کتاب : پھول کھلے ہیں گلشن گلشن
مصنف : محمدعبدالمجید صدیقی
9848057810
مبصر : ڈاکٹرعزیز سہیل
اردو شعروادب کی فروغ میں مختلف ادارے‘انجمنیں اورشخصیات مسلسل متحرک رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کو زمانے سے ہم آہنگ کرنے میں اپنی کوششیں انجام دے رہے ہیں اسی لئے کہا جارہا ہے کہ اردو کے فروغ میں فرد واحد کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
اردو کے فروغ میں سنجیدہ طور پر کام کرنے والوں میں ایک اہم نام محمدعبدالمجید صدیقی کابھی ہے۔محمدعبدالمجید صدیقی کا تعلق تلنگانہ کے ایک اہم ادبی مقام نظام آباد سے رہا ہے۔یہ ان کا وطن عزیزہے۔ عبدالمجید صدیقی نے عثمانیہ یونی ورسٹی سے ایم.اے اردو اور لائبریری سائنس کی ڈگریاں حاصل کی ہیں وہ ایک متحرک ادبی شخصیت ہے۔ ان کے اکثر مضامین روزنامہ منصف کے کالم ”زیروزبرو“ میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ان کی کتاب ”پھول کھلے ہیں گلشن گلشن“ کے عنوان سے منظرعام پرآئی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے قبل مجید صدیقی صاحب کی چارکتابیں شائع ہوکر قارئین سے داد وتحسین حاصل کرچکی ہیں جن میں دنیا میرے احساسات کی(طنزیہ ومزاحیہ مضامین)‘نئے رنگ ِخیال(طنزومزاحیہ اورسنجیدہ مضامین)‘ تبسم زیر لب (طنزیہ‘ومزاحیہ اورسنجیدہ مضامین) اور ننھے تارے شامل ہیں۔
زیر نظر کتاب ”پھول کھلے ہیں گلشن گلشن“ میں محمدعبدالمجید صدیقی نے اردوادب کے روشن چندنامور شعراء کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیاہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ایک حمد”شان کریمی“کے عنوان سے شامل کی گئی ہے۔ کتاب کا انتساب آرٹس کالج عثمانیہ یونی ورسٹی کے دوستوں کے نام معنون کیاگیا ہے۔ اس کتاب کا پیش لفظ خود عبدالمجید صدیقی نے ہی لکھا ہے جس میں انہوں نے ”اردوادب کی زبوں حالی اور اردوادب کے فروغ میں ہمارا کردار“ کے موضوع پر بڑی اہم ومدلل گفتگوکی ہے۔ اس کتاب کے متعلق ان کاکہنا ہے کہ”ہماری موجودہ پانچویں تصنیف‘ہماری عام ڈگریعنی طنزومزاح سے ہٹ کر اس کا موضوع اردوشاعری ہے۔ اس کتاب میں ہم نے کوشش کی ہے کہ ہمارے بزرگ اور اردو ادب وشاعری کے بڑے اوراہم وبرگزیدہ شعراء کے کلام پر تبصرہ وتنقیدی جائزہ لے کرا ن کے کلام کی خوبیوں سے قارئین کوواقف کروائیں۔
زیر نظر کتاب میں فاضل مصنف نے پیش لفظ کے بعد اپنی بات اور پھرلائحہ عمل کے تحت کتاب کی اشاعت میں تعاون کرنے والے احباب کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس کتاب کی تقریظ حرف چند کے عنوان سے جناب روؤف خلش نے لکھی ہے۔ جس میں انہوں نے مجید صدیقی کی شخصیت و فن پر نگاہ ڈالی ہے ور کتاب میں شامل مضامین پر سرسری جائزہ لیا ہے اوراپنے تاثرات رقم کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ”ایک خاص بات کی طرف میں اشارہ کردوں کہ مجید صدیقی نے جن شعراء کو جوجومقام دیا ہے یا انکا معیار مقررکیا ہے وہ حتمی ہے بلکہ ہرادیب یا نثرنگاہ کا اپنا ایک زاویہ یا نکتہ نظرہوتا ہے۔وہ کسی کوایک مقام یا منزل پرکھڑا دیکھناچاہتا ہے اوربھی بہت سے نقادوں نے اس طرح کا کام کیا ہے۔ ان کی اپنی رائے ہے۔ ان سب کے باوجود میں یہاں پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجید صدیقی نے جن سات شعراء کا انتخاب کیا وہ معمولی نہیں ہے اور بطورخاص ان پرجومواد اکھٹاکیا ہے وہ بھی غیرمعمولی ہے“۔
اس کتاب میں جن شعراء ا کرام کی شخصیت اور کلام پر تنقیدی نظر ڈالی گئی ہے ان کی فہرست کچھ اس طرح ہیں۔ میر تقی میر (غزل کے منفرد شاعر)‘ نظیراکبرآبادی فن اور شخصیت‘ فانی بدایونی کی شاعری‘ جگرمراد آبادی شاعر کیف ومستی شراب وشباب‘ جان نثار اختر غزل کا ترقی پسند شاعر‘قتیل شفائی کلام کے آئینہ میں‘بشربدر غزل کے آئینہ میں۔
اس کتاب میں شامل پہلا مضمون میر تقی میر (غزل کے منفردشاعر) کے عنوان سے شامل ہے جس میں فاضل مصنف نے میر تقی میر کا مختصر تعارف بیان کیا ہے اور ان کی شاعری کا جائزہ لیاہے۔میر کے متعلق اپنے تاثرات اس طرح رقم کیے ہیں کہ”میر ویسے توہر صنف میں باکمال تھے لیکن مثنوی میں میرحسن اور قصیدہ میں سودا کے آگے نہیں جاسکے۔ غزل ان کا میدان شاعری رہا ہے۔ ان کے کلام میں درد‘ تاثر‘سلاست اور سوزوگداز بھرا ہوا ہے۔ مایوسی اورناامیدی ان کے کلام میں ہرجگہ نمایاں عنصر ہے جسے انہوں نے حالات وزندگی سے حاصل کیاتھا“۔ اس مضمون میں عبدالمجید صدیقی نے جگہ جگہ میر کے کلام کے حوالے دیئے ہیں اورساتھ ہی اپنے تاثر کو بیان کیاہے۔
زیر نظر کتاب میں شامل دوسرا مضمون”نظیراکبرآبادی فن اور شخصیت“کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون کے ابتداء میں حسب روایات فاضل مصنف نے میر کا شخصی تعارف بیان نہیں کیاہے بلکہ راست طورپر ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیاہے۔ انہوں نے نظیر کی عوامی شاعر کی حیثیت سے مقبولیت سے متعلق لکھا ہے کہ”ایک زمانہ تک تو نظیر کے کلام کوقابل التفات ہی نہیں سمجھاگیا اور ادھر توجہ ہوئی تو اہل نظر ایک غلط فہمی کا شکارہوگئے کہ نظیر عوام کا شاعر ہے لیکن ان کے کلام کا مطالعہ کیاجائے توپتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خواص کوبھی نظرانداز نہیں کیا۔ ان کی شاعری کاایک حصہ فارسی آمیز زبان میں اور پورا شعری اداب کے ساتھ تعلیم یافتہ اصحاب کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان اپنے پہلو میں رکھتا ہے۔ اس لیے وہ عوام وخواص دونوں کے شاعرہیں اوریہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نظیرایک انسان دوست شاعرہیں“۔
زیر نظر کتاب میں نظیراکبرآبادی پرمشتمل یہ مضمون کتاب کا دل قراردیا جاسکتا ہے۔ جس میں بڑے ہی احسن انداز میں مجید صدیقی نے باریک بینی سے نظیر کی شاعری کا تفصیلی جائزہ لیاہے۔اس کتاب میں شامل تیسرا مضمون فانی بدایونی کی شاعری پرمشتمل ہے جس میں اس مضمون کی ابتداء میں فانی کا مختصر تعارف شامل ہے ساتھ ہی فانی کے فن پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے اور فانی کی پریشانیوں کا تذکرہ بھی اس مضمون میں شامل ہیں۔ انہوں نے فانی کی شاعری کو غم وعشق کی تشریح قراردیا ہے۔
اس کتاب میں شامل چوتھا مضمون جگرمردآبادی کیف مستی‘شراب وشباب‘حسن وعشق اور زندگی کی فلاسفی کا شاعر کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں مختصراً جگرکا تعارف پیش کیاگیاہے اور ان کی شخصیت اورفن کا جائزہ لیاگیاہے۔ جگرکے متعلق اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے صاحب کتاب نے لکھا ہے کہ جگرایک رومانی شاعر ہے۔ انہوں نے ساری عمر حسن وعشق کے نغمے گائے ہیں۔ حسن وعشق کا تصوران کے یہاں باوجود اپنی لطافت کے اپنے جلوں اوراس کے پردوں کے ایک زندہ حقیقی تصور ہے“۔
اس کتاب میں شامل پانچواں مضمون قتیل شفائی پر شامل ہے۔اس مضمون میں فاضل مصنف نے قتیل شفائی کا شخصی تعارف بیان کیاہے اور قتیل سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ قتیل شفائی نے غزل کی پرانی روایات سے روگردانی بھی نہیں کی اورانہوں نے نہ صرف نئے دور کے شعری تقاضوں کوپورا کیا بلکہ ان میں عرضیات اورزمینی نشیب وفراز اورجمالیاتی احساس کا حسین امتزاج بھی پایاجاتا ہے۔اس کتاب کا آخری مضمون بشیر بدر غزل کے آئینہ کے عنوان سے شامل ہے جودیگرمضامین کے مقابلے میں بہت ہی مختصر اوراس مضمون کے مطالعہ سے تشنگی کااحساس ہوتاہے۔ اس مضمون میں بشیربدر صاحب کا بھی تعارف شامل نہیں ہے بلکہ ان کے شاعری کا تنقیدی جائزہ مختصرانداز میں شامل کیاگیاہے۔ بشیربدر سے متعلق اپنے تاثرات رقم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بشیربدرموجوہ دور کے غزل گوشعرا میں ایک معتبرنام ہے۔ انہو ں نے اردوغزل کواپنے منفردلب ولہجہ سے ایک نیا رنگ عطا کیا ہے جوصرف ان ہی کا حق ہے۔ دھیمے سروں میں بات کہنا‘الفاظ کونگینے کی طرح پرکرنا اور بیجا الفاظ میں سرپیدا کرنا بشربدر کا خاصہ ہے“۔
محمدعبدالمجید صدیقی نے بڑے ہی محنت شاقہ کے ذریعہ ادب کی ان نامور شخصیات پر اپنے تاثرات کوقلمبند کیاہے اوربڑی ہی باریک بینی سے ان کی شخصیت اورکلام کا جائزہ لیا ہے جواردوقارئین بالخصوص ریسرچ اسکالرس کے لیے کئی اہم پہلو ؤں کو پیش کرتا ہے۔ اس تحقیقی وتنقیدی تصنیف کی اشاعت پر میں عبدالمجید صدیقی کومبارک باد پیش کرتا ہوں۔امید کے ان کی اس تخلیق کو پسند کیا جائے گا،اردوکے قارئین سے بھی اس بات کی امید ہے کہ وہ اس کتاب کا خرید کرمطالعہ کریں گے۔ یہ کتاب تلنگانہ اردواکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے جو مصنف سے سمتا کالونی ٹولی چوکی حیدرآباد 9848057810پر ربط کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭٭٭