کالم : بزمِ درویش
عورت کا مقام
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
میں خو شگوار حیرت سے اپنے سامنے بیٹھی نوجوان طالبہ کو دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر شرم و حیا اور اعلی کردار کے پھول کھلے ہو ئے تھے لیکن اس کے لہجے میں چٹانوں کی سی سختی تھی اس کا آہنی عزم مجھے بہت متاثر کر گیا تھا وہ اپنی جوانی کے دور سے گزر رہی تھی جوانی منہ زور ہوتی ہے
جوانی میں اپنے خوابوں کے علا وہ کچھ نظر نہیں آتا جوا نی کا منہ زور سیلاب جب چڑھتا ہے تو ماں با پ بہن بھا ئی بھول جا تے ہیں جوانی میں ہر نوجوان اپنی جوانی اور طو فانی جذبوں کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے لیکن اِس نوجوان لڑکی کے چہرے اور آنکھوں میں حضرت مریم حضرت فاطمہ کا عکس نظر آرہا تھا میرے سامنے پنجاب یونیورسٹی کی ماسٹر ڈگری کی طا لبہ بیٹھی تھی جو اپنی دوست کے ساتھ آئی تھی آنے کا مقصد خدا کا قرب اور اللہ کی رضا تھا با توں با توں میں جب میں نے پو چھا بیٹی تم شادی اپنی مرضی سے کرو گی یا ماں باپ کی مر ضی سے تو وہ اعتماد سے بھرپور لہجے میں بو لی جہاں میرے ماں با پ کریں گے میں وہیں کروں گی میں نے اگلا سوال داغا کیا کوئی لڑکا تمہیں پسند کرتا ہے تو وہ بولی ہاں کرتا ہے لیکن میں شادی اسی صورت میں کروں گی جب میرا باپ خوشی سے اجازت دے گا اور یہی بات میں نے اس لڑکے سے کہہ رکھی ہے کہ اپنا کیرئیر بنا پھر میرے والد سے میرا ہاتھ مانگو اگر وہ مان گئے تو ٹھیک ورنہ تم اپنے گھر میں اپنے گھر میں نے پو چھا اگر تمہا رے والد صاحب نے انکار کر دیا تو وہ پورے عزم سے بو لی میرے لیے میرا با پ سب سے اہم اور قیمتی سرمایہ ہے وہ با پ جس نے میرے لیے اپنی جو انی خر چ کر دی دن رات میرے لیے کام کیا میری ننھی سے ننھی خو شی کے لیے اپنی جان لگادی اس باپ بھا ئی اور ماں کے لیے میں ایسی حماقت سوچ بھی نہیں سکتی میرے لیے میرے باپ کی عزت غیرت سب سے اہم ہے با پ کا ذکر کر تے ہو ئے اس کی آنکھوں میں عقیدت و احترام کی قندیلیں روشن ہو گئی تھیں اور میں رشک کررہا تھا اس با پ ماں بھائی پر جس کو اللہ تعالی نے ایسی شرم و حیا والی کردار کا پیکر بیٹی عطا کی تھی۔ لڑکی کچھ دیر میرے پاس بیٹھ کر چلی گئی میں فخر محسوس کر رہا تھا کہ ایسے گو ہر نایاب عظیم بیٹیاں صرف عالم اسلام اور پاکستان میں ہی ملتی ہیں میں جب بھی یورپ یو کے جاتاہوں تو وہاں جب پا کستا نی ماں باپ کی بچیوں کو مغربی رنگ میں رنگے دیکھتا ہوں تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ہم پاکستانی کتنے مقدر والے ہیں جہاں بیٹیاں بہنیں بھا ئیوں اور باپ کی غیرت کے لیے پتہ ہی نہیں چلتا کب جوانی سے بڑھا پے کی وادی میں اتر جا تی ہیں پا کستانی ماں باپ شرم و حیا کے پیکر اِن بیٹیوں سے سرفراز ہیں۔کچھ لوگ یہ نہیں جا نتے کہ پاکستان کی ما ڈرن عورت جو مغرب نوازی کی جگالی کر تی نظر آتی ہے وہ یہ بھو ل جا تی ہے کہ بلا شبہ مردوں کی برتری کے اِس معاشرے میں عورت اپنے اصل مقام اور حقوق سے پو ری طرح فیض یاب نہیں ہے لیکن اِس کے با وجود عورت کو جو مقام یہاں حاصل ہے یو رپ یو کے اور امریکہ کی عورتیں اِس عزت اورمقام کی خوشبو سے بھی محروم ہیں پاکستان کی اکثریت آج بھی دیہات میں رہتی ہے آپ کسی بھی گا ں چلے جائیں عورت کو دیکھ کر لو گ راستہ بدل لیتے ہیں نظریں نیچی کر لیتے ہیں رکشوں بسوں ٹرینوں میں ان کے لیے سیٹوں سے اٹھ جا تے ہیں بہن بیٹی ماں جی کہہ کر مخاطب ہو تے ہیں سگریٹ نو شی نہیں کرتے بلند آواز سے با ت نہیں کر تے اگر مرد گپیں ما ر رہے ہوں تو کسی عورت کے آنے سے خا موش اور مہذب ہو جا تے ہیں آپ نے اکژمردوں کے منہ سے ایک فقرہ سنا ہو گا کہ میں بھی بہنوں کا بھا ئی ہوں میں بھی بیٹی کا با پ ہوں بہنوں بیٹیوں والا ہوں جس گھر میں بیٹی پیدا ہو گئی تو لوگوں نے شراب نو شی ترک کر دی برائی کے سارے کام چھوڑ دیے دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کو اپنی بہن بیٹی سمجھنا شروع کر دیا جس گھر میں بیٹی پیدا ہو جا ئے بھا ئی با پ مہذب ہو جا تے ہیں ماں باپ کہتے ہیں آج سے فحش بات نہیں ہو گی اب ہما رے گھر میں بیٹی آگئی ہے آج بھی جب کو ئی بیٹی کسی کو بھائی کہہ کر بلا تی ہے تو لوگ اپنی نظریں احترام میں جھکا لیتے ہیں ہما رے معا شرے میں آج بھی طلاق دینے والے مردوں کو اچھوت سمجھا جا تا ہے لوگ ایسے لوگوں سے رشتے نا طے تعلقات استوار نہیں کر تے عورت کے ساتھ زیاد تی پر پورا معا شرہ آتش فشاں بن کر پھٹ پڑتا ہے ماں بہن بیٹی سے تلخ کلا می پر یا ایک آواز پر مرد اپنے ہی جیسے مردوں کو مار مار کر حالت خراب کر دیتے ہیں آج بھی ہمارے معاشرے میں دادی نانی ماں خالہ کو عقل شعور کی علامت سمجھا جاتا ہے اِن کے مشوروں کے سامنے مرد سرنگوں ہوتے نظر آتے ہیں بیٹی کے رشتے کے مشورے کے وقت برے سے برا آدمی بھی ٹھیک مشورہ دیتا ہے پاکستان جیسے ترقی پذیر معا شرے میں آج بھی عورت یورپ امریکہ سے زیا دہ محفوظ ہے اقوام متحدہ کی ایک قرار داد کے مطا بق 8ما رچ کو خوا تین کا عالمی دن کے طور پر پو ری دنیا میں منا یا جا تا ہے یہ قرار دار 1956کو منظور کی گئی خوا تین نے اپنے حقوق کے لیے1907میں پہلی بار آواز بلند کی اس دن مارچ کی 8تاریخ تھی یہ کمزور آواز آگے جا کر توانا ہو گئی پھر اِس کی باز گشت اقوام متحدہ میں بھی گونجی اور یو ں یہ دن خو اتین کا دن قرار پا یا یہ تو ہے خوا تین کے عالمی دن کا پس منظر لیکن پاکستان کے مغرب نواز دانشوروں اور اہل مغرب کی خدمت میں عرض ہے کہ اسلام اِس حوالے سے ثابت شدہ اولیت اور سبقت کا حامل ہے آقا کریم ﷺ نے خطبہ حجتہ الوادع جسے منشور انسانیت کہنا چاہیے میں سرتاج الانبیا ﷺ نے عورت کی شان اور حقوق کے با رے میں واضح طو ر پر کہہ دیا تھا سچ تو یہ ہے کہ یو رپ افریقہ اور امریکہ میں عورت کی شنا خت اور حقوق کے حوا لے سے اسلام سے کئی صدیوں بعد آواز اٹھی یو رپ میں عورت کے حقوق کی با ت کی تاریخ صرف ایک صدی پرانی ہے جبکہ اسلام چودہ صدیاں پہلے عورت کو شنا خت احترام اور حقوق دے چکا ہے خطبہ الوداع میں سرور کو نین ﷺ کا ارشاد ملاحظہ ہو اے لوگو سنو تمہا رے اوپر تمہا ری عورتوں کے حقوق ہیں اِس طرح اِن پر بھی تمہا رے حقوق پر تمہا را حق یہ ہے کہ وہ اپنے پا س کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں پسند نہ ہو وہ کو ئی خیانت نہ کریں اور کھلی بے حیائی کی مرتکب نہ ہوں اور تم انہیں اچھی طرح لباس اور خوراک مہیا کرو ان کے با رے میں اللہ کا خوف رکھو لحاظ رکھو تم نے انہیں خدا کے نام پر حاصل کیا اور اسی کی اجازت سے وہ تم پر حلال ہیں۔ اسطرح تا ریخ انسانی میں اسلام نے پہلی با رعورت کو مرد کی طرح معاشرے کا کارآمد فرد مانا اس کے ما لی مفادات اخلا قی قانونی حقوق کا تحفظ کیا آج ہما ری ماڈرن عورتیں جو یورپ جیسی آزادی سڑکوں پر مانگتی ہیں تو اِن کی عقل پر ما تم کر نے کو دل کر تا ہے یو رپ جہاں عورت جنسی مشین سے زیا دہ کچھ بھی نہیں جہاں عورت کا ہر بچہ پہلے سے مختلف نقش و نگا ر کا ہو تا ہے جہاں عورتیں شادی سے پہلے ماں بن جا تی ہیں جہاں عورت ماں بہن بیٹی نہیں بلکہ جنسی پارٹنر ہیں آج ہماری ماڈرن عورتیں یورپ کی سی آزادی چاہتی ہیں جہاں عورت گھر کی چاردیواری سے نکل کر ما ڈلنگ اور اشتہار با زی میں استعمال ہوتی ہے عورت گھر کی بجائے کلب تھیٹر ڈانس ہال اور بازار میں نظر آتی ہے یورپ میں طلاق کی شرح بوائے فرینڈ بنانے کی وبا کم عمر بچیوں پر جنسی تشدد بن بیاہی مائیں ماں باپ کی شنا خت سے محروم بچے بو ڑھی بے بس عورتوں کی تنہا ئی کی ہولناک تصویریں ہیں ہما ری ماڈرن عورتوں سے سوال ہے کہ کیا امریکہ یو رپ کی پو ری انسانی تاریخ میں ایک بھی عورت فاطمہ بنت محمد ﷺ کے قدموں سے اٹھنے والے غبار کو پہنچ سکتی ہے جو بچپن سے سردار الانبیا ﷺ کی دیکھ بھال کرتی تھیں تاریخ انسانی کے سب سے بڑے شجا ع کو زرہ بکتر پہنا تی تھیں تا ریخ کے سب سے بڑے شہید کی ماں بنیں جس نے عورت کو اس کے اصل مقام اور شان سے روشناس کرایا۔