کتاب ۔ نقد و مقال
(تنقیدوتحقیق)
مصنف : ڈاکٹربی۔ محمدداؤد محسن
09449202211
مبصر : ڈاکٹرعزیز سہیل
جنوبی ہند کے ممتاز ادیب‘ افسانہ نگار‘شاعر‘ترجمہ نگار اور خاکہ نگار کی حیثیت سے ڈاکٹرداؤد محسن کو انفرادیت حاصل ہے۔ ان کا تعلق پیشہ درس و تدریس سے ہے وہ ملت کالج داؤنگرمیں پرنسپل کی حیثیت سے فی الحال خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ان کی تازہ تصنیف ” نقد ومقال “ کے عنوان سے چندعرصہ قبل منظرعام پرآئی۔ اس کتاب کوانہوں نے اپنے والد‘والدہ کے نام معنون کیا ہے۔ اس کتاب سے قبل ان کی جوکتابیں منظرعام پرآئیں۔ ان میں سوادِ شب(شاعری)‘ نقد اور نظریات(تنقید وتحقیق)‘ سنّاٹے بول اٹھے (افسانے)‘ نقدوبصیرت (تنقید وتحقیق)‘ پروفیسر یس یم عقیل فرد اور فنکار‘سی جی ایس خلیل احمد شریف خلیل:چند یادیں شامل ہیں۔
ڈاکٹرمحسن داؤد کو اپنی ادبی خدمات کے عوض بہت سی انجمنوں‘اکیڈیمیوں نے انعامات واعزازات سے نوازا ہے۔ جن میں شرڈی شیوسائی بابا ایوارڈ برائے اردو (شری ڈی شیو سائی بابا آشرم بنگلور)‘گنیانہ سرسوتی ایوارڈ برائے اردو خدمات(گنیانامندار اکیڈیمی‘بنگلور)‘علامہ اقبال ایوارڈ(کرناٹک اردوچلڈرن اکیڈیمی بنگلور)‘ نگینہ ادب ایوارڈ (بزم نگینہ ادب میسور)‘ کرناٹک اردواکیڈیمی‘ٹیپوسلطان لٹریری ایوارڈ شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب” نقد ومقال “ میں شامل مضامین کی فہرست اس طرح سے ہیں۔ آزاد غزل معنویت اور روایت‘ اکیسویں صدی میں اردو غزل‘ تنقید کا بدلتا ہوا منظرنامہ‘ اردو کے غیرمسلم تنقید نگار‘ اردوتلمیحات کا حکائی پس منظر‘ اردوناول رحجانات ومیلانات‘ لیلیٰ کے خطوط‘ علامہ اقبال اور نسل نو‘ مولانا ابوالکلام آزاد صحافت کے آئینہ میں‘ ہندوستانی لسانیات کا تجزیہ‘ شمس الرحمن فاروقی کے انٹرویو ایک جائزہ‘ موازنہ انیس ودبیر کا محاکمہ جوش کی شاعری میں لفظ ومعنی کا عدم توازن‘ سوشلزم کا شیدائی:کیفی اعظمی‘ ندا فاضلی اوران کا فن‘ اردوشاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر‘ حمید سہروردی کا افسانوی رنگ‘ سلام بن رزاق کا افسانہ دوسرا خط کا تنقیدی جائز ہ‘کرناٹک میں جدید نظم کی صورتحال‘ کنٹرا اور اردوزبان میں سماجی مسائل‘ کنٹرااوچین سنت شری بسویشور شامل ہیں۔
اس کتاب کا پیش لفظ”ڈاکٹرداؤدمحسن کے ادبی سفر“کے عنوان سے سرقاضی سیدقمرالدین قمر نے لکھاہے۔ اپنے پیش لفظ میں انہوں نے ڈاکٹر داؤد محسن کے ادبی سفر اور ان کی اس کتاب پر سیرحاصل گفتگوکی ہے۔ انہوں نے ڈاکٹرداودمحسن کے تعلق سے لکھا ہے کہ”ڈاکٹر داؤد محسن کا شمار اردوکے مشہور ومعرو ف شاعروں اورادیبوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی قابلیت اورلیاقت کے جوہر دکھائے ہیں۔ قدرت نے ان کوکئی صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اس لیے بیک وقت وہ شاعر‘افسانہ نگار‘تحقیق‘ تنقید نگار‘ترجمہ نگاری اور خاکہ نگاری کے علاوہ علامہ اقبال کے کلام میں نت نئے پہلو کوتلاش کرنے کے عادی ہیں۔ ان کی طبعیت جس صنف کی طرف مائل ہوتی ہے اس میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ڈاکٹرداؤدمحسن اپنے مضامین میں بڑے اعتدالی سے کام لیتے ہیں۔ یہ مضامین ان کی زیرک یعنی دانائی تحقیقی نظرووسیع النظر کے غماز ہیں“۔
زیر نظرکتاب میں فاضل مصنف نے اپنی بات کو”قاری‘ناقد‘فن اورفنکار“کے عنوان سے لکھا ہے۔ انہوں نے اکیسویں صدی میں اردوادب کی صورتحال پر بڑی باریک بینی سے نظرڈالی ہے اور سماجی مسائل کوبیان کیاہے ساتھ ہی ماضی کے ادب اورعصرحاضر کے ادب کوبھی واضح کیاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا کے اثرات کوبھی بیان کیاہے اور اردوشعراء وادباء کے افکار ونظریات پربھی خوب لکھا ہے۔ آخر میں انہوں نے اردوادب میں زندگی کے رونے کی ضرورت کو بیکارقراردیاہے اور نئے مسائل کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ ڈاکٹرداؤد محسن کے مطابق جوعصری مسائل اپنے سامنے ہیں ان میں سیاسی‘ معاشی‘اقتصادی‘ اخلاقی اور تہذیبی مسائل‘ تشد د‘بے روزگاری‘ قومی یکجہتی‘ بھائی چارگی‘ مسئلکی خلفشاریاں‘عورتوں پرمظالم‘سیاسی رسہ کشی وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر داؤد محسن نے اپنی اس کتاب سے متعلق لکھا ہے کہ”نقدومقال میں وہ مضامین شامل ہے جن کی کافی پذیرائی ہوئی اوران میں سے بیشترمضامین ریاستی‘قومی اوربین الاقوامی اخبارات ورسائل وجرائد میں وقتاً فوقتاً اشاعت پذیرہوتے رہے ہیں“۔
اس کتاب کا پہلا مضمون”آزاد غزل معنویت اور روایت“ کے عنوان سے شامل ہے جس میں اردو ادب میں جدید غزل کے آغاز پر بحث کی گئی ہے،آزاد غزل اور پابند غزل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔وہ آزاد غزل کے آغاز سے متعلق لکھتے ہیں ”آزاد غزل کی کوشش کسی خاص ادبی ضرورت یا اہمیت کے تحت نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک اتفاقیہ امر تھا جو آزاد نظم کی غیر معمولی مقبولیت سے متاثر ہوکر ظہور پذیرائی ہوئی۔مظہر امام نے 1945ء میں پہلی آزاد غزل لکھی تھی۔پندرہ سولہ سال کی عمر کا ایک لڑکا فنی ناپختگی کی بدولت آزاد نظم سے متاثر ہو کر مصرعوں کو چھوٹے بڑے کرکے تجربہ کرتا ہے اور ایک چیز تخلیق کرکے خود یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ یہ آزاد غزل ہو سکتی ہے“۔
اس مضمون کی طرح کتاب میں شامل دیگر مضامین بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ڈاکٹر داودمحسن نے اپنے تحقیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اہم اہم کارنامہ انجام دیاہے۔بہرحال تحقیق وتنقید کے اس حسین سنگم میل پرمشتمل اس تصنیف کی اشاعت پر ڈاکٹرداؤد محسن کو مبارک باد پیش کی جاتی ہے اوران سے امید بھی ہے کہ وہ جنوبی ہند میں اردوکے ادبی سرمایہ میں اضافہ کے لیے اپنی کوششوں اور کاوشوں سے ادبی تخلیقات کوجلا بخشتے رہیں گے۔ ساتھ ہی نسل نو کی بھی رہنمائی فرمائیں گے اوراردوزبان وادب کوٹکنالوجی سے جوڑنے کے لیے بھی وہ اپناایک اہم رول ادا کریں گے۔ اس کتاب کوایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤز دہلی نے شائع کیا ہے جو قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں 280صفحات شامل ہے۔ کتاب کی قیمت173 روپئے رکھی گئی ہے جو حیدرآباد میں ہدی بک ڈپو یا ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤز دہلی سے خریدی جاسکتی ہے۔
٭٭٭