوں اللہ ان کی مدد کر ے گا اور پھر وہ دونوں ماں بیٹی کو اپنی گا ڑی میں بیٹھا کر لے گیا کہ ان کو اڈے تک چھوڑدوں گا ماں بیٹی تو چلی گئیں لیکن ان کے اداس چہرے اوراشک بار درد ناک آنکھیں تیر کی طرح میرے دل میں پیوست ہو گئیں تھیں میں دن رات ان کے لیے دعا گو رہا اور پھر ایک دن وہی شخص میرے پاس آیا اور کہا فلاں دن آپ فری ہیں پہلے تومیں ٹال مٹول کر تا رہا لیکن جب اِس نے بہت اصرار کیا تو میں مان گیا وہ مجھے کسی کھا نے پر لے جانا چاہتا تھامیں نے انکار تو بہت کیا لیکن جس شدت اور التجا سے اس نے دعوت دی میں انکار نہ کر سکا اور پھر مقررہ دن یہ مجھے لینے آگیا رات کا وقت تھامجھے یہ بتا نہیں رہا تھا کہ ہم کدھر کس کے پاس جا رہے ہیں اور پھرہم لاہور کے نواحی اور پسماندہ علا قے میں آگئے آخر ہما ری کار ایک شادی ہال کے سامنے رکی ہم دونوں شادی ہال میں داخل ہو گئے میں کونے میں بیٹھ گیا اور لوگوں کے فون سننا شروع کردئیے یہ اب میرے ساتھی نے میزبانی شروع کر دی اور اِس کے بندے بھی میزبانی کر رہے تھے ہم لڑکی والوں کے مہمان تھے بارات آئی نکاح ہوا اور پھر کھانا شروع ہو گیا کھانے کے بعد جب رخصتی کا وقت آیا تو میرے دوست نے مجھے آکر پکڑ ا اور دلہن کو دعائیں دینے ان کے پاس لے گیا مجھے دلہن اور اس کی ماں جانی پہچانی لگیں آخر میں نے دونوں کو پہچان لیا یہ تو وہی ماں بیٹی تھیں جو میرے پاس دعا کرانے آئیں تھیں لڑکی کی ماں بار بار میرا اور اِس صاحب کا شکرادا کررہی تھیں مجھے ساری بات سمجھ آگئی یہ یہ سارا انتظام اور شادی کے اخراجات اِس شخص نے کئے تھے۔میں نے اپنے ساتھ آئے شخص کو پکڑکر اپنے سامنے کیا میری آنکھوں میں خو شی کے موتی جھلملا رہے تھے میں بولا جناب آپ جیسے ہی لوگوں سے ہی یہ مردہ معاشرہ زندہ ہے آپ زندہ ولی ہیں آپ پلیز میرے پاس آتے رہا کریں آج بھی جب میں اداس ہوتا ہو ں تو ماں بیٹی کی ممنون مسکراتی آنکھیں میرے باطن میں رنگ و نور اور خوشبو کے قافلے اتار دیتی ہیں۔