” رنبیر “ کی ادبی خدمات
محمد یوسف شاشیؔ
Mobile no.8130198952
جموں و کشمیر کی صحافت کا سفر انیسویں صدی کے نصف کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس سفر کے دوران کشمیر میں درجنوں نامور صحافی پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی بے باک تحریر کو عوام کے پیش نظر کیا۔ ریاست جموں و کشمیر انیسویں صدی میں وجود میں آئے۔
اس کے جموں حصّے کا قیام 1820 ء میں ہوا۔ اور اس میں کشمیر۔لداخ۔و گلگت۔ کا شمول 1846 ء میں ہوا پہلا چھاپہ خانہ 1858 ء میں ڈوگرہ حکومت کے زیر اہتمام قائم ہوا۔ یہ پریس جس میں فارسی اور دیوناگری حروف میں طباعت کا انتظام تھا۔ ریاست کی موجودہ سرماء راجدھانی جموں میں تھا۔ یہاں فارسی اور سنسکرت کے علاوہ اردو میں بھی کچھ سرکاری فارم اور دستاویزات چھپتے تھے۔
اب تک ریاست کے علاوہ باقی ہندوستان میں کئی سرکاری اور غیر سرکاری مطابع قائم ہو چکے تھے۔ اور ملک کے کئی حصوں سے اردو اخبار بھی چھپ رہے تھے۔ لیکن ریاست جموں و کشمیر ابھی تک اس باب میں نہایت ہی سست رفتاری سی چل رہی تھی تھی۔ اور یہاں تک کہ ریاست کے دوسرے حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ زیب سلطنت بنے، اور علوم و فنون کو بھی ترقی کی راہ نصیب ہوئی۔مہاراجہ نے ایک چھاپہ خانہ قائم کیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ ریاست میں علمی فضائیں قائم کرنے کی تد بیریں کیں۔ انہوں نے مقامی اہل قلم کی ہمت افزائی کی،اور ساتھ ہی ساتھ دور دور سے ادیبوں اور قلم کاروں کو بلا کر ریاست میں علمی اور ادبی کاموں پر مامور کیا۔
1846 ء میں مہاراجہ رنبیر سنگھ کے والد مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں عمل داری کے مختلف حصے ایک واحد انتظامیہ میں متحد ہو گئے تھے۔ جس سے یہ سرزمین بہتر ریاست بن گئی۔اس کے حصہ جموں کی مادری زبانوں میں ڈوگری۔گوجری۔چھبالی۔ لہندا۔پہاڑی۔پنجابی اور کشمیری شامل تھیں۔ حصہ کشمیر کی مادری زبانوں میں کشمیری اور س کی مختلف بولیاں تھیں۔ اور حصہ لدّاخ میں لدّاخی، اور اس کی مختلف بولیاں تھیں۔ اس سب کے بر عکس ڈوگرہ حکومت نے اپنی پیش رو روایت سے کام لیتے ہوئے سرکاری اور عدالتی سطح پر فارسی زبان رائج کی تھی لیکن اس کا استعمال اعلیٰ سطح تک ہی محدود تھاریاست میں چھاپہ خانوں کا آغاز بہت پہلے 1858 ء میں ہو چکا تھا۔ ریاست کا سب سے پہلا پریس”احمدی پریس“تھا جس کے کئی سال بعد”وکرم ولاس پریس“ کے نام سے ایک سرکاری پریس لگایا تھا۔جس نے شروع شروع میں اردو زبان کی ترویج میں مدد کی تھی لیکن اس زمانے میں کوئی اخبار شائع نہیں ہو سکا تھا
ڈوگرہ گزٹ۔
ڈوگرہ سبھا۔ جموں 1903 جس کے صدر جناب جیوتشی بشیشر پرشاد تھے۔ انہوں نے”ڈوگرہ گزٹ“ نام سے ایک اخبار جاری کیا تھا۔ جس کے اڈیٹر لالہ ہنس راج تھے۔دھرم در پن کے نام سے ایک پندرہ روزہ جرنل 1873 ء میں مہا راجہ رنبیر سنگھ کے محکمہ تعلیم نے جاری کیا۔ جو کہ 16 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس میں بھی بدیا بلاس کی طرح دو زبانیں تھیں۔ اردو اور ہندی۔اس کا مقصد عوام کو سرکاری اطلاعات بہم پہونچانا تھا۔اس کے بعد 1884 ء ایک سرکاری آفیسر نے سری نگر سے جموں گزٹ کے نام سے ایک جریدہ نکالا۔ اسے بھی سرکاری گزٹ کا ہی درجہ حاصل تھا۔
خیر خواہِ کشمیر۔ پنڈت سالگ رام کول نے لاہور سے 1884 ء میں ہفت روزہ ”خیر خواہ کشمیر“ نکالا۔ اس کی ضخامت آٹھ صفحات پر مشتمل تھی۔پنجہ فولاد۔ یہ فوق صاحب کا ایک اخبار تھا جو 1901 ء سے نکلنا شروع ہوا تھا۔جو شروع میں پندرہ روزہ تھا جو کہ بعد میں ہفتہ وار ہوگیا۔کشمیری میگزین۔فوق صاحب نے 1906 ء میں ایک مہانہ رسالہ ”کشمیری میگزین“ نکالا جس کے اعلانیہ مقاصد میں ہفت روزہ کشمیر۔ ہفت روزہ کشمیر جدید 1932 ء میں جاری کیا فوق صاحب جن کی پیرائش 1877 ء میں پنجاب میں ہوئے۔وہ بیک وقت صحافی۔ادیب۔شاعر اور مورّخ تھے”مہاجن نیتی پتریکا“۔ ریاست میں 1911 ء ”مہاجن نیتی پتریکا“ اور ”ڈوگرہ گزٹ“ کے ناموں سے دو رسالے نکالے۔جن میں 1916 ء کے آس پاس ”ڈوگرہ اردو گزٹ“ کا اردو اڈیشن بھی نکلا۔ان میں سے ”مہاجن نیتی پتریکا“ مہاجن صدر سبھا کا مستند ترجمان تھا۔ جو حکومت نواز تھا۔کشمیر درپن۔ پنڈت تیج بہادر سپرو جو کہ 1876 ء میں بجنور میں پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے اِلہ باد سے 1903 ء میں ”کشمیر درپن“ نکالا جو کہ کشمیری برادری کا آرگن تھا۔ اس میں علمی۔اخلاقی۔ اور تاریخی۔مضامین کے علاوہ کشمیری پنڈتوں کی ترقی و فاح و بہبود کی کوشش کی جاتی تھی
بیسویں صدی کی دوسری دہائی تک ریاست جموں و کشمیر میں کسی ِنجی اخبار کے اجراء کی اجازت ملنا محال تھی،پھر جموں کے ایک نو جوان نے ریاست کے اندر ایک اخبار نکالنے کا عزم کیا۔ اس نو جوان کے ذہن کی ابتداء پرورش لاہور کے دو اخباروں ”راجپوت گزٹ“ ”اخبارعام“ جلیاں والہ باغ کے سانح کے قومی ردِّ ِعمل اور مہاتما گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک سے ہوئی تھی۔
اس نوجوان جس کا نام ملک راج صراف تھا۔ولادت اپریل 1894 ء کو جموں کی تحصیل سانبہ میں ایک تاجر ؎خاندان میں ہوئی۔دو ہی سال کے تھے کہ باپ کا سائیہ سر سے ا ٹھ گیا۔گھرمیں غربت تھی لیہذا اسکول کی تعلیم دیر سے شروع ہوئی پڑھنا لکھنا سیکھتے ہی صحافی بننے کا خواب دیکھا۔ 1919 میں جموں کے ایک کالج سے بی۔ اے کیا۔بیچ بیچ میں اپنی روزی کے واسطے یہاں وہاں ملازمت بھی کرتے رہے۔1920 ء میں لاہور کے ایک کالج میں ایل۔ ایل۔ بی کے لئے داخلہ لیا۔ لیکن اسی زمانے میں لالہ لاجپت رائے نے اپنا روز نامہ جاری کیا۔ تو قانون کی تعلیم پیچ میں چھوڑ کر ”بندے ماترم“ میں سب اڈیٹر تعینات ہو گئے۔ لاہور میں اخباروں کی بہار دیکھ کر اپنی ریاست سے اپنا اخبار نکالنے کی دھن سر پر سوار ہوئے۔ 1921 ء میں لاہور چھوڑ کر واپس جموں آگئے۔ اوراسی سال اپنا اخبار نکالنے اور چھاپہ خانہ لگانے کے لئے درخواست داخل کردی۔ مہا راجہ نے جو اس کی اجازت دینے کا واحد مختار تھا جو ریاست می صحافت کا نام تک سننے کا روادار نہیں تھا۔ عرضی نا گوار گزری تو فوراً نا منظور کر دیا۔ ملک راج صراف نے ہمت نہیں ہاری اور زائد از تین سال تک اجازت حاصل کرنے کے لئے جدو جہد کرتا رہا۔ بال آخر اس کی چوتھی درخواست منظور ہو گئے۔ اور 24 جون 1924 ء سے اس کے ہفت روزہ ”رنبیر“ کی اشاعت شروع ہو گئے۔ انہوں نے صداقت کے فروغ کو ”رنبیر“ کا نصب العین بنایا اور اوّلین شمارے میں ہی صداقت کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا۔
”برادران وطن یہ بات مخفی نہیں کہ عرصہ مدیر سے اجرا ئے اخبار حدود ریاست کے لئے کس قدر سعی بلیغ ہو رہی تھی۔ اور چند احباب کی دلی عقیدت کی وجہ سے با وجود ہزار رکاوٹیں حائل ہونے کے آخر اپنے مقصد میں قوت ارادی و تائید ایزدی سے میدان جیت کراسم با مسمّیٰ بن کر قام و ملک کے شیدائیوں کے حضور اپنے آپ ک ملک کا خادم تصور کر کے پیش ہوتا ہے۔
اس اخبار کا نام گونگا عامہ میں والئی ملک،سری سرکار والا مدار جی،مہاراجہ صاحب، بہادر مہاراجہ، رنبیر سنگھ صاحب،سر گباشی،کی کی یاد گار کو قائم رکھنے کامقصدظاہر کرتا ہے مگر یہ حروف ”رنبیر“ بڑا پر معنی ہے اس نام کے لغوی معنی بلوان۔ جیتنے والا بہادر یعنی ضرور جیتنے والا فطرتاً کامیاب ہونے والا غالب آ جانے والا اب یہ ظاہر کرنا چاہتا ہوں کہ دنیاں میں انسان دو طرح سے جیت سکتا ہے۔ ایک آتمک شکستی سے یعنی روحانی طاقت سے دوسرا شاریرک بَل یعنی جسمانی طاقت سے مگر سب سے زیادہ مظبوط اور ابدی فتح روحانی طاقت کی فتح ہے جس کے بعد کوئی دیگر طاقت ہر گز نہیں جیت سکتی اب سْنیے اور زراغور کے ساتھ توجہ مبذول کیجئے کہ روحانی طاقت۔ صداقت یعنی سچائی پرانحصار رکھتی ہے“۔ (ہفتہ وار رنبیر جلد نمبر ۱۔۴۲ جون ۱۹۲۴ ء جموں یونیورسٹی۔لائبریری۔ بشمولہ۔اردو صحافت کا سفر۔ گربچن چندن ص۔۲۳۸۔)
یہ وہ زمانہ تھا جب ریاست کی عوام کا شعور اتنا بالیدہ نہیں تھا۔اورعوام و خواص میں صحافت اور اس کی صداقت کا کوئی مدّاح یا ثنا خواں نیں تھا۔ ان کے پاس اخبار کی ہر سطر کے لئے صرف ترچھی نظر تھی۔عوام میں اخبار پڑھنے کا زیادہ شوق اور مطبوعہ مواد کی صداقت کے دفاع کا کھلا حوصلہ نہیں تھا۔خبریں فراہم کرنے اور بھیجنے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں تھا۔اور ریست کے اندر صحافیوں اور مانہ نگاروں کی سخت قلّت تھی۔اس زمانے میں ”رنبیر“ ایک با شعور اور تعمیر پسندصحافت کے معمار کی حیثیت سے اْبھرا۔ اس کی داستان میں ریاست کی جدید اردو صحافت کے ارتقا اور افزائش کی روداد مضمر ہے۔اس کی سر گرمیں اور پہل کاریوں کے کئی پہلو تھے۔ اس نے بیرونِ کشمیر اور بالخصوص پڑوسی ریاست پنجاب سے شروع کئے یجانے والے بعض کشمیریوں اور ان کے حواریوں کے اخباروں کے قدرے فرقہ پسندانہ رجحانات سے پہلو بچاتے ہوئے ریاست میں ایک مشترکہ وسیع النظر صحافت کی راہ اختیار کی۔اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ ”رنبیر“ ایک قومی خبار ہوگا۔ کسی مزہب یا فرقے کی طرفداری نہیں کرے گا بلکہ ریاست کے تمام باشندوں کا بلا لحاظ۔مذہب۔ ذات یافرقہ۔ترجمان ہوگا۔ اس کے سروق کی پیشانی پر یہ شعر شائع ہوتا تھا۔
مل جل کے ترانے حبِّ وطن کے گائیں
بلبل ہیں جس چمن کے گیت اس چمن کے گائیں۔
اس نے اپنے نامہ نگاروں کا ایک خاصا اور وصیع نظام قائم کیا۔ اور ان میں ہندو اورمسلمان دونوں شامل تھے۔یہ سری نگر۔بارہ مولہ۔مظفر آباد۔بھدرواہ۔ادھم پور۔میر پور۔رنبیر سنگھ پورہ۔بمبر۔ماناور۔سانبہ۔کھتو۔کوٹلی۔ پنچھ۔ اور چنینی میں مقیم تھے۔ ان میں پنڈت پریمناتھ بزاز۔پنڈت جیا لال کول کلم۔کاشی نتھ آتمہ۔ مولوی زین العابدین چودھری محمد شفیع۔منشی غلام رسول خادم خواجہ غلام قادر بندے وغیرہ اور عملے میں ڈوگروں اور کشمیریوں کے علاوہ پنجاب کے افراد بھی شامل تھے۔ ان میں کئی افراد نے بعد میں اپنے اخبار جاری کئے۔اور اس طرح ریاست کے اندر ”رنبیر“ صحافیوں کی نئی نسل کا پہلا مدرسہِ صحافت بنا۔
اس اخبار نے فرنگی حکّام کی فرقہ وارانہ حکمتوں کے نڈرتا سے مخالفت کی اور آزادیِ صحافت اور جرات اظہار کی ایک اچھی روایت قائم کی۔
جون 1925 ء میں جب ریاست کے ملیات اور پولس کے امور انگریز وزیرمسٹربی۔ جے۔ گلانسی لاہور کے دورے پر گئے تو وہاں مقیم کشمیری مسلمانوں کے ایک وفد نے انہیں اپنی کچھ شکایات پیش کیں۔مسٹر گلانسی نے ان شکایات میں خصوصی دلچسپی دکھائی اور ریاست کا جواب حاصل کرنے سے قبل ہی وفد کے تیئں اپنی سر پرستی کا اظہار کیا۔
”رنبیر“ نے اس مقصد کو فرقہ وارانہ قرار دیا۔ اور اس پر کڑی نکتہ چینی کی۔ کہا کہ یہ فرقہ وارانہ جزبات کو بڑھکانے کی حکمت ہے کشمیر کے لوگوں کی شکایات مشترکہ ہیں انہیں ہندو یا مسلم کا جامہ نہیں پہنایا جانا چاہئے۔اس زمانے میں ایک راست کے کسی انگریز آفیسر کے خلاف ایسی تنقید ایک بڑی جرات کا اظہار تھی۔ مسٹر گلانسی نے دورے سے واپسی پر ”رنبیر“ کے خلاف سرکاری کاروائی کروائے۔ لیکن ریاست کی کونسل نے اسے بے اثر کر دیا
اسی طرح جب رنبیر نے 1930 ء میں نمک سازی کے قانون کے خلاف مہاتما گاندھی کے ستیہ گرہ کے کئی ریاست کے لوگوں کی حمایتی تحریک کی حوصلہ افزائی کی تو ریاست کے برتانوی چیف سیکریٹری،کے حکم سے اس کی اشاعت روک دی گئی۔اس پر اس کے سخّت جان اڈیٹر نے لاہور کے یکہ بعد دیگرے دو ہفت روزہ اخبار ”امر“ اور ”مشیر“ نکالے۔
ڈیڑھ سال بعد ریاست کے دیوان (وزیر اعظم) کی مداخلت پر ”رنبیر“ کا ڈکلیریشن بحال کر دیا گیا۔ اور اڈیٹر نے اسے دوبارہ جموں سے جاری کیا۔ اور 1932 ء تک سرکار نے کسی اور نئے اخبار کے اجراء کی اجازت نہیں دی۔یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے کئی ممالک میں سیاسی تحریکوں سے بیداریاور تبدیلی پیدا و رہی تھی۔ ریاست کے کچھ
سیاسی طبقے بھی والی ِریاست کے نظم و ضبط کے خلاف غصہ تھے۔چنانچہ نومبر 1933ء میں مہا راجہ ہری سنگھ نے عوام کی شکایت کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمشن قائم کیا۔جس کے چئرمین اس وقت کے حکومت ہند کے خارجہ اور سیاسی محکمے کے سربراہ بی۔ جے۔ گلانسی تھے۔اس کمیشن کی سفارشات پر مارچ 1932 ء میں جموں اینڈ کشمیر پریس اینڈ پبلیکیشنز ایکٹ نافذ ہوا۔جس کی رَو سے عوام۔کو پریس اور پلیٹ فارم کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔
ریاست کے علمی اور با شعر طبقے ایسی گنجائش کے طالب اور منتظر تھے۔چنانچی ان کی امنگیں تیز رفتاری سے رو بہ عمل آئیں۔دیکھتے ہی دیکھتے نئے اخباروں کی ایک صف آرستہ ہو گی۔ ان میں ”امر“۔”پاسبان“۔ ”چاند“۔ ”نوجوان“۔ ”صداقت“۔ ”ابرق“۔ ”ہدایت“۔ اصلاح“۔”جمہور“۔ ”جاوید“۔ ”خالد“۔ ”انکشاف“۔ ”حقیقت“۔ ”ڈوگرہ گزٹ“۔ ”وطن“۔ ”صادق“۔ ”اسلام خورشید مجاہد“۔ اور ”سچ“ شامل تھے۔
اسی ایکٹ کے نفاذ کے بعد ریاست میں اردو روزناموں کا دور شروع ہوا۔ جن کے اجرا کا آغاز سری نگر سے ہوا۔ ان میں ”وتستا“۔”مارتنڈ“۔”ہمدرد“ اور ”خدمت“ شامل تھے۔ ”وتستا“ اجرا 1932 ء وادی کا اوّلین اخبار تھا۔ دس ہی سال کے اندر یعنی 1942 ء کے آس پاس ریاست کے اخباروں اور رسالوں کی تعداد ایک سو ہو گئے۔ لیکن صحافت کی خطر ناکی کے بارے میں حکّام کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ اور 1940 ء تک ریسات میں صحافیوں کے حقوق کی حفاظت کرنے والی کوئی تنظیم بھی نہیں تھی۔ اس مرحلے پر ریاست کی سیاسی جماعتوں کی سر گرمیاں بھی تیز ہورہی تھیں۔ اور راجواڑہ ِ شاہی کی مخالفت بڑھتی جا رہی تھی۔ چنانچہ حکومت نے ایک بار پھر اخبارات پر پابندیاں لگا دیں۔ اب حالت یہ تھی کہ اگر کسی اخبار میں کسی آفیسر کے خلاف کوئی چیز چَھپ جائے تو اس کے ایڈیٹر کو بنا مقدمہ چلائے گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ اور اسے ہتھکڑی پہنا کر بازاروں میں گھمایا جاتا تھا۔
اور ساتھ ہی ساتھ حکومت نے ایک فہرست تیّار کی جس میں اخباروں کو حکام کی دانست کے مطابق ”الف“۔ ”ب“۔ اور ”ج“ کے زمروں میں بانٹا جاتا تھا۔ فہرست ”الف“ میں وہ اخبارات شامل کئیے جاتے تھے جنہیں حکومت اپنے اشتہارات دینا چاہتی تھی۔فہرست ”ب“ میں حکومت کا اشاعتی مواد پانے والوں کے نام ہوتے تھے۔اور فہرست”ج“ میں وہ معتوب اخبار ہوتے تھے جنہیں حکومت کی طرف سے کوئی اشتہار یا اشاعتی مواد نہیں دیا جاتا تھا۔ پھر ان فہرستوں کے اخبارات کو سرکاری آفیسر ہر چھ ماہ کے بعد اپنی من مانی سے ادل بدل کر دیتے تھے۔
رنبیر“ نے ان تمام بدعتوں کے خلاف احتجاجی جزبات کے اظہار کا ایک مرکز مہیّا کرنیاور صحافت کی عمومی فلاح و ترقی کے لئے آل جموں اینڈ کشمیر جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے نا سے صحافیوں کی اوّلین جماعت قائم کی ریاست کے اس وقت کے ماحول میں یہ ایک بڑا تعمیری اور انقلابی قدم تھا۔اس لئے ایک ملک راج صراف کی ایک پہل اور جانفشانی نہ صرف ریست کی صحافت بلکہ حریت پسند سیاست کے لئے بہت ساز گار ثابت ہوئے ہندوستان کی تحریک آزادی بہت تیزی سے اپنے مرحلے طے کر رہی تھی۔
دوسری عالم گیرجنگ چھڑ گئی تھی۔جس میں حکومت برتانیہ نے ہندوستان کے سیاسی لیڈروں سیضروری مشورے کئے بغیر ملک کو اپنی جنگ میں جھونگ دیا۔اس فیصلے سے تحریک آزادی کو نئی اہمیت اور نئی حرارت دے دی ہندوستان کے اخباروں نے بالخصوص اردو کے
اخباروں نے برتانوی راج کو کوتاہ اندیشی کی مزمّت کی۔ قومی تحریک آزادی کئی دیسی ریاستوں میں سرائیت کر چکی تھی۔لیکن ریاستی تحریک،ریاستوں کی اپنی تنظیم آل اینڈیا اسٹیٹس پیپلز کانفرنس،کے تحت چل رہی تھی۔ یہ تنظیم ریاستوں کے حکمرانوں کے مطعلق اپنی آواز بلند کرتی تھی۔ کشمیر میں یہ رجحانات خاصے شدید تھے جن پر رنبیر رائے زنی کرتا رہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔
کتابیات۔
محمد یوسف ٹینگ۔کشمیر میں اردو تاریخی پسِ منظر۔ ہماری زبان نئی دہلی 22جون1958 ء
امداد صابری۔ تاریخِ صحافت اردو۔ جلد سوم۔
یوسف جمیل۔ آداب صحافت اور ہمارے اخبارات۔
اردو صحافت کا سفر۔ گربچن چندن۔ ایجوکیشنل بک ہاوس دہلی۔ 2007 ء
جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشو نما۔ ڈاکٹر برج پریمی۔ دیپ پبلیکیشر سری نگر۔
کشمیرمیں اردو۔پروفیسر عبدالقادر سروری۔جے کے اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز۔ سری نگر۔ 1993