مولانا ابو الکلام آزادکی نثر نگاری :- پرشوتم سنگھ

Share
پرشوتم سنگھ

مولانا ابو الکلام آزادکی نثر نگاری

پرشوتم سنگھ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو
یونیورسٹی آف حیدرآباد

مولانا ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے اردو نثر کے حوالے سے اردو ادب پر اپنی ایک الگ حیثیت قائم کی ہے جس کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ابو الکلام آزاد نے شعرو ادب، تقریر و تحریر، انشا پردازی و مکتوب نگاری، لسانیات، لغات، اصطلاحات اور ترجمہ، صحافت اور سائنس، تاریخ و جغرافیہ ہیئت و منطق، مذہب و فلسفہ، تفسیر، حدیث و فقہ، سیاسی قیادت اور تعلیم و ثقافت وغیرہ جیسے میدان میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے ان کی تعلیم و تنظیمی خدمات کو آج بھی سارے ملک میں قدرو منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور آئندہ بھی دیکھا جائے گا۔
مولانا ابو الکلام آزاد 1888ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے دادا شیخ محمد ہادی اپنی علمیت اور غیر معمولی قوت حافظہ کی وجہ سے مشہور تھے۔ 1857ء سے پہلے جب علمائے دہلی ہندوستان کی زبوں حالی دیکھ کر ہجرت کر رہے تھے تو آزاد کے والد خیرالدین بھی اپنے نانا مولانا منور الدین کے ساتھ مکہ معظمہ چلے گئے۔ یہاں شیخ محمد طاہر دری نے اپنی بھانجی سے ان کا عقد کردیا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد مولانا ابو الکلام کی ولادت یہیں ہوئی۔ مولانا کا اصل نام ”احمد“ رکھا گیا تھا مگر ان کی کئی ناموں سے بھی پکارا جاتا تھا۔ ان کا تاریخی نام فیروز بخت، تھا اور ان کا لقب ابوالکلام اور تخلص آزادؔ تھا۔ ان کے مزاج میں بچپن سے ہی مولانا کی صفات شامل ہو گئی تھیں اس کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے خاندان میں زیادہ تر لوگ علمی و ادبی صلاحیت رکھتے تھے جس کی وجہ سے ابوالکلام آزاد نے اپنے والدین اور اپنے دادا کی خوبیوں کا گہرا اثر قبول کیا۔
وہ اپنے بچپن کے ساتھیوں سے بہت ہی الگ نظر آتے تھے۔ ان کو ہر وقت علم و ادب، تعلیم وغیرہ سے لگاؤ رہتا تھا۔ ساتھ آٹھ سال کی عمر میں انھوں نے دوسرے ساتھیوں سے اپنی ایک الگ راہ نکالی تھی حالاں کہ دیکھا جائے تو اس عمر میں ایک بچے کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں اس کے باوجود بھی انھوں نے اپنا سارا وقت علمی میدان میں صرف کیا۔ اور اگر کبھی کبھار کھیلنے بھی چلے گئے تو وہاں بھی مولانا یہی کردار ادا کرتے تھے۔ اس پیشے سے وہ بے حد خوش ہوتے تھے اورخود کو اہ ایک بڑی شخصیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ کیوں کہ انسان بڑے اور اچھے لوگوں کو نقل کرکے ہی خود میں اچھی صلاحیتیں پیدا کر سکتا ہے۔ اسی طرح کی صفات مولانا میں بچپن سے ہی پائی جاتی تھیں۔ اس بات کا اندازہ ایک اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس میں ڈاکٹر وہاب قیصر ایک جگہ ابوالکلام آزاد کے بارے میں لکھتے ہیں:
”والد کی پگڑی پہن لی، گھر کے تمام صندوقوں اور بکسوں کو الٹ کے ڈبوں کی طرح جماتے اور بہنوں سے خواہش کرتے کہ وہ فرضی لوگوں کو یہ کہتے ہوئے ہٹائیں کہ ہٹو! ہٹو! راستہ دو! دلی کے مولانا آرہے ہیں۔ پھر کسی اونچی جگہ خطاب کے لیے کھڑے ہوجاتے اور بہنوں سے کہتے کہ وہ تالیاں بجائیں اور سمجھیں ہزاروں کا مجمع ہے جو مولانا کے خطاب پر تالیاں بجا رہا ہے“۔
مولانا ابو الکلام آزاد گیارہ برس سے ہی شعر گوئی سے دلچسپی لینے لگے تھے۔ اسی زمانے میں مختلف شہروں سے شعری گلدستے نکلا کرتے تھے۔ اس میں مولانا زیادہ تر غزلیں ہی کہتے تھے ان کی پہلی غزل بمبئی سے نکلنے والے گلدستہ ”ارمغان فرخ“ میں شائع ہوئی۔ مولانا ابو الکلام زیادہ تر بچپن گھر کی چار دیواری میں گزرا تھا۔ جوانی میں بھی ان کا زیادہ تر وقت جیل خانہ میں صرف ہوا۔ اور آخر کار اردو ادب کا یہ روشن ستارہ 22فروری 1958 میں دہلی میں ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
مولانا ابو الکلام آزاد کی نثر نگاری پر اگر ہم بات کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میدان میں انھوں نے اگرچہ کم لکھا تھا مگر جتنا بھی لکھا قابلِ ذکر ہے۔ مولانا آزاد نے اپنی ادبی اور دانشورانہ زندگی کا آغاز اپنی صحافیانہ سرگرمیوں سے کیا تھا۔ اس حوالے اسے مولانا کی شخصیت کے ناگزیر اجزائے سیاست، سماجی سوجھ بوجھ اور مذہب کے عناصر شامل تھے۔ ان کی نثر نگاری میں بہت سے اہم کارنامے ہیں جن کو اردو نثر کی تاریخ میں نظر انداز کیا جائے تو ایک کمی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
ان کی نثر نگاری میں سب سے زیادہ اہم ان کے رسالے”الہلال“ و ”البلاغ“ تھے جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے تھے۔ مولانا آزاد کی ذہنی قوتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ ”لسان الصدق“ شائع کیا تھا۔ اس جریدہ کی تعریف اردو دنیا کے بڑے بڑے قلم کاروں نے کی تھی اور یہاں تک کہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے بھی اس جریدہ کو سراہا تھا۔ اس کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک نئی پہچان اردو زبان و ادب میں ہونے لگی۔
1914ء میں مولانا آزاد نے اخبار ”الہلال“ شائع کیا یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ اس اخبار کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر کھری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایاسنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ اس کے دوسال بعد مولانا آزاد نے ”البلاغ“ شائع کیا تھا۔ ان دونوں اخباروں کی وجہ سے ابوالکلام آزاد کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے مزاج کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ بیک وقت عمدہ انشاپرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔
صحافت کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت میں شروع ہونے والے ادبی سفر کے مختلف مراحل، تذکرہ، تفسیر، انشائیہ نما مکاتیب تھے۔ ادبی اور اسلوبی نقطہئ نظر سے مولانا آزاد کا پہلا دور لسان الصدق، الوکیل، الہلال، البلاغ سے ہوتا ہوا تذکرہ پر ختم ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت کے حوالے سے ”تذکرہ“ ہی ان کی وہ تصنیف ہے جس میں ان کے سب سے زیادہ علمی و ادبی اور تخلیقی اسلوب نگارش کے دور کی شروعات کی نشاندہی بھی کی جا سکتی ہے۔ جب الہلال پہلی بار کلکتہ سے شائع ہوا تو ایک زلزلہ سا اردو صحافت پر برپا ہوا کیوں کہ یہ وہ دور تھا کہ جب صحافت میں کوئی بھی ایسی بات نہیں پیش کی جاتی تھی جس میں حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہو جائے۔ الہلال کے شائع ہونے کے فوراً بعد تمام ملک کی نظریں بے اختیار اس کی جانب اٹھ گئیں۔ ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگے۔ اب تک اس طرح کا کوئی بھی کارنامہ سامنے نہیں آرہا تھا تاہم مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی جان پر کھیل کر اس کا م کو بڑی ہنر مندی سے انجام دیا۔ اس حوالے سے فضل الدین احمد رقم طراز ہیں:
”یہ حالت تھی کہ یکایک کلکتہ سے ”الہلال“ نکلا اور اس شان سے نکلا کہ تمام ملک کی نظریں بے اختیار اس کی جانب اٹھ گئیں۔ اس کی ہر بات انقلاب انگیز اور ہر بات نئی ظاہری شکل و صورت بھی نئی اور باطنی محاسن بھی نئے۔ ابھی دو چار نمبر ہی نکلے تھے کہ عام و خاص ادنیٰ واعلیٰ سب کی زبانوں پر اسی کا نام تھا، اور ہر گروہ اور ہر طبقہ کے لوگوں نے اس کے سوا سب کو بھلا دیا تھا“۔
(بحوالہ: ”تذکرہ“ ص، 12)
تذکرہ کی تاریخی اور کسی حد تک صحافیانہ انداز تحریر مولانا کی اس موثر نثر کا نقطہئ عروج ہے جو لسان الصدق سے لے کر الہلال تک عربی اور فارسی کے الفاظ و تراکیب جا بجا شمولیت، بلند آہنگی اور مرعوب کن ہیئت و جلال کے باعث اس ناہمواری، غرابت اور اجنبیت کا بھی بہت کم احساس ہونے دیتی ہے۔ جو ان کی ابتدائی نثر میں خاص نمایاں ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی تحریروں میں بہت سے خصوصیت ملتی ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کی جدو جہد آزادی کی تعلیم و تربیت اور مذہبی کاموں میں اہم کارنامے انجام دیے۔ ان کی تحریروں کی یہ تمام خصوصیات اپنی عصری معنویت رکھنے کے باوجود ترجمان القرآن اور غبار خاطر کی نثر کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتی۔ ترجمان القرآن اور غبار خاطر نہ صرف ان کی بہترین نثری تصانیف میں بلند درجہ رکھتی ہیں بلکہ اردو نثر کے حوالے سے ایک بلند مقام حاصل ہے۔ ”غبار خاطر“ میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے تین سال کی جیل میں گزری ہوئی زندگی کو خطوط کے ذرئعے پیش کیا ہے۔ ان تین سالوں کے دوران ان کے ساتھ جو بھی واقعات پیش آئے انھوں نے ان کو اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس حوالے سے مالک رام کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”اس وقت دوسری عالمی جنگ اپنے پورے شباب پر تھی، انگریز بھلا ایسی قرار داد اور ایسی تحریک سے کیوں کہ صرف نظر کر سکتا تھا! اخباروں میں اس طرح کی افواہیں پہلے سے چھپ اپنی تھیں کہ کانگریس اس مفاد کی قرار داد منظور کرنے والی ہے۔ اس لیے حکومت نے حفظ ما تقدم کے طور پر سب انتظام کر رکھے تھے۔ اس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ 8اگست کی شب کو دیر تک یہ جلسہ ہوتا رہا جس میں یہ قرار دار منظور کی گئی تھی۔ اسی رات کے آخری حصے میں یعنی 9اگست کو علی الصبح حکومت وقت نے تمام سیر کردہ رہنماؤں کو سوتے میں بستروں سے اٹھا کر حراست میں لے لیا گیا اور ملک کے مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا۔ مولانا آزاد ان کے بعض دوسرے رفقا احمد نگر قلعے میں رکھے گئے تھے۔ مولانا آزاد کا یہ سلسلہ قید و بند کوئی تین برس تک رہا۔ اولاً اپریل 1945میں وہ احمد نگر سے بانکوڑا جیل میں منتقل کر دیے گئے۔ اور یہیں سے بالآخر 15جون 1945کو رہا ہوئے اسی نظر بندی کے زمانے کا ثمرہ یہ کتاب ”غبار خاطر“ ہے۔ غبار خاطر مولانا آزاد مرحوم کی سب سے آخری تصنیف ہے۔ جو ان کی زندگی میں شائع ہوئی۔ کہنے کو تو یہ خطوط کا مجموعہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو ایک کو چھوڑ کر ان میں سے مکتوب کی صفت کسی میں نہیں پائی جاتی۔ یہ در اصل چند متفرق مضامین ہیں۔ جنھیں خطوط کی شکل دے دی گئی ہے“۔
(بحوالہ: ”غبار خاطر“ ص، 7۔ 8)
اس مذکورہ بالا اقتباس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا آزاد جیل میں رہنے کے باوجود ان کے اندر قوم کی محبت کے علاوہ بہت سی صفات پائی جاتی تھیں۔ اسی طرح سے تذکرہ کی نثر مولانا ابوالکلام آزاد کے ادبی سفر میں ایک نیا موڑ کھڑا کر دیتی ہے۔ اس تصنیف میں انھوں نے اپنے بزرگوں اور ان کے متعلقین کے حوالے و کوائف بیان کرتے ہوئے انھوں نے ”خود نوشت سوانح“ کا رنگ اختیار کیا۔ اس وجہ سے ان کی خود نوشت سوانح”تذکرہ“ نثر کے حوالے سے ایک اہم کارنامہ بن جاتا ہے، اسی طرح سے انھوں نے ترجمان القرآن میں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے بہترین کارنامے انجام دیئے۔ اس کتاب کے مقدمے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے تفسیر سے بحث کرنے کے بعد ایک مفسر کی حیثیت سے جہاں ذہین اور زندگی کی ناقابل عبور وادیوں کو سر کرنے کا تعليآمیز ذکر کرتے ہیں۔ اور اپنی اہلیت کا اعتراف کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا نے اس تصنیف میں الفاظ کو بڑی عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ اس سے ان کی نثر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا تھا:
”۔۔۔۔ میرے لیے وقت کی جدید راہیں بھی ایسی ہی دیکھی بھالی ہیں جس طرح قدیم راہوں میں سارے کانٹے نہ چبھ چکے ہوں اور میری روح کا کوئی اعتقاد ایسا نہیں ہے جو انکار کی ساری آزمایشوں میں سے نہ گزر چکا ہو، میں نے زہر کے گھونٹ بھی ہر جام سے پیئے ہیں۔ اور تریاق کے نسخے بھی ہر دار الشفاکے آزمائے ہیں۔ میں جب پیا سا تھا، تو میری سب تشنگیاں دوسروں کی طرح نہ تھی اور جب سیراب ہوا تو میری سیرابی کا سرچشمہ بھی شاہراہ عام پر نہ تھا“۔
(بحوالہ: ”مقدمہ، ترجمان القرآن“ ص، 19)
اسی طرح سے ایک اور جگہ پر مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا ہے جس میں انھوں نے صاف طور پر واضح کر دیا ہے کہ خدائے حقیقی کے بارے میں انسان کی جو غلط فہمیاں ہوتی ہیں انھیں انسان محبت کی جگہ خوف دہشت کی چیز بنالیتا ہے۔ اس تصنیف میں مولانا نے انسان کی اصل حقیقت کو بڑے اچھے انداز میں بیان کر دیا ہے اور ہر ان غلط فہمیوں کو مولانا آزاد نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا ایک اقتباس:
”خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی یہ رہی کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا ہے، سورہئ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گم راہی کا ازالہ کر دیا۔ اس کی ابتدا ”حمد“ کے اعتراف سے ہوتی ہے۔ ”حمد“ ثناء جمیل کو کہتے ہیں۔ یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو۔ ثناء جمیل اسی کی کی جاسکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ اس ”حمد“ کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہو سکتا جو ذات محمود ہوگی وہ خوف نالہ نہیں ہو سکتی“۔
(بحوالہ: ”ترجمان القرآن“ص، 144)
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی نثر نگاری میں علمی، ادبی، سماجی، سیاسی وغیرہ کے حوالے سے بہت ہی عمدہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ”غبار خاطر“ راقم السطور کے مطابق ان کا سب سے اہم کارنامہ ہے۔ اس میں انھوں نے بہت سی اہم باتوں کو بیا ن کیا ہے۔ جہاں انھوں نے تاج محل کے درودیوار اور گنبد و مینار کو اپنی شار نوازی اور نغمہ سرائی سے مسحور اور عالمِ وجد میں دکھانے کی کوشش کی ہے، باجہاں چڑیا چڑے کی کہانی میں ایک نو آموز طائر بچے کو قوت پرواز سے آشنا ہوتے ہوئے دکھایا ہے وہاں ان کے دل میں محبت، احساس اور جذبات وغیرہ ان کی نثر نگاری میں ایک بلند درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے کئی کارنامے ان کی نثر میں مل جاتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے تمام نثرپاروں میں حسن تعلیل، تمثیل نگاری، پر اڈوکس کااستعمال، روز مرہ الفاظ، جذبات نگاری، بصری اور سمعی پیکر اس حد تک شاکل ہوگئے ہیں کہ جگہ جگہ نثر اور شاعری کی تفریق تک مٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ جس کا ذکر ڈاکٹر محمد اسلم جامعی نے اپنے ایک مضمون” مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب نثر کا تنوع "میں بھی کیا ہے۔ ان کی نثری تصانیف کے حوالے سے اگر بات کریں تو انھوں نے تقریباًتیس سے زائد تصانیف اپنی یادگار چھوڑی ہیں۔ان تمام کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں۔
مختصراًیہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کو بحیثیت ایک صحافی کے طور پر اردو ادب میں جانا جاتا ہے بلکہ وہ ایک اچھے مولانا، معلم، نثر نگار، مترجم، مورخ وغیرہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ان کی تخلیقات کا اگر سرسری طور پر جائزا بھی لیا جائے تو بھی ایک مضمون میں ان کی شخصیت کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے اپنی قوم اور ملک کے لیے اتنے اہم کارنامے انجام دئے ہیں کہ ان کو اگر ایک، مضمون میں پیش کیا جائے تو یہ ان کی تخلیقات اور ان کی تصانیف کے لیے اچھا سلوک نہیں ہوگا۔
——
Parshotam singh
Research Scholar, Department of Urdu,
Central University of Hyderabad.
Email ID:
Mobile no: 9682392069

Share
Share
Share