اذان کا تیسرا کلمہ ،
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (3)
مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536
اذان کا تیسرا کلمہ ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (2) قسط کے لیے کلک کریں
لیکن مسلم معاشرہ پر حقیقی علماء اور مخلصین کا غلبہ اسی وقت ہوتا ہے جبکہ مسلم معاشرہ میں حقیقی علم اور اخلاص کی مسلسل تحریک چلے۔ حضرت محمدؐ کو رسول اللہ ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ آپؐ نے دعوت دین، تعلیم دین اور غلبہ دین کا کام جس طریقہ سے کیا اسی طریقہ سے کیا جائے،
اس تقاضہ کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نبی کریمﷺ کی جو تئیس(۳۲) سالہ نبوی زندگی ہے، اس پر اجمالی نظر ڈال لی جائے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت کے متعلق یہ تذکرہ دلچسپی اور اہمیت سے خالی نہیں ہوگا، کہ جب تک آپؐ پر اللہ کا کلام قرآن مجید نازل ہونا شروع نہیں ہوا تھا، اور جب تک آپؐ نے مکہ والوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش نہیں کی تھی، تب تک تمام مکہ والے آپؐ کی عزت کرتے تھے، اور آپ ؐ کو صادق اورامین کہتے تھے، لیکن جیسے ہی آپؐ نے انہیں بتوں کی بندگی سے منع کیا اور اللہ کی بندگی کی دعوت دی تو مکہ کے اکثر لوگ خصوصاً سرداران مکہ آپؐ کے مخالف اور دشمن ہوگئے، اور آپؐ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے، کبھی آپؐ کو کذاب کہا گیا، کبھی شاعر، کاہن، مجنون کہا گیا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دعوت دین کا کام تمام لوگوں کی ہر دل عزیزی کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ زیادہ تر لوگ دعوت دین کے مخالف اور دشمن ہی رہیں گے خاص طور سے معاشرہ میں جو سردار اور لیڈر قسم کے لوگ ہیں وہ دعوت دین کے مخالف اور دشمن ہی رہتے ہیں اور وہ دعوت دینے والوں اور دعوت قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے بے جا الزامات لگاتے ہیں اور ان پر ظلم و ستم کرتے ہیں، آج بھی معاشرہ میں جو لوگ دین کی مکمل دعوت دینے والے اور قبول کرنے والے ہیں، موجودہ دور کے سیاسی لیڈران اور حکمران، ان پر طرح طرح کے بے جا الزامات لگا رہے ہیں، اور ان پر طرح طرح کا ظلم وستم کر رہے ہیں، لیکن جس طرح محمدﷺ نے اور ان پر ایمان لانے والے صحابہؓ نے ان الزامات اور ظلم و ستم کی پروا نہیں کی، اسی طرح آج کے دور کے ایمان والوں کو ان الزامات اور ظلم و ستم کی پروا نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ اعراف کے انیسویں (۹۱) رکوع میں حضرت موسیٰ ؑ کی ایک دعا کے جواب میں محمدﷺ کی نبوت و رسالت کی جو خبردی اور آپؐ کے اور آپ ؐ کی اتباع کرنے والوں کے جو کام بیان کئے ہیں ان سے محمد ﷺ کی اس دنیا میں بعثت کا مقصد اور آپؐ کو اللہ کے رسولؐ ماننے کا مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہاں سورۂ اعراف کے انیسویں رکوع کی چند آیات کی وضاحت پیش کی جارہی ہیں، یہ آیات بعثت محمدیؐ کے متعلق جامع ترین آیات ہیں، ساتھ ہی امت مسلمہ پر آپؐ کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان کی بھی وضاحت و تفصیل پیش کرتی ہیں۔ سورۂ اعراف کے انیسویں رکوع میں سب سے پہلے بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے موسیٰ ؑ کو کوہ طور پر جانے کے بعد بچھڑے کی پرستیش کی تھی ان پر اللہ کے غضب کی تنبیہ ہے اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کی اللہ سے رحمت،مغفرت اور دنیا و آخرت میں بھلائی کی دعا ہے، اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی
رحمت کے متعلق جو شرائط رکھی ہیں ان شرائط میں محمدﷺ کو اللہ کے رسولؐ ماننے کے تمام تقاضے بیان کر دیئے گئے ہیں، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ قَالَ عَذاَبیِٓ اُصِیْبُ بِہِ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتیِ وَسْعَتْ کُلَّ شَیءِ فَسَبا کْتُبُھَا لِلَّذیْنَ یَتَّقوْنَ وَ یُوْتُونَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِینَ ھُمْ بایٰتِنَا یُوْمِنُوْنَ۔
(فرمایا اللہ نے میرا عذاب،میں جسے چاہوں گا دوں گا،ا ور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، پس عنقریب میں اسے لکھ دوں گا، ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ اختیار کریں گے، اور زکوٰۃ دیں گے، اور ہماری آیات پر ایمان لائیں گے) اگلی آیت میں اللہ کی رحمت کی جو مزید شرائط و صفات بیان کی گئی ہیں، وہ سب کی سب محمدﷺ کی اتباع و پیروی سے متعلق ہیں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔ اَلَّذِینَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النّبیَّ الْامّیِ الَّذِی یَجدُوْنہُ مَکْتُوْباً عِنْدَھُمْ فِی التَّورٰۃِ وَ الْابخْیلِ یَا مُرُھُمْ بالْمَعرُوْفِ وَ یَمْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَلْاَ غْلٰلٰ الَّتیْ کَانَتْ عَلَیْھمْ فَالّذِیْن اٰمَنوُاْ بِہِ وَ عَزَّرُوہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبعَوْا النُّورَالَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہُ اُولٰٓیکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ۔(اعراف آیت ۷۵۱) (ترجمہ: جو اتباع کریں گے،رسول نبی، امی کا، جس کو وہ لکھا ہوا پاتے ہیں اپنے پاس توریت اور انجیل میں، وہ انہیں حکم دیتا ہے معروف کا، اور انہیں روکتا ہے منکر سے، اور ان کے لئے حلال کرتا ہے، پاکیزہ چیزیں، اور حرام کرتا ہے ان پر گندی چیزیں، اور ہٹاتا ہے ان سے ان کا بوجھ، اور طوق جوان پر ہے، پس جنہوں نے ایمان لایا اس پر یعنی محمدؐ پر اور ان کی عزت کی اور ان کی مدد کی، اور اس نور یعنی قرآن کا اتباع کیا جو ان پر نازل کیا گیا، یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں)
مذکورہ آیت میں سب سے اہم اور پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے، یہود و نصاریٰ کے لئے بھی اتباع رسولؐ کی شرط لگا دی گئی ہے، اس لئے اب کوئی یہودی اور نصرانی بھی قیامت تک محمدﷺ کی اتباع کئے بغیر اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں ہو سکتا، اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جس طرح قرآن مجید اتباع رسولؐ کی دعوت دیتا ہے اسی طرح توریت اور انجیل بھی اتباع رسولؐ کی دعوت دیتی ہیں۔ اس لحاظ سے جو لوگ توریت اور انجیل کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن پھر بھی محمدﷺ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی آپؐ کی اتباع کرتے ہیں، ایک طرح سے وہ توریت اور انجیل ہی کو نہیں مانتے، لیکن افسوس ہے کہ اس وقت دنیا میں یہود و نصاریٰ دو ایسی قومیں ہیں جو توریت و انجیل کو ماننے کی دعویدار ہیں، لیکن اس کے باوجود محمدﷺ اور قرآن کو نہیں مانتیں، در اصل اس کا ایک بڑا سبب محض اندھی دشمنی اور حسد و جلن ہے۔واضح رہے کہ جس طرح توریت و انجیل میں حضرت محمدﷺ کی نبوت و رسالت کی پیشن گوئی دی گئی تھی اسی طرح ہندو مذہب کی تقریباً تمام
ہی کتابوں میں حضرت محمدﷺ کی آمد و نبوت کی پیشن گوئی دی گئی ہے۔ یہاں چند کتابوں کے حوالے دیئے جار ہے ہیں۔
(۱) رُگ و ید منتر ۳ سُکت نمبر ۳۱
(۲) بھوش پرُان، ادھیایہ نمبر۱ اشلوک ۵۲،۶۲،۷۲
(۳) اتھر و وید ادھیایہ نمبر۰۲،اشلوک نمبر۳
(۴) سنگرام پرُان، ادھیایہ نمبر۲۱،اشلوک نمبر۶
واضح رہے کہ بہت سے ہندو مذہب کے محققین، ہندو مذہب کو سناتن دھرم یا ویدِک دھرم بھی کہتے ہیں، بہرحال ہندو مذہب کو، سناتن دھرم مانا جائے، یا ویدِک دھرم مانا جائے، یا ہندو دھرم مانا جائے، اس سے محمدﷺ کی ان کتابوں میں آمد و نبوت کی پیشن گوئی کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اسی طرح گوتم بودھ کے حوالہ سے بھی بعض محققین نے لکھا ہے کہ گوتم بودھ نے بھی کہا تھا کہ میں آخری رہنما نہیں ہوں، بلکہ میرے بعد بھی ایک رہنما آئے گا، چنانچہ اس رہنما سے متعلق محمدﷺ کو مراد لیا گیا ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی نبوت سے متعلق مذکورہ تبصرہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس وقت دنیا میں جتنے مذہب ہیں، تقریباً تمام ہی مذاہب میں حضرات محمدﷺ کی نبوت و رسالت کا تذکرہ ہے، اب اگر دنیا کا کوئی مذہبی شخص حضرت محمدﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کرتا ہے تو گویا وہ اپنے مذہب کی تعلیم کا انکار کر رہا ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ اس وقت پوری دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے، جو حق پر مبنی ہے، اس لئے کہ اس میں ایک اللہ کے معبود ہونے کی دعوت کے ساتھ، حضرت محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہونے کی دعوت بھی شامل ہے، چنانچہ اذان کے تیسرے کلمہ میں حضرت محمدﷺ کے اللہ کے رسول ہونے کی گواہی شامل ہے۔ اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو دنیا کی اسی (۰۸) فیصد آبادی کو محمدﷺ کی نبوت و رسالت پر جمع کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ایک اندازہ کے مطابق دنیا کی تقریباً اسی(۰۸) فیصد آبادی کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والی ہے، لیکن افسوس ہے کہ مذہب کو ماننے کے باوجود دنیا کی زیادہ تر آبادی قرآن اور محمدﷺ کی نبوت کی منکر ہے، جب کہ اس وقت پوری دنیا میں مذہبی لحاظ سے کامل و مکمل، محفوظ و مستند کتاب صرف قرآن ہے، اور کامل و مکمل اور محفوظ و مستند شخصیت صرف محمدﷺ ہیں واضح رہے کہ دین اسلام عام مذاہب کی طرح کوئی مذہب نہیں ہے، جس میں صرف چند عقائد اور رسومات کی رہنمائی ہوتی ہے، بلکہ دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی کا نام ہے، جس میں کچھ عقائد بھی ہیں، کچھ عبادات بھی ہیں، لیکن اس کے ساتھ نظام زندگی کے جتنے شعبے ہیں ان تمام شعبوں میں اسلام کی رہنمائی ہے چاہے،تجارت ہو، چاہے معاملات ہوں، چاہے سیاست ہو، انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام معروف کا حکم دیتا
ہے اور منکر سے روکتا ہے، مگر معروف و منکر کے متعلق بھی اسلام، اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ کو ہی معیار مانتا ہے، مطلب یہ کہ معروف وہی ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو، اور منکر وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو۔