افسانچہ : کیا تھا ؟ :- جمشید احمد میاں

Share
جمشید احمد میاں

افسانچہ : کیا تھا ؟

جمشید احمد میاں
کشمیر

میز پہ چاندی کے دو گلاس پڑے تھے، میں نے ایک کو ہاتھ میں اٹھا کر پی لیا۔ اتنا میٹھا تھا کہ یاد کرکے ہی سرور آجائے ، گالوں پہ تبسم کلیوں کی طرح کھل گیا ، ہونٹ خوشی سے پھیلنے لگے، دل جھوم سا اُٹھا،ہوا اور سانسیں خوشبو بن کر دل میں اتر رہی تھی۔

دھڑکنیں دھڑک نہیں ناچ رہی تھی، جسم کے ہر عضو سے خوش نما حرکتیں ظاہر ہورہی تھی ، میرے حواس اور زیادہ تازہ ہو رہے تھے ، جہاں تک نظر گئی رنگین سماں تھا،مجھے جھومنے کا من کیا، بانہیں پھیلائیں جیسے سارے آسمان کو گلے لگا لوں گا،ساری خوشیاں ایک لمحے میں پائی، دنیا میں کوئی دکھ دیکھا نہ ہو، ایسا کچھ یاد بھی نہ تھا۔ عمر بھر اتنی خوشی کبھی نہ ملی ۔ایسی تاثیر جسم و روح میں پھیل گئی کہ لفظوں سے بیاں نہ کر سکوں۔ مختصر کہ دوسرے گلاس کی قیمت ساری دنیا طے کرلی،جوں ہی دوسرے گلاس کو ہاتھ میں اٹھانا چاہا، فجر کی اذان ہوئی اور میں نیند سے جاگ اٹھا ۔اس نظارے کی لذت و حیرت اب تک نہ گئی ، بس اک سوال ذہن میں بار بار آتا ہے کہ اُس کلاس میں "کیا تھا ؟”-

Share
Share
Share