ملک کی جمہوریت کو ناقص جمہوریت کا مقام :- ڈاکٹر سید احمد قادری

Share
ڈاکٹر سیّد احمد قادری

ملک کی جمہوریت کو ناقص جمہوریت کا مقام

ڈاکٹر سید احمد قادری
رابطہ: 993439110

عجب اتفاق ہے کہ ہمارا ملک بھارت جب اپنے 71 ویں یوم جمہوریہ کا جشن منانے کی تیاری میں مصروف ہے۔اس خصوصی موقع پر ملک کی جمہوریت کے سلسلے میں ایسی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جو ملک کی جمہوریت اور جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والوں کے لئے صدمہ سے کم نہیں ہے۔

یہ رپورٹ’دی اکنومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کی ہے، جو مشہور برطانوی میگزین ’اکنومسٹ‘ میں شائع ہوئی ہے۔ جاری کردہ انڈیکس کے مطابق بھارت کی جمہوریت کو ’ناقص جمہوریت‘کی فہرست میں شامل کیاگیا ہے۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ گزشتہ پانچ برسوں سے مسلسل بھارت میں جس طرح جمہوریت کی پامالی ہو رہی تھی اورجمہوری اقدار کے منافی حالات دانستہ طور پر بنائے جا رہے تھے۔ ایسے میں برٹش ادارہ ’دی اکنومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کی جانب سے جاری عالمی فہرست میں بھارت کا 41 ویں مقام سے 10 مقام لڑھک کر 51 ویں پائیدان پر پہنچ جانے کی خبر حیرتناک تو نہیں، تشویشناک اور افسوسناک ضرور ہے۔ یہ عالمی فہرست 165 آزاد ممالک اور دو علاقوں کی جمہوریت کی صورت حال پر سروے کرنے کے بعد پیش کی گئی ہے۔ اس ادارہ کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں شہری آزادی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ’دی اکنومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘(ا ی آئی یو) کا یہ انڈیکس کسی بھی ملک کے پانچ اقسام پر مبنی ہوتا ہے۔ انتخابی عمل اور پولرزم، حکومت کا کام کاج، سیاسی شرکت، سیاسی ثقافت اور شہری آزادی۔برطانوی جریدہ’دی اکنامسٹ‘ نے بھارت میں بڑھتی مذہبی تفریق، منافرت اور عدم رواداری پر متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ’ہندوستانی آئین کے سیکولر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسٹر مودی کے حالیہ اقدامات سے وہاں پر جمہوریت کو اتنا شدید نقصان پہنچ سکتا ہے کہ جس کے اثرات اگلے کئی عشروں تک جاری رہیں گے۔
ہم ہندوستانیوں کو اپنے ملک کی جمہوریت اور جمہوری نظام اور اس کی قدروں پر ناز رہا ہے۔ آج بھی یوم جمہوریہ کے موقع پر اس بات کا اعتراف کرنے میں یقینی طور پر ہمیں یہ فخر محسوس ہوتاہے کہ ہم ایک جمہوری ملک کے شہری ہیں۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں، ہمارے ملک کے جمہوری طرز حکومت کو مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہاہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے،جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات، رسم و رواج کے چاہنے اور ماننے والے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے چلے آ رہے ہیں۔ صدیوں سے یہاں گنگا، جمنی تہذیب و تمدن کی فضا رچی بسی ہے۔دوستی، محبت، بھائی چارگی،یکجہتی، مساوات، اخوت یہاں کی شناخت ہے اور بھارت وہ ملک ہے، جہاں شاندار جمہوریت قائم ہے۔ جمہوریت کے لغوی معنیٰ لوگوں کی حکمرانی یعنی Rule of People کے ہیں اور آزادیئ ہند کی حصولیابی کے بعد 26جنوری 1950 ء سے بابا صاحب امبیدکر کی رہنمائی میں تیار اور نافذ کئے جانے والے آئین کے تحت اس ملک میں جمہوریت اپنی پوری مضبوطی اور استحکام کے ساتھ قائم رہی ہے۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت، گزشتہ چند برسوں سے بری طرح پامال ہو رہی ہے۔ ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں مسلسل برباد کرنے کے در پئے ہیں۔ جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگ تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار آئی ہے، اسی وقت سے بہت ساری تشویشوں کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت جس منصوبہ بند اور منظم طور پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے،وہ ضرور اپنے خاص مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ملک کے آئین میں تبدیلی لائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے لوگ دبی دبی زبان سے اس خدشے کا اظہار کیا کررہے تھے، لیکن آر ایس ایس نے اپنے کیڈرکے رگ وپئے میں اس طرح آئین کے خلاف زہر بھر ا ہے کہ کچھ لوگ ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بننے یا بنانے میں با با صاحب بھیم راؤ امبیدکرکی رہنمائی میں تیار اور نافذ کیا جانے والا آئین ہی رکاوٹ بن رہاہے، اس لئے جتنا جلد ہوسکے، اسے تبدیل کر کے اپنے موافق بنایا جائے۔ آئین بدنے کی بات، سنگھ کے چھُٹ بھین نیتاؤں کی زبان سے اکثر سنی جا رہی تھیں، لیکن ایک دن بی جے پی کے ایک (سابق)وزیر مملکت اننت کمار ہیگڑے،کی زبان پر دل کی بات زبان پر آ ہی گئی۔یہ وزیر آئین کا حلف لے کرپارلیمنٹ میں داخل ہوئے تھے اور وزارت کی کرسی پر براجمان ہوئے، انھوں نے ایک عوامی جلسہ میں یہ بات کہی کہ دراصل بی جے پی کی حکومت ملک کا آئین بدلنے کے لئے ہی اقتدار میں آئی ہے، اور مستقبل قریب میں اس پر عمل کیا جائے گا۔جب ایک مرکزی حکومت کے ایک ذمّہ دار وزیر کی زبان سے ایسا خطرناک بیان عوامی طور پر سامنے آیا، تو لوگ چونک پڑے۔ اس بیان کی مخالفت میں خوب خوب احتجاج اور مظاہرے ہو ئے۔ پارلیمنٹ سے سڑکوں تک پر لوگ اتر ے۔ معاملہ بظاہر سرد پڑ گیا تھا، لیکن ایسا ہونہیں تھا۔اس وقت مصلحت پسندی سے کام لیا گیا۔ یوں بھی جمہوریت کے جو چار اہم ستون ہیں، ان چاروں ستون پر موجودہ حکومت کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے، یہ الگ بات ہے ان کی گرفت مضبوط ہونے سے جمہوریت کمزور پڑ گئی ہے۔ حکومت نے بہت چالاکی سے پہلے جمہوریت کے بہت اہم ستوں رابطہ عامّہ کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ملک کے میڈیا کو دولت کے انبار پر بٹھا کر اس صحافتی گویائی اور سچائی کے اظہار کو سلب کر لیا۔ ان کی دولت کے آگے میڈیا، اپنے فرائض بھول ہی چکا اور یہ بھی بھول گیا کہ صحافت، تجارت نہیں ہوتی بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ عدلیہ کو جس طرح یرغمال بنانے کی کوششوں پر دبی دبی زبان میں لوگ اظہار کر رہے تھے، لیکن سپریم کورٹ کے چار معزز ججوں نے عوام کے سامنے آ کر جس طرح کی باتیں، بہت ہی دکھی من کے ساتھ رکھی تھیں، ان باتوں نے تو ایک طوفان ہی لا دیا ۔ یعنی اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے عزم، ارادے، ایجنڈہ اور خواب کو پورا کرنے کے لئے سنگھ کے لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ بہر حال ملک کی جمہوریت اورسا لمیت کے لئے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔ جس طرح معصوم لوگوں کے ذہن کو پراگندہ کیا جا رہا ہے، وہ ملک کے مستقبل کے راستے میں کانٹے بو رہے ہیں۔اب دیکھئے کہ اکھل بھارتیہ ہندو پرچار سنگھ، وارانسی کی جانب سے ایک بہت ہی ”گوپنئے“ (خفیہ) کتابچہ سامنے آیا ہے۔اس کتابچہ میں اس قدر زہر بھرا ہو ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ایک عام انسان جوش و جنوں سے بھر جائے گا۔ ایسی بہت ساری باتوں کے ساتھ اس کتابچہ کے صفحہ 14 پر موجود شمار نمبر 23 پر کی ایک مختصر تحریر ملاحظہ کریں، اور دیکھیں کہ منافرت کی کیسی فضا تیار کی جا رہی ہے۔ اس صفحہ پر لکھا ہے کہ’ہم نے مسلمانوں کو کھدیڑنے کے لئے جس پرکار بابری مسجد گرائی، سکھوں کو نینترت کرنے کے لئے آتنک وادی گھوشت کر کے ہم نے گھر گھر میں قتل عام کروایا۔ انوسوچت جاتی/ جن جاتیوں، انئے پچھڑے ورگ، او بی سی کے آرکچھن کو سپریم کورٹ کے ججوں کی مدد سے آرکچھن کو سماپت کروایا۔ اب ہمارا ایک ہی اودیشئے ہے کی امبیدکر کے سنویدھان کو پورنتہ نشٹ کر کے دیش میں لوک تنتر کے استھان پر رام راجیہ کی استھاپنا۔ بھارت کو ہندو راشٹر گھو شِت کرنے، سنسکرت کو راشٹر بھاشا بنانے تتھا منو اسمرتی کے آدھار پر سنویدھان کی نئی رچنا کرنے، سنسد میں امبیدکر کی مورتی کو نشٹ کر کے اس کے استھان پر منو کی وشال پرتیما استھاپِت کرنا…..‘۔ اسی کتابچہ کے صفحہ نمبر 2 پر ” ہندو دھرم سنسد دوارا انومودِت، گوپنئے دستاویز“ کے بعد لکھا گیا ہے کہ ”جئے شری رام، ہندوتو کی پوتر نگری پریاگ میں ہم راشٹریہ سویم سنگھ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ایوم اکھل بھارتیہ برھمن مہا سبھا، ایک ساموھک ہندو دھرم سنسد کے روپ میں ایک جُٹ ہو کر یہ سنکلپ کرتے ہیں کہ بھویشیہ میں ہمارا ایک مت سنگٹھت پریاس ایوم لکچھ آرکچھن کی سماپتی، بھارتیہ سنویدھان کو نشٹ کرنے، بودھ دھرم، عیسائی دھرم ایوم مسلم دھرم کے بڑھتے پربھاؤ کو سماپت کرنے اور دلت آندولن میں پھوٹ ڈالنے اور انھیں وبھاجِت رکھنے کا ہوگا۔ اس لکچھ کی پراپتی کے لئے نمن لِکھت استر،شستر، دھرم،کرم، ادھرم تتھا کوٹ نیتی اپنائی جائے۔ اس میں ہی اپنی بھکتی، نسٹھا ایوم کرتبئے ہی ہمارا دھئے ہوگا۔“ اس تحریر کے بعد نمبر ایک سے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس کے سلسلہ نمبر 23 کا ایک اقتباس درج بالا سطور میں، میں نے پیش کیا ہے۔ اس کتابچہ کے آخر میں ایک نوٹ بھی دیا گیا ہے، جس میں لکھا گیا ہے کہ ’’ یہ پورنتہ گوپنئے دستاویز ہے۔ کسی بھی حالت میں انوسوجِت جاتی / جن جاتی/ انئے پچھڑا ورگ او بی سی یا ہندو دھرم کے ورودھ کام کرنے والے ویکتی کے ہاتھوں میں نہیں لگنا چاہئے۔“
ملک کی سالمیت اور جمہوریت مخالف ایسے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے اور ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں، ایسے حالات پیدا کرنے والوں میں ایک زمانے میں ہمارے پروین توگڑیا جی بھی تھے، لیکن آج وہ روتے پھر رہے ہیں۔ دراصل ایسی ذہنیت کے لوگوں کو اپنے ملک سے محبت ہے اور نہ ہی برسہا برس سے چلی آ رہی یہاں کی گنگا جمنی تہذیب و تمدن سے، جو ملک کی شان اور پہچان ہے۔ ملک کے حالات کو بگاڑنے والوں کے سامنے جو ایجنڈہ، ہندوتو کا ہے، جس کے لئے وہ ملک کے آئین کی تبدیلی اور جمہوریت کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں، وہ دراصل شدید طور پر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ملک کی آزادی میں ان کا کوئی رول نہیں رہا۔ اسی شرمندگی کو چھپانے کے لئے یہ لوگ اس طرح کے غیر جمہوری اور غیر آئینی حرکات کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی میں ہندوتو حامیوں کی جد وجہد کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ ملک کے مٹھی بھر فرقہ پرستوں کے ذریعہ مسلم، دلت مخالف فضا جس منظم طور پر تیار کی گئی ہے او ر ملک کے آئین کے تقدس کو جس طرح پامال کیا جارہا ہے، وہ دن بدن خطرناک صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورت حال کی شکایت کس سے کیا جائے۔ تم ہی قاتل، تم ہی منصف ٹھرے؟ ہر طرف خوف و دہشت کا ماحول ہے۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات سے پریشان ملک کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کے لئے بڑی تعداد میں ملک کے سیکولر لوگ سامنے آ رہے ہیں، جنکی لمبی فہرست ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر بھی ظلم و بربریت کے پہار توڑے جا رہے ہیں۔ پھر بھی ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ایسے تمام لوگوں کی کوششوں کو جمہوری ملک کی تاریخ میں یقینی طور پر سنہری حروف درج کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Share
Share
Share