کورونا وائرس اور حفاظتی تدابیر
محسن رضا ضیائی
پونہ مہاراشٹر
9921934812
ہمارے ملکِ ہندوستان میں بھی اس مہلک وائرس نے بہت ہی آسانی کے ساتھ انٹری کرلیا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے کئی ایک واقعات رکارڈ بھی کیے گئے۔
2020ء کی ابتدا ہوتے ہی سے سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر چین میں کورونا وائرس کے پھیلنے اور اس کی زد میں آنے سے کئی اموات کی خبریں یکے بعد دیگرے وائرل ہورہی ہیں۔اس بیماری نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا ہے۔ یہاں تک کہ چین اور عالمی ادارہئ صحت کی آنکھوں کی نیند تک اڑا کر رکھ دی ہے۔ بتایا جارہاہے کہ یہ بہت ہی خطرناک، مہلک اور جان لیوا بیماری ہے۔ جو اس کی زد میں آرہاہے، اس کا بچ پانا نہایت ہی مشکل سمجھا جارہاہے۔ اسی وجہ سے پوری دنیا اس مہلک بیماری کو لے کربہت ہی حساس اور فکر مند ہوگئی ہے اور اس سے نمٹنے اور بچنے کی بہت سے تدابیر اپنارہی ہے۔
یہ کورونا وائرس اصل میں کیا ہے۔ اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ویکی پیڈیا کے مطابق ”سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1906ء میں ہوئی تھی، جو سردی کے نزلہ سے متأثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کورونا وائرس E229اور OC43کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ نامزد کردہ nCov-2019نامی کورونا وائرس کی ایک نئی وبا 31 دسمبر 2019ء سے چین میں عام ہوئی۔(بحوالہ ویکی پیڈیا)
بی بی سی نیوز نے اپنے سروے میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ یہ بیماری 2003ء میں پھیلنے والے سارس وائرس سے بھی بہت زیادہ خطرناک ہے۔ دنیا میں کررونا وائرس کی وبا 2003 ء میں سارس وائرس سے پھیلنے والی وبا سے بڑی ہے اور اس کے متأثرین کی تعداد بھی سارس کے مقابلے میں زیادہ ہو چکی ہے، تاہم کرونا وائرس کم مہلک ہے۔سانس کی تکلیف پیدا کرنے والی بیماری سارس 2003ء میں چین میں پھیلی تھی اور اس کے تقریباً 8100 کیسز سامنے آئے تھے اور اس سے 774 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
انگریزی کے روزنامہ اخبار”دی ہندو“ کے مطابق چین کے نئے کرونا وائرس کے پھیلنے سے اموات کی تعداد 259 ہوگئی اور تصدیق شدہ انفیکشن کی تعداد بڑھ کر 12,000ہوگئی ہے۔یقیناً یہ رپورٹ دل دہلادینے اورچونکادینے والی ہے۔ پوری دنیا نے اپنے اپنے ملکوں میں اس کوونا وائرس سے نجات پانے اور اس سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے ماہرین ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تعینات کردی ہے اور عوام کو بھی اس سلسلے میں الرٹ رہنے کو کہا ہے۔حال آں کہ عالمی ادارہئ صحت(WHO) ان دنوں اس وائرس کو روکنے کے لیے اپنی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اور جلد ہی اس کے خاتمے اور انسداد میں کام یابی حاصل کرنے کا پختہ عزم و ارادہ رکھتا ہے۔
بی بی سی نیوز کے مطابق اس خطرناک وائرس کی ابتدا چین کے وسطی صوبہ ہوبائی میں ہوئی، جہاں تقریباً تمام اموات ہوئی ہیں اور وہ ابھی لاک ڈاؤن کی صورتِ حال میں ہے۔ اس صوبے کی آبادی تقریباًچھ کروڑ پر مشتمل ہے اور اس صوبے میں ووہان نامی ایک شہر ہے، جہاں سے اس وائرس کی ابتدا ہوئی۔
ہمارے ملکِ ہندوستان میں بھی اس مہلک وائرس نے بہت ہی آسانی کے ساتھ انٹری کرلیا ہے اور ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے کئی ایک واقعات رکارڈ کیے گئے۔ دو روز قبل کیرل میں ایک شخص کو اس وائرس کا شکار پایاگیا، جسے فوری طور پر ایک ہاسپیٹل میں منتقل کردیا گیا۔
یکم فروری کو چین نے کرونا وائرس سے متاثرہ ووہان سے 324 ہندوستانی شہریوں کو نکالنے کے لیے ایئر انڈیا کی پہلی پرواز روانہ کیا۔ان تمام ہندوستانیوں کو جو کرونا وائرس سے متاثر ہوکر واپس آرہے ہیں، انہیں ایک الگ تھلگ مقام پررکھا جائے گا، تاکہ وہ کسی سے میل جل نہ کرسکے، جس کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
آپ ان تمام متذکرہ بالا گفتگو سے بہ خوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ کس قدر زہرلیلا، جان لیوا اور ہلاکت خیز وائرس ہے، جس کی زد میں آنے سے انسان کا بچ پانا بہت ہی دشوار ہے۔ اب تک اس کا کوئی معقول اور مکمل علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن اس کی کچھ علامات بتائی گئی ہے کہ یہ وائرس سانس لینے میں دقت، بخار، کھانسی،دردِ سر،نمونیہ،گلے میں خرابی اور فلو وغیرہ جیسی تکالیف اور امراض کی وجہ سے پھیل رہاہے۔ لہذا اب اس حوالے سے ہماری کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ ہم اس بیماری کو اپنے علاقوں میں پہنچنے سے روکیں۔ اس کی سب سے اچھی تدبیر اور صورت یہ ہے کہ:
٭گندگی اور آلودگی کو اپنے ارد گرد پھیلنے نہ دیں۔
٭اگر کسی کو سانس لینے میں قدرے پریشانی ہورہی ہو، سر درد کرہاہو، بخار، کھانسی،نمونیہ، گلے میں خرابی ہو یا پھر فلو جیسی شکایت ہوتو تو فوری طور پر ایک اچھے اور تجربار کار ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
٭ہجوم والے علاقوں میں جانے سے گریز کریں، اس لیے کہ یہ ایک ایسا وائرس ہے کہ تیزی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتا ہے۔
٭بازار یا بھیڑ والے علاقوں میں میں اگر جائے یا وہاں سے گزرے تو ماسک کا استعمال ضرور کریں۔
٭پانی جتنا پی سکتے ہیں پیتے رہیں۔٭سبزیاں اور پھل زیادہ سے زیادہ استعمال میں لائیں۔
٭مرغن غذاؤں سے حتی الامکان اپنے آپ کو روکیں، اس لیے کہ یہ ویسے بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہے اور وائرس کے پھل پھولنے کا ایک سبب بھی ہے۔٭ صابن یا پانی سے بار بار ہاتھ دھوئیں۔
٭گندے ہاتھوں سے ناک،آنکھ اور منھ کو چھونے سے گریز کریں۔متأثرہ افراد سے براہ راست اور ان کی استعمالی چیزوں سے دور رہیں۔ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے اپنی حفاظت بہ آسانی کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ انسان کے اوپر بھی منحصر ہے کہ وہ مہلک اور تباہ کن بیماریوں سے اپنی حفاظت از خود کرے۔