افسانچے
ڈاکٹر اشفاق احمد
۱۴، اے۔ نزد مرکز اسلامی ٹیچرس کالونی،
جعفرنگر، ناگپور۔۳۱
ایک زخم اور سہی
”تم یہاں کیوں آتی ہو؟“
”تم سے ملنے……“
”لیکن روزانہ آنے کی وجہ……؟“
”میں نہیں جانتی۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ سے ملنے کے بعد ہی میرے دل کو قرار آتا ہے۔“
”سنو۔ یہ پاگلوں کی سی باتیں نہ کرو میں نے محبت سے توبہ کر لی ہے یوں بھی میرے دل میں کئی درد پل رہے ہیں۔ میرا دل زخموں سے چور ہے۔“
”میں جانتی ہوں اسی لئے اُن زخموں کو مندمل کرنے کے لئے کہہ رہی ہوں۔
ایک زخم اور سہی……!!“
٭٭٭
اپنا گریبان
سمیر اپنے گاؤں سے شہر تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آیا تھا۔ شہرکے کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے اُسے تقریباً پانچ سال کاعرصہ ہوچکا تھا،۔ ان پانچ سالوں میں وہ اسکی ہم جماعت غزالہ کی محبت میں بھی گرفتار ہوا تھا۔ اب وہ غزالہ کو کسی طرح اپنے سے دور نہیں دیکھنا چاہتا تھا، غزالہ بھی اُسے چاہنے لگی تھی۔
ایکدن جب غزالہ نے اپنی امّی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ سمیر سے ہی شادی کرنا چاہتی ہے تو اسکے والد ین آگ بگولہ ہوگئے اور انھوں نے اسکی خواہش کو ٹھکرادیا۔ والدین کے انکار کے بعد سمیر نے غزالہ کو چپ چاپ شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر اسکے ہمراہ چلنے کیلئے راضی کرلیا۔
اب سمیر اپنے کمرے میں بکھرے سامان کو سمیٹ رہا تھا انھیں آج رات ایک بجے آنے والی ٹرین سے شہر چھوڑ نا تھا۔
ابھی وہ اپنے سامان کی پیکینگ کرہی رہا تھاکہ اسکے موبائل کی میوزک بج اٹھی۔ مبائل پر اآیا فون نمبر اسکے گھر کے پڑوس کا تھا۔ اُس نے مبائل اپنے کانوں سے لگالیا۔ اسکے والد دردبھری آواز میں اس سے کہہ رہے تھے۔
”بیٹا تمہاری بہن شہر سے آئے ایک نوجوان کے ساتھ پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے تم فوراً چلے آؤ خاندان کی آبرو خطرے میں ہے۔……!!“
٭٭٭
چوری
اس دن چاندچپکے سے چھت پر اُترآیا اور روشن چراغوں کی نیند چرا کرلے گیا جبکہ کچھ لوگ اُس چھت پر تو ایسے بھی تھے جو صبح ہونے کے باوجود سورج کی تیز کرنوں کے چبھنے تک رات میں ہوئی چوری سے بے خبر گہری نیند سور ہے تھے۔
٭٭٭
لمحہ فکر یہ
وہ نو مسلم رشتہ ازدواج میں بند ھ چکا تھا میں جب مبارکباد دینے اسکے گھر پہنچا تو دیکھا اسکی بیوی جسے دین فطرت ورثت میں ملا تھا اپنے شوہر سے قرآن پڑھنا سیکھ رہی تھی۔!!
٭٭٭
دودھ کی قیمت
تارا بائی کے آتے ہی اوشا نے بتایا کہ رات سے آکاش کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لیے آج وہ زیادہ ضد کر رہا ہے۔ اُسے دوپہر میں دوائی ضرور پلانا اور اسکا پوری طرح خیال رکھنا۔ یہ کہہ کر اوشا آفس کے لیے نکل پڑی، اسکے شوہر پہلے ہی آفس کے لیے نکل چکے تھے۔ آکاش کی پیدائش کے بعد اوشا نے تارا بائی کو اسکی دیکھ بھال کے لیے رکھ لیا تھا۔ اوشا کے دفتر جانے سے قبل تارا بائی آجاتی اور جب تک وہ دفتر سے نہیں لوٹتی، تارا بائی اسکی دیکھ بھال کرتی۔
اوشانے اپنے محلہ کی گلی سے نکل کر چوراہے پرآئی تھی کہ اسکے موبائل کی میوزک بج اٹھی، فون اُسکے صاحب کاتھا۔شرما صاحب کہہ رہے تھے۔
اوشا تمھارے ہی علاقے میں میرے دوست مشراجی رہتے ہیں۔ آپ انکے گھر چلی جاؤ وہ ایک فائل دیں گے انھیں لیتی آنا۔ مشراجی کا پتہ لکھو۔
اوشا نے پتہ لکھا اوراپنی اسکوٹی کو شرماجی کے مکان کی جانب جانے والے راستے کی جانب موڑ دیا۔ مشراجی شاید اسکا انتظار ہی کررہے تھے گھر میں داخل ہوتے ہی مشراجی کی بیوی نے اُسے تھوڑی دیر بیٹھنے اور چائے پی کر جانے کے لئے اصرار کیا۔ لہذٰا اوشا کو بیٹھنا ہی پڑا۔
اُسنے سامنے رکھے تازہ اخبار کو اٹھا لیا اور سرخیاں پڑھنے لگی۔ اتنے میں مشراجی کے آنگن کے دروازے سے ایک بھکارن کی آواز سنائی دی۔
”اماں۔ بچہ بھوکا ہے۔ دودھ کے لئے پیسے نہیں ہے کچھ پیسے دے دو۔ بھگوان تمھارا بھلا کرے گا“۔
یہ آوزا سنتے ہی اوشا کے دل میں ممتا کے جذبات امڈ پڑے۔ اُس نے پرس سے دس روپئے کا نوٹ نکالا اور جیسے ہی دروازے کی دہلیز پر آئی تو یہ دیکھ کر اُسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ سامنے تارابائی کھڑی تھی اور اسکی گود میں کوئی اور نہیں دو سالہ آکاش تھا۔اسکا اپنا بیٹا۔!!
٭٭٭