اذان کا تیسرا کلمہ ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (4) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا تیسرا کلمہ ،
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (4)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا تیسرا کلمہ ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (3) قسط کے لیے کلک کریں

سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت ۷۵۱ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے حصول کے لئے اتباع رسولﷺ کی شرط کے ساتھ نبی ؐ کے چھ کام بتائے ہیں، اور ساتھ نبیؐ پر ایمان لانے والوں کے چار کام بتائے ہیں، ایک طرح سے یہ چار کام نبیﷺ کے چار حقوق ہیں،

جو آپؐ کو ماننے والوں پر عائد ہوتے ہیں، ویسے نبیﷺ کے مذکورہ آیت میں جو چھ کام بتلائے گئے ہیں، در اصل وہ پوری امت مسلمہ کے کام ہیں، اور اتباع رسولﷺ کے تذکرہ و صفت میں وہ خود بخود شامل ہیں۔ نبیﷺ کے جو چھ کام بتائے گئے ہیں ان میں سے سب سے پہلا کام، معروف کا حکم دینا ہے، در اصل اس ایک کام میں دو اہم کام خود بہ خود شامل ہے، اور وہ ہے معروف کو جاننا اور پھر اس پر عمل کرنا، اسلئے کہ معروف کا حکم دوسروں کو اسی وقت دیا جائے گا جب کہ اس کا علم ہوگا، اور اس پر خود عمل ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نبیﷺ کو قرآن کے ذریعہ بھلائی کا علم دیا، اور نبیﷺ نے سب سے پہلے اس معروف پر عمل کیا، اور پھر لوگوں کو اس کا حکم دیا،اور یہی ترتیب فطری ہے اور مناسب بھی ہے، بلکہ یہی ترتیب لازمی اور ضروری ہے، اور جو اس ترتیب کو نظر انداز کردے وہ کبھی بھی معروف کا حکم دینے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اس لئے ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ قرآن و حدیث کے ذریعہ معروف کا علم حاصل کرے، اس پر عمل کرے، اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دے، یوں تو معروف میں بہت سے اعمال آتے ہیں، لیکن معروف کا حکم دینے کی جو لازمی ترتیب ہے، اس ترتیب کا لحاظ کیاجائے، معروف کا حکم دینے کی جو قرآنی اور انبیائی ترتیب ہے، وہ یہ ہے،کہ جو سب سے بڑا اور بنیادی معروف ہے، سب سے پہلے اس کا حکم دیا جائے،چنانچہ قرآن وحدیث کی رو سے جو سب سے بڑا اور بنیادی معروف ہے، وہ بندگی رب ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انسانوں کو یہی حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی بندگی اختیار کرے، چنانچہ سورۂ بقرہ کے تیسرے رکوع کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے فرمایا، یَآ یُھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذی خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔
(سورۂ بقرہ آیت ۱۲) ترجمہ(ائے لوگوں غلامی اختیار کرو اپنے رب کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا، تاکہ تم بچو) بندگئی رب کی دعوت و حکم میں زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی کو قبول کرنا اور اس کی دعوت دینا ہے، اور سیاسی طاقت حاصل ہونے کے بعد بندگئی رب کو معاشرہ میں نافذ کرنا ہے، اس لئے کہ لفظ امر میں حکومت و اقتدار کا مفہوم بھی شامل ہے،
چنانچہ نبی کریمﷺ نے سب سے پہلے مکہ والوں کے سامنے اللہ کے رب ہونے کی بڑائی ہی کی دعوت پیش کی، اور در اصل اللہ کی طرف سے آپؐ کو یہی حکم تھا، یہی وجہ ہے کہ دعوتی لحاظ سے جو سب سے پہلی وحی آپؐ پر نازل ہوئی وہ سورۂ مدثر کی ابتدائی آیات ہیں جن میں آنحضورﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا، یاَیُھَا الْمُدَّثِر قُمْ فَاَنْذِرْہ وَرَبَّکَ فَکَبّرْہ۔(ترجمہ: یعنی ائے چادر اور ڑھنے والے اٹھئے، پس ڈرائیے، اور اپنے رب کو بڑا قرار دو) مطلب یہ کہ لوگوں نے نظام زندگی کے متعلق اللہ کو جو چھوٹا بنالیا ہیں، اور اپنے آپ کو بڑا بنا لیا ہیں، ان کی اس سوچ کو بدلو، ویسے صفت رب میں خود اللہ کی ہر لحاظ سے بڑائی شامل ہے، لیکن مزید بڑائی کا حکم دے کر ایک طرح سے بتلادیا گیا ہے کہ دعوت دین میں اللہ کی بڑائی کے متعلق کوئی نرمی نہیں برتی جا سکتی، اور نہ اللہ کی بڑائی کے متعلق کسی سے سمجھو تہ کیا جا سکتا ہے، چنانچہ نبی ؐ کی پوری سیرت اس پر گواہ ہے کہ آپؐ نے اللہ کی بڑائی کی دعوت کے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، یہاں تک کہ آپؐ کو اللہ کی بڑائی کی دعوت کے نتیجہ میں،گالیاں دی گئیں، مارا گیا، آپؐ سے اور آپ کے ساتھیوں سے تین سال تک ہر طرح کا بائیکاٹ کر لیا گیا، جس کی بنا پر تین سال تک آپؐ اور آپ کے ساتھی شعیب ابی طالب میں محصور رہیں، اور اس درمیان انہیں درختوں کے پتے چبوا کر دن گزارنے پڑے، اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اللہ کی بڑائی کی دعوت کو چھوڑنے کے نتیجہ میں آپؐ کو سرداری کی پیشکش کی گئی، لیکن آپؐ نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرادیا، کیونکہ آپؐ اپنی بڑائی کی دعوت لے کر نہیں آئے تھے، بلکہ اللہ کی بڑائی کی دعوت لے کر آئے تھے۔
مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو سیاسی غلبہ عطا کیا تو آپؐنے طاقت وقوت کے ذریعہ اللہ کی بڑائی کو نافذ کیا، اور اسی کے نتیجہ میں جنگ بدر، جنگ اُحد اور دیگر جنگیں واقع ہوئیں۔
ویسے نزول کے لحاظ سے جو سب سے پہلی وحی ہے اس میں بھی اللہ کی بڑائی کا پیغام ہے، چنانچہ سب سے پہلی وحی سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں، اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ کا تعارف رب کی حیثیت سے ہے، اور رب میں ہر طرح کی بڑائی شامل ہے، اس لحاظ سے اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا معروف اللہ تعالیٰ کو رب و معبود کی حیثیت سے قبول کرنا اور دوسروں کو اسی کا حکم دینا ہے، اور اسلام کے پہلے کلمہ میں بھی یہی معروف ہے یعنی لَآ اِلٰہَ اِلَّا للہ ُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللہ ِ۔(نہیں کوئی معبود مگر اللہ، اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں) اس سے بڑھ کر بھی اگر کوئی معروف ہوتا تو اسے اسلام کے پہلے کلمہ میں رکھا جاتا، اس سے معلوم ہوا کہ سب سے بڑا معروف اللہ تعالیٰ کو اکیلا معبود اور سب سے بڑا ماننا اور محمدﷺ کو اللہ کا رسول ماننا ہے، اسی بنا پر ان کلمات کو اذان میں بھی رکھ دیا گیا ہیں، تاکہ اسلام کا سب سے بڑا معروف،
روزانہ پانچ مرتبہ ادا ہوتے رہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاَ مِمَّنْ دَعَآ اِلٰی اللہ ِ وَعَمَلَ صَالِحاً وَّ قَالَ اِنّیِ مِنَ الْمُسْلِمینَ۔( حٰمٓ سجدہ ۳۳) (اور اس سے اچھی کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے، اور کہے میں مسلمانوں میں سے ہوں)اس آیت سے مراد بہت سے مفسرین نے اذان دینے والوں کو لیا ہیں، کیونکہ اذان اللہ کی طرف ایک مکمل اور عظیم دعوت ہے، ظاہر ہے جب اذان دینے والے اس کا مصداق ہیں تو اذان کا جواب دینے والے بھی اس کا مصداق ہیں، کیونکہ وہ بھی وہی کلمات دہراتے ہیں، جو موذنین ادا کرتے ہیں، اس طرح اب پوری امت مسلمہ اذان کے عمل میں شامل ہو گئی ہے، اس لئے اب پوری امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ آیت میں بیان کی ہوئی، دوسری صفت، وَعَمِلَ صَالِحاََ۔(یعنی نیک عمل کرے)، میں بھی شامل ہو، لیکن افسوس ہے کہ ابھی بہت سے اذان دینے والے، اور اذان کا جواب دینے والے، جانتے ہی نہیں ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، چنانچہ اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے یہ چند صفحات تحریر کئے جار ہے ہیں، اس یقین و امید کے ساتھ کہ ضرور امت مسلمہ کے افراد اس طرف متوجہ ہوں گے، اور غیر مسلموں کو بھی متوجہ کریں گے۔
سورۂ اعراف کی آیت ۷۵۱ میں حضرت محمدﷺ کا دوسرا کام وَیِنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرْ۔(یعنی وہ انہیں منکر سے روکتا ہے) بیان کیا گیا ہے، اس ایک کام میں دو اور مزید کام خود بخود شامل ہو گئے ہیں، یعنی منکر سے واقف ہونا اور اس سے بچنا، کیونکہ جو منکر سے واقف نہ ہو، اور نہ اس سے بچے وہ دوسروں کو منکر سے نہیں روک سکتا، اور منکر سے روکنے کے متعلق یہ لازمی اور ضروری ترتیب ہے، چنانچہ نبیﷺ نے سب سے پہلے قرآن کے ذریعہ منکر کا علم حاصل کیا، اور پھر اس سے اپنے آپ کو بچایا، اور اس کے بعد لوگوں کو اس منکر سے روکا، یوں تو منکر میں بہت سے عقائد و اعمال آتے ہیں، لیکن منکر سے روکنے کے متعلق بھی اسلام کی یہی ترتیب ہے کہ سب سے پہلے بڑے منکر سے روکا جائے، اس حوالہ سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس کو سب سے بڑا منکر قرار دیا ہے وہ شرک ہے، جس طرح نظام زندگی اور نظام کائنات میں اللہ کو سب سے بڑا تنہا مالک و معبود ماننا سب سے بڑا معروف ہے، اسی طرح نظام زندگی اور نظام کائنات میں اللہ کی مالکیت، خالقیت اور حاکمیت میں کسی اور کو شریک سمجھنا شرک ہے، اور اسلام میں یہ سب سے بڑا گناہ اور سب سے بڑا منکر ہے، شرک کو قرآن و حدیث میں کفر بھی کہا گیا ہے، جس طرح ایمان و اسلام میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، اسی طرح شرک اور کفر میں کوئی بنیاد ی فر ق نہیں ہے،اور جس طرح مومن و مسلم میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، اسی طرح مشرک و کافر میں
کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔
یوں تو کفر اور شرک میں بہت سے گناہ آتے ہیں لیکن سب سے بڑا گناہ کفر اور شرک کے عقیدہ کا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے پہلے کلمہ ہی میں سب سے پہلے اللہ کے علاوہ ہر طرح کے معبود کے انکار کی بات رکھی ہے، چنانچہ کلمہ کے الفاظ اس طرح ہیں، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ (یعنی نہیں کوئی معبود،مگر اللہ) مطلب یہ کہ اللہ کے معبود کے اقرار سے پہلے تمام معبودان باطل کا انکار ضروری ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اگر کسی نے معبود ان باطل کا انکار کئے بغیر اللہ کے معبود ہونے کا اقرار کیا تو اس کا اقرار ہی صحیح نہیں ہے، اس ترتیب کی اہمیت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک اور مقام پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایاہے، قَدْ تَّبیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الغَیَّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَ یَوْمِنْ بِاللہِ فَقَدِاسْتَمْسَکَ بِالْعُرْۃِ الْوُثْقیٰ لاَ نْفِعَامَ لَھَاوَاللہُ سَمِیْعَ عَلِیمُ۔(سورۂ بقرہ آیت ۶۵۲) ترجمہ: (تحقیق کہ ہدایت گمراہی سے واضح ہوگئی ہے پس جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو تحقیق کہ اس نے مضبوط سہارا پکڑا جو چھوٹنے والا نہیں ہے، اور اللہ سننے والا،جاننے والا ہے)
مذکورہ آیت میں ایمان باللہ کے صحیح ہونے کے لئے انکار طاغوت کی جو شرط رکھی گئی ہے،یہ ترتیب دنیا کی تمام چیزوں سے ثابت ہوتی ہے، مثلاً زمین میں کسی چیز کا بیچ ڈالنے سے پہلے اس زمین کی صفائی ضروری ہے، کسی برتن میں کھانا بنانے سے پہلے اس برتن کی صفائی ضروری ہے، کسی پارٹی کا ممبر بننے سے پہلے دوسری پارٹیوں کی ممبر شپ سے علیحدگی ضروری ہے، یا کم از کم ان پارٹیوں سے علیحدگی ضروری ہے، جن کا دستور اور طریقہ کار الگ ہے، مطلب یہ کہ جس طرح دنیا میں دو الگ الگ نظریہ رکھنے والی پارٹیوں کا کوئی بیک وقت ممبر نہیں بن سکتا، اسی طرح کوئی اسلام اور غیر اسلام کا بیک وقت کوئی ممبر نہیں بن سکتا، اور جس طرح دنیا میں بیک وقت دو متضاد پارٹیوں کا رکن بننا سب سے بڑا جرم اور دھوکہ شمار ہوتا ہے، اسی طرح اسلام میں،اسلام کی رکنیت کے ساتھ کسی اور نظریہ کی حمایت سب سے بڑا جرم ہے، جس کو اسلام نے شرک قرار دیا ہے، شرک کے ساتھ نہ ایمان قابل قبول ہے اور نہ کوئی عمل قابل قبول ہے، اور نہ اللہ کی مغفرت ہے جب تک کہ وہ شرک سے باز نہ آجائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ اِنَّ اللہ َ لاَ یَغْفِرُ
اَنْ یُّشْرَکَ بِہِ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُُّشْرِکَ بِاللہ ِ فَقَدِ افْتَریٰٓ اِثْماً عَظِمْاً۔(سورۂ نساء آیت نمبر۵) (بیشک اللہ معاف نہیں کرے گا،جو اس کے ساتھ شرک کرے گا،اور معاف کرے گا،اس کے لئے جس کے لئے چاہے گا، اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے، تحقیق کہ اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا)
مذکورہ آیت میں شرک کرنے والے کے لئے عدم معافی کی بات کہی گئی ہے، یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس نے زندگی میں شرک سے توبہ نہ کی ہو، اور شرک کی حالت میں ہی اس کی موت ہوئی ہو، رہا وہ شخص جس نے زند گی میں مرنے سے پہلے توبہ کر لی ہو اور ایمان و نیک عمل کا راستہ اختیارکرلیا ہو، اس کے لئے قرآن میں معافی کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔
مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا منکر اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اس لئے سب سے پہلے شرک سے بچنا اور دوسروں کو بچانا ضروری ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کا تذکرہ بڑی اہمیت اور اہل ایمان کے لئے بطور نصیحت کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو جو دس نصیحتیں کی تھیں، جن کا تذکرہ سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع میں ہے ان میں سے سب سے پہلی نصیحت اللہ کے ساتھ شرک سے بچنے کی نصیحت ہے، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے، وَاِذْقَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہ وَ ھُوَ یَعِظُہُ یٰبُنیَّ لَا تُشْرِک بِاللہ ِ اِنَّ الشِرْکَ لَطُلْمَ عَظِیمُ۔(سورۂ لقمان آیت ۳۱) ترجمہ(اور جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا جبکہ وہ اسے نصیحت کر رہا تھا، ائے میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شرک مت کر، بیشک یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے) اس لئے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا لازمی تقاضہ ہے کہ شرک سے خود بھی بچا جائے، اور اپنے اہل و عیال اور تمام لوگوں کو شرک سے بچانے کی کوشش کی جائے۔
سورۂ اعراف کی مذکورہ آیت ۷۵۱ میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺکا تیسرا کام، وَیُحِلَّ لَھُمْ الطَّیبَّٰتِ۔(یعنی وہ حلال کرتا ہے ان کے لئے پاکیزہ چیزیں، بیان کیا گیا ہے اس میں بھی ایک طرح سے دو اور کام لازمی ہو گئے ہیں، وہ یہ کہ پاکیزہ چیزوں کو جاننا اور انہیں خود حلال سمجھنا، اس لئے کہ جو پاکیزہ چیزوں کو نہ جانے اور اپنے لئے حلال نہ سمجھے، وہ کیونکہ دوسروں کے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کر سکتا ہے۔
مذکورہ آیت کے انداز بیان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے، کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ نے پاکیزہ چیزیں اپنے اوپر حرام کرلی تھیں، جیسے اونٹ کا گوشت، جب کہ اللہ نے پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال کیا تھا، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ کسی پاکیزہ اور اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دینا بہت بڑا گناہ ہے، اور اس گناہ سے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بچانا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا لازمی تقاضہ ہے، لیکن افسوس ہے کہ امت مسلمہ کے بہت سے افراد بھی اللہ کی حلال کردہ اور پاکیزہ چیزوں کو اپنے لئے حرام سمجھتے ہیں، جیسے بڑے حلال جانوروں کا گوشت اور کچھ نا محرم مردوں اور عورتوں سے نکاح، اور کچھ افراد بڑے جانوروں کے گوشت اور نا محرموں سے نکاح کو حرام تو نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن ان سے ایسی نفرت کرتے ہیں جیسے
کہ حرام چیزوں سے نفرت کی جاتی ہے، یہ رویہ بھی ایک طرح سے اللہ کی حلال کردہ اور پاکیزہ چیزوں کو حرام قرار دینا ہے۔
مذکورہ آیت میں نبی کریمﷺ کا چوتھا کام وَیُحَرِّم عَلَیْھِمُ الْخَبٰثَ۔(بیان کیا گیا ہے، یعنی وہ ان پر گندی چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے، اس سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین مکہ نے اپنے لئے بہت سی گندی چیزوں کو حلال کر لیا تھا، جیسے شرک اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے تمام کام، قرآن مجید میں خصوصیت کے ساتھ شرک اور اس کے قبیل کی تمام چیزوں کو خبیث کہا گیا ہے، اور اس کی جمع خبٰٓءِث ہے، جیسا کہ سورۂ ابراہیم آیت ۶۲ میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ شرک کو کلمہ خبیثہ قرار دیا ہے، اور اس آیت میں کلمہ خبیثہ سے کلمہ شرک مراد ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس سے پہلے کی آیت میں کلمہ طیبہ کا تذکرہ ہے، اور کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید ہے، اور کلمہ توحید کی ضد کلمہ شرک ہے، لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ کلمہ توحید ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، مگر کلمہ شرک ہر دور میں بے شمار رہے ہیں، اور ہر دور میں کلمہ شرک بدلتے بھی رہے ہیں۔

Share
Share
Share