کالم : بزمِ درویش – تحفے :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
تحفے

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل :
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

پچھلے دس دنوں سے وہ میرے پاس آرہا تھا آج اُس کا پانچواں چکر تھا وہ جب بھی آتا اُس کے دو ملازم اُس کے ساتھ ہو تے‘ ملازموں کے علاوہ وہ تحائف کی بارات لے کر آتا‘ مٹھائیاں پھل عطر سپرے خوشبو یات کے مہنگے برانڈ‘ وہ پیسے کو پانی کی طرح خرچ کر رہا تھا جو میرے لیے حیران کن بات تھی‘

پہلی بار آپ کسی کے پاس جائیں تو کچھ لے جائیں یا اگر ہر بار بھی آپ خالی ہاتھ نہیں جانا چاہتے ٹوکن آف احترام پیار آپ کو ئی ایک چیز لے جائیں جبکہ وہ تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارکیٹ سے بہترین اشیاء کو اکٹھا کرتاپھر لے کر میرے پاس آجاتا ایسا سلوک تو لوگ بیوروکریٹ وزراء یا کسی بااثر بندے کے پاس جاتے ہو ئے کرتے ہیں یا اگر کوئی آپ کا کام کرے آپ کی کوئی مشکل حل کرے آپ کو نوکری دلانے میں مدد کر ے تو پھر ایسا کرنا کسی حد تک بنتا ہے وہ بھی ایک بار لیکن یہ مُجھ فقیر پر نوازشات کی بارش نان سٹاپ کئے جا رہا تھا ساتھ ہر بار یہ بھی کہتا کہ مجھے آپ سے کو ئی کام نہیں یہ تحائف تو میں محبت میں لاتا ہوں اگر میں انکار کر تا تو نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ کا تذکرہ کر دیتا کہ جب بھی کسی سے ملنے جاؤ اُس کے لیے تحفہ لے کر جاؤ اور تحفے کو انکار نہیں کر نا چاہیے اِس سے باہمی اخوت و محبت کا پودا پروان چڑھتا ہے یہ شخص ملتان کا زمیندار اور فیکٹری مالک تھا مالی طور پر بہت آسودہ تھا عمر تقریبا پچاس سال کے لگ بھگ لیکن دولت کی فراوانی اور اِس کا اپنی صحت کا خیال رکھنا یہ چالیس کا جوان شخص لگتا تھا اچھے صاف ستھرے مہنگے کپڑے پہنتا ساتھ میں مہنگی گھڑی سونے کی انگوٹھیاں پاؤں میں ریشمی تاروں والے جوتے مہنگی گاڑیاں جب بھی آتا گاڑی بدل کر آتا ہر بار آکر یہی کہتا جناب تعلقات بنانا اچھے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا اولیاء اللہ کی خدمت کر نا (مُجھ گناہ گار کو ولی کہتا تھا) ولیوں کے جوتے سیدھے کر نا میری زندگی کا مقصد ہے پروفیسر صاحب کسی نے آپ کے بارے میں بتایا تو آپ کے درشن کر نے آگیا اور پہلی ہی ملاقات میں میرے دل کو خاص قسم کا سکون ملا ہے میں نے آپ کی مریدی میں آنا ہے میں نے آپ کی خدمت کر نی ہے اب وہ ہر بار مجھے مختلف قسم کی ترغیبات بھی دیتا پہلی ملاقات میں جب نئے نوٹوں کی گڈی لینے سے میں نے انکار کیا اور آئندہ کے لیے بھی سختی سے روک دیا توا ب پیسے دینے کی کو شش نہ کر تا لیکن طریقہ واردات بدل دیا کبھی مجھے کپڑے جوتے گھڑیاں پرفیومز کی آفر کرتا وہ ہر صورت میں میرے دل و دماغ میں اتر نا چاہ رہا تھا ساتھ ساتھ تو بہ کی بھی تکرار جاری تھی کہ پروفیسر صاحب مجھے آپ سے بلکل بھی کو ئی کام نہیں ہے صرف اور صرف آپ کی محبت میں آتا ہوں لیکن میں اُس کی باتوں سے مطمئن نہیں تھا میری چھٹی حس مُجھے چٹکیاں کاٹتی کہ اصل بات کُچھ ضرور ہے جس کے لیے تحائف کی بارات کے ساتھ آرہا ہے اب میں اِس انتظار میں تھا کہ یہ کب ڈرامہ بازی کا خول توڑ کر حقیقی شکل میں سامنے آتا کب اِس کا اصل روپ اور آنے کا مقصد سامنے آتا ہے آخر کار اللہ تعالی وہ دن بھی لے آیا جب اِس کا اصل چہرہ سامنے آیا ایک دن میرے مو بائل پر کسی پریشان لڑکی کے بہت سارے پیغامات آنا شروع ہو گئے کہ خدا کے لیے میری مدد کریں میں بہت زیادہ مشکل ہوں میری زندگی موت کا سوال ہے دنیا میں خدا کے بعد صرف آپ ہی میری مدد کر سکتے ہیں خدا کے لیے مُجھ سے بات کریں اِس طرح کے بے شمار پیغامات ایک نمبر سے آرہے تھے میں جیسے ہی فری ہوا اُس لڑکی سے کہا کال می اُس کا فوری فون آگیا آہوں سسکیوں میں اُس نے مُجھ سے قسمیں لیں کہ میں اُس کا ذکر کسی سے نہ کروں میں نے وعدہ کیا تو وہ بولی میں آپ کے پاس ملتان سے آنے والے جاگیرادر کی ڈسی ہوں یہ شخص شرافت کے بھیس میں چھپا بھیڑیا ہے درندہ ہے جس نے سینکڑوں معصوم پاکباز لڑکیوں کی زندگی عزت برباد کی ہے خدا کے لیے اِس کی بات نہ ماننا پھر اُس نے اپنی الم ناک داستان سنا ئی کہ میں ایک یتیم لڑکی ہوں خدا نے اچھی شکل بلکہ خوبصورت حسن سے نوازا ہے پڑھ لکھ کر میں انشورنس کمپنی میں ملازم ہو گئی کسی نے مجھے اِس شخص کا بتایا تو میں اِس کے پاس چلی گئی اِس نے فورا بڑی انشورنس دے دی‘ نیک مسیحا کا روپ دھار کر لیا تمہیں جب بھی کسی بھی کام چیز کی ضرورت ہو میرے پاس آنا پھر اِس نے میرے گھر اور یتیم بہن بھائیوں ماں پر روپے پیسے تحائف کی برسات کر دی میرے سارے گھر والے اِس کے گرویدہ ہو گئے تو اِس نے مجھے کہا میں تم سے پیار کر تا ہوں میں نے کہا آپ شادی شدہ ہیں لیکن میں بھی اِس کی لچھے دار باتوں میں آگئی لیکن چند دن بعد ہی مجھے ایک لڑکی ملی اُس نے مجھے بہت ساری اور لڑکیوں کے فون نمبر دئیے جن کو یہ مختلف وقتوں میں تحائف کی بارش کر کے اپنی ہوس پو ری کر چکا تھا اب میری نظر سے بھی پیار کا بخار اترا تو میں نے اس آدمی کی کھوج لگانی شروع کر دی تو چند دن کے بعد ہی اِس کا اصل روپ اور کالے کرتوت سامنے آگئے سر یہ اسکا طریقہ واردات ہے یہ کئی شادیاں کر کے چھوڑ چکا ہے بار بار شادیاں ناکام ہو نی کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ زنا اور عیاشی سے باز نہیں آرہا کسی عورت کو پانے کے لیے پہلے یہ پیار محبت کا ڈھونگ رچاتا ہے کوئی جال میں پھنس جائے تو ٹھیک ورنہ شادی کی آفر کر دیتا ہے پھر شادی کے بعد جب دل بھر جائے تو طلاق دے کر فارغ کر دیتا ہے یہ انسانی چالاک عیار انسان ہے اپنے ٹارگٹ کو حاصل کر نے کے لیے یہ مختلف طریقے انتہائی مہارت اور چالاکی سے استعمال کرتا ہے اِس کام میں یہ جنونی ہے یہ کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے اِس کے کام کے لیے اِس نے ذاتی ملازم رکھے ہوئے ہیں جو اِس کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں راز داری کے ساتھ اپنے خاص حلقوں میں رنگیلا شاہ کے نام سے مشہور ہے جس کی زندگی کا مقصد ہی عیا شی اور لڑکی بازی کرنا ہے والدین کی جائیداد اور اپنی کمائی وہ اِسی لعنت میں لگائے جا رہا تھا میں نے جب انکار کیا تو اِس نے میرے بھائی اور ماں کو ساتھ ملا لیا اب وہ مجھے فورس کر رہے ہیں کہ میں اس سے شادی کرلوں میں انکار کر تی رہی یہ نئی سے نئی چال چلتا رہا آخر کا ر تنگ آکر میں گھر سے بھاگ کر ایک سہیلی کے گھر آگئی اب یہ میری تلاش میں پاگلوں کی طرح پھر رہا ہے جہاں کسی بابے کا پتہ چلتا ہے یہ اُس پر جاکر تحفوں کی بارش کرتا ہے ناکام ہو کر اگلے بابے کے پاس پہنچ جاتا ہے یہ اُس پر جاکر تحفوں کی بارش کرتا ہے ناکام ہو کر اگلے بابے کے پاس پہنچ جاتا ہے اِس کا ایک ملازم مجبورا اِس کے ساتھ کام کر تا ہے وہ مجھے بیٹی سمجھ کر اِس کی حرکتیں بتا تا رہتا ہے اُسی نے مجھے بتا یا کہ آجکل یہ آپ کے در پر ڈیرے لگائے بیٹھا ہے پھر وہ بیچاری مظلوم لڑکی میرے رابطے میں رہی ایک دن اُس کا فون آیا کہ وہ صبح دبئی جار ہی ہے ایک انشورنس کمپنی میں اُسے جاب مل گئی ہے وہ لڑکی تو چلی گئی لیکن یہ بہروپیا مسلسل میرے پاس آتا رہا آخر چند دن بعد اُس نے میرے سامنے اصل بات سنائی کہ اُس کے دوست کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے آپ برائے مہربانی کوئی وظیفہ طریقہ لگائیں کہ وہ مل جائے پروفیسر صاحب یہ میراکام نہیں خدمت خلق ہے خدا کے لیے غریب باپ پر رحم کریں میں حیران نظروں سے اُس کی ڈرامہ بازی جعل سازی دیکھ رہا تھا انسان کیسے کیسے خول اصل شکل پر چڑھائے معاشرے میں دنگا فساد عیاشی کر تا پھرتا ہے ایک د ن میرے صبر کا پیمانہ اچھل پڑا تو میں نے اِس کو بٹھا کر کہا مجھے تمہارے اصل روپ کا پتہ چل گیا ہے یہ تحائف اور ادب و احترام کی ڈرامہ بازی بند کرو اور زندگی میں کبھی میرے پاس نہ آنا تم اِس قابل نہیں ہو کہ تمہاری کسی بھی قسم کی مدد کی جائے تم انسان نہیں شیطان ہو جو اپنی ہوس پو ری کر نے کے لیے مختلف روپ دھارے پاک باز معصوم لڑکیوں کی زندگی برباد کر رہے ہو اگر دوبارہ کبھی میرے پاس تو آئے تو دھکے دے کر نکال دوں گا لیکن ڈھیٹ انسان یہ کہہ کر چلا گیا جناب آپ کو غلط فہمی ہو ئی ہے میں تو کسی کی مدد کرنا چاہ رہا تھا پھر وہ نہیں آیا چھ ماہ بعد مجھے اُس مظلوم لڑکی کا فون آیا کہ ماضی کی کسی متاثرہ لڑکی کے بھائی نے اُس کے چہرے پر تیزاب پھینک کر اُسے ہمیشہ کے لیے اندھا اور مکروہ کر دیا ہے شیطان کو سزا مل گئی تھی لیکن میں آج بھی حیران ہوں کہ انسان کس طرح انسان سے رنگیلا بن کر اپنی دولت چالاکی عیاری سے معصوم پاک باز لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلتا ہے لیکن آخر خدا کی سزا حرکت میں آکر اُس کو کیفر کردار تک پہنچاتی ہے۔

Share
Share
Share