کالم : بزمِ درویش
بندہ نواز
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
میرے پاس پچھلے ایک گھنٹے سے وطن عزیز کا ارب پتی شخص مہنگائی اور غربت کا رونا رورہا تھا کہ جب سے موجودہ گورنمنٹ آئی ہے کاروبارتباہ و برباد ہو گیا ہے‘ خر چے پورے نہیں ہو رہے‘ بچوں کی فیس دینے میں مشکل آرہی ہے بجلی اور گیس کے بلوں نے جان ہلکان کر کے رکھ دی ہے‘ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ میں اپنا سالانہ چیک اپ بھی نہ کر ا سکا‘
ہر سال دنیا کے کسی ملک کی سیر کو نکلتا تھا اِس سال وہ بھی نہیں گیا۔ سر مہنگائی کا منہ زور جن بو تل سے باہر آگیا ہے اگر مہنگائی کی موجودہ لہر نہ تھمی تو فیکٹریوں کی چمنیاں دھواں اگلنا بند کر دیں گی‘ ہزاروں مزدوروں کے چولہے ٹھنڈے پر جائیں گے‘ پروفیسر صاحب دعا کر یں میرے مالی حالات ٹھیک ہو جائیں اب تو اِس مہنگائی کے سونامی کی وجہ سے اچھا کھانا پینا اور اچھے کپڑے پہننا مشکل ہو گئے ہیں‘ زندگی چکی کے دو پاٹوں میں آگئی ہے امیر کبیر صنعت کارمسلسل آہ و بکا میں لگا ہوا تھا میں اُس کی کروڑوں کی گاڑی مہنگی گھڑی شاندار لباس جوتے دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ اُس کے پاس ضروریات زندگی کی تما م نعمتیں ضرورت سے زیادہ تھیں بلکہ اِس کے آنے والی نسلوں کے لیے بھی یہ اتنی زیادہ جائیداد اور دولت کے ذخائر اکٹھے کر گیا تھا کہ کئی عشروں کے لیے کافی تھے۔ لیکن پھر بھی اِس کی گریہ زاری جاری تھی اِس کے اندر باہر مایوسی کا حشر برپا تھا جب کہ سچ تو یہ تھا جو اِس کے فنانس مینیجر نے مجھے اِس کی غیر موجودگی میں بتا یا تھا کہ موجودہ گورنمنٹ کی تاجر کش بزنس کش غیر صحت مندانہ پالیسیوں کی وجہ سے صاحب کا منافع کچھ کم ہوا تھا پہلے تو صاحب بہادر مہینے کے دس سے بارہ کروڑ کماتے تھے اب آٹھ سے نو کروڑ پر آگیا تھا یعنی اب بھی کاروبار نقصان میں نہیں جارہا تھا بلکہ صرف منافع دوسے تین کروڑ کم ہوا تھا اِسی کمی پر صاحب بہادر روتے بلبلاتے پھر رہے تھے میڈیکل چیک اپ کا رونا جو رو رہے تھے اُس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عام سا ٹیسٹ بھی سنگا پور امریکہ یا جرمنی سے کراتے ہیں اور علاج بھی باہر کے ممالک سے ہی کراتے ہیں یا پھر غیر ملکی ڈاکٹر پاکستان آکر اِن کا علاج کر تے ہیں اِس عیاشی پر کروڑوں روپے خر چ ہو تے ہیں اور جو یہ بچوں کی فیس کا واویلا مچا رہے تھے اُس کی حقیقت یہ ہے کہ بچے امریکہ یورپ کی مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں وہاں پر بچوں کو مکان اور نوکروں کا انتظام کیا ہے اِسطرح ہر بچے پر سالانہ کروڑوں خرچ ہوتے ہیں کپڑوں کی جو یہ شکایت کر رہے ہیں یہ فرانس کے مہنگے ترین فیشن ڈیزائنروں سے سلواتے ہیں اِسطرح لاکھوں روپے اِس عیاشی کے لیے درکار ہیں غیر ملکی ٹور کی جوبات کر ہے تھے دنیا کی مہنگی ترین فضائی کمپنیوں میں بزنس کلاس میں سفر کر تے ہیں مہنگے ترین ہو ٹلوں میں قیام شاپنگ کر تے ہیں نخرے پالے ہوئے ہیں خود کو اعلیٰ کلاس کا طبقہ سمجھتے ہیں اپنی پرآسائش زندگی پر کروڑوں خرچ کر تے ہیں مزدوروں کی تنخواہ میں چند سو کا اضافہ اِن کے لیے کے ٹو پہاڑ کے برابر ہو تا ہے یہ اور ایسے اور ارب پتی جب بھی میرے پاس آکر مہنگائی اور پیسوں کی طلب کا رونا روتے ہیں تو حیرت ہو ئی ہے وطن عزیز کے اُن کروڑوں محنت کشوں غریبوں پر جو چند ہزار کی کمائی پر اللہ کا شکر ادا کر تے ہیں اِس غریب مفلس ارب پتی کے جانے کے بعد میرے پاس مطمئن رکشہ ڈرائیور آتا ہے جو اکثر گزرتے ہو ئے آتا ہے سلام کر کے دوچار اچھی باتیں کر نے کے بعد چلا جاتا ہے یہ جب بھی آتا ہے تو میں پوچھتا ہوں رفیق اور سناؤ بچوں کا کیا حال ہے روزی روٹی کیسی چل رہی کمائی کیسی جارہی حالات زندگی کیسے ہیں تو وہ ہمیشہ کی طرح آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر ایک ہی بات کر تا ہے او نیلی چھتری کے رنگ چڑھے ہو ئے ہیں اُس کا کرم خاص ہے بچے صحت مند ہیں سرکاری سکول میں پڑھ رہے ہیں میرے جسمانی اعضا صحت مند ہیں میں مزدوری کر رہا ہوں کچھ کم لیتا ہوں دو کمیٹیاں بھی ڈالی ہو ئی ہیں سوہنے رب کے کرم ہی کرم ہیں مو لا اِسی طرح مہربان رہے کو ئی آزمائش نہ آئے میں سوہنے رب پر بہت راضی ہوں پھر یہ رکشہ ڈرائیور چہرے پر اطمینان تشکر کی مسکراہٹ سجائے رخصت ہو جاتا ہے ایک طرف مفلس ارب پتی ہے جو کروڑوں مہینے کمانے اور اربوں کی جائیداد کے باوجود اطمینان قلب اور تشکر کی دولت سے محروم ہے دوسری طرف مزدور محنت کش جو سارا دن سڑکوں پر مزدوری کر تا ہے اللہ تعالی کی موجودہ نعمتوں پر تشکر کے رنگ میں ڈھلا ہو ا ہے تو فرق کیا ہے ایک موجودہ نعمتوں پر اللہ کا شاکر دوسرا کچھ چیزیں نہ ہو نے پر کربلا مچا کر بیٹھا ہو اہے فرق یہ ہے کہ امیر لوگ خدا کو بھول جاتے ہیں جبکہ غریب دن رات خدا پر بھروسہ کر کے زندگی گزارتے ہیں امیر لوگ بھول جاتے ہیں کہ خدا کائنات بنا کر الگ نہیں بیٹھ گیا بلکہ اِس کی حفاظت اور رکھوالی پر آج بھی لگا ہوا ہے وہ حی و قیوم زندہ ظاہر و باطن ہے دنیا اونگھتی اور سوتی ہے وہ ہمیشہ جاگتا ہے تاکہ گردشِ کائنات میں خلل نہ آئے دنیاکے حکمران لاکھ غافل ہو جائیں حق تعالیٰ کبھی غافل نہیں ہوتا زمینی فرعون اور بندے چاہے خود فراموش خدا فراموش ہو جائیں لیکن تمام خداؤں کا خدا اپنی آغوش ہمیشہ کشادہ رکھتا ہے پتہ نہیں کب کوئی پناہ کی تلاش میں آنکلے انسان اپنے گھروں کے دروازے بند رکھتے ہیں لیکن مالک خدا اپنا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتا ہے پتہ نہیں کس وقت کو ئی آکر دروازے پر دستک دے دے زمینی حکمران گہری نیند کے مزے لیتے ہیں مگر وہ نیند کا ہلکا سا جھولا بھی نہیں لیتا کیا جانے کوئی رات کے آخری پہر ہی دامن مراد پھیلا دے‘ ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دے غافل انسان دعا کا طریقہ بھول جاتا ہے مگر آسمانوں کے اوپر مہربان رب عطا کا لنگر خانہ کبھی بند نہیں کرتا بندے بار بار آنے پر طعنہ زنی کی گو لا باری شروع کر دیتے ہیں لیکن خدائے لازوال اپنی شان بندہ نوازی کو قائم ہی رکھتا ہے بڑے سے بڑا گناہ گار سیاہ کار جب بھی تو بہ کے لیے اپنی جبیں خدا کے حضور جھکاتا ہے تو کریم رب اُس کی سیاہ کار پیشانی پر ابھرنے والے ندامت کے قطرے مو تی سمجھ کر چن لیتی ہے زمین پر خدا کی محبت و شفقت کا نور ہمیں ماں باپ میں نظر آتا ہے لیکن یہ تو سب کچھ کریم رب کعبہ کی ربوبیت کا ہلکا سا عکس ہے جو ماں باپ کی شکل میں جھلکتا ہے اور ماں باپ سے محبت و شفقت کے جو چشمے پھوٹتے ہیں یہ بھی رب کائنات کی وجہ سے ہی ورنہ دل کو پارہ سنگ اور خون کو سفید ہو تے ہیں کو نسی دیر لگتی ہے اللہ کی موجود نعمتوں کا اگر ہم حساب لگانا شروع کر یں تو یقین مانئے ہزار بار جنم لینے کے بعد بھی اُس کی ایک نعمت کا شکر ادا نہیں کر سکتے آجکل ہر انسان شکوے کی کتاب کھولے نظر آتا ہے لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالی کے موجود انعامات اتنے ہیں کہ آپ تصور نہیں کر سکتے پانی کا پینا غذا کا کھانا خوراک کی نالی سے خوراک کا گزرنا اور پھر غذا کا ہضم ہو نا پھر واش روم جا کر نظام اخراج کا فضلے کو باہر نکالنا سونا جاگنا سانس لینا اندرونی نظاموں کاکا میابی سے چلنا صرف اور صرف رب کائنات کا کرم اور شکر ہے آپ تصور کریں اگر کوئی ایک بھی نظام حرکت چھوڑ دے یا سستی کا مظاہرہ کر ے تو ہم کس عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں قدم اٹھا نا بیٹھنا کھڑے ہو نا پیدل چلنا دوڑنا جسمانی اعضا کو حرکت دینا سب کچھ کریم آقا ﷺ کی بندہ نوازی ہی تو ہے اور جب گناہ گار اُس کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنی آغوش اور بھی کشادہ کر دیتا ہے کہ آسماجا۔ شیخ صفوری نے کیا خوب لکھا ہے کہ ایک صنم پرست کو کوئی مشکل آن پڑی تو وہ اپنے بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر بیٹھ گیا اور یا صنم یا صنم کا وظیفہ کرنے لگا مگر خود انسان کے تراشیدہ بت نے کیا بولنا تھا لیکن بت پرست پھر بھی صنم صنم کی آواز بلند کر تا رہا پکارتے پکارتے اچانک یا صنم صنم کی جگہ دو چار مرتبہ یا محمد محمد ﷺ نکل گیا تو جوش رحمت کو جوش آیااور حق تعالیٰ نے فرمایا جی میرے بندے کیا مسئلہ ہے کیا چاہتے ہو میں حاضر ہوں تو فرشتوں نے اعتراض کیا اے مالک وہ تجھے نہیں اپنے بت کو پکاررہا ہے تھا بے خیالی میں تیرا نام لے دیا تو دیا تو کریم رب پاک نے کیا خوب فرمایا وہ سالوں سے بت کو پکاررہا تھا مگر جواب نہ ملا اب بھول کر ہی مجھے بلایا اب اگر میں بھی جواب نہ دو تو پھر صنم اوربت میں کیا فرق رہ جاتا ہے ہم وقتی مشکلات میں یہ بھول جاتے ہیں کہ حق تعالیٰ بے نیاز ہی نہیں بہت بندہ نواز بھی ہے۔