کتاب : وہ ایک کہانی
(فکشن پرتحریریں)
مصنف : ڈاکٹر غضنفر اقبال
9945015964
مبصر : ڈاکٹرعزیز سہیل
9299655396
ہندوستان کے ادبی منظرنامہ پرجن نوجوان قلمکارو ں نے اپنے ادبی کارناموں اور تخلیقات کی بنیاد پرشہرت حاصل کی ہے،ان میں ایک اہم اور معتبر نام ڈاکٹرغضنفر اقبال کابھی ہے جنہوں نے معیاری ادب لکھنے والوں میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے،
ڈاکٹر غضنفر اقبال ساہتیہ اکیڈیمی یووا پروسکار ایوارڈ یافتہ نوجوان ادیب ہیں جن کی تحریریں ادبی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ڈاکٹرغضنفراقبال اردو کے ممتازاستادو ادیب پروفیسر حمید سہروردی کے لائق وقابل فرزند ہیں جو ان دنوں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔وہ شری راجیوگاندھی ڈگری کالج بسوا کلیان میں اردوکے اسسٹنٹ پروفیسر کے طورپراپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ڈکٹرغضنفراقبال کو گلبرگہ یونی ورسٹی کے علاوہ اردواکیڈیمی اترپردیش‘بہار اورمہاراشٹرانے اعزازات سے نوازا ہے۔ ان کی اب تک ایک درجن کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں جن میں اردوافسانہ1980ء کے بعد‘اردوبک ریویو کے اداریہ اور تجزیے‘ حمید سہروردی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘ صفرباردوش (صفر پرنظمیں)‘ معنی مضمون (مضامین)‘ ان کہی باتیں (انٹرویو)‘عصمت جاوید (مونوگراف)‘ڈاکٹروہاب عندلیب شخصیت اور ادبی سفر‘ جوہی کے مالا (بچوں کی کہانیاں)‘ قاضی سلیم (مونوگراف)‘ حال کے پردے سے‘ گلوبل انفارمیشن(انگریزی کتاب) شامل ہیں۔
حالیہ دنوں ان کی ایک تازہ تصنیف ”وہ ایک کہانی“عنوان سے منظر عام پر آئی ہے جوافسانوی ادب فکشن کی تحریروں پرمشتمل ہیں۔اس کتاب کاانتساب ڈاکٹرغضنفراقبال نے ”جناب خلیل مامون“ کے نام معنون کیاہے۔ اس کتاب کے ناشر کرناٹک اردواکیڈیمی ہے۔ کتاب کے ابتداء میں عرض ناشر کے عنوان سے مبین منور صدرنشین کرناٹک اردواکیڈیمی نے آسان اور سلیس انداز میں ڈاکٹرغضنفرکی شخصیت اوراس کتاب کا اجمالی تعارف پیش کیا ہے اورلکھا ہے کہ”کتاب وہ ایک کہانی تنقیدکی دنیا میں اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے کہ اس میں صرف فکشن سے متعلق موضوعات پر ڈاکٹر غضنفراقبال نے خامہ فرسائی کی ہے۔ کرناٹک اردواکیڈیمی ڈاکٹرغضنفراقبال کی کتاب شائع کرتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے کہ وہ ایک اپنی سی نوعیت کی کتاب منظرعام پر آرہی ہے۔“
زیرنظرکتاب کا پیش لفظ نورالحسنین نے لکھا ہے جس میں انہوں نے بڑے ہی دلنشین انداز میں ڈاکٹرغضنفراقبال کی مکمل شخصیت اورادبی سفر کی مکمل داستان بیان کی ہے لیکن پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حسنین صاحب نے غضنفراقبال کے تعارف وتوصیف میں مسجع ومقفی نثر کا استعمال کیا ہے۔ حسنین صاحب نے اپنے پیش لفظ کے اختتام پرکتاب سے متعلق رائے یوں درج کی ہے کہ ”ان کہی باتوں سے ان کے افسانوں کے تجزیہ کی کتاب تھمادی‘ قاری کوکہانی مل گئی لیکن خود انہیں تلاش ہے اسے کہانی کی جواپنے جوبن کوچھپائے خاک کے پردوں میں کہیں بیٹھی ہے اس کے خاطرکبھی عقب کے دروازے میں داخل ہوتے ہیں تو کبھی گنبد سے کبوترپکڑلاتے ہیں کبھی بہت دور جاکر نیواینٹ اٹھالاتے ہیں توکبھی کسی معبر سے دریافت کرتے ہیں۔ کبھی بارہ رنگوں کے کمروں تک بھی رسائی کی اورکبھی تھک ہارکرکسی گھڑی میں اترتی شا م کانظارہ کرتی ہے اور سوچتے ہیں کہ جوچیز نظرآئی توخود کہاں ہے“۔
زیرنظرکتاب کو ڈاکٹر غضنفر اقبال نے پانچ سلسلوں میں تقسیم کیاہے۔ پہلا سلسلہ لکیردر لکیرکے عنوان سے ہے جس میں جوموضوعات شامل کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں۔ ایک فسانہ بن گئی روشنی‘ وہ ایک کہانی‘ علی گڑھ تحریک اور افسانوی ادب‘ جدید افسانہ کی کہانی‘ اردوافسانو ں میں قومی یکجہتی کے عناصر‘ اردوفکشن اخلاق کے اقدار کی روشنی میں‘عصری افسانوی‘سماجی اورتہذیبی منظرنامہ‘ نئے افسانہ کی تشکیل شناخت‘ نئے اردوافسانے کااظہاریہ‘ افسانہ مضمر زبان کی ترقی‘ ناول تنقید (ناتمام مطالعہ)‘ گلبرگہ میں اردوافسانچہ‘ افسانچہ کی ہفت رنگ‘ بچوں کی کہانیاں۔ دوسرا سلسلہ‘سلسلہ در سلسلہ کے عنوان سے شامل ہے جس میں اقبال فاروقی اورلاہور کاایک واقعہ‘ مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں افسانہ طرازی‘ مہدی جعفر کی نئی افسانوی تقلیب‘ نقد افسانہ کا روشن استعار،سکندراحمد‘ رؤف صادق کی فکشن شناسی جیسے موضوعات شامل ہیں‘ تیسرا سلسلہ پیچ در پیچ کے عنوان سے ہے۔ جس میں منٹو کے افسانوں میں قومی ہم آہنگی‘ فاروق راہب کے افسانوں کا مطالعہ‘ افسانے کا کہانی کاریوسف عارفی‘ بات ساجد رشید کی اور بیان رحمن عباس کا‘ بیگ احساس چشم تہذیب کی نابصیری کا افسانہ نگار‘ کہانی کا بازی گر نورالحسنین‘ عارف خورشید کیا ہم نے صحت مند یہ ادب تخلیق‘ ڈاکٹر عشرت بیتاب ’س‘ کے افسانے‘ ڈاکٹرداؤد محسن کے افسانے‘ ارشد نیاز کا فن افسانہ‘ احمدعارف کی ذہنی ترنگ۔ چوتھا سلسلہ دائرہ در درائرہ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس موضوع کے تحت صدی کے الوداع کہتے ہوئے مشرف عالم ذوقی‘ کشتن مقصود اظہر‘ وہ ایک بات پروفیسر ناز قادری‘ پشاور کی17کہانیاں نذیر فتح پوری‘ میثاق آفتاب صمدانی‘ جہات اقبال واجد‘ قراۃ العین حیدر کی افسانہ نگار ی ڈاکٹرسہیل بیابانی‘ افسانہ نگار اور افسانے ڈاکٹرسیداحمدقادری‘ اردومیں افسانچوں کی روایت ڈاکٹرعظیم راہی‘ ارود کے فکشن نگارڈاکٹرایم نسیم اعظمی‘کتاب کا آخری سلسلہ پردہ درپردہ‘دنیا کا سب سے انمول رتن پریم چند تجزیہ‘ لہو کا رنگ ڈاکٹر کیول دھیرتجزیہ‘ شکن درشکن پروفیسر حمید سہروردی تجزیہ‘ شجرممنوعہ عارف خورشید‘ تجزیہ‘ سمندر جاگ رہا ہے ڈاکٹراحمدصغیر‘ تجزیہ‘ تشنہ آرزواشتیاق سعیدکاتجزیہ، شامل ہیں۔کتاب کے آخر میں کتاب زیست کے عنوان سے مصنف کے سوانح کوائف پیش کی گئی ہے۔
اس کتاب کے مصنف نے اپنی بات کو ’ایک افسانہ بن گئی روشنی کے عنوان سے شامل کیاہے جس میں ڈاکٹرغضنفراقبال اپنی بات بیان کی ہے اور فکشن کی تعریف کوبیان کرتے ہوئے اس کی اہمیت کواجاگرکیاہے اوراس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
”میں نے ادب پارہ کی تفہیم وتحسین کے لیے تحریریں لکھی ہیں‘میں نے ان تحریرات میں کوشش یہی کی ہے کہ پڑھنے والے عصری آگہی کے ساتھ عصری ادب کونزدیک سے دیکھ سکیں۔ میں نے ان موضوعات پرقلم اٹھایا ہے جن کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے جن کا وہ اشتیاق رکھتے ہیں‘ قومی سطح پر ان اہل قلم کے انٹرویوز بھی میں نے کیے ہیں جنہوں نے فنی وفکری ارتکاز اورانعکاس سے جاویدہ بنادیاہے“۔
زیر نظر کتاب کی پہلی کہانی ”وہ ایک کہانی“کے عنوان سے شامل ہے۔جس میں مصنف نے اپنے حالات زندگی، ادبی شغف اور زندگی کے تجربات کو اختصار سے لکھا ہے،کتاب میں شامل دوسرا موضوع ’علی گڑھ تحریک اور افسانوی دب کے عنوا ن سے شامل ہے جس میں سرسید کی تحریک،اس تحریک کے مقاصد،سرسید کے علمی کارنامے،ڈپٹی نذیر احمد کی ناول نگاری،مولانا حالی کی ناول نگاری،راشد الخیری کے افسانوں،عبدالحلیم شررکی ناول نگاری کا تذکرہ کیا ہے۔کتاب میں شامل دیگر موضوعات بھی قابل مطالعہ و قابل تعریف ہیں۔
بہرحال یہ کتاب عصری فکشن نامہ پر دستاویزی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال نے اپنی پوری کوششوں اورکاوشوں سے اس کو تخلیق کیا ہے اور ایک نئے انداز سے اپنی بات کوفکشن کے حوالے سے پیش کیاہے۔ امید کہ ان کی یہ کتاب اردومیں فکشن کے تحقیق کاروں کے لیے ایک انمول تحفہ ثابت ہوگی۔ ادب کے قاری کے لیے بھی یہ کتاب دلچسپی کا باعث بنے گی۔ اس کتاب کی اشاعت پر ڈاکٹرغ ضنفراقبال کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے اور امید بھی ہے کہ وہ اپنے ادبی سفر کے ذریعہ نت نئے تحریروں کو روزبروز پیش کرتے رہیں گے اوراردو کے ادبی خزانہ میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ تین سوبیس صفحات پرمشتمل اس کتاب کی قیمت تین سوروپئے رکھی گئی ہے جو کرناٹک اردواکیڈیمی بنگلو رسے خریدی جاسکتی ہے۔
٭٭٭