اذان کا تیسرا کلمہ – اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (2) :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

اذان کا تیسرا کلمہ ،
اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (2)

مفتی کلیم رحمانی
پوسد(مہاراشٹر)
09850331536

اذان کا تیسرا کلمہ ، اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہ ِ (1) پہلی قسط کے لیے کلک کریں

لیکن افسوس ہے کہ ابھی بہت سے مسلمانوں نے قرآن مجید کے سننے اور سمجھنے کو ابھی اپنا پہلا کام نہیں بنایا،

یہاں تک کہ بہت سے وہ مسلمان جن کی عمریں پچاس، ساٹھ سال ہو چکی ہیں، انہوں نے بھی اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی مکمل قرآن مجید کو سمجھ کر سنا نہیں، اور نہ ہی سمجھ کر پڑھا ہیں، جبکہ ایمان لانے کے ساتھ ہی ایک مسلمان پر اولین طور پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے، وہ ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی کو جاننے کی،اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی کو جاننے کا اولین ذریعہ قرآن ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کچھ دینی جماعتیں اور ادارے بھی دینی کام انجام دینے کے لئے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے اور سننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اور کچھ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ پہلے ایمان ہے بعد میں قرآن ہے، جب کہ دین کے متعلق صحیح ترتیب یہ ہے کہ پہلے قرآن اور بعد میں ایمان، یعنی دنیا میں قرآن کے ذریعہ ہی ایمان آیا اور محمدﷺ نے قرآن کے ذریعہ ہی ایمان سمجھا، اور تمام صحابہؓ نے بھی قرآن کے ذریعہ ہی ایمان سمجھا، یہاں تک کہ زیادہ تر صحابہؓ نے قرآن سن کر ہی ایمان قبول کیا ہیں۔ اس لحاظ سے دین کے سلسلہ میں پہلے ایمان اور بعد میں قرآن کی بات براہ راست قرآن و حدیث اور سیرت صحابہؓ سے ٹکراتی ہے، اس لئے سختی سے اس بات سے اجتناب کرنا چائیے، مگر افسوس ہے کہ مساجد کے منبر و محراب اور بڑے بڑے دینی اجتماعات میں بڑے زور و شور کے ساتھ یہ غلط بات بیان کی جارہی ہے۔
حضرت آدمؑ سے لے کرآخری نبی حضرت محمدﷺ تک اور حضرت محمدﷺ سے لیکر آج تک اور قیامت تک ایسی کوئی دینی و اسلامی جماعت نہیں بتائی جا سکتی، جس کے تعلیمی و دعوتی منصوبہ میں اللہ کے کلام کو سمجھنے اور سمجھانے کو خصوصی اہمیت نہ ہو، اور جب بھی کسی دینی و اسلامی جماعت نے اللہ کے کلام کو سمجھنے اور سمجھانے کی طرف سے کوتاہی برتی وہ جماعت دنیوی اور غیر اسلامی بن گئی، ماضی میں اس کی مثال یہود و نصارٰی ہیں۔ جب یہود و نصارٰی نے توریت و انجیل کے سمجھنے اور سمجھانے کی طرف سے غفلت برتی، تو یہ دونوں ہی جماعتیں سیدھے راستہ سے بھٹک گئیں، حضرت محمدﷺ کو بھی اپنی امت سے متعلق یہ خدشہ تھا، اس لئے آپؐ نے اپنی امت کو تاکید کے ساتھ فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان دو چیزوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہوگے، ہر گز تم گمراہ نہیں ہوں گے، اور وہ دو چیزیں قرآن اور سنت رسولؐ ہیں، اس تاکید میں ایک طرح سے یہ تنبیہ بھی ہے کہ اگر تم نے قرآن اور حدیث کو مضبوطی کے ساتھ نہیں پکڑا تو تم ضرورگمراہ ہو جاؤ گے، واضح رہے کہ قرآن و حدیث کو مضبوط پکڑنے میں لازمی طور سے
اس میں قرآن و حدیث کو سمجھنا بھی داخل ہے، کیونکہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے بعد ہی قرآن و حدیث پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فرمان رسولؐ ہے، تَرَکْتَ فِیْکُمْ اَمَریْنَ لَنْ تَضَلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھمَا کِتَابُ اللہِ وَ سُنَّۃُ رَسُوْلِہ۔(رواہ فی الموطا و مشکٰوۃ شریف) (یعنی میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں، تم ان دو چیزوں کو جب تک مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے، وہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کا طریقہ ہے۔) محمدﷺ کو اللہ کو رسولؐ ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں آپؐ کو نمونہ بنایا جائے اور زندگی کے کسی بھی معاملہ میں آپ کی رہنمائی کو نہ چھوڑا جائے، چاہے آپؐ کی رہنمائی کو ماننے میں فائدہ نظر آئے، یا نقصان، اسی طرح آپؐ کی اتباع سے کوئی دوست ہوتا ہو، یا کوئی دشمن،یہاں تک کہ آپؐ کی اتباع اور پیروی میں جان بھی جاتی ہو تو اس کی بھی پروانہ کی جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃُ حَسْنَۃُ لِمَنْ کَانَ یٰرْجُوا اللہ وَ الْیوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللہَ کَثیراً۔(احزاب آیت ۱۲) (ترجمہ: تحقیق کہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ میں بہترین نمونہ ہے اس شخص کے لئے جو اللہ اور آخرت کو چاہتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے)
مذکورہ آیت میں جہاں رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے، وہیں یہ بھی بتلایا دیا گیا ہے کہ کون لوگ رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ سمجھیں گے وہ یہ کہ جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید رکھتے ہیں، اور
جن کا آخرت کی زندگی پر یقین ہوتا ہے، اور جو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کو کثرت سے یاد کرتے اور یاد رکھتے ہیں، مطلب یہ کہ دنیا کے ہر کام میں اللہ کی مرضی کو سب سے مقدم رکھتے ہیں، اور کسی بھی کام میں اللہ کی مرضٰ کو نہیں بھولتے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ رسول اللہﷺ کی زندگی کو نمونہ بنانے کے لئے اللہ اور آخرت پر مضبوط ایمان چائیے، اور ساتھ ہی قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کا خیال چائیے۔
لیکن افسوس ہے کہ آج زیادہ تر مسلمان محمدﷺ کو صر ف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی میں ہی بہترین نمونہ سمجھتے ہیں، اور زندگی کے دیگر شعبوں میں خصوصاً سیاست کے شعبہ میں رسول اللہﷺ کی زندگی کو بہترین نمونہ نہیں سمجھتے، بلکہ بہت سے مسلمان سیاست کے شعبہ میں محمدﷺ کی رہنمائی کو اپنے لئے زحمت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ آج دنیا میں جو اسلامی تحریکات و ادارے نبی کریمﷺ کو میدان سیاست میں بہترین نمونہ بنانے کی تحریک چلا رہے ہیں تو خود مسلم حکمراں اور عوام ان تحریکات و اداروں کو طاقت و قوت سے کچل رہے ہیں، چاہے وہ عرب کی اسلامی تحریک اخوان المسلمون ہو، یا فلسطین کی اسلامی تنظیم حماس ہو، یا بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی ہو، یا افغانستان کی طالبان تحریک ہو۔ غرض یہ کہ محمدﷺ کو مکمل زندگی میں کامل و مکمل نمونہ ماننا آپؐ کو اللہ کے رسولؐ ماننے کا لازمی تقاضہ ہے۔ محمدﷺ کو اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ ماننے کا ایک لازمی تقاضہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسولؐ جس چیز کا حکم دے اسے اختیار کر لیا جائے، اور جس چیز سے اللہ کے رسولﷺ منع کردے اس سے رک جائے، اور یہ حق و اختیار آپؐ کو خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَمَآ اٰتَٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فََانْتَھُوْا وَ اتَّقُوْا اللہ َ اِنَّ اللہ َ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۔(حشر آیدے) (ترجمہ: اور جو تمہیں رسولﷺ دے پس اسے لے لو، اور جس سے وہ تمہیں روک دے، پس اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت سزا والا ہے۔
مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جس طرح حلال و حرام جائز و ناجائز کے متعلق اللہ کی اطاعت بغیر شرط کے ضروری ہے اسی طرح حلال و حرام جائز و ناجائز کے متعلق اللہ کے رسولؐ محمد ﷺکی اطاعت بھی بغیر شرط کے ضروری ہے، اور اسلام میں صرف یہی دو اطاعتیں ہیں، جو بغیر شرط کے ہیں، باقی جتنی اطاعتیں ہیں وہ سب مشروط ہیں، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ، یہاں تک کہ صحابہؓ اور امیر المومنین کی اطاعت بھی مشروط ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ، یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہؓ زندگی کے تمام معاملات میں صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے تھے اور کسی بھی صحابیؓ نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی
اطاعت سے آزاد اور بے نیاز نہیں سمجھا، یہاں تک چاروں خلفائے راشدین میں سے کسی بھی خلیفہ راشد نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے آزاد اور بے نیاز نہیں سمجھا، اور نہ ہی انہوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرے سے نکل کر کوئی حکم دیا، در اصل اللہ کے رسولؐ حضرت محمدﷺ نے اپنے صحابہؓ کی تربیت ہی ایسے انداز میں کی تھی کہ کوئی صحابی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے دائرہ سے نکلنا ہی پسند نہیں کرتا تھا، اور اگر کسی صحابیؓ سے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے متعلق کوئی کمزوری صادر ہو جائے تو دوسرے صحابہؓ فوراً ٹوک دیتے، اور وہ فوراً اپنی غلطی سے باز آجاتا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورخلافت میں، جمعہ کے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ لوگ اپنی بیویوں کے مہر بہت زیادہ رکھ رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ مہر کی کوئی مقدار متعین کردوں، اس پر ایک عورت نے کہا کہ ائے عمر جب اللہ اور اس کے رسولؐ نے مہر کی کوئی مقدار متعین نہیں کی تو تجھے یہ حق کیسے پہنچ سکتا ہے کہ تو مہر کی مقدار متعین کرے، حضرت عمرؓ نے جب عورت کی بات سنی تو اس کا بُرا نہیں مانا بلکہ بڑے کشادہ دل سے حضرت عمرؓ نے اسی خطبہ میں فرمایا کہ عمر بہک رہا تھا، اسے ایک عورت نے بہکنے سے بچالیا۔ اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت کے متعلق صحابہ کرامؓ اور خلفاء راشدین کا یہی طرز عمل تھا، جس کی بنا پر معاشرہ میں کئی صدیوں تک دین اسلام مجموعی لحاظ سے بغیر ملاوٹ کے غالب تھا، لیکن جب سے معاشرہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کمزور ہوگئی ہے تو بے دین حکمراں اور بدعت پرست علماء کی اطاعت مضبوط ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس وقت زیادہ تر مسلمان بے دین حکمرانوں اور بدعت پرست علماء کی بغیر کسی شرط کے اطاعت کر رہے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کو حکمرانوں اور علماء کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر رکھا ہیں، یعنی اگر اللہ اور اسکے رسولؐ کی اطاعت سے حکمراں اور بدعت پرست علماء بھی خوش ہیں تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں، اور اگر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے حکمران اور بدعت پرست علماء ناخوش ہیں توپھر اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت نہیں کرتے، اور دین کے ایسے بہت کم امور ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں حکمراں اور بدعت پرست علماء بھی خوش ہوتے ہیں، ورنہ دین کے زیادہ تر امور ایسے ہیں، جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت میں حکمراں اور بدعت پرست علماء ناراض ہوتے ہیں۔در اصل یہ بدعت پرست علماء بہت چالاک اور دنیا پرست ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے راستہ سے دنیا کمانے کے لئے محنت و مشقت کرنی پرٹی ہے، اس لئے انہوں نے دنیا کمانے کے لئے نقلی دینداری کے راستہ کو اختیار کیا، تاکہ بھولے بھالے اور کم علم مسلمان انہیں دیندار سمجھے اور ان سے دینی عقیدت و محبت رکھے اور انہیں مالی نذرانے پیش کرتے رہیں، چنانچہ اس وقت پوری دنیا میں نقلی علماء اور دینداروں کی ایک طرح سے باڑھ آئی ہوئی ہے، اس لئے اصلی علماء اور دینداروں کو مسلم معاشرہ میں کام کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے، لیکن اللہ کا فضل کرم ہے کہ پھر بھی پوری دنیا میں ہر جگہ اصلی علماء اور دیندار مشکلات کے باوجود کام کر رہے ہیں، اگرچہ فی الحال ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، واضح رہے کہ قرآن و حدیث کی رو سے اصلی علماء اور دیندار وہی ہیں جن کا قرآن و حدیث سے ایمانی علمی اور عملی تعلق مضبوط ہو، اور جو ہر طرح کے کفرو شرک سے بچے ہوئے ہوں، اور جو لوگوں کو بھی قرآن و حدیث کے علم و عمل کی دعوت دیتے ہوں، اور ہر طرح کے کفر و شرک سے لوگوں کو بچانے میں لگے ہوں۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر مسلم معاشرہ میں صرف دس فیصد علماء اور عوام بھی قرآن و حدیث کو علم و عمل اور تحریک کے لحاظ سے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیں تو معاشرہ پر وہ علمی و عملی لحاظ سے غالب آسکتے ہیں، کیونکہ قرآن مجید کے سورۂ انفال کی آیت پیسٹھ (۵۶) کی رو سے دس فیصد مومنین کے لئے بھی غلبہ کی بشارت ہے، بشرطیکہ وہ صابر بھی ہوں، اگر چہ آیت میں غلبہ کے متعلق کافروں سے جنگ کا پس منظر ہے، لیکن اس تعداد کا اطلاق علمی،عملی اور معاشرتی غلبہ پر بھی ہو سکتا ہے، اور آج جو مسلم معاشرہ پر نقلی اور کم علم علماء اور نقلی دینداروں کا غلبہ ہے وہ بہت جلد ختم ہوسکتا ہے، اور ویسے بھی ہر دور میں کسی بھی قوم پر معاشرتی وسیاسی غلبہ بہت کم تعداد کا رہا ہے، لیکن یہ کم تعداد ایک فکر اور تحریک سے جُڑی ہوئی ہوتی ہے، آج بھی دنیا میں بہت کم تعداد معاشرتی اور سیاسی طور پر غالب ہے، چنانچہ عالمی سطح پر اس وقت یہودپوری دنیا میں معاشرتی اور سیاسی طور پر غالب ہے، جب کہ یہود کی تعداد دنیا کی آبادی میں پاؤ فیصد سے بھی کم ہے، لیکن چونکہ یہود ایک غیر اسلامی فکر و تحریک سے وابستہ ہے اس لئے پوری دنیا کو انہوں نے غیر اسلامی فکر و تحریک سے بھر دیا ہے یہاں تک کہ بہت سے مسلمان اور جماعتیں بھی یہودی فکر اور تحریک کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مسلم معاشرہ میں اذان فہمی کی تحریک چلے گی جس میں اسلام کی مکمل دعوت ہے تو کم از کم مسلم معاشرہ پر حقیقی علماء ہی کا غلبہ رہے گا، اور جہاں تک مسلم معاشرہ میں کم علمی اور سازشی دینداری کی بات ہے تو وہ خود دور نبوی میں بھی نفاق اور کم علمی کی صورت میں موجود تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دور نبوی اور دور صحابہ میں مسلم معاشرہ پر کم علموں اور منافقین کا غلبہ نہیں تھا، بلکہ حقیقی علماء اور مخلصین کا غلبہ تھا، اور کم علم اور منافقین مغلوب تھے۔

Share
Share
Share