فیض احمد فیضؔ عالمی مسائل کا عکاس
محمد سرور لون
پی ایچ۔ڈی ریسرچ اسکالر
شعبۂ اردو،یونی ورسٹی آف حیدرآباد، گچی باؤلی۔500046
فیض احمد فیضؔ بیسویں صدی کے ان خوش قسمت شعرا میں سے ہیں جنہیں زندگی ہی میں بے پناہ شہرت و مقبولیت اور عظمت و محبت ملی۔ ان کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا۔ وہ نہ صرف نظریاتی اعتبار سے ترقی پسند تھے بلکہ عملی طور پربھی انھوں نے اپنے ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیا۔
ایک شاعر، صحافی، ٹریڈ یونین لیڈر اور فوجی افسر کی حیثیت سے انھوں نے غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کے دکھ درداور ان کے مسائل کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ ان کے مداوا کے لیے ہمیشہ کوشاں بھی رہے۔جس عہد میں انھوں نے شعر گوئی کی شروعات کی وہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں انقلابی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف آزادی کی جدوجہد پورے شدومد کے ساتھ جاری تھی۔مختلف افریقی ممالک میں بھی آزادی کی لہر چل رہی تھی۔پہلی عالمی جنگ گو کہ ختم ہو چکی تھی لیکن اس کے اثرات پوری دنیا میں نمایاں تھے۔دوسری عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔1917 ء میں روس میں زار شاہی کا خاتمہ اور اشتراکی حکومت کا قیام اس دور کا ایک ایسا تاریخ ساز واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کے کمزور اور غریب عوام کو ایک نیا جوش و جذبہ عطا کیا تھا اور وہ استعماری اور سامراجی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہو رہے تھے۔ فیض نے لکھا تھا:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول،یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
نظم ’بول‘ کے یہ اشعار دبے کچلے کمزور انسانوں کو صدیوں سے جاری ظلم و استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور اس کا خاتمہ کردینے کی دعوت دیتے ہیں:
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقئہ زنجیر میں زباں میں نے
فیض کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے پوری دنیا کے مجبورومظلوم اور کمزور انسانوں کے دکھ درد کو اپنا سمجھا اور زندگی بھر اس کے خلاف اپنے قلم کے ذریعے برسر پیکار رہے۔ وہ صرف اپنی زباں بندی کے خلاف احتجاج نہیں کرتے بلکہ جہاں بھی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے یا عوامی آواز کو دبانے کی کوشش ہورہی ہے، فیض اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔آزادی سے قبل کے دنوں میں جہاں انھوں نے انگریزی سامراج کی ظالمانہ اور استحصال پسندانہ پالیسیوں کو موضوع بنا یا وہیں آزادی کے بعدخود اپنے لوگوں نے عوام پر جو ظلم و جبر کیا اس پر بھی کھل کر لکھا۔ ان کی نظم ’صبحِ آزادی‘ اس کا بیّن ثبوت ہے۔ فیض نے آزادی کے بعد ملک میں ہونے والے فسادات،قتل و خوں ریزی،عورتوں کی بے حرمتی، حکمرانوں کی بے حسی اور مغربی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے رہنے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ان کی نظموں اور غزلوں میں مزدوروں،کسانوں اور محنت کشوں کے مسائل و مصائب،سرمایہ داروں کے ہاتھوں ان کے استحصال،دولت مندوں کی عیش پسندی، سماج میں موجود عدم مساوات، سیاسی لیڈروں کی عیاری و مکاری، مارشل لا،زبان و بیان اور تحریر و تقریر پر پابندی، ملک کی ابتر صورت حال،سقوط بنگلہ دیش کے علاوہ بین الاقوامی مسائل مثلاً افریقی ممالک کی جدوجہد آزادی، فلسطینی عوام کی بے گھری وغیرہ پر بھی زبردست احتجاج ملتا ہے۔
فیضؔ ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی شاعر تھے۔ظلم چاہے فلسطین میں ہو، ہندوستان میں ہو، چاہے عراق میں ہو او ر ایران میں آخر انسانیت پر ہی ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان تمام ملکوں کے عوام کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ اشفاق حسین فیض کی شاعری کے اس پہلو کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اپنے دیس کے علاوہ جہاں کہیں بھی کوئی عوامی تحریک اٹھی ہے یا آزادی کی کوئی جنگ لڑی گئی ہے، فیض کا قلم ہمیشہ ان کی حمایت میں اٹھا ہے۔ ایران کے طالب علموں کی جدوجہد ہو یا ویت نامی اور فلسطینی عوام کے حقوق آزادی کی جنگ ہو، فیض نے اپنی شاعری کے ذریعے ان سب کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔اس لیے ان کی شاعری آزادی اور امن کی شاعری ہے۔“ (مطالعئہ فیض امریکہ و کینیڈا میں، ص:35)
فیض دراصل شاعر انسانیت تھے۔ جب کبھی انسانیت پر ضرب پڑی، جب کبھی کسی کمزور پر طاقتور کا ہاتھ اٹھا،کسی مزدور کا استحصال ہوا،کسی کسان کو فاقہ کشی کا شکار ہونا پڑا یاکسی کی حق تلفی ہو ئی، فیض کا دل مضطرب ہوا اور انھوں نے اس سماجی و سیاسی نظام کو بدلنے کے لیے اپنے اشعار کے ذریعے راے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔نظم ’رقیب سے‘ میں کہتے ہیں:
جب کبھی بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے
اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں
جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے ابلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
مغربی پاکستان کی فوج نے 1971 ء میں آزادی کا مطالبہ کرنے والے بنگلہ دیشیوں (اس وقت کا مشرقی پاکستان) کے ساتھ جس ظلم و بربریت کا سلوک کیا، وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا تھا۔ اس صورت حال پر فیض نے نظم ’ڈھاکہ سے واپسی‘پر لکھی۔
اس نظم کے دو اشعار پیش ہیں:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
فیضؔ جب منٹگمری جیل میں سزا کاٹ رہے تھے تو ایرانی محبانِ وطن کو جیل میں گولی کا نشانہ بنایا گیا۔اس واقعے کی خبر اور تفصیلی رپورٹ امریکی رسالہ ”ٹائم“ میں ان کے قتل گاہ کی تصویر کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔ اس خبر کو پڑھ کر فیض نہایت بے چین ہوگئے اور ان کے دل کو بہت تکلیف پہنچی تھی۔اسی زمانے میں امریکی روشن خیال سائنس دان جوڑے روزن اور ایتھل برگ کو جاسوسی کے الزام میں پھنسا کر گرفتار کرلیا گیا اور دونوں کو امریکی عدالت نے روسی جاسوس قرار دے کر موت کی سزا سنائی۔ان دونوں کو بجلی کی کرسی پر بٹھا کر بھسم کر دیا گیا۔ان کے خطوط جب چھپے تو فیض نے ان کا مطالعہ جیل کے اندر ہی کیا اور پڑھتے وقت فیض کا دل باربار ابھر آیا تھا۔اپنے ایک خط میں ایلس کو لکھاکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے الفاظ کا سوز اور ان کی عظمت اسی ادیب کو نصیب ہوسکتی ہے جس کی مرگِ حیات ایسی ہی عظیم اور درد انگیز ہو۔ان کا اور ان کے بچوں کا خیال آتا ہے تو اپنی مصیبت کی بات کرنا بیہودہ پن معلوم ہوتا ہے۔فیضؔ نے ان خطوط سے متاثر ہوکر اپنی شہرہئ آفاق نظم ”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے“لکھی تھی جس میں انہوں نے ان دونوں میاں بیوی کو دو ستم زدہ افراد کے طور پر پیش کرنے کے بجائے دنیا بھر کے مظلومو ں کے خاطر اپنی جا ن کی بازی لگانے والوں کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔یہ نظم روزن برگ جوڑے کی بے مثال قربانی سے متاثر ہو کر لکھی گئی جو مرتے دم تک انسانیت کے ساتھ اپنی وفاداری جتلاتے رہے۔
تیرے کوچے سے چن کر ہمارے عَلَم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
جیسا کہ ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ فیضؔ نے اپنی شاعر ی میں دنیا بھر کے مظلوموں کے دکھ درد کو سمویا ہے۔ ایرانی طلبہ پر فائرنگ ہو یا برطانیہ کی نسل پرست حکومت کے خلاف نلسن منڈیلا کی قیادت میں لڑی جانے والی پرُامن جنگ یہ سب فیضؔ کی شاعری کے موضوعات ہی نہیں ان کی داخلی شخصیت کا حصہ بھی ہے اور یہ ان کی شاعری کے لیے اہم محرک ثابت ہوئے۔
پھول مسلے گئے فرشِ گلزار پر
رنگ چھڑکا گیا تختہء دار پر
بزم برپا کرے جس کو منظور ہو
دعوتِ رقص،تلوار کی دار پر
دعوت ِ بیعتِ شہ پہ مُلزم بنا
کوئی اقرارپر،کوئی انکارپر
فلسطینی عوام کی دربدری اور کرب ناک زندگی فیض کی شاعری کا ایک اہم موضوع ہے۔ انھوں نے فلسطینیوں کی حالت زار پر کئی نظمیں لکھیں جن میں ’عشق اپنے مجرموں کو پا بجولاں لے چلا‘، ’فلسطینی بچے کے لیے لوری‘ اور ’فلسطینی شہدا جو پردیس میں کام آئے‘ اہم ہیں۔انہوں نے ان نظموں میں فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت کی ہے۔فیض کامجموعہ کلام”مرے دل مرے مسافر“ 1981 ء میں شائع ہواجس کو فیضؔ نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے نام معنون کیا ہے اور یہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ وہ فلسطین،فلسطینی عوام اور فلسطینی رہنما کا کس درجہ احترام کرتے تھے۔اس مجموعے کے بہت سے اشعار ایسے ہیں جو بیروت میں اس وقت لکھے گئے تھے جب وہاں ہر طرف آگ اور دہشت پھیلی ہوئی تھی اور اسرائیل مہاجر خیموں پر بمباری کرکے ان کی نسل کش کر رہا تھا جس کی مثال اس مجموعے کے اس قطعہ سے ہوتی ہے:
مقتل میں نہ مسجدِ نہ خرابات میں کوئی
ہم کسی کی امانت میں غم ِ کارِجہاں دیں
شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
مندرجہ بالا اشعار میں فلسطینیوں کا المیہ فیضؔ کی ذات کا المیہ بن گیا ہے۔اس لیے یہ اشعار نہ صرف فلسطینیوں کے دلوں کی آواز ہیں بلکہ یہ دنیا کے مظلوموں کے دل کی دھڑکن ہیں۔اس لیے ان اشعار کو موجودہ دور میں تما م مسلم ممالک میں ہورہی غارت گری اور نسل کشی سے جوڑ کر دیکھا جا سکتا ہے۔یوں تو فیض دنیا کے ہر ملک کے رہنے والے لوگوں سے محبت کرتے تھے لیکن فلسطین اور وہاں کے لوگوں سے انہیں زیادہ ہی اُنس اور دلی لگاو تھا۔ان کی قربانیوں سے وہ بہت متاثر ہوئے اور ان کایہ مجموعہ ’مرے دل مرے مسافر‘ ایک طرح سے قیام بیروت کی یاد گارہے جس میں کئی نظمیں بیروت اوراہل فلسطین کو مخاطب کر کے یا ان کی آرزوئیں اور امنگیں اپنے دل میں بسا کر لکھی گئی ہیں جن میں خاص طور سے ان کی دو نظمیں ’فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے اور’فلسطینی بچوں کے لیے لوری‘ شامل ہے۔ اس طرح ان کی کلیا ت ”نسخہ ہائے وفا“ کے آخری حصہ میں جو ”غبار ایام“ کے نام سے موسوم ہے، میں بھی بیروت کی کئی یادگار نظمیں شامل ہیں۔
جس زمیں پر بھی کھُلا میرے لہو کا پرچم
لہلاتا ہے وہاں ارضِ فلسطیں کا عَلَم
تیرے اعدا نے کیا ایک فلسطیں برباد
میرے زخموں نے کئے کتنے فلسطیں آباد
فلسطین اور فلسطینی عوام کی جدوجہد میں فیض ؔکی دلچسپی کی ابتدا بہت پہلے ہوچکی تھی۔ان کی نظموں اورغزلوں کے بہت سے اشعار کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح کیا جاسکتاہے کہ وہ آزادی وامن کے داعی اور بے بس عوام کی جدوجہد کے نقیب تھے اور وہ عوام کے ہر طبقے اور روئے زمین کے ہر خطے کو آزاد و خود مختا ردیکھنے کے خواہاں تھے لیکن مسئلہ فلسطین کے تناظر میں انہوں نے ایک مکمل نظم 1967ء میں اس وقت تخلیق کی جب عربوں کو شرمناک شکست کا سامنا کر نا پڑا۔ا ن کی نظم کا عنوان تھا ’’سروادیئ سینا“ یہ نظم 1971ء میں ان کے شائع ہونے والے مجموعہ کلام جس کا نام بھی اسی نظم کے عنوان سے مستعار ہیں میں شامل ہے۔جس سال فیضؔ نے یہ نظم تخلیق کی وہ نہ صرف عربوں اور فلسطینیوں کے لیے بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے انتہائی مایوسی کا سال تھا جو امن اور آزادی کے خواہشمند اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے علمبردار تھے۔
ایرانی طلبہ کے نام، روزنبرگ کی سزائے موت اور فلسطینیوں کی سیاسی مزاحمت اور حصولِ وطن کی جدوجہد کی ترجمانی کرنے والی ان کی متعدد نظمیں جن کا ذکر کیا جا چکا ہے،سیاسی، نظریاتی اور انسانی احساسات کی ترجمانی میں عصری شعور کا ساتھ دینے کے ساتھ اس سے آگے کا سفر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔فیضؔ، جوقید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ برطانیہ،روس، الجیریا،مصر،لبنان،عراق اورکئی ملکوں کا دورہ کرچکے تھے، اقوامِ عالم میں ظالم و مظلوم کے تصادم یا خاموش کشمکش سے بھی واقف تھے اور شاعری کے علاوہ تحریرو تقریر میں بھی اپنی باخبری کا اظہار کیا کرتے تھے۔افریقی عورتوں کے کارناموں سے بھی فیض کافی متاثر تھے اور اس ملک کے حریت پسندوں پر ہورہے ظلم و ستم سے بھی وہ کافی تھرا اُٹھے تھے جس کی مثال ان کی نظم ’آجاؤ افریقہ‘ ہے۔فیض ؔکے قیدی ساتھی میجر محمد اسحاق فیضؔ کے اس جذبے کو دیکھ کر کہتے ہیں:
”ان کے دردِ دل نے دنیا بھر کے اسیروں کے رنج و الم کواپنے اندر سمولیا تھا۔ کینیا کے باشندوں پر جمہوریت اور آزادی کے دعوے داروں کے ہاتھوں بے پناہ ظلم و ستم اور ان کے اپنے وطن کے مصائب فیض صاحب کے لیے سوہانِ روح بنے ہوئے تھے۔ وہ افریقی عورتوں کے کارہائے نمایاں سے خاص طور سے متاثر تھے۔ کئی دفعہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ پاکستانی نہیں رہے،افریقی بن گئے ہیں۔ ان کی نظم ”آجاؤافریقہ‘‘ اسکی مظہرہے۔“(رودادِقفس:میجرمحمداسحاق،زنداں نامہ،ص نمبر:27نسخہ ہائے وفا،ص:217)
غرض یہ کہ فیضؔ کی شاعری کو پڑھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک امن پسند شاعر تھے اس لیے انھوں نے اپنی ذات کو انسانیت کے لیے وقف کردیا تھا۔وہ دنیا کے ہر خطے سے تعلق رکھنے والے مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔ مختصر یہ کہ فیضؔ کی شخصیت اور شاعری ان کے انفرادی تجربوں کی نہ صرف ترجمان ہے بلکہ وہ اپنے زمانے کی ہر اس تحریک اور فکر سے متاثر ہوئے جوانسانیت کی فلاح و بہبود اور عام انسانوں کے دکھوں اورغموں کا مداواکرنے کے لیے کو شاں تھی۔واقعی انھوں نے نہ صرف پوری دنیا کے مسائل سے متعارف کروایا بلکہ عملی طور پر بھی ان مسائل کو حل کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔
—–
Sarwar Lone