تعمیریت اور زبان کی تدریس :- محمد قمر سلیم

Share
محمد قمر سلیم

تعمیریت اور زبان کی تدریس

محمد قمر سلیم
موبائل۔09322645061

مغربی مفکر جان لاک(John Lock) کے مطابق انسان کا ذہن خالی سلیٹ کی طرح ہے جس پر والدین، استاد، سماج اپنی فکر کے مطابق جو چاہتے ہیں وہ لکھ د یتے ہیں اور اس کے مطابق ہی بچے کی ذہن سازی ہوتی ہے۔اس خالی سلیٹ کو لاطینی زبان کے ایک فقرے ’ ٹیبولا راسا‘ (Tabula rasa) کا نام دیا ہے۔

اس کا ماننا تھا کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا ذہن علم سے عاری ہوتا ہے۔اور اس کے خالی ذہن میں علم ڈال دیا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ خالی سلیٹ پر علم کو لکھ دیا جاتا ہے لیکن یہ بات وہ بھی ماننتا تھا کہ ہر طرح کا علم انسان اپنے تجربات اور خیالات سے ہی حاصل کرتا ہے۔تعمیریت (Constructivism)کے مفکرین انسان کے ذہن کو خالی سلیٹ کے مترادف نہیں سمجھتے ہیں اسی لیے وہ آموزش کے عمل میں متعلم کے علم کو اہمیت دیتے ہیں۔کسی بھی طرح کی آموزش کا دارو مدار خود متعلم کے علم اور اس کے ماحول پر ہوتا ہے۔
تعمیری اندازِ نظر سائینسی اصولوں پر مبنی ہے۔ تعمیریت کے مفکرین ایک سائنس داں کی حیثیت سے سوچتے ہیں۔ ان کے مطابق آموزش کا عمل نہ صرف اکتسابی ماحول پر مبنی ہوتا ہے بلکہ متعلم کے علم پر بھی منحصر ہوتا ہے، کسی بھی علم کو نئے معنی پہنانا یا نیا علم تخلیق کرنامتعلم کی استعداد کا مر حونِ منّت ہے۔ کسی بھی علم کی تعمیر کے بعد اس کی قدر پیمائی ضروری ہو جاتی ہے جس کی بنا پر ہی وہ علم قبول اور نا قابلِ قبول ہوسکتا ہے۔ یہ آموزش کا عمل ہمیشہ چلنے والا عمل ہے۔ علم متعلم کی ذہنی اپج ہے۔اس کے تجربات، مشاہدات، غور و فکر اس کے علم کی تعمیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ علم حاصل کرنا متعلم کی ذمے داری ہے۔
مشاہدے، تجربے اور سائنسی مطالعے کی بنیاد پر ذہن کی تعمیر کوتعلیمی اور نفسیاتی مفکرین نے تعمیری اندازِ نظر (Constructivist Approach)کا نام دیا ہے۔اس کے تحت طالبِ علم اپنے تجر بات، مشاہدات کی بنیاد پراپنے علم (knowledge)اور فہم (Understanding)کی تعمیر کرتا ہے۔ ا ن کے مطابق طالب علم خود اپنے علم کی تخلیق کرتا ہے اور علم کی تخلیق کے لیے سوالات کا پوچھنا، علم کو وسعت دینا اور علم حاصل کرنے کی جستجو ضروری ہے۔ جماعت میں تعمیریت مختلف طریقوں کے استعمال کی طرف اشارہ کرتاہے جیسے پروجیکٹ میتھڈ، تلاش و جستجو کا طریقہ، اطلاعاتی طریقہ، مسائل کو حل کرنے کا طریقہ، باہمی مدد کا طریقہ، ہم کاری طریقہ، نقشہ کشی کا طریقہ، تخلیقی ورکشاپس وغیرہ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ طلبا جماعت میں مختلف تکنیکوں کا استعمال کریں۔ یہاں استاد کو یہ دیکھنا چاہیے کہ ان تکنیکوں کے استعمال سے طلبا کی سوچ، ان کے نظریے اور فہم میں کتنی تبدیلی آ رہی ہے۔ دراصل تعمیریت پسند جماعت ایک ایسی جماعت ہے جس میں طلبا یہ سیکھتے ہیں کہ کس طرح سیکھا جائے؟تعمیریت کی جماعت ایسی جماعت نہیں ہے کہ جس سے طلبا کے ذہنوں میں علم کو انڈیلا جائے بلکہ طلبا آموزش کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں اور اپنے تجربات سے سیکھتے ہیں۔اس میں متن کو یاد نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس کو سمجھ کر اپنے خیالات اور علم و فہم کو وسعت دی جاتی ہے۔ تعمیریت میں استاد طلبا سے سوالات پوچھتا ہے، ان کے سامنے مسائل رکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے حل کے لیے طلبا کی رہنمائی کرتا ہے۔ تدریس کے وقت وہ مختلف تکنیکوں کا استعمال کرتا ہے جیسے:
۱۔طلبا اپنے سوالات کو خود تشکیل دیتے ہیں اور اس سے متعلق اطلاع(inquiry)حاصل کرتے ہیں۔
۲۔ طلبا تکثیری ذہانت(Multiple Intelligence) کی بنیاد پر تشریحات اور وضاحتیں کرتے ہیں۔
۳۔ طلبا گروپ میں کام کرتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کی مدد سے شرکت کاری آموزش (Collaborating Learning)کے عمل کو وسعت دیتے ہیں۔
این سی ای آر ٹی کی کتاب ’اردو تدریسیات: حصّہ۔۱ کے مطابق اس اندازِ نظر میں طلبا، ان کی ذہنی صلاحیت، سابقہ معلومات، ان کے لیے نئے علم کی افادیت اور ان کے اپنے فطری اور معاشرتی ماحول کو تعلیم کا مرکز تسلیم کیا جاتا ہے۔اس اندازِ نظر کے مطابق اساتذہ طلبا کو براہِ راست نئی معلومات، تصورات، اصول و قواعد نہیں سکھاتے بلکہ جو کچھ بچے جانتے ہیں یا جن الفاظ و معنی کا ذخیرہ ان کے پاس ہے اسے ہی دوبارہ ترتیب دینے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ اسی معلومات کی بنیاد پر ان میں غورو فکر کی صلاحیت کے فروغ کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بچے خود اصول و قواعد اخذ کر سکیں۔(ص۔۸۱۱)
تعمیریت کی جماعت میں طلبا خالی سلیٹ کی مانند نہیں ہوتے ہیں جس پر علم کو لکھ دیا جائے۔وہ حاصل شدہ علم سے نئے علم کی بنیا د رکھتے ہیں۔ جب طلبا نئے علم کی تخلیق کرتے ہیں تو استاد ان کی رہنمائی کا کام انجام دیتا ہے۔ استاد اس عمل میں طلبا کو ان چیزوں کے استعمال کی طرف بھی زور دیتا ہے جن کو وہ بے کار سمجھتے ہیں۔تعمیریت میں طلبا کی مکمل شمولیت ہوتی ہے۔اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ طلبا اپنی کارکردگی پر خود اپنی رائے دیں، وہ خود ہی اپنے علم کے مقاصد طے کریں، خود ہی ان کی قدر پیمائی کریں،اپنے آموزش کے عمل کو خود ہی منظم کریں اور اپنے تجربات پر خود ہی رائے زنی کریں۔اس طرح وہ علم میں مہارت حاصل کریں گے۔ اس کے لیے استاد کو ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ:
۱۔ طلبا نے کون سا نیا علم حاصل کیا ہے۔
۲۔ طلبا کس طرح اچھی طرح سیکھ سکتے ہیں۔
۳۔ اکتسابی ماحول میں استاد کا کیا رول ہے۔
تعمیریت پسند جماعت کا دارو مدار ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر نے پر ہے کیوں کہ طلبا صرف اپنے تجربات سے ہی نہیں سیکھتے ہیں بلکہ اپنے ساتھیوں سے بھی سیکھتے ہیں جب وہ ایک ساتھ آموزش کے عمل میں شامل ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں نئے نئے طریقے رونما ہوتے ہیں۔اس نظریے کے تحت طلبا مسائل کو حل کرتے ہیں، سوالات پوچھتے ہیں، عنوانات پر تحقیق کرتے ہیں۔ اپنے سوالات کے جواب حاصل کرنے کے لیے مختلف سمتوں میں سوچتے ہیں۔ تعمیریت پسند فلسفی طلبا کے موجودہ نظریوں کو کافی اہمیت دیتےہیں کیوں کہ وہیں سے ان کی تعمیر شروع ہوتی ہے۔ جب طلبا کوئی نئی اطلاع حاصل کرتے ہیں تو وہ غور و فکر کرنے کے بعد اپنے علم و فہم سے اس اطلاع کا موازنہ کرتے ہیں۔
۹۹۹۱ میں جیکلن گرینن بروکس (Jacqueline grennan brooks)نے تعمیریت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جس کا مفہوم اس طرح ہے: کہ ’جب تک لوگ ایک دوسرے سے سوالات پوچھتے رہیں گے اس وقت تک تعمیریت کی جماعت چلتی رہے گی۔ تعمیریت جو کہ آموزشی عمل کا مطالعہ ہے۔ اس میں ہم اپنی دنیا کا تصور جیساکرتے ہیں وہ ہمیشہ ویسا باقی رہتا ہے یعنی وہ بدلتا نہیں۔‘ اگر ماضی کی ورق گردانی کریں تو تعمیریت کی جڑیں سقراط(Socrates) سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے ماننے والوں کے ساتھ بحث و مباحثۃکرتاتھا۔ وہ اپنے طلبا سے سوالات پوچھتا تھا جس کی وجہ سے اس کے طلبا اپنے علم و فہم کی روشنی میں نہ صرف اس کے سوالوں کو نئے معنی دیتے تھے بلکہ اپنی کمیوں کو سمجھنے کے قابل بھی ہو جاتے تھے۔ سقراط کے سوالات کی تکنیک آج بھی تعمیریت پسند اساتذہ کا اہم آلہ ہیں۔ ژاں پیاژے(Jean piaget)اور جان ڈیوی(John Dewey)نے بچوں کے ارتقاء کا نظریہ پیش کیا جو کہ تعمیریت کی شروعات تھی۔ پیاجے نے منطق اور ڈیوی نے حقیقی تجربات کو اہمیت دی۔ ژاں پیاژے نظریہئ تعمیریت کا بانی کہا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ انسان کسی بھی چیز کو اپنے تجربات اور غور و فکر سے نئے معنی دیتا ہے اس کا وہی علم تعمیریت ہے۔لیِو۔ ایس۔ وائی گوسٹکی (Lev S. vygostky)نے آموزش کے عمل میں فردِ واحد سے زیادہ سماجی پہلوؤں کو اہمیت دی ہے کیوں کہ متعلم جو کچھ بھی سیکھتا ہے یا علم حاصل کرتا ہے وہ سماج میں رہ کر ہی کرتا ہے اور سما جی ماحول کا اس پر گہرا اثر ہوتا ہے جبکہ جروم برونر (Jerome Bruner)نے سرگرم سماجی عمل میں طلبا کے نئے خیالات کو وسعت دی۔
” تعمیریت کے مطابق کسی مواد کو مکمل سچائی کی شکل میں نہ دے کر ممکنات یا معلومات کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ جس کی مدد سے طالب علم اس مواد سے متعلق اپنے تصورات اور تعمیرات خود قائم کرتا ہے۔ اساتذہ کوشش کریں کہ جو مواد طالب علموں کے سامنے پیش کیا جائے وہ اسے اپنی ذہنی سطح کے مظابق اخذ کر سکیں۔۔۔اساتذہ کسی سوال کے معیاری اور متوقع جواب کی امید طلبا سے نہ کریں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنی سمجھ اور علم کے مطابق اپنے الفاظ میں سوالات کے جواب دے سکیں۔ یہی ایک قدم ہے جس کی بدولت ہم رٹنے سے تعمیریت کی طرف پیش رفت کر سکتے ہیں۔(اردو تدریسیات: حصّہ۔۲، ۶۱۰۲، این سی ای آر ٹی، ص۔۱۲۰۔۱۲۱)
ہماری جماعتوں میں عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ طلبا کسی بھی سبق کو رٹنے اور یاد کرنے کے عمل سے گذرتے ہیں کیوں کہ ہمارے اساتذہ یہ سمجھتے ہیں کہ رٹنے اور یاد کرنے سے ان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کے برعکس رٹا ہوا اور یاد کیا ہوا مواد وقت کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ طلبا کے ذہن کی تخلیق نہیں ہوتا ہے۔ بچہ ذہنی طور پر بذاتِ خود جو تخلیق کرتا ہے وہ صحیح معنی میں آموزش کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔ قومی درسیاتی خاکہ ۵۰۰۲ کے مطابق ” جس عمل میں ذہنی کارکردگی شامل نہ ہو وہ آموزش نہیں ہوتی ہے۔‘‘ بچہ اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اپنے ذہن سے نئے علم کی تعمیر کرتا ہے۔ آموزش میں اس کے اس علم کی تعمیر اسے تعمیریت کی طرف لے جاتی ہے۔عام طور سے تعمیریت پسندوں کا ماننا ہے کہ طلبا اس وقت زیادہ سیکھتے ہیں جب انھیں علم کی تلاش و جستجو ہوتی ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے انہماک کے ساتھ آموزش کا عمل کرتے ہیں۔اس میں موضوع اور تصور کو سمجھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ طلبا کسی بھی موضوع یا تصور کے معنی بتانا غلط ہے بلکہ وہ اس موضوع یا تصور کے معنی اپنے آپ اخذ کریں یا خود اپنی فہم کے مطابق اس کی تعریف کریں۔ طلبا کو درسی کتب کا سہارا لینے کے بجائے اپنے اطراف میں موجود چیزوں کی مدد حاصل کرنا چاہیے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں چیزوں کو یاد رکھنے یا اسباق کو یاد کرنے کے بجائے اپنی فکر پر زور دینا چاہیے، پھر ذہن میں ابھرنے والے سوالات کے جواب اور وجوہات تلاش کرنا چاہیے مثال کے طور پر اگر اردو میں ان کو نظم برسات پڑھائی جاتی ہے تو اس نظم میں بتائی گئی باتوں اور حوالوں کو استاد سے سمجھنے کے بجائے اس نظم کا تعلق حقیقت میں برسات سے قایم کریں یعنی وہ مشاہدہ اور تجربہ کریں کہ بوندیں کیسے گر رہی ہیں؟ بارش ہونے سے موسم کیسا ہوگیا ہے؟ بارش کی وجہ کیا فائدہ اور کیا نقصان ہو رہا ہے؟ اور پھر اپنے تجربات اور مشاہدے کی بنا پر غور و فکر کرکے اپنے علم کی تخلیق کرے۔اس طرح حاصل کیا ہو ا علم ہی اصلی اور صحیح آموزش ہے۔
تعمیریت پسند جماعت میں استاد کو طلبا سے زیادہ سے زیادہ ایسے سوالات پوچھنا چاہیے جو ان کے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں۔ ان سے کیوں، کیسے، کس لیے، کس طرح، کب، کیا جیسے سوالات کرنا چاہیے۔عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ استاد کسی بھی عبارت کی تفہیم یا شعر کی تشریح خود ہی کر دیتے ہیں جس سے طلبا کو غور و فکر کرنے کے مواقع نہیں ملتے۔ استاد کو اس عبارت یا شعر سے متعلق سوالات پوچھنا چاہیے اور ان کے جوابوں کی روشنی میں عبارت و شعر کی مکمل کرنا چاہیے۔عبارت یا اشعار کی بنیاد پر مصنف کی تصنیف یا شاعر کے کلام کی خصوسیات طلبا سے معلوم کرنا چاہیے۔ان کو تخلیقی، تخیلاتی اور تصوراتی مضامین لکھنے کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ان سے الفاظ کے معنی، جملوں کے مفہوم خود واضح کروانا چاہیے۔ طلبا کو زیادہ سے زیادہ سرگرمیوں میں ملوث رکھنا چاہیے۔ان کا رجحان سرگرم آموزش کی طرف مائل کرنا چاہیے۔ایسی آموزش جس میں زیادہ سے زیادہ ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ان کو ان کے علم کی تخلیق کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
——-
حواشی:
۱۔ڈبلیونیٹ/ایجوکیشن(2004)، کنسٹرکٹوازم ایز اے پیراڈِگم فار ٹیچنگ اینڈ لرننگ، ڈزنی لرننگ پارٹنرشپ۔ www.thirteen.org/edonline/concept2class/constructivism/
۲۔ ڈی ورائس وغیرہ (2002)، ڈیولپنگ کنسٹرکٹِوسٹ ارلی چائلڈ ہڈ کریکیولم: پریکٹیکل پرنسِپل اینڈ ایکٹوِٹیز۔ ٹیچرس کالج پریس: نیو یارک۔آئی ایس بی این
۳۔ عزیز فاطمہ: کنسٹرکٹِوازم: اے سائنٹیفک وے آف لرننگ بی اونڈ فارمل ایجوکیشن، ایجوٹریک، Vol. 15. No. 9مئی 2016، ص۔ ۸۔۷
۴۔اردو تدریسیات: حصّہ: ۱، (2015)، این سی ای آر ٹی، نئی دلی۔
۵۔اردو تدریسیات: حصّہ: ۲، (2016)، این سی ای آر ٹی، نئی دلی۔
۶۔وی کی پیڈیا: کنسٹرکٹوازم (فلاسفی آف ایجوکیشن) https://en.m.wikipedia.org

Share
Share
Share