افسانہ : عزم
ڈاکٹر صفیہ بانو. اے. شیخ
رشیدہ اس روز اسکول سے جلدی گھر آگئی اور اپنی امّی سے کہنے لگی امّی جان! آج ہماری اسکول میں ہمارے استادجناب قاسم علی سر نے گھر کام کرنے کو ایک سبق دیا ہے۔ امّی نے پوچھا رشیدہ آپ کے استاد نے کونسا سبق دیاہیں؟
رشیدہ کہنے لگی کہ امّی ہمیں زندگی میں کوئی کام بغیر مقصد کے نہیں کرنا چاہیے۔رشیدہ کی امّی کہنے لگی کہ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ تم کہنا کیا چاہتی ہو گھڑی بھر میں کہتی ہو استاد نے گھر کام کرنے کو ایک سبق دیا ہے اور کبھی کہتی ہو ہمیں زندگی بغیر مقصد کے نہیں گزارنی چاہیے؟ رشیدہ کہنے لگی آج ہمارے استاد جناب قاسم علی سر نے ہمیں بتایا کہ زندگی میں کوئی نہ کوئی نیک کام کرنے کا عزم کرنا ہوگا َاور یہی ہمارا گھر کام بھی ہے۔ اب آپ ہی بتائے امّی میں کونسا نیک کام کرو؟ امّی کہنے لگی بس اتنی سی بات۔رشیدہ کہنے لگی امّی یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔اور نہ ہی نیک کام کرناآسان ہوتا۔ رشیدہ کی امّی کہنے لگی دیکھو تم سچ بولنا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نیک کام ہے۔ رشیدہ نے اپنی امّی کے کہنے پر سچ بولنے کا عزم لیا۔
رشیدہ دوسرے روز اسکول گئی تو رشیدہ کی دوست آپس میں ایک دوسرے سے بات چیت کرنی لگی اور ایک دوسرے سے کل دیے گئے گھر کام کے تعلق سے پوچھنے لگی تم نے کونسا کام کرنے کا عزم لیا ہے؟ فریدہ نے کہا میں نے اپنے دادا دادی کی خدمت کرنے کا عزم لیا کیونکہ اب وہ بوڑھے ہوچکے ہیں میں ان کا ہر کام اپنا حکم سمجھ کر اور اپنا عزم سمجھ کر کرتی رہوں گی۔ تبھی ناہیدہ نے کہا میں نے تو اپنے چھوٹے بھائیوں کا خیال رکھنے کا عزم لیا۔ میرے چھوٹے بھائی میری ذمہ داری ہے وہ مجھ سے ہی کچھ نہ کچھ سیکھیں گے۔ غزالہ کہنے لگی میں نے تعلیم یافتہ لڑکی بننے کا عزم لیا ہے؟ تبھی صبا بول پڑی یہ کونسا بڑا عزم ہے؟ اور اس میں ایسی کیا خاص بات ہے؟تبھی رشیدہ نے جواب دیتے ہوئے کہا تعلیم یافتہ بننا بھی کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔آج ہماری عمر چھوٹی ہے کل ہم نہ جانے کہا ہوں گے جب اس نے یہ عزم لیا ہوگا تو کوئی سوچ سمجھ کر ہی لیا ہوگا۔غزالہ کہنے لگی کہ میری امّی پڑھی لکھی نہیں ہے اس لیے وہ مجھے اسکول کے دیے گئے گھر کام کرنے میں مدد نہیں کر پاتی ہے۔ میں پڑھ لکھ کر آنی والی نسل کے لیے رہبر بننا چاہتی ہوں۔ میں ٹیوشن میں بھی جا نہیں سکتی ابّو کی اتنی آمدنی نہیں ہے۔میری امّی کہتی ہے اگر لڑکی تعلیم یافتہ ہو تو وہ گھر رانہ خوشحال رہتا ہے رشیدہ نے غزالہ کی طرف داری کیا کہ ساری دوست اس سے خفا ہونے لگی اور رشیدہ سے بڑے جوش میں کہنے لگی کہ رشیدہ تم نے کونسا عزم لیا ہے؟ رشیدہ نے کہاں سچ بولنے کا۔ ساری لڑکیاں ہنس پڑی اور کہنے لگی یہ بھی کوئی عزم ہوا۔
رشیدہ کا منہ چھوٹا ہوگیا تھا اتنے میں گھنٹی بج گئی اور ہم سب کلاس روم میں چلے گئے۔ ایک باد ایک پیریڈ آتے جاتے گئے اتنے میں ہمارے اردو کے استاد جناب قاسم علی سر آگئے۔سب لڑکیاں چونک پڑیں تو کچھ لڑکیاں خوش ہو رہی تھی۔ رشیدہ گھبرا سی گئی۔اس کے ذہن میں اس کے عزم پر لڑکیوں کی ہنسی بار بار گھومنے لگنے لگی۔ استاد جناب قاسم علی سر نے سبھی لڑکیوں سے باری باری سوال کیا کہ تم نے زندگی میں کونسا عزم اختیار کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ کسی نے کہا میں بڑی ہو کر ڈاکٹر بننے کا عزم لیا ہے تو کسی نے کہا میں آپ کی طرح اردو کی استاد بننے کا عزم لیا ہے،تو کسی نے کہا میں نے گھر کے بزرگوں کی خدمت کرنے کا عزم لیا ہے، تو کسی نے کہا تعلیم یافتہ خاتون بننے کاعزم لیا ہے،کسی نے کہامیں صفائی رکھنے کا عزم لیا،تو کسی نے کہا میں نے لوگوں کا ادب و احترام کرنے کا عزم لیا، تو کسی نے کہا میں گھر کام وقت پر کرنے کا عزم لیا ہے،تو کسی نے کہا میں امّی ابّوکا کہنا ماننے کا عزم اختیار کیا ہے تبھی رشیدہ کی باری آئی تو پہلے پہل یک دم ہو کر رہ گئی اس کے چہرے پر پسینہ آنے لگا۔ استاد جناب قاسم علی سر نے پوچھا دیکھو گھبرانے سے کام نہیں چلے گا تم نے جو کچھ بھی عزم لیا ہے وہ کہہ دو۔رشیدہ نے جیسے ہی کہا کہ میں نے سچ بولنے کا عزم لیا ہے ایسے ہی کلاس روم کی ساری لڑکیاں ہنس پڑیں۔ استاد جناب قاسم علی سر نے کہا بچیوں خاموش ہو جاؤ۔ اس کا عزم کوئی معمولی عزم نہیں ہے۔ تم نے جتنے بھی عزم بتائے ان تمام پر یہ عزم سب سے بھاری ہے۔ لڑکیوں نے پوچھا وہ کیسے؟ استاد جناب قاسم علی سر کہنے لگے تم سب نے کوئی نہ کوئی عزم لیا ٹھیک ہے لیکن ہر عزم کرنے میں ایمانداری ہونی چاہیے کہ نہیں۔لڑکیوں نے ایک جواب ہو کر کہا… ہاں سر…! ایمانداری ہونی چاہیے اور وہ ایمانداری سچ سے شروع ہوتی ہے۔ آپ سبھی نے کہامیں فلاں فلاں عزم لیتی ہوں لیکن رشیدہ کا عزم سب پر بھاری ہے سچ ہماری زندگی میں ہر برائی کو ختم کرتا ہے۔ سچ ہمیں برے اعمال کرنے سے روکتا ہیں۔ سچ ہمیں نیک اور اچھا انسان بناتا ہیں۔ سچ ہمیں اچھا شہری بناتا ہیں۔
استاد جناب قاسم علی سر کہنے لگے کورٹ میں تم نے دیکھا ہوگا کہ وہاں بھی جھوٹ کے خلاف سچ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سچ بولنا ہماری زندگی کا وہ عزم ہے جو ہمیں ہمارے بچپن سے لے کر عمر کے آخری حصے تک کام آتا ہے۔ سچ ہماری روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہوتا ہے۔آج کے اس ڈیجیٹل، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے دور میں سچ بولنے کا عزم لینا آسان نہیں ہوتا۔ بچیوں تم اس بات کو تب سمجھو ں گی جب تمہیں تجربہ ہوگا۔ رشیدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سر نے پوچھا تم کیوں رو رہی ہو، تم نے تو سب سے اچھا سچ بولنے کا عزم اختیار کیاہے رشیدہ روتے ہوئے کہتی ہے کہ میری ماں نے مجھے یہ عزم اختیار کرنے کو کہا تھا تبھی استاد بول پڑے دیکھو بچیوں رشیدہ نے تو آج سے ہی اپنے عزم پر کام کرنا شروع کر دیا اس نے سچ بتایا کہ اس کی امّی نے اسے یہ عزم اختیار کرنے کو کہا تھا۔ سچ ہمیشہ ناپسند کیا جاتا ہے مگر سچ کبھی نہیں بدلتا۔ ہمارے بڑے ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ہمیں ان کی اس ایمانداری کو سچائی کے ساتھ اپنانی چاہیے۔تمام بچیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ہمیں زندگی میں کچھ عزم ہمیشہ اختیار کر لینے چاہیے جیسا کہ رشیدہ نے سچ بولنے کا عزم لیا۔ ہم سب کی زندگی بہت مختصر ہے اور اس مختصر زندگی کو اس قدر گزاریں کہ آنے والی نسل در نسل یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے۔ بچیوں کے معاملے میں اکثر والدین کمزور پڑھ جاتے ہیں مگر جن بچیوں نے عزم لے کر زندگی بتانے کا فیصلہ لیا، وہ کبھی کمزور نہیں پڑی،دنیاکے لیے مثال کر رہ گئی۔آپ نے بادشاہ سلطان التمس کی بیٹی رضیہ سلطان کے بارے میں تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ رضیہ سلطان نے حکومت کرنے کا عزم لیا اور وہ کامیاب بھی ہوئی۔کلاس روم میں خاموشی چھا گئی۔استاد جناب قاسم علی سر بتائے جا رہے تھے کہ اتنی میں پریڈ ختم ہونے کا الارام بج گیا۔ساری لڑکیوں نے خوش و خرم ہو کر ایک ساتھ تالیاں بجانے لگیں۔ ساری لڑکیاں ایک بلندآواز ہو کر کہنے لگیں ہم آج سے ابھی سے سچ بولنے کا عزم اختیار کرتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676
One thought on “افسانہ : عزم :- ڈاکٹر صفیہ بانو. اے. شیخ”
عمدہ افسانہ ۔۔۔۔محمد رمضان پی ایچ ۔ڈی نمل یونی ورسٹی اسلام آباد