کہانی : میں، تم اور….وہ!
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ
Email:
ایسا الگتا ہے کہ ان پچیس سالوں میں سب کچھ بدل گیا، مگر نہیں بدلا تو ہمارا رشتہ۔ کبھی لگتا ہے کل ہی کی بات ہے، تو کبھی لگتا ہے ان باتوں کی عادت ہوچکی ہے،تو بعض دفعہ لگتا ہے کہ عادتیں بدلی جاسکتی تھیں،مگر میں تو کبھی میں، تم میں سے کبھی نکل ہی نہیں پائی۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میں شادی کرکے اس گھر میں اپنے شوہر نعیم کے ساتھ آئی تھی۔ لیکن اس رات والی بات کو بھول جاؤ ایسا ممکن بھی نہیں، اتنے میں میری بیٹی راشدہ مجھ سے کہتی امّی آپ آج بھی ان باتوں کو لے کر کے بیٹھی ہو، جن باتوں سے تمہاری آنکھوں میں ہر وقت آنسو آجائے ایسی باتوں کو در گزر کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔راشدہ تم نہیں جانتی،راشدہ کہتی ہے کہ امّی! اب میں اتنی بڑی ہوچکی ہوں کہ تمہارے درد کو بھلے ہی سمجھو یا نہ سمجھومگر اس درد کی ٹیسیں محسوس کر سکتی ہوں۔ تمہاری آنکھیں اور تمہارا چہرہ سب کچھ بیان کر دیتا ہے۔ میں نے اپنے اسکول کے ایک نفسیاتی مضمون میں پڑھا تھا انسان کے دکھ کے آشار سب سے پہلے اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں یہی نہیں انسان کے روز مرہ کے کام کاج پر بھی اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ راشدہ تم یہ کیا کہہ رہی ہو، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔راشدہ کی امّی کہتی ہے کہ اچھا بس میں اب سے تمہارے سامنے کبھی اس حال میں نظر نہیں آؤں گی۔
امّی دن رات ایک ایسے سوال کو لے کر ہر وقت ہر لمحہ پریشان رہنے لگی تھی کہ جیسے وہ دن اُن کی زندگی کا آخری دن ہو، میں نے کئی بار اس سلسلے میں اپنے والد سے بھی بات کرنی چاہی،مگر میں ان سے کبھی بات نہیں کر پائی۔ وہ ہر وقت اپنے کام میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ان سے کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا۔ ایک طرف امّی کو روز گھٹتے دیکھنا کسی قیدی کو سزا کاٹتے دیکھنا یا پھر کسی گناہ گار کو گناہ کی توبہ کر تے دیکھنا محسوس ہوتا تھا۔ میں نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی استانی الماس چودھری سے کہا وہ بہت ہی اچھا نفسیات مضمون پڑھاتی ہیں۔ جب میں نے ان سے سارا حال بیان کیا تو انہوں نے مجھے ایک نفسیاتی ڈاکٹر،ڈاکٹر نصرت کا پتہ دیا اور کہا اپنی امّی کو ان سے ضرور ملانا تاکہ کچھ پتہ لگ سکے کہ تمہاری امّی کس بات سے پریشان حال میں رہ کر گھٹتی جا رہی ہے۔ دوسرے ہی روز میں امّی کو ڈاکٹر نصرت کے پاس لے کرگئی۔ ڈاکٹر نصرت نے امّی کو اندر بلایا اور مجھ سے کہا تم تھوڑی دیر کے لیے باہر بیٹھو۔ڈاکٹر نصرت نے امّی سے کئی سوالات کیے مگر ہر بار سوال کے جواب کے بعد یہی جملہ آجاتا تھا میں، تم کے درمیان وہ کیوں نہیں رہا۔ڈاکٹر نصرت نے الگ الگ طریقے سے سوال کیا کہ آخر میں، تم اور وہ سے کیا مراد ہے؟
شادی شدہ زندگی بھی بڑی عجیب ہوتی ہے میاں بیوی میں، میں اور تم شامل ہو تو زندگی کٹ جاتی ہے مگر وہ شامل ہونے پر زندگی زندگی نہیں رہتی۔ ڈاکٹر نصرت کو پہلے پہل یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ وہ یعنی اس کے شوہر نعیم کی محبوبہ کی بات کر رہی ہوگی۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر نصرت نے جب یہ سوال کیا کہ کیا تم میاں بیوی میں محبت تھی کہ پھر سمجھوتا؟ یہ سوال پوچھتے ہی راشدہ کی امّی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ڈاکٹر نصرت نے پانی دیا اور کہا دیکھو اس سوال میں ہی تمہارا کوئی ایسا راز پنہا ہے جو تم بتانا بھی چاہتی ہو اور اپنے رشتے کو بھی بچانا چاہتی ہو۔ راشدہ کی امّی ڈاکٹر نصرت سے کہتی ہے میری نعیم سے شادی پسندسے ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ وقت سب کچھ برابر چل رہا تھا۔ڈاکٹر نصرت نے کہا پھر ایسا کیا ہوا؟ کہ میں، تم کے درمیان وہ آگیا۔ راشدہ کی امّی کہنے لگی اس رات وہ بہت تھکے ہوئے آئے تھے۔ان کا کپڑوں کا بیوپارا تھا اور وہ گھر آنے تک بھی اپنے بیوپار کی ہی باتیں کرتے رہتے تھے۔ شادی ہونے کے چند سال بعد ہماری بیٹی راشدہ پیدا ہوئی۔ میرے شوہر نعیم کو بیٹے کی خواہش تھی اور میں ان کی یہ خواہش پوری نہ کرسکی۔ ڈاکٹر نصرت راشدہ کی امّی سے کہتی ہے کہ اس میں آپ کا کیا قصور تھا۔ ڈاکٹر نصرت راشدہ کی امّی سے پوچھتی ہے کہ میں،تم اور وہ میں وہ کی کی وجہ بیٹے کی خواہش تو نہیں تھی؟ یہ ہو بھی سکتاہے اور نہیں بھی۔ راشدہ کے آ جانے کے بعدوہ بات کھُل کر سامنے آئی جسے میں آج تک نہیں بھول پا رہی ہوں۔ وہ کیا بات تھی؟ ڈاکٹر نصرت نے امّی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے پوچھا کہ اس رات کیا ہوا؟راشدہ کی امّی کہنے لگی کہ اس رات انہوں نے کہا کہ میں نے تم سے رشتہ جوڑا کیونکہ تم مجھے پسند تھی مگر یہ میری بھول تھی مجھے تم پر بالکل بھی اعتماد نہیں رہا۔ میں نے کہا کہ ایسا کیا ہوگیا ہے؟ کہ میں،تم میں وہ یعنی بھروسہ نہیں رہا۔“ اس رات کے بعد انہوں نے کبھی مجھ سے سیدھے منہ بات نہیں کی۔وہ ہماری تمام ضروتوں کا خیال رکھتے۔ہم ایک ہی چھت کے نیچے دونوں میاں بیوی اجنبی کی طرح رہ رہے تھے اس روز سے نعیم نے کبھی مجھ سے نہ ہی پیار سے باتیں کیں اور نہ ہی مجھے کہیں سیر و تفریح کے لیے لے کر گئے۔ ان کے یہ الفاظ کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں رہا۔مجھے اندر سے توڑ دیا تھا۔ آخر نعیم نے کپڑے کی سودے میں نفع نقصان کا جوڑ ہمارے رشتوں میں بھی کر دیا۔ مجھے اپنی بیٹی راشدہ کی فکر ہو رہی ہے کیونکہ نعیم نے اپنے بیوپاری دوست کے بیٹے بابر سے رشتہ طے کر دیا ہے حالانکہ راشدہ کی عمر ابھی پندرہ سال ہے اسے دیکھ کر مجھے بار بار وہیں باتیں یا د آتی ہیں جن سے آج ہمارا رشتہ میں،تم اور وہ کی راہ پر کھڑا ہوگیا، کہی یہ میری بیٹی کے ساتھ نہ ہوجائے۔
ڈاکٹر نصرت نے راشدہ کو کمرے کے اندر بلایا اور کہا کہ تمہاری امّی بالکل ٹھیک ہے اور ہاں تمہاری امّی کو کل سے ہمارے تمنّا ادارے میں چھوڑ جانا۔ تھوڑے دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ راشدہ کی امّی کی آنکھوں میں چمک سی آگئی۔ زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے لگی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ راشدہ کی امّی ان عورتوں سے ملی جو کسی نہ کسی طرح نفسیاتی تکلیف سے دوچار تھی۔ کسی نے کہا میرے شوہر کسی اور کو پسند کرتے ہے، تو کسی نے کہا میرے شوہر مجھ پر شک کرتے ہے،تو کسی نے کہا میرے شوہر کو کام پیارا ہے، تو کسی نے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں سے زیادہ محبت کرتے ہے، تو کسی نے کہا کہ وہ بیٹے کے خواہش مند ہے۔ہر عورت کی زندگی میں میں،تم اور وہ میں وہ کسی نہ کسی مسئلہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔راشدہ کی امّی ہر پل اپنے لیے جینے لگی تھی اسے اپنے جیسی خواتین کی زندگی دیکھ کر اپنی زندگی کی پریشانی کم لگنے لگی۔ ڈاکٹر نصرت نے ایک روز اسی تمنّا ادارے میں ایک پروگرام منعقد کیا تھا جس کا موضوع تھا ”زندگی جینے کا نام ہے“ زندگی میں کئی مسئلوں پر عورتیں خاموش رہتی ہیں اگر وہ اس خاموشی کو سہتی ہے تو کہیں نہ کہیں زندگی جینے کی راہ سے بھٹک جاتی ہے اور دھیرے دھیرے وہ مایوس کن ہوتی جاتی ہے اور اپنی بچی کچی زندگی کو بھی تباہ و برباد کرکے چھوڑتی ہے اور بلاآخر موت سے جوجھتی ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے کہنا آسان ہوتا ہے کہ پریشانیوں میں ہم ہیں تم تو نہیں ہو!‘کوئی ہم سے پوچھو…!۔ ڈاکٹر نصرت پھر کہنے لگی کہ اس دنیا میں کون پریشان نہیں ہے بچہ، جوان بوڑھا اس میں مر د عورتیں سبھی شامل ہیں۔ زندگی بہت قیمتی ہے اسے خوش ہو کر گزار دو شاید یہی پل ہمیں دنیا سے جاتے وقت ہمیں مایوس نہ ہونے دے۔ ہم لڑنا جھگڑنا بہت جلد ی سیکھ جاتے ہیں مگر جہاں کہی سمجھوتے کی بات آتی ہے تو ہم ہی کیوں کریں۔ یہ ہماری زندگی ہے ہماری زندگی پر مسئلے قبضہ کر بیٹھے بھئی مجھے تو بالکل پسند نہیں میرے خیال میں آپ کو بھی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں کبھی بھی ایسی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے کہ جس کا نتیجہ ہی نہ نکلے کہ کون کامیاب ہوا اور کون ناکامیاب ہوا۔ دنیا کی تمام عورتیں زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر میں، تم اور وہ جیسے حالات سے جوجھتی ضرور ہیں مگر میں ڈاکٹر نصرت جو بذات خود عورت ہوں۔ میں بھی تمہاری طرح ایک عام عورت ہو ں، فرق اتنا ہے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں۔ میری صبح و شام تمہاری ہی طرح گزرتی ہے میری زندگی میں ایک وقت ایسا آیاتھا کہ میرے شوہر نے مجھ پر یہ شک کرنا شروع کیا تھا کہ تم نے اپنے ڈاکٹری پیشے کے درمیان بہت سے لوگوں سے تعلقات بنائے رکھتی ہو۔ مجھے سب سے زیادہ ٹھیس جب پہنچی جب انہوں نے یہ بات ہمارے بیٹے صمد سے کہی۔ میں نے انہیں یقین دلانے اور شک کو جڑ سے مٹانے کی خاطر اپنے ڈاکٹری پیشے کی سرکاری نوکری کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیاتھا۔ کچھ سالوں کے بعد میرے شوہر کا کاروبار ٹھپ ہوگیا وہ اپنی پریشانی مجھ سے کہہ کر اپنا بوجھ ہلکا کر لیا کرتے تھے لیکن ایک روز وہ اپنی آفیس سے جلدی آگئے اور ان کے ہاتھ میرے وہ خطوط ملے جس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ آپ کہا چلی گئی؟ ایک آپ ہی تھی جنہوں نے زندگی کے معنی سمجھائے،زندگی کتنی قیمتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ آپ کہاں ہو؟آپ کی بدولت ہماری زندگیوں میں خوشیوں کی بہاریں آئی تھیں۔آپ نے زندگی کی تکلیفوں کا سامنااور اس سے باہر نکلنا سیکھایا تھا۔ہم بعض دفع زندگی کی تلخ حقیقت سے بھاگنا چاہتے ہیں مگر زندگی سے بھاگنا حل نہیں ہے بلکہ اس کا سامنا کرکے حل تلاش کرناچاہیے۔کیاہم بیمار ہونے پر دوائی کا استعمال نہیں کرتے۔ڈاکٹر صاحبہ آپ نے میری ماں کو نئی زندگی دی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ آپ نے میری لڑکی کو طلاق سے بچایا ورنہ وہ آج اپنا سب کچھ گنواں چکی ہوتی۔اس سب خطوط میں ایک خط سب سے پیارا تھا وہ خط تسنیم فاطمہ کا تھا۔
آداب ڈاکٹر صاحبہ،
آپ بہت خوش نصیب ہے کہ آپ کو اپنی زندگی میں کچھ بھی جھیلنا نہیں پڑا۔آپ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ با اخلاق بھی ہیں۔انسان میں یہ دونوں چیزیں اسے اچھا بنا تی ہے ورنہ ہم نے دنیامیں فریبی عورتوں کو بھی دیکھا ہے جو اپنے آپ سے محبت کرتی ہے وہ جھوٹ بھی اس قدر خوش اسلوبی سے بول لیتی ہے کہ وہ سچ کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ہمارے معاشرے میں دکھی عورتیں زیادہ ہیں، مگر ان فریب کُن عورتوں نے ایسا جال بچھایا کہ اگر کوئی عورت سچ بھی کہے گی تو وہ جھوٹی ہی لگے گی۔آپ جیسی ڈاکٹر صاحبہ ہماری زندگی سے چلی جائیں گی توہم بن ماں کے بچے کے مانند ہوجائیں گے۔آپ واپس آجائے۔
میرے شوہر کو احساس ندامت ہوئی۔وقت بیت چکا تھا مگر انہوں نے اپنا سارا کاروبار چھوڑ چھاڑ کر مجھے اپنا ذاتی کلینک بنوا دیا۔انہوں نے مجھ سے اپنی غلطی کی معافی مانگی اور کہا کہ تمہارا پیشہ زندگی دینے کا ہے۔اس طرح میرے ہسپتال کے بعد ان کا کاروبار بھی دوبارہ سے سیٹ ہوگیا۔ آج میں (ڈاکٹر نصرت) انہیں کی بدولت میں اپناذاتی ہسپتال چلاتی ہوں۔ اکثر معاملے میں نا سمجھی اور غلط فہمی زندگی کو پانی کے قطروں کی طرح بانٹ دیتی ہے ہمیں حوصلہ رکھ کر صحیح وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ وقت ہر بڑے سے بڑے زخم کا مرہم ہوتا ہے کبھی کسی خاتون کی زندگی میں ایسے مسائل آئیں تو چاہیے کہ زندگی جینے کا نام ہے‘ میں،تم اور وہ کبھی تو زندگی کو زندگی بناتے ہیں تو بعض دفع یہی تین لفظ ہماری ہنستی کھیلتی زندگی کے ساتھ ہمیں بھی ختم کردیتے ہیں۔زندگی خوبصورت ہے اور ہوسکے تو اسیے خوبصورت بناتے رہنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Dr. Sufiyabanu. A. Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001. ,Jamalpur Ahmedabad
Mob: 9824320676