انشائیہ – موسم سمینار :- رافد اویس بٹ

Share
رافد اویس بٹ

انشائیہ
موسم سمینار

رافد اویس بٹ
ای میل:
فون:9149958892

عید، دیوالی اور ہولی کے ساتھ ساتھ ادب کا بھی ایک تہوار ہوتا ہے جسے ”سمینار“کہا جاتا ہے۔ ویسے اسے ”موسم سمینار“ کے نام سے بھی موسوم کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح موسم بہار، موسم گرما، موسوم خزاں اور موسم سرما ہوتا ہے ٹھیک اُسی طرح ایک اور موسم ادب کا بھی ہوتا ہے جسے ادبی اصطلاح میں ”موسم سمینار“ کہا جاتا ہے

لیکن تہوار اس کے لیے موزوں اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔یہ تہوار ہر سال یکم جنوری سے مارچ کے اختتام تک پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس تہوار کی خاص بات یہ ہے کہ اسی دوران یہ پتا چلتا ہے کہ ہندوستان کی جامعات میں اردو کے شعبہ جات زندہ ہیں اورخیر و عافیت سے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کرباقی تمام شعبے اس تہوار میں شریک ہونے کے لیے خاص اہتمام کرتے ہیں۔رہے چند ایک شعبے جو اس تہوار کو نہیں مناتے ہیں؛ وہ دراصل بقیہ شعبہ جات میں منعقد ہونے والے سمیناروں میں بہ حیثیت مہمان خصوصی، مہمان ذی وقار،صدر اجلاس، مہمان مکرمی، مہمان اعزازی وغیرہ وغیرہ کے فرائض انجام دینے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ اس تہوار کے موقعے پر قومی و بین الاقوامی یک روزہ، دو روزہ اور سہ روزہ سمینار منعقد ہوتے ہیں۔جن میں کھان پان، رہن سہن اور سیر و تفریح کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔اس تہوار میں مہمانوں کو مدعو کیا جاتا ہے لیکن مہمانوں کو مدعو کرنے کے لیے بھی تین پیکج ہوتے ہیں۔ پہلا پیکج جو نہایت ہی خاص لوگوں کے لیے مختص رکھا جاتا ہے یعنی جن سے عقیدت جڑی ہو۔ اُن کو اس تہوار کے موقعے پر افراد خانہ سمیت بلایا جاتا ہے۔اُس کی ایک خاص وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مخصوص فرائض یعنی مہمان خصوصی،مہمان اعزازی، مہمان مکرمی، مہمان ذی وقار کے طور کلیدی اور دوسرے خطبات سے فارغ ہونے کے بعد ہی نکلنے کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔اصل میں اس طرح کے مہمان ”ادب ماتا“کے درشن کے فوراً بعد شہر کی مخصوص جگہوں کی سیر و تفریح کے لیے نکلتے پڑتے ہیں۔وہ اپنا کام سمینار کے پہلے روز کے پہلے اجلاس میں مکمل کرنے کے تعاقب میں ہوتے ہیں تاکہ بچا ہوا ایک یا دو دن بیگم کے ساتھ سیر میں گزر جائیں۔اچھا ان مہمانوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ دوران سمینار ناراض بھی ہوتے ہیں یہاں تک کہ غصہ بھی ہوجاتے ہیں اور آئندہ سمینار میں شرکت نا کرنے کا جھوٹا وعدہ بھی کر کے جاتے ہیں۔ ایسے مہمان آپ کو شادیوں پر اکثر ملیں گے جو بات بات پر ناراض ہوجاتے ہیں اور بار بار اُنھیں منانا پڑتا ہے۔ناراض ہوجانے کی وجوہات بھی عجیب وغریب ہوتی ہیں۔ پھولوں کا گلدستہ نا دینا، شال پوشی نا کرنا، مومینٹو نا دینا،کھانا کھاتے وقت اُن کے سامنے ویٹر کی طرح کھڑا نا ہونا،اظہار تشکر میں اُن کا نام نا لینا وغیرہ وغیرہ خاص اور موٹی وجوہات ہیں جو اُن کی ناراضگی کا سبب بنتی ہیں۔ چند ایک مہمانوں کی وجوہات ایسی ہوتی ہیں جو ناراضگی کی بھی چرم سیما معلوم ہوتی ہے۔مثال کے طور پر سمینار میں ایک ایسے مہمانوں کو بلانا جن کے آپسی تعلقات اچھے نہیں ہوں گے۔اُ س صورت میں بھی مہمانوں کا ایک طبقہ ناراض ہو جاتا ہے کہ بھئی اگر فلاں کو ہی بلانا تھا تو میرا یہاں کیا کام؟ میں کس لیے آیا ہوں؟ اب مجھے ان جیسے لوگوں کو سننا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ دوسرے پیکج میں ایسے مہمانوں کو بلایا جاتا ہے جو اپنا مقالہ پڑھتے ہی ہدیہ کے ساتھ ساتھ سرٹفکیٹ کامطالبہ کرکے فوراً بھاگ جاتے ہیں اور گیسٹ ہاؤس میں ادب کی موجودہ صورت حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔اب رہا تیسرا پیکج تو اس ضمن میں بتا دوں کہ یہ پیکج آمدنی کا بھی ایک بہترین ذریعہ ہوتا ہے۔اس پیکج میں ادب کا ایک ایسا حلقہ آتا ہے جسے ادبی تحقیق کی اصطلاح میں ”ریسرچ اسکالر“کہا جاتا ہے۔آپ نے پرولتاریہ اور بورژوا طبقے کا نام تو سنا ہی ہوگا۔ریسرچ اسکالر ادب کا بورژوا طبقہ ہے جس کا استحصال پرولتاریہ یعنی یو۔جی۔سی۔ کے ذریعے ہوتا ہے۔اس استحصال کے پیش نظر ہمارے وقت کے کارل مارکسوں نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کے تحت ایک ایسی راہ نکالی جس سے ریسرچ اسکالر کابھی بھلا ہوتا ہے اور سمینار منعقد کرنے والے حضرات کے لبوں پر بھی ویسی ہی مسکراہٹ آجاتی ہے جو بچے کے ہونٹوں پر عیدی ملنے پر دکھائی دیتی ہے۔اس تناظر میں مختلف جگہوں پر اس خاص تہوار کے دعوت ناموں پر رجسٹریشن فیس بھی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔یہ فیس مختلف جگہوں پر الگ الگ ہوتی ہے۔مہمان مقالہ نگاراں کے لیے الگ اور ہمارے بورژوا طبقے یعنی ریسرچ اسکالرز کے لیے الگ ہوتی ہے۔خیر بقیہ مقالہ نگاراں فیس کی صورت میں بھری ہوئی رقم کو مقالہ پڑھنے کے بعد ملنے والے ہدیہ کی صورت میں وصول کر ہی لیتے ہیں۔کل ملا کر بات یہی ہے کہ اس تہوار میں ریسرچ اسکالر ہی وہ واحد بندہ ہوتا ہے جولنگر بھی اپنے ہی پیسوں سے کھاتا ہے اور اُسے یہ بات معلوم بھی نہیں ہوتی ہے۔اچھایہ بورژوا طبقہ بھی کمال کا ہوتا ہے۔یہ بھی بغیر مقالہ لکھے اور پڑھے سند حاصل کرنے کے تمام پینترے جانتا ہے۔ایک طریقہ یہ ہے کہ رجسٹریشن فیس کے ساتھ اپنے مقالے کی تلخیص جو تلخیص ہی رہ جاتی ہے مقالہ نہیں بن پاتا ہے، بھیج دیا جاتا ہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ رجسٹریشن فیس ادا کرکے مقالہ بعد میں بھیجنے کے لیے کہا جاتاہے۔ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ صرف رجسٹریشن فیس ادا کرکے اپنی سرٹفکیٹ حاصل کی جاتی ہے۔اب آپ کو کچھ دھواں دھواں سا نظر آنے لگا ہے؟ ضرور آرہا ہوگا!۔۔۔اصل میں دونوں طرف کے لوگ مجبور ہیں۔ایک طرف حال کے پیٹ کا بندو بست کیا جاتا ہے تو دوسری طرف مستقبل کے پیٹ کا بندو بست کیا جاتا ہے۔یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہر تہوار اپنے ساتھ خوشیاں لے کر آتا ہے۔ہمارا ادبی تہوار یعنی سمینار بھی اس میں شرکت کرنے والوں کے لیے خوشیوں کی سوغات لے کر آتا ہے۔

Share
Share
Share