کالم : بزمِ درویش – ہائے مریض :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
ہائے مریض

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

میرے سامنے بے بس لاچار لاغر کمزور ہڈیوں کا ڈھانچہ کا لا سیاہ ادھیڑ عمر شخص آکر بیٹھ گیا اُس کے نحیف کمزور جسم کے انگ انگ سے غربت بے بسی اور بیماری ٹپک رہی تھی آنکھوں کی روشنی دھندلا ہٹ میں بدل چکی تھی‘ پراسرار بیماری یا غربت نے اُس کے چہرے سے زندگی کے سارے رنگ چھین لیے تھے اب تو آنکھوں میں قبرستانوں کی ویرانی تھی کوئی خوفناک پراسرار بیماری اُسے ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ چاٹ رہی تھی

پورے جسم پر گوشت نام کیلئے نہ تھا سیاہ پتلی کھال نے بمشکل ہڈیوں کے ڈھانچے کو سنبھالا ہو اتھا اُس کی حالت زار بتا رہی تھی کہ وہ موت کی دہلیز پر کھڑا موت کے قدمو ں کی چاپ سن رہا ہے بیماری اِس قدر جان لیوا تھی کہ اُسے اپنی پڑی ہو ئی تھی اُس کا جسم توانائی سے محروم لگ رہا تھا اُس کا جسم بتا رہا تھا کہ اُس کا اندرونی نظام اپنا کام چھوڑ چکا ہے زندگی اور موت کچے دھاگے کی طرح لٹکے ہو ئے تھے اُسے دیکھ کر میری آنکھوں میں نمی تیرنے لگی کسی زندہ انسان کی اِس قدر بری حالت جیسے اہرام مصر سے کو ئی حنوط شدہ ممی اُٹھ کر آگئی ہو جو ہزاروں سال پہلے اِس جہاں فانی کو چھوڑ چکی ہو آج اُس کا حنوط شد ہ جسم بلکہ ڈھانچہ تھا لیکن اُس کا نظام تنفس اور دھندلی آنکھوں کی چمک اُس کی زندگی کا ثبوت مہیا کر رہے تھے میں نے ہمدردی سے اُسے سر سے پاؤں تک دیکھا تو ایک اور دل خراش منظر مجھے دہلا کر رہ گیا بائیں ٹانگ پر بہت ساری مکھیاں بیٹھ رہی تھیں میں نے غور سے دیکھا تو لگا اُس کی ٹانگ سیا ہ لکڑی کی طرح ہو چکی تھی ٹانگ کی حالت بتا رہی تھی کہ جان لیوابیماری نے ٹانگ کو جلا کر رکھ دیا ہے پرانے زخم کی بد بو بھی آرہی تھی اب ساتھ آیا شخص بولا جناب ہم بہت امید سے آپ کے پاس آئے ہیں یہ بندہ ملتان کا رکشہ ڈرائیور ہے میرے بچوں کو سکول لے جاتا تھا اِسطرح پانچ بچوں کی روزی کماتا تھا ایک دن شہر کے امیر زادے نے اِس کے رکشے کو ٹکر مار دی رکشہ تباہ ہو گیا اِس بیچارے کی ٹانگ ٹوٹ گئی یہ بیچارہ سرکاری ہسپتال میں داخل ہو گیا چند دن بعد ہسپتال والوں نے فارغ کر دیا تو یہ گھر آگیا رکشہ ناکارہ ہو چکا تھا اُس کو بیچ کر گھر کا خرچہ چلانے لگا جس نے ایکسیڈنٹ کیا تھا اُس کے گھر والوں نے چند ہزار روپے دے کر پھر واپس مُڑ کر نہ دیکھا یہ بیچارہ بے یارو مددگار گھر پر پڑا رہا زخم پرانا ہوا تو ناسور بن گیا پھر زخم میں زہر بھر گیا پیسے نہ ہو نے کی وجہ سے علاج نہ کروا سکا آخر کار سرکاری ہسپتال والوں نے اعلان کیا کہ تمہار ی ٹانگ میں زہر بھر چکا ہے اب اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اِس ٹانگ کو فوری طور پر کٹوا لو اِس کو کاٹنے سے زہر تمہارے باقی جسم میں نہیں پھیلے گا اِسطرح تم ایک ٹانگ کے سہارے باقی زندگی گزار لو گے اِس بیچارے نے کہا ٹھیک ہے میری ٹانگ کا ٹ دو تو اِس کو تین ماہ بعد کا وقت دیا بہانا یہ بتایا کہ پہلے سے بہت سارے مریض ہیں تمہارا نمبر تین ماہ بعد آئے گا ساتھ ہی ڈاکٹر یہ بھی ڈراتے ہیں کہ اگر فوری ٹانگ نہ کاٹی گئی تو زہر تمہارے باقی جسم میں پھیل جائے گا اور تم مر جاؤ گے جب سرکاری ہسپتال میں تین ماہ بعدکا وقت ملا تو اِس بیچارے نے سرکاری ہسپتال والے ڈاکٹر نے کہا آپ پرائیوٹ میرا علاج کر دیں اور میری ٹانگ کاٹ دیں تو اُس نے کہا پرائیوٹ ہسپتال میں ٹانگ کاٹنے پر خرچہ ایک لاکھ روپے آئے گا اِس بیچارے کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ ایک لاکھ روپے دے کر اپنی ہی ٹانگ کٹوا سکے اب یہ دربدر باباوں کے پاس جاتا ہے دم کرانے کہ کسی طرح اِس کی ٹانگ کا زخم اچھا ہو جائے اِس کی رگوں میں دوڑتا زہر ٹھیک ہو جائے میرے بچوں کو سکول لے کر جاتا تھا مُجھ سے اِس کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی میں بھی امیر آدمی نہیں ہوں جو اِس کو ایک لاکھ دے سکوں میں لاہور لے کر آیا ہوں کسی کی سفارش کروا کر سرکاری ہسپتال میں جلدی اِس کی ٹانگ کٹ جائے تاکہ اِس کا باقی جسم بچ جائے ساتھی مریض کی حالت زار بتا رہا تھا مریض بے بس فریادی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا وہ مُجھ فقیر کو مسیحا سمجھ کر میرے پاس بھی آگیا تھا اُس کی داستان غم سن کر میری آنکھوں میں بھی غم کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگا اور میں سوچھنے لگا ہما رے ملک کے ماضی کے حکمران اور موجودہ حکمران جس طرح عیاشیوں کے جھولے دن رات جھولتے ہیں باتیں کر تے ہیں ریاست مدینہ کی وہ وطن عزیز کے سینکڑوں ہسپتالوں میں اے بے بس غریب لاچار مریضوں کے غم درد تکلیف کو محسوس کر تے ہیں جہاں پر یہ راہداریوں میں برآمدوں میں دن رات فائلیں پکڑے ڈاکٹروں کے پاس فریاد فریاد مدد مدد پکارتے ہیں کسی کا جبڑا ٹوٹا ہے کسی کے بازو کسی کی ٹانگیں کسی کی پسلیاں دانت زخم کھلے ہیں ہڈیاں ٹوٹیں اِن کو تین ماہ چار ماہ بعد آنے کا کہاجاتا ہے ٹو ٹی ہڈیوں خراب بدبو دار زخموں کے ساتھ زندگی کیسے گزارتی ہے سانس کیسے لیا جاتا ہے ٹو ٹے جبڑے کے ساتھ کھاناکیسے کھایا جاتا ہے ٹوٹی ٹانگوں کے ساتھ واش روم کیسے جایا جاتا ہے ٹوٹی پسلیاں اور ٹوٹے بازوؤں کے ساتھ رات کو کیسے نیند آتی ہے حکمران رات کے کسی وقت بغیر پروٹوکول کے اِن سرکاری ہسپتالوں میں جاکر جانور نما انسانوں کو دیکھیں کس طرح ننگے فرش پر بے یارو مددگار پڑے ہو تے ہیں صبح اُٹھ کر کس تکلیف کے ساتھ قطاروں میں لگ کر ٹوکن لیتے ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب تین ماہ چار ماہ بعد کا وقت دے دیتے ہیں اور یہ بیچارے مدد مدد پکارتے ہیں کسی دوسرے ہسپتال یا خیراتی ہسپتال میں قطاروں میں لگے نظر آتے ہیں اِن حکمرانوں کے بھاشن باتیں کس ڈھٹائی سنگدلی سے تقریریں اور مسیحائی کی باتیں کر تے ہیں ہر بار کوئی نیا لبادہ اوڑھ کر نیا ڈرامہ کہانی نعرے لگا کر اِن جانور نما انسانوں کی آنکھوں میں امید کے چراغ روشن کر تا ہے لیکن پھر مہینوں پر مہینے سالوں پر سال گزرتے چلے جاتے ہیں باتیں ڈرامے کہانیاں دوسروں پر الزام تراشیاں جو ختم ہو نے کا نام نہیں لیتیں اِس قدر بے شرمی ڈھٹائی سے وعدے کر تے ہیں کہ شیطان بھی پناہ مانگے پتہ نہیں کب خدائے لازوال کو وطن عزیز کے غریبوں پر ترس آئے گا جب کو ئی حقیقی مسیحا اِن غریبوں کے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرے گا میرے سامنے بیٹھا حسرت کی تصویر بنا مریض بھی مسیحا کی تلاش میں دربدر دھکے کھا رہا تھا میں ایک رحم دل ڈاکٹر کو جانتا تھا جو پرانے زخموں کا اچھا علاج کرتا ہے اُس کو فون کر کے میں نے بیچارے مریض کو اُس کے پاس تو بھیج دیا اُس ڈاکٹر نے اِس غریب کا علاج بھی شروع کر دیا لیکن میر ی نظروں کے سامنے لاکھوں ایسے مریض مدد مدد پکارتے نظر آرہے تھے جو سرکاری ہسپتالوں میں امید بھری نظروں سے آتے ہیں لیکن کوئی ان کی آواز نہیں سنتا لاچار غریب مریض اپنے جسموں کو کٹوانے کے لیے در بدر دھکے کھاتے پھرتے ہیں کوئی اُن کی آواز نہیں سنتا اِن مریضوں کے با ل بچے لوگوں کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں یہ لوگ بے یارو مددگار جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہو شربا مہنگا اور عوام کش نظام حکومت لوگو ں کو گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہا ہے حکمران یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ موت کے بعد قبر کے زہریلے کیڑے مکوڑے اِن کے نازک جسموں کو ادھیڑ نے کا انتظار کر رہے ہیں جہاں پر اِن حکمرانوں کے جسم پروٹوکول کے بنا اِن کیڑوں کے رحم و کرم پر ہونگے۔

Share
Share
Share