کالم : بزمِ درویش
لڑکی والے
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
میں ملک صاحب کے مین گیٹ سے گھر کے اندر داخل ہوا تھا لان میں ہجوم لگا ہوا تھا اور درو دیوار ملک صاحب کی پر جلال آواز سے گو نج رہے تھے‘ خطرناک بات یہ تھی کہ ملک صاحب کے ہاتھ میں دو نالی لو ڈڈ بندوق بھی تھی جسے وہ لہر الہرا کربلکہ دھاڑیں مار کر لان میں موجود لوگوں کو ڈرا بلکہ قتل کرنے کی دھمکیاں لگاتار دے رہے تھے
ملک صاحب کے منہ سے گالیوں دھمکیوں کا آتش فشاں مسلسل پھٹ رہا تھا‘ غصے سے ملک صاحب کا چہرہ تنور کی طرح تپ رہا تھا اور منہ سے گالیوں کے گو لے وہ سامنے لوگوں پر برسا رہے تھے اگر کو ئی دبے لفظوں میں اپنی صفائی دینے کی جسارت کر تاتو وہ اُس پر بندوق تان لیتے اور دھاڑتے اگر تم نے ایک لفظ بھی مزید منہ سے نکالا تو تمھارے جسم میں سوراخ کر دوں گا گولیاں ما رکر ہلاک کردوں گا کو ئی میرے سامنے بولنے کی جرات نہ کرے ورنہ یہیں پر لاشوں کا قبرستان بنا دوں گا اب سامنے لوگ غلاموں کی طرح سر جھکائے کھڑے تھے اِس خوف سے کہ اگر ملک صاحب کے مزاج کے خلاف کوئی بات کردی تو ان کی بندوق شعلے اگلنے شروع کر دے گی۔ میں اِس خوفناک بلکہ دہشت ناک منظر کے لیے بلکل بھی تیار نہیں تھا میری ملک صاحب سے تھوڑی بہت جان پہچان تھی دو تین بار کسی مسئلے کی مشاورت کے لیے مُجھ فقیر کے پاس آچکے تھے آج اِن کی بہو کا مجھے فون آیا سر ملک صاحب بہت غصے میں ہیں ہماری جانیں خطرے میں ہیں خدا کے لیے آکر ہماری زندگیاں بچالیں ورنہ آج ہما ر ی موت یقینی ہے بہو اور ملک صاحب کا بیٹا روحانی علاج کے سلسلے میں کئی بار میرے پاس آچکے تھے بہو کے والدین کسی زمانے میں ملک صاحب کے برابر کے لوگ تھے لیکن گر دش حالات نے انہیں غر بت کی لکیر کے نیچے دھکیل دیا ملک صاحب متکبر انسان جو اپنی دولت کے نشے میں غر ق دوسرے انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا تین دن پہلے ملک صاحب کے گھر سے سونے کے زیورات چوری ہو گئے تھے ملک صاحب کے چھوٹے بیٹے نے اپنی بھابی پر الزام لگادیا ماں بیٹے کے ساتھ مل گئی بہو بیچاری اپنی بے گناہی کے لیے مسلسل اللہ تعالی اور قرآن پاک کی قسمیں کھا رہی تھی کہ میں نے زیوارت چوری تو دور کی بات ہے زیورات دیکھے تک نہیں لیکن ملک صاحب ان کی بیگم چھوٹے بیٹے کی باتوں میں آکر بضد تھے کہ چوری تم نے ہی کہ ہے جب بہو نے ماننے سے انکار کیا تو طلاق کی دھمکیاں دیدی گئیں‘ بہو نے جب دیکھا صورت حال کنٹرول سے باہر ہو تی جا رہی ہے تو اپنے والدین کو بلا لیا اورمجھے بھی مدد کے لیے بلا لیا ماں باپ نے آکر مودب لہجے میں ملک صاحب کو درخواست کی کہ آپ کو شدید غلط فہمی ہو ئی ہے ہماری بیٹی نے آپ کے زیوارت چوری نہیں کیے اب ملک صاحب اپنی بہو پر الزام لگا چکے تھے اگر وہ یہ مان لیتے کہ واقعی بہو نے چوری نہیں کی تو یہ اُن کی شکست ہو جاتی اب اِس مسئلے کو عزت بے عزتی کا مسئلہ بنا کر وہ دنگے فساد پر اُتر آئے تھے ملک صاحب کو سب سے بڑا غرور زعم یہ تھا کہ میں لڑکے کا باپ ہوں اور بہو کے والدین لڑکی والے ہیں اور لڑکی والوں کو لڑکے والوں کے سامنے بولنے کی یا انکار کی جرات کیسے ہو رہی ہے لڑکے والے اونچے ہو تے ہیں لڑکی والے کمزور اور میراثی ہو تے ہیں لڑکی والے بات بھی نظر جھکا کر کر تے ہیں بولنا تو دور کی بات ہے اب جب لڑکی والوں نے دبے لفظوں میں یہ جسارت کہ ملک صاحب آپ کو غلط فہمی ہو ئی ہے آپ اصل چور کو تلاش کر نے کی بجائے ہماری بے گناہ بیٹی پر چوری کا جھوٹا الزام لگا رہے ہیں یہ بات لڑکی والوں کے منہ سے نکلی تو گستاخی ہو گئی اب ملک صاحب نے بندوق نکال لی ساتھ میں دھمکیوں اور گالیوں پر اُتر آئے‘ ملک صاحب بار بار قتل کر نے کی دھمکی کے ساتھ طلاق اور تھانے میں بند کر انے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے بہو کے والدین منتیں تر لے غلاموں کی طرح سرجھکائے کھڑے تھے بار بار بیٹی کے بے گنا ہی کی بات کر رہے تھے جب وہ کہتے کہ ہماری بیٹی آپ کی چور نہیں ہے تو ملک صاحب کو تو جیسے آگ ہی لگ جاتی وہ فوری طور پر بندوق تان لیتے ساتھ میں چیرنے پھاڑنے کی دھمکیاں بھی دیتے بندوق تان کر دھاڑتے کہ اگر تم لوگ بولے تو ابھی طلاق کے تین لفظ کے ساتھ سے تم سب کو تھانے بند کروا دوں گا بہو کا میاں بھیگی بلی بنا خاموشی سے تماشا دیکھ رہا تھا اُس کو بھی ملک صاحب دھمکی لگا چکے تھے کہ اگر تم نے میرے حکم پربیوی کو طلاق نہ دی تو ابھی تم کو اپنی جائیداد سے عاق کر دوں گا پھر تم فقیروں کی طرح سڑکوں پر بھیک مانگا کر نا لڑکا آنکھیں جھکائے کھڑاتھا اور میں ملک صاحب کی فرعونیت دیکھ رہا تھا اور ہمارے بے حس درندہ معاشرے کا چلن کہ یہاں پر یہ رواج ہے کہ لڑکی والے لڑکے والوں کے زر خرید غلام میں میراثی ہیں لڑکی والے لڑکے والوں کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتے میرے پاس جب بھی لڑکی والے آکر کہتے بس سر دعا کریں ہم تو لڑکی والے ہیں ہم اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتے اور پھر کروفر میں ڈوبے لڑکے والے بھی جب آکر اکثر کہتے ہیں سر معافی تو لڑکی والوں کو ہی مانگنی پڑتی ہے یعنی لڑکے والے فرعون ہیں اور لڑکی والے غلام آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں تو ہر گھر میں آپ کو ایسی کہانی چلتی نظر آئے گی جب داماد اور بہنوئی صاحب فرعون بن کر اپنے سالوں سسرالیوں پر حکم چلاتے ہیں اور بہت عزت دار لوگ اِس لیے یہ برداشت کر تے ہیں کہ وہ تو لڑکی والے ہیں اور لڑکی والے اگر اپنی بہنوں کو بیٹیوں کو بسانا چاہتے ہیں تو لڑکے والوں کی غلامی خوشامد کر نا پڑے گی کس کس طرح مختلف چالوں اور بلیک میلنگ سے لڑکے والے لڑکی والوں کو لوٹتے ہیں یہ ظلم و برببریت کے کھیل ہماری ہر گلی محلے اور گھر میں کھیلا جا تا ہے بڑے بڑے شریف نام نہاد مذہبی لوگ بھی اِس غرور سے پاک نظر نہیں آتے شادی بیاہ یا باقی تقریبات میں کسی طرح لڑکی والے لڑکے والوں کی خوشامد کر تے نظر آتے ہیں لڑکے والوں کی ناجائز باتوں خواہشوں کو پورا کر تے ہیں لڑکے والوں کی فرمائشیں پو ری کر نے کے لیے قرضہ لیتے ہیں اپنا آپ بیچ کر لڑکے والوں کے نخرے اٹھاتے ہیں لڑکے والے کے ٹو پر بیٹھے نظر آتے ہیں کہ ہم تو لڑکے والے ہیں یہاں پر ملک صاحب بھی شیش ناگ کا روپ دھارے دھاڑ رہے تھے کہ لڑکے والے ہیں اب لڑکی والوں نے طلاق سے بچنے کے لیے ملک صاحب کے پاؤں پکڑ لیے کہ خدا کے لیے ہمیں معاف کردیں ہماری بیٹی چور نہیں تو ملک صاحب نے دھاڑتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہایہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے ابھی تین لفظ طلاق کے بولو اور گندگی کے ڈھیر کو فارغ کرو صورتحال حد سے زیادہ بگڑ گئی تھی میں آگے بڑھا ملک صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا فوری میری طرف مڑے اور دیکھ کر بولے پروفیسر صاحب آپ کب آئے تو میں بولا آپ طلاق نہ دیں اور راستہ نکالیں یہ ظلم نہ کریں تو ملک صاحب بولے ٹھیک ہے یہ بہو مانے کے اُس نے زیورات چوری کئے ہیں اِسی دوران درد اورتکلیف میں ڈوبا باپ آہوں سسکیوں میں آگے بڑھا ملک صاحب کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا ملک صاحب میں اقرار کرتا ہو جتنے کے زیورات میں بنوا دیتا ہوں بیچارہ باپ طلاق کے خوف سے مان گیا باپ کی بے بسی دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں اور میں وہاں سے چلا آیا میرا سانس گھٹ رہا تھا بعد میں ایک دو بار ملک صاحب میرے پاس آئے تو میں نے صاف کہہ دیا ملک صاحب آپ نے ظلم کیا ہے آپ کی بہو چور نہیں تھی آپ نے لڑکے والوں کا ہتھیار استعمال کر کے منوایا ہے ملک صاحب بضد تھے کہ بہو چور ہے لیکن اللہ کی لاٹھی حرکت میں آگئی تین ماہ بعد ملک صاحب روتے پیٹتے معافی مانگنے آگئے کہ چوری تو میرے چھوٹے بیٹے نے کی تھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر چھوٹا بیٹا اور اُس کے دوست لوگوں کے گھروں میں چوری کر تے تھے ایک چوری کے دوران پولیس مقابلے میں مارا گیا تو دوستوں نے اقرار کیا کہ میرے گھر بھی چوری چھوٹے بیٹے نے کی تھی آج میں لڑکے والوں کا غرور کر نے کی وجہ سے اپنے جوان بیٹے سے محروم ہو گیا تو میں بو لا ملک صاحب جاکر اپنی بہو اور لڑکی والوں سے معافی مانگ لو ورنہ روز محشر سر تاج الانبیاء ﷺ بھی کہیں گے کہ میں تو لڑکی والوں کے ساتھ ہوں اور لڑکے والوں کو جانتا تک نہیں اور اُس دن شفاعت تو آقا کریم ﷺ کی وجہ سے ہونی ہے۔