مولانا ابوالکلام آزاد : حیات اور ادبی خدمات :- عارف حسین ڈار

Share
عارف حسین ڈار

مولانا ابوالکلام آزاد : حیات اور ادبی خدمات

عارف حسین ڈار
پی۔ایچ۔ڈی، ریسرچ اسکالر
یو نی ور سٹی آف حیدر آباد۔500046 – رابطہ:9596084982

ہندوستان کو یارب، ہندوستان بنا دے
اجڑے ہوئے چمن کو،پھولوں سے پھر سجا دے
گاتی پھریں چمن میں،پھر بلبلیں ترانے
جنت ہو جن پہ شیدا،وہ پھول پھر کھلا دے

مولانا عالم دین،مفسر قرآن اور صحافت کا روشن مینار تھے۔وہ ہندوستانی سیاست کے عظیم رہنما، مفکر،مدبر، دانشور، ماہر تعلیم، انشاء پرداز،صاحب طرز ادیب،انسان دوست،قوم پرست اور محب وطن تھے۔الغرض مولاناابوالکلام آزاد کی شخصیت فطرت کا ایک ایسا حسین گلدستہ تھی‘ جسے قدرت نے موزون و متناسب گلہائے رنگارنگ سے سجایا تھا۔ہر سال 11 نومبر کے دن امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی پیدائش کے موقع پر قومی یومِ تعلیم منایا جاتا ہے۔تعلیم کے سلسلے میں اُن کا خیال ہیں کہدل سے پھیلائی ہوئی تعلیم سماج میں انقلاب لا سکتی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ کے محلہ قدو ۃمتصل باب السلام میں ماہ نومبر سنہ 1888ء میں پیدا ہوئے۔ مولانا کی تعلیم کی ابتدا شیخ عبداللہ میرداد خطیب حرم شریف کے ہاتھوں پر اللہ کے نام اور دعائے تسیر علمی کے ساتھ عصرکے وقت ہوئی۔ مولانا نے چودہ برس کی عمر میں فقہ، حدیث، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ 1902ء تک اُن کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوچکا تھا۔ اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم، مولوی محمد عمر، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے گیارہ برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور مولوی عبدالواحد کی تجویز پر آزادؔ تخلص پسند کیا۔ بعد میں نثر نگاری کی طرف توجہ کی۔ مولانا نے سب سے پہلا رسالہ ماہ نامہ ”نیرنگِ عالم“ 1899ء میں جاری کیا۔ اس وقت مولانا کی عمر صرف گیارہ برس تھی۔یہ رسالہ سات، آٹھ مہینے جاری رہا،بعد میں المصباح،النکاح، احسن الاخبار، ہفت روزہ پیغام، الجامعہ وغیرہ رسائل میں خدمت انجام دیں۔1903ء میں ”لسان الصدق“ ماہ نامہ رسالہ کا پہلا شمارہ کلکتہ سے شائع ہوا۔ اس کا اول مقصد اصلاِح معاشرت، دوسرا مقصد ترقی، تیسرا مقصد علمی ذوق کی اشاعت اور چوتھا مقصد تنقید۔1912ء میں جب مولانا آزاد کی عمر چوبیس سال تھی جب انھوں نے کلکتہ سے ہفتہ وار”الہلال“اپنے زیرِ ادارت جاری کیا۔اس مقبول عام رسالے کے ذریعے مولانا آزاد نے قوم کو ایک عالمانہ و مصلحانہ اور قائدانہ مجددانہ شان سے خطاب کیا۔ان کے دلیرانہ تجزیہ احوال اور پْرشوکت اسلوبِ بیان نے پڑھنے والوں پر جادو کر دیا۔ڈھائی سال کے بعد جب یہ تاریخ ساز اخبار حکومت کے جبر سے بند ہوگیا تو مولانا نے چند ماہ کے لیے 1916 میں ”البلاغ“ شائع کیا۔دونوں اخبارات نے غیر ملکی سامراج کے خلاف جہاد اور ملک کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا پیغام علمائے دین،مغربی تعلیم یافتہ خواص، اپنی بدقسمتی پر قانع ہونے والے عوام اور پرْجوش نوجوانوں سب کو یکساں طور پر دیا۔
مولانا کے کارناموں میں ”غبار خاطر“ کو ایک اہم امتیازی مقام حاصل ہے۔ غبار خاطر میں جو خطوط شامل ہیں وہ خطوط نہیں بلکہ مختلف موضوع پر انشایئے ہیں، دراصل یہ ان کی حیات طیبہ کی دردناک سرگزشت ہے جو غبار خاطر اور کاروان خیال کے اوراق پر منتشر ہے۔بقول مولانا آزادؔ:
”چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری“۔
(مقبول احمد صدیقی،اردو ادب میں مولانا ابوالکلام آزاد کا حصہ،ص۔۷۷)
”غبار خاطر“ مولانا کے خطوط کا پہلا مجموعہ ہے جسے اجمل خان نے مرتب کرکے 1946ء میں شائع کیا۔ ”غبار خاطر“کے ہر ہر حرف فقرہ میں فصاحت آنکھیں بچھاتی ہے اور اس کے ایک ایک لفظ میں بلاغت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔مولانا کی نثر نگاری اور خصوصاً غبار خاطر کے ادب لطیف کا زوروشور انوری اور خاقانی کو بھی شرماتا ہے۔بقولسجاد انصاری :
”میرا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن‘ عربی میں نازل نہ ہوتا تو مولانا ابوالکلام کی نثر منتخب ہوتی یا اقبال کی نظم۔“
(سجاد انصاری، محشر خیال،آزاد کتاب گھر دہلی،ص۔۴۷)
حسرت موہانی اپنی شاعری کو مولانا کی نثر کے سامنے بے حقیقت خیال فرماتے ہیں:
جب سے دیکھی ہے ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں بھی مزہ نہ رہا
ہندوستان کی آزادی کی جد وجہد میں مولانا کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔وہ آزادی کی تحریک کے مجاہد تھے انہوں نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے اندرنفرت کے بیج بو کر انگریز اپنی حکومت مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا۔انہوں نے اپنے خطبات اور مضامین میں بھی یہ بتایا کہ مشترکہ تہذیب اور قومی یکجہتی کے تصور کو عام کئے بغیر آزادی ممکن نہیں۔بقول آزاد:
”ہندو ؤں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جد و جہد کرنا داخل حب الوطنی ہے،لیکن مسلمانوں کے لئے یہ ایک فرض دینی اور داخل جہاد فی سبیل اللہ ہے،اللہ نے ان کو اپنی راہ میں مجاہد بنایا ہے اور جہاد کے معنی میں ہر وہ کوشش داخل ہے جو حق و صداقت اور انسانی بندواستبداد اور غلانی کو توڑنے کے لئے کی جائے۔“
(الہلال،۸۱دسمبر ۲۱۹۱ء)
اپنے سیاسی نظریات اور پر جوش صحافت کی وجہ سے مولانا کو کئی بار نظر بند کیا گیا،مگر وہ بہادر اور نڈر سپاہی کی طرح وطن کی آزادی کے لئے جد و جہد کرتے رہے۔مولانا آزاد سچے محب وطن تھے،انہوں نے وطن کی آزادی کے لئے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں لیکن اپنے راستے سے نہیں ہٹے۔انہوں نے دو قومی نظرے کی مخالفت کی،مسلمانوں کو تقسیم کے خطرات سے آگاہ کیا۔تقسیم کے بعد جو فسادات ہوئے اس سے وہ بہت افسردہ تھے۔انہوں نے دہلی کی جامع مسجد میں ہندوستانی مسلمانوں کے ایک جلسے کو خطاب کیا۔اس تقریر کے ایک ایک لفظ سے درد مندی کا اظہار ہوتا ہے:
”یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا ہے؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے، حالاں کہ دہلی تمہاری خون سے سینچی ہوئی ہے“
(خطبات آزاد،مرتبہ مالک رام،ص ۱۴۳)
آگے فرماتے ہیں کہ:
”عزیزو! تبدیلیوں کے ساتھ چلو، یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لئے تیار نہ تھے بلکہ اب تیار ہو جاؤ، ستارے ٹوٹ گئے لیکن سورج تو چمک رہا ہے۔اس سے کرنیں مانگ لو اور ان اندھیری راہوں میں بچھا دو،جہاں اجالے کی سخت ضرورت ہے۔“
(مولانا ضیاء الدین اصلاحی،مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی افکار،صحافت اور قومی جدو جہد،ص ۵۷۲)
جدید ہندوستانی قوم کی اجتماعی زندگی کا کوئی دائرہ کوئی نقشہ، کوئی پلان اور کوئی پروگرام ایسا نہیں جس پر مولانا آزاد کے افکار واقدامات کا عکس نہ پڑا ہو۔بقول علامہ اقبال:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا آزاد نے سر سید احمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستانی عوام کے کند ذہنوں کو تراش کر ان میں محنت اور آگے بڑھنے کا جوش پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھایااور اپنی ساری زندگی اپنے خواب کے تکمیل میں صرف کر دی۔انہوں نے اپنی تمام تر صلاحتوں کو بروئے کار لاکر ایسا عمل شروع کیا جس کا مقصد نسلوں کی تعمیر و اصلاح تھا اس مقصد کے تحت انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول کے لئے تیار کیا اور کہا کہ جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہو گی تب تک زمانے سے قدم ملا کر چلنے کی اہل نہیں ہو گی۔ انہوں نے زندگی کے آخری لمحے تک ملک و قوم کی خدمت کرکے ثابت کردیا کہ وہ ہندوستان کے سچے سپوت ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے اور اس حیثیت سے انھوں نے گیارہ سال”دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت“ کی خدمت انجام دی۔بقول آزاد:
”وزارت تعلیم کی ذمہ داری سنبھالتے ہی میں نے پہلا فیصلہ جو لیا وہ یہ تھا کہ ملک میں اعلی و فنی تعلیم کے حصول کے لئے سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ خود ہم اپنی ضرورتیں پوری کریں۔ میں اس دن کا منتظر ہوں جب ہندوستان میں باہر سے لوگ آکر سائنس اور فنی تعلیم میں تربیت حاصل کریں“۔
(ابوالکلام آزاد، عرش ملسیانی،ص ۷۹)
ان مقاصد کی تکمیل کے لئے مولانا نے کئی اہم اور ٹھوس قدم اٹھائے اور انہوں نے کئی اداروں کا قیام عمل میں لایا۔ (یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن، انڈین کونسل فار اگریکلچر اینڈ سائنٹیفک ریسرچ، انڈیا کونسل فار میڈیکل ریسرچ، انڈین کونسل فار سائنس ریسرچ وغیرہ)۔
آخر کارعالم اسلام خصوصاً ہندوستان کی یہ روشن ترین شمع 69 سال کی عمر میں 22 فروری 1958ء کو اس دنیائے فانی کو لبیک کہہ گئے اور دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان انہیں سپرد لحد کیا گیا۔
شورش کاشمیری مرحوم نے ابوالکلام آزاد کی وفات پر یہ شہرہ آفاق نظم کہی، جس کا آخری بند ملاحظہ ہو:
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحد پہ خدا کی رحمت، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
٭٭٭٭٭
Arif Hussain Dar
University of Hyderabad

Share
Share
Share